Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اللہ تعالی کے مخصوص بالقدم اوربالازل ہونے کے عقیدہ پرتبصرہ:

  امام ابن تیمیہ

اللہ تعالیٰ کے مخصوص بالقدم اوربالازل ہونے کے عقیدہ پرتبصرہ:

رافضی مصنف کے اُس قول پرتبصرہ کہ اللہ تعالیٰ ازلیت اور قدم کی صفت کے ساتھ خاص ہے۔رہا اس کا یہ کہنا کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازلیت اور قدم کے ساتھ مخصوص ہے تو جواب میں :اولاً یہ کہا جائے گا کہ تمام مسلمان اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ کے ماسوا تمام مخلوق حادث ہیں بعد العدم اور وہی ذات صفت ِ قدم او ازلیت کے ساتھ مختص ہے۔ثانیاًیہ کہا جائے گا کہ: کتاب و سنت میں جو بات آئی ہے وہ تو الوہیت کا توحید ہے پس اللہ کے علاوہ کوئی الہٰ نہیں ،یہی وہ توحید ہے جس کو لے کر اللہ تعالیٰ کے رسل آئے اور انہی تعلیمات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اتاریں ؛ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾(البقرۃ ۱۶۳) ’’اور تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، بے حد رحم والا مہربان ہے۔‘‘نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَ قَالَ اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاِیَّایَ فَارْھَبُوْن﴾(نحل۵۱)’’ وہ اپنے رب سے، جو ان کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِیْ إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ﴾(انبیاء :۲۵ )’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔‘‘اور قرآن میں اس جیسی امثال بہت زیادہ ہیں ؛ جیسے اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد ہے:﴿ فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ﴾ ( محمد :۱۹)’’پس جان لے کہ بے شک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘اور اس طرح یہ ارشاد گرامی بھی ہے:﴿ إِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ یَسْتَکْبِرُونَ﴾ ( صافات: ۳۵) ’’بے شک وہ ایسے لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے تھے۔‘‘الحاصل یہ وہ پہلی اور آخری بات ہے جس کی رسولوں نے اپنی قوموں کو دعوت دی چنانچہ فرمایا :(( أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا لا إلہ إلا اللّٰہ وإنی رسول اللّٰہ ۔))[1]

[1] البخاری 1؍10؛ ِکتاب الإِیمانِ، باب فإِن تابوا وأقاموا الصلاۃ....،مسلِم 1؍52 ؛ کتاب الإِیمانِ، باب الأمرِ بِقِتالِ الناسِ....۔‘‘ وقال السیوطِی فِی ’’ الجامِعِ الصغِیرِ ‘‘ متفق علیہِ، رواہ الأربعۃ عن أبِی ہریرۃ وہو متواتِر۔‘‘اور اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا :

(( یا عم قل لا إلہ إلا اللّٰہ کلمۃ أحاج لک بہا عند اللّٰہ۔)) [2]

[2] البخاری 2؍95 ؛ کتاب الجنائِزِ، باب ِإذا قال المشترکِ عِند الموتِ لا ِلہ ِلا اللہ؛ مسلِم 1؍54 : ِکتاب الإِیمانِ، باب الدلِیلِ عل صِحۃِإ ِسلامِ من حضرہ الموت....۔‘‘ المسندِ 5؍433.۔ ’’ اے چچا! کہہ دو کہ لا إله الا اللہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ کے ہاں آپ کے لیے جھگڑا کروں گا۔‘‘اور فرمایا :

((من کان آخر کلامہ لا إلہ إلا اللّٰہ دخل الجنۃ۔))[3]

 [3] سننِ أبِی داود 3؍258 ؛ کتاب الجنائِزِ، باب فِی التلقِینِ.... المستدرِک لِلحاکِمِ 1؍351 (کتاب الجنائِزِ، باب من کان آخِر کلامِہِ....؛ وقال الحاکِم:’’ ہذا حدِیث صحِیح الِإسنادِ ولم یخرِجاہ۔‘‘ ووافقہ الذہبِی مِشکا المصابِیحِ لِلتبرِیزِیِ 1؍511 وصححہ الألبانِی۔

