Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

عراقی انتخابات میں ایرانی دخل اندازی

  الشیخ ممدوح الحربی

عراقی انتخابات میں ایرانی دخل اندازی

عراقی انتخابات میں ایرانی مداخلت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایران نے لوگوں کی کافی تعداد زاںٔرین کے روپ میں عراق داخل ہوئی یہ قافلوں کی صورت میں آۓ تھے اور عراقی عوام پر اثر انداز ہوۓ کہ ہم اتفاق پیدا کرنے آۓ ہیں ایران کی سکرین پر ان کی فوٹیج بھی دکھائی گئی۔ ان کے پاس انتخابات کے متعلقہ تمام سامان تھا امریکیوں نے خود کہا تھا جنہوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اس کی کسر وہ ٹرک جو لوگوں سے بھرے آرہے تھے اور جعلی ووٹوں سے بھری ہوئی صندوقچیاب جو ایران سے آئ تھیں انہوں نے پوری کردی۔

وزارتِ داخلہ عراق دراصل ایران کے تابع فرمان ہے۔ وزارتِ داخلہ کی بہت ساری سرگرمیوں پر ایران کے حمایت یافتہ گروہ غالب ہیں اور ایرانی جاسوسی کا ادارہ دوسرے لفظوں میں اطلاعات کا ادارہ اس وزارت کا نگران بن چکا ہے دو سو کے قریب سنی آدمی جو اس محکمہ میں تھے انہیں فارغ کر دیا گیا ہے۔ ایران کی یہ رخنہ اندازی اس وجہ سے ہی ممکن ہوئی کہ اس نے ووٹروں سے ٹرک بھر کر بھیجے تھے۔ اب ملیشیا کے ذریعے وہ سنیوں سے سخت ترین انتقام لے رہا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ایک ملازم کا بیان ہے:

"یہ وزارت ایران کی ہے عراق کی تو برائے نام ہے، اور متحدہ امریکہ بھی ان کی سپورٹ کر رہا ہے"۔

اور خفیہ قید خانوں اور تہہ خانوں میں خوفناک موت بانٹ رہا ہے عراق کے انتخابات کے بعد 2005ء کے دوران باقر صولاق وزیرِ داخلہ مقرر ہوا اسے اسلامی انقلاب اور بدر کی تنظیم نے وزیر بنوایا تھا۔ اس وجہ سے اسے اطلاعات پر پورا غلبہ حاصل ہوا یہ کام امریکیوں نے کرنا تھا جو ان شیعوں نے کر دیا۔ عراقی تنظیموں کا سابقہ نگران لواء منتظر سامری کہتا ہے: اس کا پورا نام محی جاسم سامری ہے یہ عراقی خاص تنظیموں کا بڑا ہے 2004ء سے لے کر 2005ء تک امریکی قبضہ کے سائے میں یہ وزیر داخلہ بھی رہا ہے۔ تحریک ریاست ارکان کا رکن ہے اور عراق پر قبضہ سے پہلے "القدس" تنظیم کا ایک بڑا افسر تھا اور قبضہ کے بعد اس کا رتبہ ایک وزیر کا ہے۔ یہ بغداد کا معاون مدیر بھی بنا ہے فلاح نقیب کے آجانے کے بعد جبکہ عراق پر ایاذ علاوی تھا اب اس کی ضرورت نہ تھی وہ سب کچھ کرنے لگا۔ لشکرِ عراق، حرسِ وطنی اور شرطِ وطنیہ سب یکجا ہو گئے یہ کام وزارتِ داخلہ کے متعلقہ ہو گیا ساتھ ہی پچاس افسر اس وزارت سے مل گئے اسے انہوں نے وزارت داخلہ عراقیہ کا نام دیا یہ لواء والا منصب مظہر محمد فتحی اس نے سنبھال لیا یہ اب اردن کے شہر امان میں موجود ہے تو اس لواء نے کہا تھا: 

