اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ’’جسم ‘‘ کا استعمال :[اعتراض]:.... شیعہ مصنف کا قول ہے:اللہ تعالیٰ اکیلے ہیں وہ ’’ لَیْسَ بِجِسْمٍ ‘‘( مجسم نہیں )۔[جواب]:.... ہم کہتے ہیں کہ: جسم کا لفظ محتاج تشریح ہے، یہ لفظ ان معانی کے لیے مستعمل ہے:۱۔ وہ مرکب جس کے اجزاء الگ الگ ہوں اور ان کو یکجا کر دیا جائے۔۲۔ جو تفریق و انفصال کو قبول کرتا ہو۔۳۔ جو مادہ و صورت سے مرکب ہو۔۴۔ یا ان مفرد اجزاء سے مرکب ہو جنہیں جواہر مفردہ کہا جاتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ مذکورۃ الصدرجملہ امور و اوصاف سے منزہ ہے کہ وہ متفرق تھا اور پھر جمع ہوگیا ؛ یا یہ کہ وہ تفریق اور تجزی قبول کرتا ہے ؛تجزی کا مطلب ہے کہ کسی چیز کے مختلف اجزاء کو ایک دوسرے سے جدا کردیا جائے۔ اور ایسے ہی مرکب کہنا بھی اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے۔۵۔ بعض اوقات جسم سے وہ چیز مراد ہوتی ہے جس کی جانب اشارہ کیا جا سکے؛ جسے دیکھا جاسکے یا جس کے ساتھ صفات وابستہ ہوں ۔ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ ان صفات سے موصوف ہے۔ مومن بروز قیامت اسے کھلم کھلا دیکھیں گے۔علاوہ ازیں یہ صفات اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔چنانچہ دعا کرتے وقت اس کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے، آنکھ اور دل اورچہرہ سے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔اگر شیعہ یہ کہے کہ اﷲ تعالیٰ کے جسم نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ان امور سے بھی بہرہ ور نہیں ۔تو ہم کہیں گے کہ یہ امور و اوصاف نقل صحیح اور عقل صریح سے ثابت ہیں ، اور تم ان کی نفی پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے ۔ جسم کا لفظ نفی و اثبات دونوں اعتبار سے بدعت ہے۔ اس لیے کہ نصوص شرعیہ اور اقوال سلف میں لفظ جسم کے اطلاق کی نفی کی گئی ہے[1] نہ کہ اثبات کی۔
[1] جو بات غیبی امور سے تعلق رکھتی ہو اس کا ذکر نفیاً یا اثباتاً کسی طرح بھی درست نہیں ، اس کا ذکر صرف انہی الفاظ میں مناسب ہے جو منصوص اور شارع سے منقول ہوں ، اس میں سلف صالحین کی پیروی کا التزام از بس ناگزیر ہے۔ نائب السلطنت افرم کی مجلس میں بمقام دمشق ۷۰۵ھ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے معاصر علماء کے مابین جو مناظرہ ہوا تھا اس میں شیخ کے حریف علماء نے جب تشبیہ و تجسیم کی نفی کا ذکر چھیڑا تو شیخ الاسلام نے اپنے رسالہ’’العقیدۃ الواسطیہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میرا قول ’’ مِنْ غَیْرِ تَکْیِیْفٍ وَلَا تَمْثِیْلٍ ‘‘ہر باطل کی تردید کے لیے کافی ہے، میں نے تشبیہ و تمثیل کی بجائے تکییف و تمثیل کے الفاظ اس لیے انتخاب کیے کہ ’’ تکییف ‘‘ کی نفی سلف سے منقول ہے، چنانچہ امام مالک اور ابن عیینہ کا یہ مقولہ علماء کے یہاں زبان زد خاص و عام ہے: ’’اَلْاِسْتَوَائُ مَعْلُوْمٌ وَالْکَیْفُ مَجْہُوْلٌ وَالْاِیْمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ وَالسُّوَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ ‘‘(اﷲ تعالیٰ کا مستوی علی العرش ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں اس پر ایمان لانا واجب اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے) ۔ خلاصہ کلام.... شیخ الاسلام اپنی تصانیف میں نہ صرف لفظ جسم کا اطلاق کرنے سے احتراز کرتے ہیں بلکہ تجسیم کا لفظ تک تحریر نہیں کرتے۔ ذات باری کی تنزیہ کرتے ہوئے وہ ’’ من غیر تکییف ولا تمثیل ‘‘کے الفاظ ذکر کرتے ہیں جس سے ان کا مقصد شرعی اصطلاحات کا تتبع اور طریق سلف کی پیروی کرنا ہے، جو الفاظ غیبی امور سے متعلق ہوں ورود نص کے بغیر ان کا استعمال نفیاً و اثباتاً کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
اسی طرح ’’ جوہر ‘‘ اور ’’متحیّز ‘‘ کے الفاظ کا بھی نفی یا اثبات کسی بھی اعتبار سے نصوص میں کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔اہل کلام کے ہاں یہ تنازع بھی ایک بدعت ہے۔ اگر وہ یہ کہتا ہے کہ ہر وہ شے جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور اس کو دیکھا جاتا ہے اور اس کی طرف ہاتھ اٹھایا جاتاہے؛وہ تو صرف جواہرِ فردہ سے مرکب جسم ہو تا ہے ؛ یا مادہ یا صورت سے مرکب۔تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات محلِ نزاع ہے۔ اکثر عقلاء اس کی نفی کرتے ہیں اور تم نے تو کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور یہی تومنکرین صفات کیمنتہائے نظر ہے؛ اس لیے کہ منکرین صفات کے ہاں اکثر عبارات اسی کی طرف لوٹتی ہیں (یعنی ان کا حاصل یہی ہے )۔اورمثبتین صفات کیطرق اور ان کی تعبیرات ان پر رد کرنے میں مختلف ہیں ۔ان میں سے بعض نے ان کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ اس ذات کے ساتھ جو افعال اور غیر افعال میں سے امور اختیاریہ قائم ہوتے ہیں وہ صرف جسم ہی ہے اور انہوں نے ان امور میں اختلاف کیاہے؛ جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ صفات جن میں سے کوئی بھی شے مشیت اور قدرت سے متعلق نہیں ۔
بعض نے ہر دو امور میں ان کے ساتھ اختلاف کیاہے؛اور کہا کہ نہ تو یہ جسم ہے اورر نہ (دوسرا )اور بعض نے اس کا جسم ہونا تسلیم کیا ہے؛مگرنقطہئاختلاف یہ ہے کہ قدیم جسم نہیں ہو سکتا۔حقیقت ِحال تو یہ ہے کہ لفظ ’’جسم ‘‘میں لفظی اور معنوی اختلافات ہیں ۔اور لفظی اختلافات عقلی معانی میں معتبر نہیں ۔رہے معنوی اختلافات جیسے کہ لوگوں کا اُن امور میں اختلاف ہے جن کی طرف اشارۂ حسیہ کیا جاتا ہے ؛ کیا ایسے امور کے بارے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ جواہرِ فردہ سے مرکب ہوں یا مادہ اورر صور ت سے یا ان میں سے کوئی بھی واجب نہیں ؟پس معتزلہ اور اشعریہ اور ان کے اکثر موافقین اہل نظر نے تو کہا ہے کہ ایسے مشار الیہ جسم کے لیے جواہر فردہ سے مرکب ہو۔ پھر ان کے جمہور تو اس بات کے قائل ہیں کہ وہ متناہی جواہر سے مرکب ہے اور بعضو ں نے تو کہا کہ غیر متناہی جواہر سے مرکب ہے۔[1]