’’ جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘اور ارشاد فرمایا : (( لقنوا موتاکم لا إلہ إلا اللّٰہ ۔)) [1]

[1] مسلِم 2؍631؛ کتاب الجنائِزِ، باب تلقِینِ الموتی لا ِلہ ِلا اللّٰہ..... سننِ أبِی داود 3؍259؛ کتاب الجنائِزِ، باب فِی التلقِینِ.... ؛ سننِ التِرمِذِیِ 2؍225؛ ِکتاب الجنائِزِ، باب فِی تلقِینِ المرِیضِ عِند الموتِ والدعاِ لہ؛ .... سنن ابن ماجہ 1؍464؛ کتاب الجنائِزِ، باب ما جاء فِی تلقِینِ المیِت....۔‘‘’’ اپنے اموات کو لا إله الا اللّٰہ کی تلقین کیا کرو۔‘‘ اور یہ تمام کی تمام احادث صحیح ہیں اور یہ تمام امور میں سب سے زیادہ اظہر اور واضح بات ہے جوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں سے ضرورتاً اور بدیہی طور پر معلوم ہیں اور وہ اللہ کی توحید ہے یعنی کہ لا إله  الا اللّٰہ۔رہا قدیم ازلی ذات کا ایک ہونا تو یہ لفظ نہ تو کتاب اللہ میں پایا جاتا ہے نہ اس کی نبی کی سنت میں بلکہ اللہ کے ناموں میں بھی کہیں ’’قدیم ‘‘نہیں آیا اگرچہ اس کے ناموں میں لفظِ ’’اول ‘‘ہے اور اقوال دو قسم پر ہیں :ایک تو وہ جو کتاب اور سنت میں منصوص ہیں ان کا اقرار کرنا اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہر مسلمان پر واجب ہے اور جس کے لئے نص اور اجماع میں کوئی اصل نہیں اس کا قبول کرنا اور رد کرنا واجب نہیں یہاں تک کہ اس کا معنی معلوم ہو جائے پس کسی قائل کا یہ کہنا کہ قدیم اور ازلی ذات ایک ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ صفت ازلیت اور قدم کے ساتھ مختص ہے یہ ایک لفظ مجمل ہے اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ان صفات کی وجہ سے جو کہ اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں وہ قدیم ،ازلی ہے نہ کہ اس کی مخلوقات (یعنی وہ قدیم ازلی نہیں )تو یہ بات تو حق ہے لیکن یہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے ۔اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم ازلی وہی ذات ہے جس کے لئے کوئی صفت ثابت نہیں نہ صفتِ حیات ،نہ صفتِ علم اورنہ صفتِ قدرت اس لیے کہ اگر اس کے واسطے صفات ثابت ہوں تو وہ اس کے ساتھ صفتِ قدم میں شریک ہوں گی اور پھر وہ صفات بھی الوہیت کے ساتھ موصوف ہو جائیں گی اور یہ صفت اس رب تعالیٰ کا اسم ہے جو حی ،قدیم اور قدیر ہے اور ایسا حی ذات خارج میں ممتنع (الوجود)ہے جس کے لیے حیات ثابت نہ ہو نیز ایسی قدیر ذات بھی ممتنع ہے جس کیلئے کوئی قدرت ثابت نہ ہو جس طرح کہ اس کے اور امثال اور نظائر میں یہ ممتنع ہے ۔اور جب کوئی قائل یہ کہے کہ اس کی صفات اس کی ذات پر زائد ہیں تو مراد یہ ہے کہ وہ اس تفصیل پر زائد ہیں جس کو صفات کی نفی کرنے والے ثابت کرتے ہیں یہ نہیں کہ نفس الامر میں بھی یہ کوئی ایک ایسی ذات ہے جو صفات سے مجرد ہے اور صفات اس پر زائد ہیں اس لیے کہ یہ بات تو باطل ہے اور جس نے اہل سنت والجماعت سے یہ بات نقل کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئی اورذواتِ قدیمہ کو بھی ثابت کرتے ہیں جو اس کی قدم کے