"اس نے عراقی جیل کے تہہ خانوں میں بہت خوفناک منظر دیکھے ہیں جو بدر تنظیم نے ظلم کیا ہے اور ظالمانہ کاروائی کو سر انجام دیا ہے اور مجلس اعلیٰ، حزب الدعوۃ اور وزارتِ داخلہ کے ذمہ دار سب اس میں ملوث ہیں، اور جن پر یہ ستم ڈھایا جاتا ہے سارے کے سارے سنی ہیں اور ظلم پر کار بند سب ایرانی شیعہ ہیں یا عراقی ہیں پہلے وہ بھی ایران میں رہ چکے ہیں۔ یہ عراق کے مقبوضہ ہونے کے بعد یہاں آئے ہیں۔"

بشیر نامی لاوندی جو کہ ان خفیہ جیلوں کا ذمہ دار ہے اور معاون وزیر ہے یہ 2004ء میں عراقی شہریت لیتا ہے لواء منتظر نے خود کہا تھا اور اس نے اشارتاً کہہ دیا تھا کہ وزارتِ داخلہ میں بعض اہم عہدے بطورِ عطیہ امریکہ کی خدمت کے صلہ میں ملے ہیں اور امریکہ کو یہ بھی علم ہے کہ ان تہہ خانوں میں رات کے پردے میں گردش کے بہانے سنی قیدیوں پر کیا بیتتی ہے ایک ویڈیو فلم مواصلاتی سیاروں کے ذریعہ اس ظلم کی دکھائی بھی گئی تھی وہاں بند قیدیوں پر ضربات کے آثار نمایا تھے بعض کی آنکھیں نکال دی گئی تھی بعض کے جسموں میں میخیں پیوست تھیں اور بعض کے اعضاء کاٹ دیے گئے۔

سامری کے بقول عراقی وزیرِ داخلہ صولاغی نے سترہ ہزار سے زیادہ ملیشیا کے افراد وزارتِ داخلہ اور پولیس وغیرہ میں تعینات کر رکھے ہیں، ان سب کی تنخواہ طہران سے آتی ہے۔ یہ امریکی کارندوں تک معلومات پہنچیں تو وہ تہہ خانے میں دی جانے والی خفیہ سزاؤں کو جو سنیوں کو دی جاتی تھیں انہیں سرعام لے آئے۔ درج ذیل انٹرویو سے ان سزاؤں کی تفصیل سماعت فرمائیں، نامہ نگار! آپ نے عراق کیوں چھوڑا اور وزارت سے معزول کیونکر ہوئے (الواء) عراقی وزارتِ داخلہ کی سزاؤں کو برداشت نہ کر سکنے والے سب افسر عراق سے نکل کر پڑوسی ملکوں میں چلے گئے۔ ان میں سے بدترین جو عمل ہوتا وہ یہ تھا جو کے قانون کے نام پر کیا جاتا تھا اور ڈرانے کے نام پر کیا جاتا تھا رعب جم جائے۔ میرا خیال ہے سب سے بڑا خوف ہراس وزارتِ داخلہ جو قاتلانہ حملہ کروا رہی ہے اور جسمانی طور پر تصفیہ کر رہی ہے یہ ہے:

نامہ نگار: یہ بے حرمتیاں کب سے زیادہ ہوئیں؟۔

الواء: شروع میں تو کم تھیں، جب وزارتِ داخلہ کا قلمدان صولاغ نے سنبھالا ہے اس نے تنظیموں کو ایک دوسرے میں ضم کردیا تو ان کے جرائم رات کی تاریکی میں اور قانون کی گود میں برپا ہونے لگے۔