[1] أصول الدین لابن طاہر ۳۶۵؛ الکلیات لأبي البقاء ؛مادۃ جوہر؛ الفصل لابن حزم ۵؍۳۲۳۔بہت سے اہل نظر فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ جسم کا مادہ اور صورت سے مرکب ہونا واجب ہے۔ پھربعض فلاسفہ نے تمام اجسا م میں سے اس کو مطرد اور عام کیا ہے؛ جیسے کہ ابن سینا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ: یہ صرف اجسام عنصریہ میں سے ہے نہ کہ فلکیہ میں اور اس کا عقیدہ ہے کہ یہ ارسطو اور قدمہ کا قول ہے۔بہت سے مصنفین صرف یہی دو قول ذکر کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے صرف ان کتابوں کا مطالعہ کیاہو ؛ تو اسے صرف انہی دونوں قولوں کوپتہ ہوتا ہے ۔قولِ ثالث : جمہورِ علماء اور اکثر اہل نظر کہتے ہیں کہ وہ مرکب نہیں ۔ نہ اِس سے اور نہ اُس سے۔ اوریہ ابن کلاب ،امام اشعری ،بہت سے کرامیہ ،ہشامیہ ،نجاریہ اور ضراریہ کا قول ہے۔[2]
[2] نجاریہ : ابو عبداللہ حسین بن محمد بن عبداللہ النجار کے پیروکاروں کو کہا جاتاہے۔ اس کی تاریخ پیدائش اور وفات کا علم نہیں ہوسکا۔ البتہ ابن ندیم نے الفہرست میں ص ۷۹ پر لکھا ہے کہ: یہ اس علت کے سبب سے مرا ہے جو نظام کے ساتھ مناظرہ کے دوران اسے لاحق ہوئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نظام کا معاصر تھا؛ جو کہ ۲۳۱ ہجری میں گزرا ہے۔ شہرستانی نے اسے مجبرہ میں شمار کیا ہے ؛ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ خلق اعمال کے عقیدہ میں مثبتین کے ساتھ متفق ہے۔بلکہ کسب اعما ل کے بارے میں بھی اس کا وہی عقیدہ ہے جو بعد میں ابو الحسن اشعری کا تھا۔ دیکھو: مقالات أز اشعری ۱؍۱۹۹۔ أصول الدین لابن طاہر ص ۳۳۴۔ التبصیر فی الدین ۶۲۔ ضراریہ : ضرار بن عمرو کے اتباع کو کہا جاتا ہے۔ لسان المیزان ۳؍ ۲۰۳۔ الفہرست لابن ندیم ۸۰۔ یہ لوگ بہت سارے عقائد میں نجاریہ کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکرین ہیں ۔ اور خلق افعال العباد کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ الملل و النحل ۱؍ ۸۲۔ الفرق بین الفرق ۱۳۰۔ أصول الدین لابن طاہر ۳۹۔ مقالات الاسلامیین ۱؍ ۳۱۳۔پھر ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ جسم تقسیم کے ساتھ جزء لا یتجزأ کی طرف منتہی ہو جاتا ہے جیسے کہ شہرستانی اور ان کے علاوہ دیگر کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : وہ غیر متناہی حد تک انقسام کو قبول کرتا ہیحتی کہ وہ ایک انتہائی چھوٹا جسم ہو جائے جس کے بعض کا بعض سے تمیز مستحیل ہو ۔یعنی جدا ہونا محال ہو۔ یہ عقیدہ بعض کرامیہ کا ہے۔
اور ان کے علاوہ دیگر بعض اہل نظراہل اسلام اورکبار ائمہ فلاسفہ کا قول بھی ہے۔اس کے ساتھ ہی ان میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ وہ مادہ اور صورت سے مرکب ہے ۔بعض اہل کلام مصنفین نے جوہرِ فرد کے اثبات کو مسلمانوں کاعقیدہ قرار دیا ہے۔ اور ان کی رائے میں اس کاانکارملحدین کا عقیدہ ہے۔کیونکہ انہوں نے صرف اُن اقوال کو پہچاناہے جو ان کے اکابرین کی کتابوں میں مسلمانوں کی طرف منسوب ہیں ؛ جوکہ اہل کلام میں سے ہے ،وہ علم کلام جو کہ دین میں حادث ہے؛اور جس کی سلف اور آئمہ نے مذمت کی ہے جیسے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:‘‘جس نے علم کو کلام کے ذریعے طلب کیا وہ زندیق بنا۔