ساتھ قدیم ہیں اور اس بات کو کہ وہ اللہ تعالیٰ اُن ذوات کی طرف محتاج ہیں پس بتحقیق اس نے اُن پر (یعنی اہل سنت والجماعت پر )جھوٹ باندھا اس لیے کہ اس مقام میں اہل نظر کے چار اقوال ہیں :۱۔صفات کا ثبوت ۲۔اور احوال کا ثبوت۳۔اور دونوں کی نفی ۴۔اور احوال کا ثبوت نہ کہ صفات کا۔[1]

[1] ابو ہاشم الجبائی ان احوال کا قائل تھا۔ شہرستانی نے الملل و النحل ۱؍۷۶ پر ان کا خلاصہ پیش کیا ہے؛ کہتا ہے: ’’ اور ابو ہاشم کے نزدیک وہ بذاتہ عالم ہے؛ یعنی اس کی دو حالتیں ہیں ۔ اور اس کی ذات کے موجود ہونے کے پیچھے یہ اس کی معلوم شدہ صفت ہے۔ اور بیشک صفت کو ذات سے جانا جاتا ہے انفرادیت سے نہیں ۔ پس اس نے یہ احوال ثابت کئے ہیں : ۱۔ نہ ہی موجود نہ ہی معدوم؛ نہ ہی معلوم نہ ہی مجہول۔ یعنی جو بھی ہو ؛ وہ اپنے حال پر ہے اور ذات کے بغیر اس کی معرفت ممکن نہیں ۔ پس پہلا قول تو ان جمہور اہل نظر کا ہے جو اللہ کیلئے صفات کو ثابت مانتے ہیں ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کی وجہ سے عالم ہے ،اپنی قدرت کے ساتھ قادر ہے اور اس کا علم بعینہ اس کی عا لمیت ہے اور اس کی قدرت بعینہ اس کی قادریت ہے۔ اور صفات کی نفی کرنے والے عقلاء جیسے کہ ابو الحسین بصری رحمہ اللہ [2]۔

[2] بعض جگہ پر غلطی سے ابو الحسن بصری لکھا گیا ہے؛ جو کہ درست نہیں ؛ وہ تابعی اور ایک معتمد عالم تھے۔ یہ ابو الحسین محمد بن علی الطیب البصری ہے۔ [لسان المیزان ۵؍ ۲۹۸ ؛ تاریخ بغداد ۳؍ ۱۰۰۔] 

اور اس کے علاوہ دیگر ،وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا حی ہونا اس کا عالم ہونا نہیں یعنی دونوں صفات کا آپس میں فرق اور جداگانہ ہیں )۔اور اس کا عالم ہونا ا س کا قادر ہونا نہیں یعنی ان میں فرق ہے۔ اسی طرح ان میں سے وہ لوگ جو اللہ کے لیے احوال کو ثابت کرتے ہیں تو یہ بعینہ ان جمہور علماء کا مذہب ہے جو صفات کو ثابت کرتے ہیں نہ کہ احوال کو[3]۔

 [3] ان کے اس عقیدہ کی خرابیان شہرستانی نے ذکر کی ہیں ۔ اس نے شیعہ کے ہاں مفہومات اور اعتبارات ؛ او رابو ہاشم کے ہاں احوال میں امتیازات اور ابو حسین کے ہاں صفات کے امتیازات ذکر کئے ہیں ۔یہ سبھی ایک ہی ڈگر پر چلتے ہیں ؛ اور سبھی ایسے مدلولات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کے خواص اور حقائق مختلف ہیں ۔ دیکھو: الملل و النحل ۲؍ ۹۔ اور ۱؍۷۷۔

لیکن جس نے (اللہ تعالیٰ کیلئے )صفات کیساتھ احوال کو بھی ثابت ماناجیسے قاضی ابوبکر ،قاضی ابو یعلیٰ اور قاضی ابوالمعالی اپنے قدیم قول کے مطابق؛ تو ان لوگوں کی طرف ان لوگوں کا ردّ متوجہ ہوتا ہے جو صفات کی نفی کرنے والے ہیں ۔