نامہ نگار: جب عراق پر قبضہ ہوا تو آپ نے عہدہ قبول کیوں کیا تھا؟۔

لواء: وطن کی حفاظت ابنائے وطن ہی کرتے ہیں میرا مقصد وطنِ عزیز کی خدمت کرنا تھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں وطن کی بھلائی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ بادشاہت، ایرانی کینہ سے بھرپور منصوبوں کی تکمیل کے تمنائی تھے۔ انہیں ہماری مانند وطن سے پیار نہ تھا انہوں نے اپنے غلط منصوبے پورا کرنے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے ہمارے دور میں ایسا نہیں تھا اب یہ وزارت فرقہ ورایت بن چکی ہے۔

نامہ نگار: ہم وزارت داخلہ کی تشکیل سمجھنا چاہتے ہیں؟۔

لواء: وزارت کی ابتدائی تشکیل اچھی تھی عراقی وزیرِ داخلہ اچھا تھا اس میں مدیر دیوان، یعنی جج بھی اس کے تحت ہوتا ہے اور وکلاء تک یہ پھیل جاتی ہے۔ 

 نامہ نگار: امن کے معاملات کس کے متعلقہ ہیں اور اس کی اہمیت کیا ہے؟۔

(لواء)۔ قبضہ عراق کے بعد قبضہ والی قوتوں نے دعوت دی کہ ایک ایسی قوت تیار کی جائے جو نظام کی حفاظت کرے اس کا قائد "مہدی صبیح عزاوی" تھا اور یہ فلاح نقیب کے دور کی بات ہے اب مہدی کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اپنی مصلحت کے تحت وزارتِ داخلہ افسران میں تبدیلی کرتی رہتی ہے جیسا کہ مکاں و زماں کے مطابق فوجیوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بات کو آگے چلاتے ہوئے لواء کہتا ہے: فرقہ واریت موجود نہ تھی جب صولاغ 2005۔5۔12ء میں وزیر بنا تو اس نے تبدیلیاں کی اس سے پہلے شعلان تھا کام آسانی سے ہو جاتے تھے شعلان تین ماہ تک رہا جب سے یہ صولاغ آیا ہے اس نے شعلان کے تمام تر ترجیحات کو یکسر ختم کرتے ہوئے اپنا حکم جاری کیا ہے۔ جب اس نے بہت سارے ملازمین کو معزول کر دیا، جرم انکا یہ تھا کہ یہ سنی تھے اور ایک پیسہ تک نہیں دیا ایک شور بپا ہوا کہ اس نے ظلم کیا ہے پھر ختم ہو گیا۔

نامہ نگار: احمد سلمان کون ہے؟۔

لواء: احمد سلمان کا حقیقی نام رشید ناصر الدین لاوندی ہیں یہ ایرانی نمائندوں کا بنیادی رکن ہے۔

نامہ نگار: آپ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں؟۔

لواء: ہاں حکومتی ادارہ میں اس کا نام نہیں آتا مگر اس سے سخت ترین یہ عہدہ ہے کہ یہ جرائم کے متعلقہ معلومات فراہم کرنے والے ادارے کے وکیل کا معاون ہے اور جو اس منصب پر ہوا اس کا منصب لواء سے کم نہیں ہوتا۔ اسے عراقی شہریت 2005ء میں ملی ہے یہ ان افراد میں سے ہے جس نے "نسور" کی قید میں ملازمت کی ہے یہ بدترین قید ہے۔ اس کا تصور آتے ہی تاتاریوں اور نازیوں کے جیل خانوں کا خوف بھی بے حیثیت ہو جاتا ہے ان کے اندر قتل اور سزاؤں کا عمل سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، یہ پہلے بجلی کے جھٹکے دیتے ہیں برقی ڈنڈوں سے مارتے ہیں اور درے مارے جاتے ہیں اور پھر انہیں تہہ خانوں میں پھینک دیا جاتا ہے، اور جو انہیں سزا دیتے ہیں وہ اپنا حلیہ بدل لیتے ہیں پتہ نہ چلے یہ کون ہے کیونکہ ان کے جرائم قاضی اور ملزم سب کے سامنے واضح ہوتے ہیں اور آخر میں انہیں عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں اور سزا دلواتے ہیں "ناجم طاخی" اس کی زندہ مثال ہے اسے گرفتار کیا گیا اور ہر طرح کی اذیتوں اسے گزار کر آخر کار انہیں شہید کر دیا گیا۔

