عراق کے میڈیا پر قبضہ کی ایرانی سازش
الشیخ ممدوح الحربیعراق کے میڈیا پر قبضہ کی ایرانی سازش
عراق میں ایرانی فکر کو غلبہ دینے کے لیے تفکیر کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ ایران کا مقصد وطنیت پرستی نہیں، یہ اپنے شیعہ دین کو اولیت دیتے ہیں یہی ان کی بنیاد ہے۔ ایرانی حکومت بھی اس لیے انہوں نے قائم کی ہے کہ اس نے اہلِ بیتؓ کی محبت کا جھنڈا سربلند کیا ہے۔ اور ولایتِ فقیہ ان کا مقدس ترین عقیدہ ہے۔ انہوں نے دو ہزار طلباء ایرانی، افغانی، پاکستانی، داخل کیے ہیں جو قم سے تعلیم یافتہ ہے انہیں نجف اور کربلاء بھیجا ہے یہ مکمل طور پر ایرانی نمائندے ہیں۔ خامنائی نے اپنے وکیل شیعہ شہروں میں مقرر کر رکھے ہیں، اور انہیں ماہانہ تنخواہ دیتا ہے۔ ان کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے یہ اساتذہ اور طلباء کے روپ میں ہیں۔ خامنائی نے ان سے بیعت لے رکھی ہے کہ میں امام زمان کا نائب ہوں۔ ڈیڑھ دو سو ڈالر ان کی تنخواہ ہے۔
ایران نے کچھ آدمی جو ایران کے رہائشی ہیں انہیں عراق بھیجا ہے تاکہ وہ وہاں اتنی زیادہ جدوجہد کریں کہ حکومتِ عراق کے حساس منصب تک رسائی حاصل کریں۔ ایرانی حکومت اس پر نظر جمائے ہوئے ہیں کہ ایرانی صفوی بادشاہت کو عراق میں قائم کرے اور ایران کو اپنے سامنے سرنگوں کرے۔ شمالی عراق نہ بھی جھکے کوئی بات نہیں یہ جنوبی عراق پر ایرانی غلبہ چاہتے ہیں کہ جونہی امریکی قبضہ ختم ہو یہ فوراً عراق پر قابض ہو جائیں۔ سابقہ وزیرِ داخلہ فلاح نقیب اس منصوبہ کی باقاعدہ نگرانی کر رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے 35 ارکان تیار بھی کر لیے ہیں جو سارے ایرانی ہے ایران کے آخری انتخابات میں انہوں نے احمد نژاد کی حمایت میں آواز اٹھائی تھی۔ اسے بغداد میں مکمل کامیابی حاصل ہوئی تھی ایران کو جنوبی عراق میں قوی حمایت حاصل ہے اور باوجود اس کے شمالی عراق میں بہت زیادہ کردسنی بھی ہیں اس علاقہ کے شیعوں کی اسے حمایت حاصل ہے اور ثقافتی وفود جو کہ جاسوسوں کے روپ میں جاتے ہیں ان سے بھی ایران کو تقویت ملتی ہے ان کا عراقی کردوں سے معاہدہ ہے کہ ایران کردوں کے علاقہ میں دخل اندازی نہ کرے گا، اور ایرانی کرد ان کردوں سے جو شمالی عراق میں موجود ہیں۔ اور شیعہ ہیں یہ انہیں کچھ نہ کہیں گے اس سے ان کا مقصد ہے کہ عراق کہ مسلح کرد کہیں ایران کی حکومت پر یلغار نہ کر دیں اس کا تحفظ کیا ہے ایران میڈیا پر پورا غلبہ چاہتا ہے اس نے 300 میڈیا کے متعلقہ ملازم عراق بھیج رکھے ہیں اور دوسری جانب ان کا وزیرِ ثقافت جزائری اعلان کرتا ہے کہ پانچ لاکھ دینی کتب ایرانی فکر پر مشتمل جو کہ عرب کے نظریہ کے مخالف ہیں اور سنی موقف کے بھی خلاف ہے وہ عراق میں آچکی ہیں اور شیعی گروہ جو ایران دوست ہیں یہ انہی کتابوں پر اکتفا کرتے ہیں دوسری کسی کتاب کو خریدنا یا فروخت کرنا انہوں نے بند کر دیا ہے صرف شیعہ کتب ہی تقسیم کی جاتی ہے جنوبی عراق میں انہی کے کتب خانے ہیں۔ اخبارات پر غلبہ ایران کرتا جا رہا ہے انہیں یہ مال دیتا ہے فضائی اور زمینی میڈیا پر بھی غلبہ پا رہا ہے۔ ایران میں ایک ٹیلی ویژن کمپنی ہے اس پر اصلاحیوں کا قبضہ ہے قطر کے الجزیرہ ٹی وی اسٹیشن کی طرز کا انہوں نے "العالم" کے نام سے نیٹ ورک چلایا ہے جو عربی زبان میں ہے عراقی سرحدوں سے ان کی تائید حاصل کرنے کے لیے نیٹ ورک کام کر رہا ہے ایک اخبار نے بتایا ہے سو میڈیا کے ذرائع عراق میں موجود ہے جو ایران کے لیے کام کر رہے ہیں۔