رہے وہ لوگ جو صفات اور احوال سب کی نفی کر تے ہیں ؛ جیسے ابو علی اور اس کے علاوہ دیگر معتزلہ؛ تو یہ لوگ اسماء اور احکام کے ثبوت کو تسلیم کرتے ہیں ۔مگر یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ حی ،علیم اور قدیر ہے پس اللہ کے بارے میں ان اسماء سے خبر دینا جائز ہے اور اس پر ان کا حکم لگانا بھی جائز ہے (مثلاً اللہ تعالیٰ کو حیی کہنا )۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کو اِن اسماء کے ساتھ موسوم بھی کرتے ہیں ۔اگر وہ بعض صفاتیہ سے یہ کہیں : کہ تم تو اس بات میں موافق ہو کہ بیشک اللہ تعالیٰ خالق اور عادل ہے؛ اگر اس کی ذات کے ساتھ صفتِ خلق اور عدل قائم نہیں ؛ تواسی طرح حی ؛علیم اور قدیر بھی ہے۔جواب: ان سے کہا جائے گا کہ: ان لوگوں کی تمہارے ساتھ موافقت تمہارے قول کی صحت پر دلالت نہیں کرتی ۔ سلف صالحین اور آئمہ اور جمہورِ مثبتین تمہارے مخالف ہیں ۔اور وہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اس کے افعال قائم ہیں ۔پھر یہ اسماء دلالت کرتے ہیں کہ خلق اور رزق کی صفت اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ جس طرح کہ لفظ متکلم اور مرید؛ کلام، اور ارادہ پر دلالت کرتا ہے ۔لیکن صفات کی نفی کرنے والوں نے متکلم اور مرید اور خالق اور عادل کو یوں قرار دیا کہ یہ ایسے معانی پر دلالت کرتے ہیں جو اس کی ذات سے منفصل ہیں ۔ اور حی؛ علیم اور قدیر کے متعلق کہتے ہیں کہ:یہ ایسے معانی پر دلالت نہیں کرتے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور نہ ایسے پرجو اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہیں ۔ اور وہ تمام امور جن سے رب تعالیٰ نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے یعنی اس کا کلام و مشیت ،اس کی محبت اور بغض ،اس کی رضا اور غضب ،یہ سب کے سب مخلوقات اور اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہیں ۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایسی صفات کے ساتھ موصوف قرار دیتے ہیں جو اس کی ذات سے منفصل ہیں ۔پس اس طرح وہ صریح عقل ،شریعت اور لغت کی مخالفت کرتے ہیں ۔اس لیے کہ صریح عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ صفت جب کسی محل کے ساتھ قائم ہو تو اس کا حکم اس محل کی طرف لوٹتا ہے نہ کہ غیر کی طرف۔ پس جس محل کے ساتھ حرکت ،سواداور بیاض قائم ہیں ؛ وہی محل متحرک اسود اور ابیض ہوتا ہے نہ کہ کوئی اور محل ۔اسی طرح وہ ذات جس کے ساتھ کلام ،ارادہ حب،بغض اور رضا قائم ہے وہی ذات متکلم ،مرید ،محب ،بغض رکھنے اورراضی ہونے کی صفات سے موصوف ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ذات نہیں ۔ اور جس کیساتھ کوئی صفت قائم نہ ہو تو وہ اسکے ساتھ موصوف نہیں ہوسکتا۔ پس جس ذات کے ساتھ کلام ارادہ ، حرکت ،سواد اور فعل قائم نہیں تو اس کے متعلقیہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ متکلم یا مرید یا متحرک یا وہ اسود یا فاعل ہے ۔اور رہا یہ کہ اگر کوئی ایسا معنی نہ ہو جس سے موصوف ہو سکے تو اس کو اسمائِ معانی سے موسوم بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ان لوگوں نے تو اللہ کی ذات کو حی ،عالم اور قادر کے الفاظ کے ساتھ موسوم کیا ہے؛ باوجود یکہ ان کے نزدیک اللہ کے لیے صفت ِ حیات ،یا علم اور قدرت ثابت نہیں ۔ایسے ہی اس کولفظ ’’مرید اورمتکلم کے ساتھ موسوم کیا ہے باوجود یکہ ارادہ اور کلام قائم بالغیر ہیں ؛ اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ۔ اسی طرح جو لوگ اللہ تعالیٰ کو خالق اور فاعل قرار دیتے ہیں تو ان پر یہ الزام آتا ہے کہ کیسے وہ اس کو اس کے ساتھ موسوم کرتے ہیں ؛ جبکہ ان کے نزدیک اس کیساتھ صفت ِ فعل قائم نہیں ۔پس ان کا یہ عقیدہ انہی کے قول کے جنس میں سے ہے۔ اور کتاب و سنت کے نصوص نے اللہ تعالیٰ کا ان صفات سے موصوف ہونا ثابت کیا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔ اور لغت بھی واجب کرتی ہے کہ مشتق کا صدق مشتق منہ کے صدق کو مستلزم ہے۔ پس جب (کسی ذات پر )اسم فاعل اور صفت مشبہ صادق آنے سے مسمی مصدر کا صادق ہونا واجب ہوتا ہے۔پس جب کہا جائے کہ وہ قائم ہے. اور قاعد ہے تو یہ قیام و قعود کومستلزم ہے ۔ اسی طرح جب کہا جائے کہ بیشک وہ فاعل اور خالق ہے۔ تو یہ صفتِ فعل اور خلق کو مستلزم ہے۔ اسی طرح جب کہا جائے کہ وہ متکلم اور مرید ہے؛ تو یہ کلام اور ارادے کو مستلزم ہے ۔اسی طرح جب کہا جائے کہ وہ حی ،عالم اور قادرہے تو یہ صفتِ حیات علم اور قدرت کو مستلزم ہے ۔

جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ افعال کے قیام کی نفی کی ہے ۔اور یہ کہا کہ اگر وہ صفت خلق کے ساتھ خالق ہے تو پھر اگر وہ ذات قدیم ہے تو مخلوق کا قدم بھی لازم آئے گا؛ اور اگر وہ حادث ہے تو لازم آئے گا کہ اس کے لیے کوئی خلقِ آخر بھی ہو۔تو اس سے تسلسل اور حوادث کا اس کی ذات کے ساتھ قیام لازم آئے گا ۔لوگوں نے اس کے جواب دییہیں ۔اور ایک گروہ نے تو خلق کے صفت ِ قدم کا قول اختیار کیا نہ کہ مخلوق کا۔ اور وہ صفتِ ارادہ کے ساتھ اس کا معارضہ اور مقابلہ کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں :یہ صفتِ ارادہ قدیم ہے باوجودیکہ مراد حادث ہے۔ ایسے ہی خلق کی بابت ان کا عقیدہ(صفت خلق قدیم ہے جبکہ مخلوق حادث ہے )؛ اور یہ بہت سے حنفیہ ،حنابلہ ، صوفیہ اور محدثین اور دیگر حضرات کا جواب ہے ۔

ایک گروہ نے کہا ’’بلکہ صفتِ خلق تو کسی اور خلق کی طرف محتاج نہیں ۔جیسے ان کے نزدیک ساری مخلوق خلق کی محتاج نہیں ۔پس جب ان کے نزدیک حوادث میں سے کوئی شے خلق کی محتاج نہیں ؛ تو وہ خلق جس کے سبب مخلوق عدم سے وجود میں آئے وہ صفت ِخلق کسی دوسرے خلق کی طرف بطریقِ اولیٰ محتاج نہیں ۔ اور یہ بہت سے معتزلہ ،کرامیہ اور محدثین اور صوفیہ کا جواب ہے۔ اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ صفتِ خلق اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ: وہ مخلوق کے ساتھ قائم ہیں ۔بعض اس بات کے قائل ہیں کہ یہ صفت بغیر کسی محل کے قائم ہے جس طرح کہ صفتِ ارادہ میں معتزلہ میں سے بصریین کا قول ہے اور ایک گروہ نے تو اپنے ذمہ تسلسل کا الزام لے لیا اور پھر یہ لوگ دو قسم کے ہیں :بعض ایسے معانی کے وجود کے قائل ہیں جن کے لیے آنِ واحد میں کوئی انتہا نہیں ۔یہ ابن عباد اور اس کے اصحاب کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ دھیرے دھیرے وجو د میں آتے ہیں ۔ یہ بہت سے محدثین اور اہل سنت او رآئمہ فلاسفہ کا قول ہے ۔رہا تسلسل تو بعض لوگوں نے تو اس کا التزام نہیں کیا اور اس نے کہا کہ جس طرح تمہارے ہاں ایسے حوادث ممکن ہیں جو منفصل ہوں اور ان کے لیے کوئی ابتدا نہ ہو(یعنی ازلی ہوں ) ایسے ہی اس کی ذات کیساتھ ایسے حوادث کا قیام بھی جائز ہے جن کے لیے کوئی ابتدا ء نہ ہو اور یہ بہت سے کرامیہ ،مرجئہ اور ہشامیہ کا قول ہے ۔بعضوں نے کہا ’’بلکہ تسلسل آثار میں جائز ہے نہ کہ مؤثرات میں ۔ اور انہوں نے اس بات کا التزام کیاہے کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کوئی غیر متناہی دھیرے دھیرے قائم ہو سکتا ہے ۔اور وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت سے متکلم ہیں اور اس کے کلمات (صفات )کے لیے کوئی انتہا نہیں اور یہی محدثین اور بہت سے اہل نظر کا قول ہے اور ’’اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ امور اختیاریہ کا قیام ‘‘اپنے مقام پر تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔
پس یہی معتزلہ اوران روافض کا قول ہے جو اس کے ساتھ موافق ہیں اور یہ قولِ باطل ہے اس لیے کہ الہٰ کی صفت کا خود الہٰ ہونا واجب نہیں ،جس طرح نبی کی صفت کا نبی ہونا واجب نہیں ہوتا۔ اگرچہ نبی کی صفت حادث ہونا اس کے ساتھ حدوث میں موافق ہے۔اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اس کے مثل نبی ہو ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی صفت جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہے؛ جب اس کی ذات قدیم ہے تو اس کا اس کے قدم کے ساتھ قدیم ہونا بھی لازم نہیں آتا نہ اس کے ساتھ الہٰ ہونا لازم آتا ہے ۔یہ ان لوگوں کا مذہب ایسی صفاتِ کمال کی نفی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ لازم ہیں ۔ اور ان کا وہ شبہ جس کی طرف اس نے اشارہ کیا وہ یہ ہے کہ اگر یہ صفات قدیم ہوں تو ایک سے زیادہ قدیم ذات ثابت ہو جائیں گے (ایک ذات خداوندی دوسرے اس کے صفات )جس طرح کہ ابن سینا اور ان کے امثال نے کہا ہے۔ابن سینا اور اس کے امثال فلاسفہ نے معتزلہ سے یہ بات لی ہے۔ وہ کہتے ہیں : اگرا للہ کے لیے کوئی صفتِ واجبہ ہو تو پھر واجب ایک سے زیادہ ثابت ہو جائیں گے؛یہ تو تلبیس ہے۔ اس لیے کہ اگر ان کی مرادیہ ہے کہ قدیم الہٰ یا واجب الہٰ ایک سے زیادہ ثابت ہو جائیں گے؛ تو یہ تلازم باطل ہے۔ کیونکہ الہ کی صفت سے الہ ہونا واجب نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان کی صفات سے انسان ہونا؛ نبی کی صفت سے نبی ہونا؛ اور حیوان کی صفت سے حیوان ہونا واجب ہوتا ہے۔اگر ان کی مراد یہ ہے کہ صفت کو قدم کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے جس طرح کہ موصوف کو قدم کے ساتھ متصف کیا جاتا ہے ۔تو یہ کسی قائل کے اس قول کی طرح ہے کہ حادث کی صفت کو حدوث کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ خود اس کا موصوف یعنی حادث حدوث کے ساتھ موصوف ہے۔ایسے ہی جب کہا جائے کہ اس کی صفت وجوب کے ساتھ متصف ہوتی ہے جس طرح کہ اسکی ذات وجوب کے ساتھ موصوف ہے تو مراد یہ نہیں ہے کہ وہ وجوب یا قدم یا حدوث کے ساتھ مستقلاً موصوف ہے۔ اس لیے کہ صفت تو بذاتِ خود قائم نہیں ہوتی ،نہ مستقل بذاتہ ہوتی ہے؛ لیکن (صفت کے قدم سے )مراد یہ ہے کہ وہ اپنے موصوف کے قدم اور وجوب کے ساتھ قدیم اور واجب ہے۔ اور جب واجب سے مراد ایسی ذات لی جائے جس کے لیے کوئی بھی فاعل نہ ہو اور قدیم سے مراد ایسی ذات لی جائے جس کی کوئی اول نہ ہو تو یہ بات حق ہے اس میں کوئی ممانعت نہیں ۔ اور بتحقیق اس مسئلہ پر تفصیلی کلام کئی مقامات پر ذکر کیا گیا ہے ۔علا وہ ازیں واجب جب الوجود اور قدیم کے لفظ میں ایک اجمال بھی پایا جاتا ہے اورمنکرین صفات کا شبہ بھی ۔ اس میں سے صرف اتنی مختصر بات یہاں ذکر کی گئی ہے جتنی اس مقام پر مناسب تھی اور ایک اور جگہ ہم نے یہ ذکر کیا ہے کہ لفظ ’’قدیم ‘‘اور ’’واجب الوجود ‘‘میں ایک طرح کا اجمال ہے ۔