نامہ نگار: ان قید خانوں میں جو اذیت ناک سلوک ہوتا ہے عراقی وزارتِ داخلہ کو اس کا علم ہے؟۔

لواء: وزارت داخلہ کو یقیناً ان اذیت ناکیوں کا پتہ ہے وزارت کی دہلیز کے ادنیٰ ملازم سے لے کر وزیرِ داخلہ تک سب جانتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں نام بدل کر قتل کردیا گیا ہے۔ ناجم طاخی یہ اصل میں ناھصن مہدی ہیں۔ عادل حامد ان دونوں کو دیوانہ قرار دے کر قتل کیا ہے۔ نام نہیں بتایا یوسف ہادی کو لفرانی کے نام سے شہید کر دیا۔ علاؤہ ازیں قیدیوں کے گھر والوں کے ساتھ بہت وحشیانہ سلوک ہوتا ہے۔ موبائل پر ایک منٹ کی ملاقات سو ڈالر سے لے کر ہزار ڈالر تک ہے اس کے باوجود لوگ اپنے قیدی بیٹوں کی خیریت طلب کر کے اطمینان پکڑتے ہیں۔ ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ میڈیا پر اطلاع دی جاتی ہے کہ تمہارا بیٹا اغواء ہو چکا ہے ایک بڑے گروہ نے اسے اغواء کر لیا ہے، اور وہ بڑے خطرہ میں ہے وہ ایک لاکھ ڈالر مانگتے ہیں کہ اسے رہا کر دیں گے، حالانکہ وہ وزارتِ داخلہ کے پاس ہوتا ہے انسانیت سوز سلوک ہے میرے ساتھ عمان میں ایک افسر ہے یہ بھی عراق سے بھاگ کر آنے والوں میں سے ہے۔ حکومت کے ساتھ معاہدہ کے تحت عراق میں اسلحہ پہنچاتا تھا یہ حکومت کے بنیادی رازوں سے آشنا ہے۔ ایک وزارتِ داخلہ کے مخفی رازوں کا بڑا افسر ہے۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ اس تنظیم کو وزارت داخلہ اپنے بزدلانہ جرائم کی منصوبہ بندی کی تکمیل میں تعاون دیتی ہے، میرے پاس اس کے مضبوط ثبوت موجود ہے۔ مجھے اس کمپنی کا اس کی جگہ کا بھی پتہ ہے لیکن میں اس وقت اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ 

نامہ نگار: عراق کی سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے اور ان کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہے؟۔

لواء: عراقی سرحد لواء احمد خفاجی کے ماتحت تھی یہ ان کا نقیب ہے ایران، عراق جنگ میں یہ عراق سے بھاگ کر ایران میں چلا گیا تھا۔ پھر یہ ان لوگوں کے ساتھ واپس لوٹا جو امریکی ٹینکوں پر واپس لوٹے یہ لواء کے رتبہ پر فائز ہو گیا۔ اس کا خاندان اب تک ایران میں رہتا ہے یہ بدر جو کہ شیعہ تنظیم ہے اسے تیل سپلائی کرنے کا کام کرتا ہے۔ اور منشیات وغیرہ بھی منتقل کرتے ہیں، یہ ان کا ذمہ دار اور نگران ہے۔ حکومت میں فساد برپا کرنا تو ان کا عام کام ہے اور وزارتِ دفاع میں سب سے زیادہ خرابیاں ہیں۔ شہری دفاع کے نام سے تقریبا (21) ہزار کے قریب افراد ہیں جو ملازم ہیں، ان کے نام بھی ہیں عہدے بھی ہیں اور ترقیاں بھی ہیں اور خصوصی عہدے ہیں، حالانکہ یہ بالکل موجود نہیں (70) ہزار جنگجو ہیں حالانکہ حقیقی تعداد (3) ہزار سے زائد نہیں، بقیہ صرف کاغذی نام ہے اور تنخواہیں جاری ہیں اور دیگر فوائد بھی اٹھا رہے ہیں بتائیں اس سے زیادہ اور فساد کیا ہوتا ہے۔