‘‘[صون المنطق ؛ص ۹]اور امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے :’’کہ اہل کلام کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کو کھجور کی شاخوں اور جوتوں سے مارا جائے اور ان کو قبائل میں گھمایا جائے اور کہا جائے کہ یہ اس آدمی کی جزاہے جس نے کتاب و سنت کو چھوڑ دیا؛ اور علمِ کلام کی طرف متوجہ ہوا۔‘‘[الانتصار لأہل الحدیث لابی المظفر السمعانی ص ۱۵۰۔ ]اور جیسا کہ امام احمد ابن حنبل کا قول ہے کہ : ’’علمائے کلام زنادقہ ہیں ۔‘‘اور اسی طرح آپ کایہ ارشاد بھی ہے کہ:’’کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے علم کلام کو اپنایا ہو اور وہ کامیاب ہو گیا ہو۔‘‘[جامع بیان العلم ۲؍۹۵] اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ ورنہ تو یہ قول کہ’’ اجسام جواہر فردہ سے مرکب ہیں ‘‘ ایسا قول ہے کہ آئمہ مسلمین میں سے کسی سے بھی صحیح سند کے ساتھ منقول نہیں ۔ نہ صحابہ اور تابعین میں سے کسی کایہ عقیدہ رہا ہے۔ اور نہ ان کے بعد آئمہ معروفین میں سے کسی کا۔ بلکہ اس قول کے قائلین تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جواہرِ فردہ کے پیدا کرنے کے وقت سے کسی ایسی شے کو پیدا نہیں کیا جو قائم بنفسہ ہو ؛نہ آسمان میں ،نہ زمین میں ،نہ کوئی حیوان ،نہ کوئی نبات ،نہ معادن ،نہ انسان ،نہ غیر انسان۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان جواہرِ قدیمہ کے ترکیب کو پیدا فرماتے ہیں ،ان کو پھر جمع کرتے ہیں اور الگ کرتے ہیں ۔ پس وہ ایسے اعراض کو پیدا فرما دیتے ہیں جو ان جواہر کے ساتھ قائم ہوتے ہیں نہ کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ خود قائم بنفسہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب بادل ،بارش اور انسان کو پیدا فرمایا اور ان کے علاوہ حیوانات اشجار،نبات اور پھلوں کو بھی پیدا کیا ؛تو اس نے ایک بھی ایسی چیز پیدا نہیں کی جو قائم بنفسہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے اعراض کوپیدا فرمایا جو قائم بالغیر تھے ۔یہ عقیدہ عقل ونقل اور مشاہدہ کے خلاف ہے۔ ایسے جواہر کا وجود جو تقسیم کو قبول نہیں کرتے درحالیکہ وہ اجسام سے منفرد اور جدا ہوتے ہیں ؛ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا بطلان عقل اور حس سے واضح ہے۔ چہ جائے کہ اللہ تعالیٰ نے سوائے اس کے کوئی ایسی چیز پیدا نہ فرمائی ہوجو قائم بنفسہ ہو۔ اور یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ اجسام میں سے بعض کادوسرے بعض کی طرف ان کا استحالہ [ادغام ]نہیں ہوتا[ یعنی ایک دوسرے کی شکل اختیار نہیں کرتے] بلکہ وہ جواہر جو زمانہ اول میں تھے؛ وہ بعینہ دوسرے زمانہ میں باقی رہتے ہیں ۔تبدیلی تو صرف ان کے اعراض میں آتی ہے۔اور وہ بدل جاتے ہیں ۔ان کا یہ عقیدہ ائمہ دین اور دیگر اہل خردو دانش کی متفق علیہ [اجماعی] رائے کے خلاف ہے؛یہ حضرات کہتے ہیں : بعض اجسام کا دوسرے بعض کی طرف استحالہ اور انتقال (یعنی ان میں تبدیل ہونا )یہ ممکن ہے ۔جیسے انسان اور اس کے علاوہ دیگر حیوانات کا موت کے ذریعے مٹی میں تبدیل ہونا ۔اس طرح خون ، میت ،خنزیر اور اس کے علاوہ دوسرے اجسامِ نجسہ کا نمک ؛ خاک یا راکھ بن جانا۔ اس طرح گندگی اور مینگنی کا مٹی بن جانا۔ اور انگور کے رس کا شراب بن جانا اور شراب کا سرکہ بن جانا اور جو اشیاء انسان کھانا پیتا ہے اس کا بول وبرازاورخون میں تبدیل ہونا اورا س طرح کی دیگر مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔اوردرحقیقت علمائے مسلمین نے نجاست کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کیا وہ تحلیل ہونیسے صاف ہو جاتی ہے یا نہیں ؟اور ان میں سے کسی نے بھی تحلیل کا انکار نہیں کیا۔جوہرِ فرد کے مثبتین نے اس سے مزید ایسے اقوال اور مسائل نکالے ہیں جن کا فساد بدیہی عقل سے معلوم ہے؛ اور ان کو تفصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ۔ مثال کے طور پر چکی اور اسی طرح آسمان اور دیگر وہ اجسام جو گول ہیں اور متحرک ہیں ان کی گردش[1][1] متکلمین کی اس سوچ کی شرح رازی نے اپنی کتاب ’’الاربعین فی اصول الدین ‘ ص ۲۶۲ ‘پر کی ہے۔اور ان میں سے بعض کہتے ہیں : فاعلِ مختارجب بھی متحرک ہوتا ہے؛ اس سے فعل کا صدور ہوتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے کہتے ہیں کہ:’’ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے تمام جواہر باقی رہتے ہیں صرف ان میں تفرق اور جدائی آجاتی ہے۔ پھر اعادہ کے وقت اللہ تعالیٰ ان کو جمع کر دیتے ہیں اسی وجہ سے ان کے ماہرین ائمہ میں بہت سوں نے اس امر میں بالآخر توقف کی طرف رجوع کیا جیسے ابو الحسین بصری اور ابو المعالی جوینی ،ابو عبد اللہ رازی ،ابن عقیل ،غزالی اور ان کے امثال؛ جو کہ اہل نظر میں سے ہیں ۔ جن کے سامنے ان فلاسفہ کے اقوال کا فساد واضح ہوا تو وہ ان کے اقوال کی مذمت کرتے تھے۔ اور پھر وہ یہ فرماتے تھے کہ ان کے اقوال کا خلاصہ صرف شک ہی ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے بہت سی مصنفات میں ان کی بہت سے اُن امور اورخودساختہ اور باطل عقائد پرموافقت کی ہے جن کے وہ قائل تھے۔[2] [2] [ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے؛ جس کا نام ہے:’’ ابطال قول الفلاسفہ بإثبات الجواہر العقلیۃ ‘‘ابن عبد الہادی نے اپنی کتاب ’’العقود الدریۃ من مناقب شیخ الاسلام ابن تیمیہ ‘‘ ص ۳۶ پر اس کا ذکرکیا ہے۔ اور ابن قیم نے مؤلفات ابن تیمیہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ کتاب فالحال مفقود ہے۔]ان لوگوں کے قول کے فساد پر تفصیلی کلام ہو چکا ہے جو جواہرِ مفردہ کے ترکیب کے قائل ہیں یا جواہرِ معقولہ کے قائل ہیں ۔اسی طرح [فرقہ ] مشائین جو جواہرِعقلیہ کا اثبات کرتے ہیں جیسے کہ عقول اور نفوسِ مجردہ؛ مثلاً مادہ اور مدت؛اورجیسے افلاطونی مثالیں اور اعدادِ مجردہ جس کو بہت سے مشائین ثابت کرتے ہیں جو کہ فیثا غورث ، افلاطون اور ارسطو کے اتباع ہیں لیکن جب حقیقت حال کو دیکھا جاتا ہے تو جس چیز کو انہوں نے ثابت کیا ہے ان کے لیے وجودِ ذہنی کے سواعقلیات میں کوئی اور وجود ہی نہیں ۔ اعیان اور محسوسات میں ان کے لیے کوئی وجود نہیں ہے اور اس کو تفصیل سے بیان کرنے کا ایک اور مقام ہے ۔اور اس مصنف نے اپنے قول کے تائید کے لیے محض دعوے کے سوا اورکوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ اس وجہ سے ہم نے اس میں تفصیل سے بات نہیں کی۔