قدیم سے مراد قائم بنفسہ ہے یا فاعلِ قدیم مراد ہے یا ربِ قدیم اوراس کے امثال تو صفت اس اعتبار سے قدیم نہیں بلکہ وہ تو قدیم کی صفت ہے اور اگر اس سے ایسی ذات مراد لی جائے جس کے لیے کوئی ابتدا (یعنی وہ ازلی ہے )نہیں اور اس پر عدم مطلقاً طاری نہیں ہوتا تو اس کی صفت بھی قدیم ہے ایسے لفظ ’’واجب الوجود ‘‘ سے مراد اگر قائم بنفسہ اور موجود بنفسہ مراد لیا جائے تو پھر صفت واجب نہیں بلکہ وہ تو واجب الوجود ہی کی صفت ہے ۔اگر وہ مراد لیا جائے جس کے لیے کوئی فاعل نہ ہو یا جس کیلئے کوئی علت فاعلہ نہ ہو تو پھر صفت واجب الوجود ہے اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ وہ ایسی ذات ہے جس کا غیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر اس اعتبار سے وجود میں کوئی بھی واجب الوجود نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ باری تعالیٰ اپنے ماسوا تمام کے لیے خالق ہے؛ پس اس کا اپنے مخلوقات کے ساتھ تعلق ہے۔ اور اس کی ذات اس کی صفات کے ساتھ لازم اور اس کی صفات کااس کی ذات کے ساتھ لزوم ہے۔ اور ان کی تمام صفاتِ لازمہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ واجب الوجود پر ممکنات دلالت کرتی ہیں ۔ اور وہ قدیم جس پر حوادث دلالت کرتے ہیں ؛یہ وہی خالق ہے اور بذات خود موجود ہے۔ اور وہی ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گا؛ اور اس پر عدم ممتنع ہے۔ اس لیے کہ رب تعالیٰ پر واجب بذاتہ کہنا اور اس کے تمام ماسوا کو ممکن کہنا یہ ارسطو اور قدمائے فلاسفہ کا قول نہیں ۔لیکن وہ اللہ تعالیٰ کو ’’مبدأ اور علت‘‘ کانام دیتے تھے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کو حرکت ِ فلکیہ کی جہت سے ثابت کرتے تھے۔ پس وہ کہتے تھے کہ فلک متحرک ہے بوجہ اس کی ذات کے ساتھ تشبہ کے۔پس ابن سینا اور اس کیہمنواؤں نے ان کے اور معتزلہ کے قول سے ایک مرکب مذہب اختیار کیا ۔پس معتزلہ نے جب کہا کہ ہرموجود قدیم اور حادث میں تقسیم ہوتاہے۔ اور بے شک قدیم کے لیے کوئی صفت ثابت نہیں ؛ تو ان لوگوں نے بھی کہا کہ یہ واجب اور ممکن کی طرف منقسم ہے اور واجب کے لیے کوئی صفت ثابت نہیں اور جب انہوں نے کہا کہ قدیم کا تعدد ممتنع ہے تو انہوں نے کہا کہ واجب کا تعدد ممتنع ہے تو گویا تعبیرات کئی ہیں لیکن مرجع اور محل ایک ہے ۔