سید کون ہیں ؟
محمد ذوالقرنین الحنفیاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
آج کی یہ پوسٹ سید کے بارے میں ہے کہ سید کون ہیں اور ان کو سید کس وجہ سے کہا جاتا ہے۔
سب سے پہلے ہم سید کے مطلب کی طرف چلتے ہیں کہ لفظ ”سید“ کا مطلب کیا ہے۔
سید کے لغوی معنی سردار، امام، پیشوا، آقا کے ہیں۔
(فیروز اللغت: صفحہ، 826)
جبکہ اصطلاح میں سید حضرت بی بی فاطمہؓ کے بیٹوں یعنی سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور ان کی اولاد کو کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے سردار ہیں۔
ان سب کو سید نبیﷺ کی آل(اولاد) ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور نبیﷺ نے ان کو اپنے بیٹے بھی کہا ہے۔
جیسا کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں ”ایک رات میں نبیﷺ کے پاس اپنے کسی کام سے گیا تو جب نبیﷺ باہر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ساتھ کچھ لپیٹا ہوا تھا مجھے معلوم نہ ہوا کہ یہ کیا ہے جب میں اپنے کام سے فارغ ہو گیا تو میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ یہ کیا ہے ؟ تو نبیﷺ نے چارد کو کھولا تو اس میں سیدنا حسنؓ و حسینؓ لپٹے ہوئے تھے، نبیﷺ نے فرمایا! یہ میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، پھر فرمایا اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے تو بھی ان سے محبت رکھ“۔
(جامع ترمذی: حدیث، 3769)
(نوٹ: کتاب میں مترجم نے ترجمہ غلط کیا ہے ”احبھما“ کا ترجمہ ”محبت“ کی بجائے ”دوست“ کیا ہے)
اور نبیﷺ نے حضرت حسنؓ کے لئے خود ”سید“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ نبیﷺ سیدنا حسنؓ کو ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور انہیں لے کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا! میرا یہ بیٹا سید(سردار) ہے اور اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کروائے گا۔
(صحیح بخاری: حدیث، 3629)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبیﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی اولاد کو اپنی اولاد کہا اور ان کو سید کہا۔
اس کے ساتھ ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ سید پر صدقہ حرام ہے اس کو صدقہ نہیں دیا جا سکتا نہ ہی وہ صدقے میں سے کھا سکتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ایک بار نبیﷺ کے پاس صدقے کی کھجوریں لائی گئیں تو ان کا ڈھیر لگ گیا، سیدنا حسنؓ و حسینؓ ان کھجوروں سے کھیلنے لگے(کیونکہ تب وہ چھوٹے بچے تھے)تو ان میں سے ایک نے کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی جسے ہی نبیﷺ نے دیکھا تو ان کے منہ سے کھجور نکال کر فرمایا ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آل(اولاد) محمدﷺ صدقہ نہیں کھاتے؟“
(صحیح بخاری: حدیث، 1485)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید پر صدقہ بھی حرام ہے۔
ساتھ ہی ہم ایک غلط فہمی کا جواب دیتے چلیں۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ زید بن ارقمؓ نے آلِ علی کے ساتھ ساتھ آلِ عقیل و آلِ جعفر و آلِ عباس کے بارے میں بھی یہ کہا ہے کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔
جیسا کہ ایک طویل روایت میں الفاظ ہیں کہ
”حضرت زید بن ارقمؓ سے پوچھا گیا کہ نبیﷺ کے اہلبیت کون ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا نبیﷺ کے اہلبیت میں ہر وہ شخص شامل ہے جس پر نبیﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے، پوچھا گیا وہ کون ہیں؟ فرمایا! آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ جعفر، آلِ عباس“
