Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عراق پر امریکی قبضہ میں ایرانی خدمات

  الشیخ ممدوح الحربی

عراق پر امریکی قبضہ میں ایرانی خدمات

امریکی قبضہ کے لیے ایران کی بے شمار خدمات ہیں:

  1.  سیستانی شیعہ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ قبضہ کرنے والی فوجوں کا سامنا نہ کیا جائے اور امریکی فوج جب عراق میں داخل ہو تو اس کا مقابلہ نہ کیا جائے۔
  2.  سیستانی شیعہ نے عراق کے بارے میں امریکی تمام قراردادوں کی تائید کی انتخابات میں اور عراقی حکومت کے قانون اور دستور کے متعلق تعاون کیا۔
  3.  سیستانی شیعہ بہت سارے حساس معاملات میں امریکی قبضہ گرپوں کے سامنے خاموش رہا، حالانکہ لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہونے کی وجہ سے اور دین کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اس کا احتجاج کرنا بنتا تھا۔
  4. شیعوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی جو امریکی اور برطانوی فوجوں کے ہاتھوں ہوئی اس کی خدمت سے بچنے کے لیے یہ سیستانی شیعہ علاج کے بہانے لندن چلا گیا۔
  5. ابوغریب جیل میں جو ظلم ہوا اور جو سنی علاقوں میں ستم ڈھائے گئے اور جو فلوجہ میں ظالمانہ کاروائیاں ہوئیں ان پر یہ سیستانی شیعہ خاموش رہا اور سنی علماء نے جو فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے سے روکا سنی علاقوں میں ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو یہ خاموش رہا۔
  6. اور سیستانی نے یہ فتویٰ دیا جو انتخابات میں حصہ نہ لے گا (حالانکہ یہ امریکہ کی نگرانی میں ہو رہے تھے) وہ دوزخ میں جائے گا۔
  7.  سیستانی شیعہ نے یہ فتویٰ دیا کہ عراقی سرزمین میں داخل ہونا حرام ہے یہ عراقی سنیوں اور یا دوسرے مسلمانوں کی حمایت روکنے کے لیے اس نے فتویٰ دیا تھا۔

هاشم رفسنجانی نے واضح کہا تھا:

القوات الايرانية قاتلت طالبان وساهمت فی دحرها و لولم نساعد قواتهم الأمريكية فی قتال طالبان لغرق الأمريكيون فی المستنقع الافغانی۔

ایرانی فوجوں نے طالبان سے جنگ کی اور انہیں نکالنے میں حصہ لیا اگر ہم طالبان جنگ میں امریکہ سے تعاون نہ کرتے تو امریکہ افغانی دلدل میں برباد ہو جاتا۔

لہٰذا امریکہ کا یہ فرض بنتا ہے وہ یہ جان لے اگر یہ شیعہ فوج امریکہ سے تعاون نہ کرتی تو یہ طالبان کو شکست سے دوچار نہ کر سکتے تھے۔ ایران کی حزب الدعوہ مجلسِ اعلیٰ وغیرہ تنظیموں کا عراق پر حملہ سے پہلے امریکی اجتماع و اجلاس میں شامل ہونا باقاعدہ ثابت ہے اور باقر حکیم شیعہ کا امریکی ٹینک پر سوار ہو کر عراق میں داخل ہونا قابلِ فخر کارنامہ ہے۔ ایک تو امریکی قبضہ عراق پر کروانے میں ایرانیوں کا غلط تعاون ہوا ہے نیو یارک ٹائمز، اخبار لکھتا ہے اور افغانسان کی جنگ کے بارے بات کرتا ہے، حکومتِ ایرانی کے خفیہ رابطے جو واشنگٹن سے تھے ان میں ایران نے امریکیوں سے تعاون کا معاہدہ کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کی صورت میں ہم خود افغانیوں کے خلاف ہوں گے۔ یہی اخبار 11 ستمبر 2001ء کی زیادتیوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ:

انه قد حدث تقارب فی المصالح الايرانية الأمريكية فی منطقه الخليج واضافت ان حريا فی الخليج ستساهم فی تعجيل هذا التقارب۔

ایرانی اور امریکی مفادات خلیج کے علاقہ میں قریب قریب ایک ہیں اور خلیج کی جنگ اس قربت میں اور ہم آہنگی پیدا کر دے گی ۔

جو اس اخبار نے کہا چار سال بعد وہی ہوا۔ امریکی کانگرس میں ان ملاؤں اور کانگرس کے ارکان سے خفیہ ملاقات ہوئی عراق جنگ کا منصوبہ شروع کرنے کا معاملہ سولسیرا، میں ملے ہوا تھا یہ بھی نقطہء نظر ایک ہونے کی دلیل ہے۔ طہران نے سب سے پہلے امریکہ کی عراق میں تیار کردہ حکومت کو قبول کیا تھا۔ جلال الدین افغانی نے عراقی ٹیلیویژن میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا:

ان الحكومة التی نصبتها امريكا موالية لايران۔

عراق میں جس حکومت کو امریکہ نے قائم کیا ہے یہ ایران کی دوست ہے ۔

تین برس سے ایرانی نمائندے اور کارندے امریکہ کے علم کے باوجود خرید وفروخت کرتے رہے کھیتی باڑی کرتے رہے اور ایران کی تنظیمیں عراق میں پہنچتی رہی ہیں۔ ان کا سربراہ حکیم اور جعفری شیعہ ہیں جو عراق کے پہلے سربراہ تھے اور عراق کا موجودہ سربراہ مالکی یہ بھی شیعہ ہے۔ عبد العزیز حکیم نے امریکہ اور ایران کو بات چیت کے لیے دعوت دی تھی اور عراق کے متعلقہ دونوں کا گفتگو کرنا بھی ان کے عراق میں مشترکہ مفادات کا پتہ دیتا ہے محمد عادلی جو کہ برطانیہ میں ایران کا سفیر ہے اس نے عراق کے انتخابات کے بعد کہا تھا کہ ایران نے متحدہ امریکہ سے تعاون کیا ہے۔ عراقی لوگوں کی تائید حاصل کرنے میں جو گذشتہ ماہ انتخابات گزرے ہیں ایران نے امریکہ سے باقاعدہ تعاون کیا ہے۔ اور پر سکون فضا تیار کی ہے۔

اور طہران دوبارہ بھی متحدہ امریکہ کو شرق اوسط میں تعاون کی پیشکش کرتا ہے کیونکہ دونوں کے

مفادات ملتے جلتے ہیں۔