عراق کے اندر قاتلانہ حملوں کے نمائندے
الشیخ ممدوح الحربیعراق کے اندر قاتلانہ حملوں کے نمائندے
جب سے سقوط عراق ہوا ہے اور بعث پارٹی کا نظام 2003ء سے ختم ہوا ہے۔ ایرانی نمائندے قاتلانہ حملوں کو جاری کیے ہوئے ہیں۔ عراق کے مختلف حصوں میں یہ کام جاری ہے۔ فوجی افسر، پائلٹ، ڈاکٹر اور علمی ماہرین اور مسلمان علماء ان حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں، اور ہارون میزائل بغیر نشانہ چھوڑ دیتے ہیں، جو بے گناہ مسکینوں کے گھروں کو زمین بوس کر دیتے ہیں۔ اخبارات میں ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ جب فوجی قافلے گزر جاتے ہیں تو بعد میں دھماکہ ہو جاتا ہے۔ جس سے ملکی لوگ نقصان اٹھاتے ہیں یہ نمائندے دراصل یہ قاتلانہ حملے کرواتے ہیں اور اپنے ٹارگٹ پورے کرتے ہیں جو ان تنظیموں کے سپرد نمائندوں نے کیے ہوتے ہیں۔ یہ ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرتے ہیں۔ ان قاتلانہ حملوں کی ذمہ داری ان گروہوں کے بڑوں نے اٹھائی ہوتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ علیحدہ دستے ہوتے ہیں۔ جو دھماکوں کے ذریعے قاتلانہ ہدف پورے کرتے ہیں۔ ایک تنظیم "قصاص العادل" ہے جو ذی قار میں ہے۔ ایک تنظیم "ذوالفقار" ہے جو نجف میں ہے ایک رابطہ الکساء تنظیم ہے اس طرح امن کے متعلقہ وسائل پر یہ تنظیمیں قاتلانہ حملوں سے تسلط جما کر انہیں برباد کرتے ہیں۔ اب تک یہ قاتلانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے رسمی اعداد سے تسلط جما کر انہیں برباد کرتے ہیں۔ اب تک یہ قاتلانہ حملوں میں 40 سے اوپر استاذ شہید کر دیے اور 70 سے اوپر استاذ چھپ گئے ہیں۔ ایک ہزار اساتذہ ہجرت کر گئے صفایا کے ڈر سے نکل گئے ہیں۔ ایک سو 53 درجۂ تخصص کی اعلیٰ ڈگریاں رک گئی ہیں۔ ان کا قاتلانہ حملوں اور جسمانی صفایوں کی وجہ سے عراقی معاشرے کی عقل و دانش باہر چلی گئی ہے واپس نہیں آنا چاہتی۔
فوج کے بڑے افسروں یا پائلٹوں کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ آزما ہوتے ہیں۔ یہ ایرانی فوج کے خلاف کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے انہیں ختم کر دیا جاتا ہے۔
ان کے قاتلانہ حملوں کے انداز مختلف ہیں جو سنیوں کے بارے میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ یہ جس شخص کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں وہ جب صبح گھر سے نکلتا ہے یا فجر نماز کے لیے مسجد میں جاتا ہے یا شام کو جاتا ہے تو اس وقت اسے نشانہ بناتے ہیں کبھی یہ طریقہ اپناتے ہیں کہ چند افراد سیاہ چادریں اوڑ لیتے ہیں اور نقاب پہنتے ہیں دو سے لے کر اٹھ تک یہ افراد ہوتے ہیں یہ چھوٹی گاڑی استعمال کرتے ہیں اور ہلکا سا اسلحہ استعمال کرتے ہیں بندوق کلاشنکوف، سیلون ایم ایم وغیرہ اور یہ کاروائی اچانک کرتے ہیں اور قاتلانہ حملہ کی کاروائی کے متعلق استفسار کرنے کے مرحلہ سے پہلے اور مقتول کی رہائش کی نشاندہی سے پہلے ہی یہ آگے جاتے ہیں۔
اور جہاں قتل گاہ پرسکون ہو وہاں ان کے قاتلانہ حملہ کا طریقہ اور ہے۔ یہ جسے ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں اسے پولیس کی تفتیش یا کسی سرکاری محکمہ کی انکوائری کے بہانے اسے دور کھینچ لاتے ہیں اور کسی کو کانو کان پتہ نہیں ہوتا۔ ایک دو دن کے بعد اطلاع ملتی ہے کہ فلاں قتل ہو چکا ہے سڑک کے کنارے یا کسی گاڑی میں یا ویرانے میں اس کو پھینک دیتے ہیں بصرہ کے علاقے میں یہ طریقہ زیادہ تر استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہاں شیعی گروہوں کا کامل تسلط ہے۔