بے شک تو مقصود تو یہاں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہمنکرین صفات ؛ جو کتاب و سنت اور اجماع سلف بلکہ فطرتِ عقلیہ سے بھی ثابت ہیں ؛ جن میں تمام فطرتوں کے لوگ مشترک ہیں ؛ جن کی فطرت ان اقوالِ فاسدہ کے سبب خراب نہیں ہوئی؛جو ان لوگوں نے دوسروں سے حاصل کئے بلکہ عقلی دلائل سے بھی ثابت ہے؛ لیکن یہ لوگ ان کا انکار کرتے ہیں ۔پس وہ آخری امر جس کی طرف ان کی اصل اور بنیاد لوٹتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی ذات اگر صفات کے ساتھ متصف ہو یا ایک ایسے کلام کے ساتھ متکلم ہو جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو یا وہ ایساارادہ حسیہ کرنے والا ہو جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہو؛ اور اس کی رؤیت دنیا و آخرت میں ممکن ہو؛ تو پھر یہ اس امر کو مستلزم ہے کہ اس کی ذات جواہرِ فردہ سے مرکب ہو۔ ایسے جواہرِ فردہ جو محسوسات میں نظر آتے ہوں یا جواہرِ عقلیہ یعنی مادہ اور صورت اور جمہور عقلا ء کے نزدیک تلازم باطل ہے۔ اس لیے کہ لوگ تو کواکب اور اس کے علاوہ دیگر اجسام کو دیکھتے ہیں اور وہ جمہور عقلاء کے نزدیک نہ تو اِس سے مرکب ہے اور نہ اُس سے یعنی جواہرِفردہ سے مرکب ہے نہ جواہر عقلیہ سے اور اگر تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیا جائے کہ یہ تلازم برحق ہے تو ان کے تمام دلائلمیں کوئی ایسی صحیح حجت نہیں جس کا انکار اس لزوم کا موجب ہو۔ بلکہ ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک دوسرے فریق کو دلائل میں طعن و تشنیع کرتا ہے اور اس کے فساد کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک فریق تو یہ کہتا ہے کہ ہر وہ شے جو اس طرح ہو وہ حادث ہوتی ہے۔ اور ان کے مخالفین دونوں مقدمات کو طعن اور اعتراض کا نشانہ بناتے ہیں ؛ اور دونوں کے فساد کو بیان کرتے ہیں ۔اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ ہر مرکب اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔ اور اس کے اجزء اس کی ذات کے غیر ہوتے ہیں ۔ پس ہر مرکب غیر کی طرف محتاج ہے۔ اور ان کے مخالفین اس حجت کے فساد کو ثابت کرتے ہیں ۔اور اس کے اندر جو الفاظِ مجملہ اور معانی متشابہ ہیں اس کے فساد کو بھی ثابت کرتے ہیں جس طرح کہ کسی اور مقام پر اس کو تفصیل سے بیان کیا گیاہے اسی وجہ سے وہ عقلاً جو ان دونوں فریقین کے قول کے حقیقت کو اچھے طریقے سے جاننے والے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ واحد جس کو یہ ثابت کرتے ہیں وہ تو صرف وجودِ ذہنی رکھتا ہے وجودِ خارجی یا حسی نہیں رکھتا۔یہی وجہ ہے کہ جب دہری فلاسفہ نے اپنے اس قول پر کہ ’’ایک فرد سے ایک ہی صادر ہو سکتا ہے ‘‘ بنیاد رکھی تو سب سے پہلے وہ بات جس سے ان کے قول کو فساد کو بیان کیاگیا وہ یہ ہے کہ وہ واحد جس کے بارے میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں تو ایسے واحد کے لیے خارج میں کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ اس کا وجود ممتنع ہے اور اس کو تو صرف ذہنوں میں فرض کیا جا سکتا ہے جس طرح کہ باقی ممتنعات کو فرض کیا جا سکتا ہے ۔