نامہ نگار: کیا عراقی وزیرِاعظم کو اس کا علم ہے؟۔

لواء: میرے پاس ثبوت موجود ہے کہ جواد رومی نے وزیرِاعظم کو خط لکھا کہ میں شیعہ تھا بعد میں سنی ہوا ہوں انہوں نے میری بیوی چھین لی ہے یہ ثبوت ہے کہ ان ظالمانہ کاروائیوں کو سب جانتے ہیں۔ 

نامہ نگار: وزارتِ داخلہ میں جو ہو رہا ہے امریکی اسے جانتے ہیں؟۔

لواء: امریکیوں کو سب علم ہے یہ رات دن کے یہاں مالک ہیں۔

نامہ نگار: اس کا ثبوت دیں۔

لواء امریکہ ساحتہ نسور جیل میں آتے ہیں قصر عدنان میں موجود لوگ قیدیوں کی چیخیں سنتے ہیں۔ یہ محل جیل کے قریب ہے ایک افسران عقوبت خانوں میں داخل ہوا اس کا نام کوف مان تھا۔ یہ چلاتے ہوئے قیدیوں کو سن رہا ہے مگر زبان تک نہیں ہلاتا اس سے ثابت ہوا کہ ان عقوبت خانوں میں سزا دینے پر بھی یہ متفق ہے۔ بغداد کے ایک موجودہ افسر نے بتایا تین ماہ سے امریکیوں کو علم ہے کہ آدھی رات کے بعد گاڑیاں نکلتی ہے اور سنیوں کو قید خانوں میں اذیت دیتے ہیں اور انہیں قتل کر کے چلے جاتے ہیں۔ ابو غریب جیل میں امریکی جو سزائیں دیتے ہیں سب کو علم ہے۔

نامہ نگار: صولاغ کا "بدر" تنظیم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟۔

لواء: یہ بدر کا قائد ہے، میں ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کو اس نے وزارت سے باہر نکالا اور سنی ہونے کے قصور میں اس نے ساڑھے سات سو آدمی باہر نکالے ہیں اور تنخواہیں بھی نہیں دی جن سنی لوگوں پر ابھی اس حکم جاری نہیں کیا ان کی تعداد (24) سو ہے۔

نامہ نگار: محمد نعمت کون ہے؟۔

لواء: محمد نعمت ملازم ہے یہ بصرہ کے علاقہ شوش میں تھا، جنگ کے دنوں میں ایران بھاگ گیا عراق پر قبضہ کے بعد عراق آگیا کوٹ کی پولیس کا افسر مقرر ہوا "الصدر" شہر میں انقلابِ اسلامی کے دفتر کا مدیرِ اعلیٰ ہے وزیرِ داخلہ صولاغ نے مظہر محمد فتحی کو معزول کر کے محمد نعمت کو اس کی جگہ پر مقرر کر لیا، حالانکہ اسے علم تھا یہ جنگی اصولوں سے نابلد ہے۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ افسرِ اعلیٰ وہ ہے جو فوجی کالج میں قدم تک نہیں رکھ سکا اور بڑی بڑی تنخواہیں کھا رہے ہیں۔

نامہ نگار: انسانی بہبود کی تنظیموں نے کبھی وزٹ کیا ہے؟۔

لواء: داخل ہونا تو دور رہا وہ ان تنظیموں کو ان عقوبت خانوں کے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتے۔