(صحیح مسلم: حدیث، 6225)
اس میں حضرت زید بن ارقمؓ سے اجتہادی خطا ہوئی ہے کہ انہوں نے ان سب کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔
کیونکہ صدقہ صرف نبیﷺ کی اولاد یعنی سیدنا حسنؓ و حسینؓ پر اور آگے ان کی اولاد پر حرام ہے۔جیسا کہ ہم نے اوپر حدیث بیان کی۔
رہی بات کہ زید بن ارقمؓ نے ایسا کیوں کہا تو انہوں نے آلِ عقیل و آلِ جعفر اور آل عباس رحمہما اللہ کے ساتھ ان کی رشتہ داری ہونے کی وجہ سے ایسا کہا کیونکہ ان کی آپس میں شادیاں ہوتی رہی ہیں۔
لیکن شریعت میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے بیٹی کی طرف سے نہیں۔
مطلب یہ کہ حضرت فاطمہ کی بیٹیوں اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی بیٹیوں کی اگر غیر سید سے شادی ہو گی تو ان کی آگے اولاد سید نہ ہو گی بلکہ باپ سے نسب چلے گا اور یہ بات ہم آگے بیان کریں گے ان شاء اللہﷻ۔
امام ابن حجرؒ نے اس بات کو تفصیل سے نقل کیا ہے اور ایک حدیث نقل کر کے فرماتے ہیں:
”نبیﷺ نے فرمایا! ہر ماں کے بیٹوں کا عصبہ ہے سواۓ حضرت فاطمہؓ کے بیٹوں کے، میں ان کا ولی اور عصبہ ہوں، (یعنی کہ ہر بیٹا اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے لیکن سیدنا حسن و حسین نبیﷺ کی طرف منسوب کئے جائیں گے) یہ حدیث نقل کر کے امام ابنِ حجرؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں نبیﷺ نے اپنی طرف انتساب اور اپنے عصبہ ہونے کو حضرت حسنؓ و حسینؓ کے لۓ خاص فرمایا ہے اور ان کی بہنوں کے ساتھ خاص نہیں فرمایا، اس لیے سید زادی (یعنی امام حسن و حسین کی اولاد میں سے کوئی عورت) کا وہ بیٹا جو غیر سید سے ہے وہ غیر سید ہی ہو گا، اگر یہ خصوصیت عام ہوتی کہ ہر سید زادی کا بیٹا سید ہے(اس سید زادی کے بارے میں کہا جا رہا جو غیر سید سے نکاح کر لے تو آگے اس کی اولاد سید نہیں ہو گی بلکہ غیر سید ہی ہو گی۔
ساتھ ہی امام ابن حجرؒ نے نقل کیا ہے کہ ”صدرِ اول (یعنی صحابہؓ و تابعینؒ کے دور)میں لفظ شریف(سید) کا اطلاق ہر اس فرد پر ہوتا تھا جو اہلبیت سے تعلق رکھتا تھا خواہ وہ عباسی ہوتا یا عقیلی ہوتا، لیکن جب مصر پر فاطمیوں کی خلافت آ گئی تو انہوں نے اس شرف کو صرف حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی آل کے ساتھ مختص کر دیا اور آج تک وہی سلسلہ برقرار ہے“۔
(فتاویٰ حدیثیة،صفحہ نمبر 472،473)
یہی وجہ تھی کہ زید بن ارقمؓ نے اجتہادی طور پر آلِ عقیل و آلِ جعفر و آلِ عباس کو کے بارے میں بھی یہ کہہ دیا کہ ان پر صدقہ حرام ہے، کیونکہ ان کے آلِ علی کے ساتھ تعلقات تھے۔
جبکہ صدقہ صرف حضرت حسنؓ و حسینؓ کی اولاد پر ہی حرام ہے، اور بس وہی سید ہیں۔
جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلویؒ سے سوال ہوا
”کہ زید کا دادا پٹھان تھا،دادی اور والدہ سیدانی،اس صورت میں زید سید ہے یا پٹھان ؟
تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا! شریعت میں نسب باپ کی طرف سے لیا جاتا ہے جس کے باپ دادا پٹھان یا مغل یا شیخ ہوں وہ انہیں قوموں سے ہو گا چاہے اس کی ماں اور دادی سب سیدانیاں ہوں، اور پھر روایت نقل فرمائی کہ اللہ نے یہ خاص فضیلت حضرت حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور ان کے حقیقی بھائی بہنوں کو عطا فرمائی کہ وہ رسول اللہﷺ کے بیٹے ٹھہرے، ان میں بھی یہی قاعدہ عام جاری ہوا کہ وہ اپنے باپ کی طرف منسوب ہوں اس لئے سبطین کریمینؓ (یعنی امام حسنؓ اور امام حسینؓ) کی اولاد سید ہیں نہ کہ حضرت فاطمہؓ کی بیٹیوں کی اولاد، کہ وہ اپنے والدوں کی طرف ہی نسبت کی جائیں گی“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد، 13 صفحہ، 361)