ایسے ہی جہمیہ اور معتزلہ جو صفات کی نفی کرنے والے ہیں جب انہوں نے ایک ایسے واحد ذات کو ثابت کیا جوکسی بھی صفت کے ساتھ متصف نہ ہو تو یہ آئمہ علم کے نزدیک جو ان کے قول کی حقیقت کو جانتے ہیں تو ان کے نزدیک اُن کی توحید تعطیل (سے عبارت )ہے جو مستلزم ہے خالق کی ذات کی نفی کو اگرچہ انہوں نے اس کو ثابت کر دیا ہے لیکن وہ اپنے اقوال میں متناقض ہیں انہوں نے ایسے امور کو جمع کر دیا ہے جو اس کی نفی اور اثبات دونوں کو مستلزم ہیں ۔اس لیے آئمہ اسلام نے اس کو تعطیل کے ساتھ موصوف کیا ہے اور یہ کہ یہ لوگ تدلیس (حق وباطل میں خلط ملط کرنے والے )کرنے والے ہیں اور یہ کسی بھی شے کو ثابت نہیں کرتے اور نہ کسی شے کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے امثال جس طرح کہ آئمہ اہل اسلام میں سے بہت سوں کے کلا م میں یہ بات موجود ہے جیسے عبد العزیز بن الماجشون [1] [1] عبد العزیز بن عبداللہ ؛ بن ابی سلمہ ؛ ابو عبداللہ الماجشون؛ بہت بڑي فقیہ اور ائمہ محدثین میں سے ایک تھے۔ ۱۶۴ ہجری میں بغداد میں انتقال ہوا۔ تہذیب التہذیب ۶؍ ۳۴۳۔ تذکرۃ الحفاظ ۱؍۲۰۷۔ شذرات الذہب ۱؍ ۲۵۹۔
،عبد اللہ بن مبارک ،حماد بن زید ،محمد بن الحسن ،احمد بن حنبل رحمہم اللہ اور اسکے علاوہ بہت سے دیگرعلمائے کرام. اور ہر دعویٰ کے لیے کسی دلیل کا ہونا ضروری ہے. رافضی کے اس قول پر تعلیق کہ’’ ولا فی مکان ‘‘:[اعتراض]:.... شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ لَا فِی مکان‘‘ (اﷲ تعالیٰ مکان میں محدود نہیں ) [جواب]:.... لفظ مکان دو معانی کے لیے مستعمل ہے: ۱۔ مکان وہ چیز ہے جو کسی پر حاوی و محیط ہو اور وہ چیز اس کی محتاج ہو۔۲۔ لفظ مکان کا اطلاق بعض اوقات مافوق العالم پر بھی کیا جاتا ہے، خواہ وہ موجود بھی نہ ہو۔لفظ مکان سے اگر پہلا مفہوم مراد لیا جائے؛ کہ غیرنے اس کا گھیراؤ کر رکھاہے؛ اور وہ غیر کا محتاج ہے؛ تو ذات باری تعالیٰ اس سے منزہ ہے۔اسے نہ ہی کسی کی کوئی ضرورت ہے؛ اور نہ ہی کوئی اس کا احاطہ کرسکتا ہے۔البتہ دوسرے معنی کے اعتبار سے اﷲپر لفظ مکان کا اطلاق کر سکتے ہیں اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ تمام عالم سے اوپر ہے۔اس لیے کہ جب اس کائنات ارضی میں خالق و مخلوق کے سوا کوئی موجود ہی نہیں تو خالق کا مخلوق سے الگ ہونا ضروری ہے۔پس اﷲ کی ذات ظاہر ہے اور اس سے کوئی چیزاوپر نہیں ، وہ آسمان و زمین کے اوپر ہے، اور مخلوقات سے جدا ہے، [جیسا کہ کتاب و سنت سے مستفاد ہوتا ہے]۔
جب کہنے والا یہ کہتا ہے کہ : اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے عرش پر آسمانوں کے اوپر اور اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ تو معنی حق اور درست ہے ؛ بھلے آپ اس کو مکان کا نام دیں یا نہ دیں ۔جب مقصود کی معرفت حاصل ہوگئی تو پتہ چلا کہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب وہ ہے جس پر کتاب و سنت کے دلائل موجود ہیں اور جس پر امت کے سلف صالحین قائم تھے؛ وہ صحیح منقول اور صریح معقول کے موافق ہے۔