Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

معتزلہ اورروافض کی دلیل پر رد:

  امام ابنِ تیمیہؒ

معتزلہ اورروافض کی دلیل پر رد: [اعتراض]:.... شیعہ کا یہ قول کہ: ’’ وَاِلَّا لَکَانَ مُحْدَثًا ‘‘(ورنہ اس کا حادث ہونا لازم آئے گا) مطلب یہ ہے کہ اﷲ کو جسم یا مکان میں محدود تسلیم کرنے سے اس کا حادث ہونا لازم آتا [جواب] :.... ہم اس سے پہلے جسم اور مکان کے معنی کی نفی پر سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں ۔ اور یہ بھی بیان کرچکے ہیں جس چیز کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ اگرچہ بعض لوگ جسم اور مکان کانام بھی دیتے ہوں ۔ ہم اس کے قائل سے دریافت کرتے ہیں کہ اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ اگر ایسے ہوا تو اس کا حادث ہونا لازم آئے گا....؟آپ نے اس پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ گویا تم نے اپنے اسلاف اورمعتزلہ علماء کی اس دلیل پر اکتفا کیا ہے کہ اگر اﷲتعالیٰ جسم ہوگا، تو وہ حرکت و سکون سے خالی نہ ہوگا (ظاہر ہے کہ حرکت و سکون حادث ہیں ) اور جو حوادث سے خالی نہ ہو وہ خود حادث ہوتا ہے، کیونکہ ایسا کوئی حادث نہیں جس کے پہلے کوئی دوسرا حادث نہ ہو۔[حوادث کی کوئی ابتداء نہیں ہوتی]۔معتزلہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر صفات علم و قدرت اور حیات و کلام کا قیام ذات باری کے ساتھ تسلیم کیا جائے تو اس سے اس کا جسم[حادث] ہونا لازم آئے گا۔ اس دلیل کے دو جواب ہیں ۔ پہلا جواب: تم اﷲ تعالیٰ کو حي اور علیم و قدیر قرار دیتے ہو اور اس کے باوصف تمہارے نزدیک اس کا مجسم ہونا لازم نہیں آتا۔ حالانکہ جو حیّ اور عالم و قادر ہو وہ تمہارے نزدیک جسم ہوتا ہے۔ اگر تمہاری بات کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ ممکن ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ صفت علم قدرت اور حیات سے موصوف ہو وہ اس خاک دان ارضی سے مبائن اور اس کے اوپر ہو اور اس کے باوصف جسمانیت سے پاک ہو۔ اگر شیعہ یہ کہے کہ: جو مخلوقات سے جدا اور عالم ارضی کے اوپر ہو اس کا مجسم ہونا ضروری ہے۔‘‘ تو ہم کہتے ہیں کہ: علیم و قدیر اور حیّ کا تعقل بھی جسمانیت کے بغیر ممکن نہیں ۔ اور اگر یہ ممکن ہو کہ ان اسماء کا مسمیٰ جسم نہ ہو؛ تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ان صفات سے متصف جسمانیت سے پاک ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر آپ کی دلیل میں بھی کوئی وزن نہیں ۔ اس لیے کہ اسم صفت کو مستلزم ہوتا ہے۔اور ایسے ہی اگر وہ یہ کہے کہ اگر وہ عالم کے اوپرہے تو پھر وہ جسم ہے پھر اس کے کئی احوال ہیں یا تو یہ وہ عالم سے اکبر ہوگا یا اصغر ہوگا یا مساوی ہوگا اور یہ سب کے سب ممتنع ہیں ۔تو اس کاجواب یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ عالم سے اوپر اور بالا ہے۔ اور پھر بھی وہ جسم نہیں ۔پھر اگر وہ نفی کرنے والے یہ کہیں کہ ان لوگوں کے قول کا فساد نری عقل سے معلوم ہے۔تو جواب میں کہا جا سکتا ہے : تمہارا عقیدہ ہے کہ وہ موجود ،قائم بنفسہ ہے اور وہ عالم میں داخل نہیں ہے۔ اور نہ خارج ہے اور نہ اس کے مبائن ؛ اور نہ عالم میں سے کوئی شے اس کے قریب ہے اور نہ اس سے بعید ہے ۔ اور نہ اس کی طرف اوپر جا سکتی ہے اور نہ اس سے نیچے کوئی شے آسکتی ہے۔ اور اس کے امثال نفی کی وہ تعبیرات جن کو اگرکسی فطرت سلیمہ والے پر پیش کیا جائے تو ہ قطعیت کے ساتھ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ یہ سب کچھ باطل ہے اور ان جیسے امور ممتنع ہیں اور فطرتِ سلیمہ کا ان امور کے بطلان پر جزم اور یقین اللہ تعالیٰ کے عالم کے فوق ہونے اوراس سے جسمیت کی نفی کے بطلان سے بھی زیادہ اقویٰ ہے۔ اگر فطرتِ سلیمہ کا فیصلہ قبول ہے تو پھر تو تیرے مذہب کا بطلان بھی واجب ہے پس یہ امر لازم آیاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات عالم سے فوق ہے اور اگر فطرتِ سلیمہ کا فیصلہ مردود ہے توپھر تیرا اس شخص کے قول کو رد کرنا بھی باطل ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ کی ذات عالم سے اوپر ہے ،وہ جسم نہیں اس لیے کہ اس امر کے امتناع کا فیصلہ کرنے والی فطرت بعینہ اس دوسرے امر کے امتناع کا بھی فیصلہ کر رہی ہے پس فطرت سلیمہ کا فیصلہ دو امور میں سے ایک کے بارے میں قبول کرنا اور دوسرے کو رد کرنا یہ ممتنع ہو۔
تو ان میں (اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات معاد اور حشر و نشر کی آیات ونصوص)بطریقِ اولیٰ جائز نہیں اور یہ امور ایک اور مقام پر تفصیلا بیان ہو چکے ہیں ۔دوسراجواب :.... ان کو کہا جائے کہ اس دلیل کی کمزوری معلوم ہے اس لیے کہ جب یہ ایک حادث دائم نہیں اور یہ دوسرا حادث بھی دائم اور باقی نہیں تو یہ بات واجب ٹھہری کہ نوعِ حوادث کے لیے بھی دوام اور بقا ثابت نہ ہو جس طرح کہ جب یہ ایک خاص حادث مشار الیہ کے لیے بقا ء ثابت نہیں ہے اور اس دوسرے حادث کے لیے بھی بقا کی صفت حاصل نہیں تو یہ واجب ہے کہ نوعِ حوادث کے لیے بھی بقا نہ ہو بلکہ ان کے لیے مستقبل کے اعتبا ر سے بقا ء اور دوام ثابت ہے اور کتاب و سنت اور جماعت سلف اور جمہور کے نصوص سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا﴾(سورۃ رعد ۳۵ )’’ان کا پھل بھی دائمی ہے اور سایہ بھی۔‘‘اور مراد یہاں پر دوامِ نوع ہے نہ کہ ہر ہر فرد کا دوام ۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ لَّھُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ﴾ ( توبہ: ۲۱)’’جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے۔‘‘اور صفتِ دوام کے ساتھ متصف اس (مقیم )کا نوع ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ إِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہُ مِن نَّفَادٍ ﴾( ص ۵۴ )’’بلاشبہ یقیناً یہ ہمارا رزق ہے، جس کے لیے کسی صورت ختم ہونا نہیں ہے۔‘‘تو مراد یہ ہے کہ اس کا نوع ختم نہیں ہوگا اگرچہ اس کا ہر ہر جزء تو ختم ہو جائے گا؛قصہ تمام ہو جائے گا۔اور مزیدبرآں یہ بات تو بغیر کسی سبب کے حوادث کے پیدا ہونے کو مستلزم ہے؛جو کہ صریح عقل کے اعتبار سے ممتنع ہے۔ اور یہ دلیل اس کلام کی اصل اور بنیاد ہے کہ جس کی سلف نے مذمت کی ہے اور اس پر عیب لگایا ہے ۔ کیونکہ وہ اس کو ایسا باطل سمجھتے ہیں جونہ کسی حق کو ثابت کر سکتاہے اورنہ ہی کسی باطل کو منہدم کر سکتا ہے۔اور اس پر مسئلہ حدوث میں کلام گزر چکا ہے۔اور اس مسئلہ کی پوری وضاحت یوں ہے کہ:
پانچویں وجہ:.... ہم کہتے ہیں :’’ لوگوں پر اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا واجب ہے۔اور انہوں نے جن امور کی خبر دی ہے اس میں ان کی تصدیق کرنا؛ اور جو حکم دیا ہے اس کی اطاعت کرنا؛ یہ سعادت کی بنیاد اورجامع ہے۔ اور سارا قرآن اس اصل کوتاکید کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :﴿الم (1)ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (2)الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنفِقُونَ (3)والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ھُمْ یُوقِنُونَ(4)أُوْلَـئِکَ عَلَی ھُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلَـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ( بقرۃ۱ تا ۵)’’الٓمٓ۔ یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں ، بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں ۔اور وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں ۔یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے بڑی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ پورے کامیاب ہیں ۔‘‘پس تحقیق اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں مومنوں کو ہدایت اور فلاح کے ساتھ موصوف کیاہے اور اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے نیچے اتارا تو فرمایا:﴿ قَالَ اھْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعاً بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمٰیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمٰی وَقَدْ کُنتُ بَصِیْراًo قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ اٰیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنسٰی﴾ ( طٰہٰ ۱۲۳ تا ۱۲۶)’’فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہے، پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔ اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔وہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔‘‘
پس بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ جس نے سیدھی راہ کی اتباع کی وہ سیدھی راہ جو ہم تک آتی ہے اور یہ وہی راستہ ہے جس کو رسول لے کر آئے تو وہ گمراہ نہیں ہوگا اور نہ بد ببخت ہوگا اور جس نے اس کے ذکر سے اعراض کیا اور ذکر وہی ہے جس کو اللہ نے نازل کیا اور وہ اللہ کی وہ کتابیں ہیں جو رسولوں کو دے کر اللہ نے انہیں بھیجا اس دلیل پر کہ پھر اللہ نے یہ فرمایا:﴿ قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ اٰیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنسٰی﴾ ( طٰہٰ ۱۲۶)’’ فرمایا: یونہی تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائیگا۔‘‘ذکر مصدر ہے جو کبھی فاعل کی طرف اور کبھی مفعول کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ جس طرح کہ کہا جاتا ہے کہ’’دق الثوب ‘‘ اور دق القصار۔‘‘اورکہا جاتا ہے: أکل ُزید ؛ اور’’أکلُ طعام۔‘‘ اس طرح کہا جاتا ہے :’’ذکر اللہ۔‘‘یعنی بندے کا اللہ کا ذکر کرنا(یعنی مصدر مبنی للمفعول )۔اور کہا جاتا ہے کہ:’’ ذکر اللہ‘‘ یعنی اللہ کا وہ ذکر جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کا ذکر اور اس کی یاد ہے (یعنی مصدر مبنی للفاعل )۔ اور جیسے کہ وہ قرآن جو اللہ ہی کا ذکر ہے اور کبھی ذکر کی اضافت ایسی ہوتی ہے جس طرح کہ اسمائے محضہ کی اضافت پس آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’ذکری‘‘اگر اس کی اضافت مصادر کے اضافت کی طرح ہو تو پھر معنی یہ ہوگا کہ وہ ذکر جو میں نے کیا ہے اور وہ اس کا کلام ہے جو اس نے نازل کیا ہے اور اگر اس کی اضافت اسمائے محضہ کے اضافت کی طرح ہو تو پھر اللہ کا ذکر وہی ہے جو اس کے ساتھ خاص ہے یعنی ذکر میں سے اورقرآن وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ وَھٰذَا ذِکْرٌ مُّبَارَکٌ أَنزَلْنَاہُ ﴾( انبیاء :۵۰)’’اور یہ ایک با برکت نصیحت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔‘‘نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ مَا یَأْتِیْہِم مِّن ذِکْرٍ مَّن رَّبِّہِم مُّحْدَثٍ ﴾( انبیاء: ۲) ’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو تازہ دم ہو۔‘‘اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿إِنْ ھُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِیْنٌ ﴾( یسٰین :۶۹ )’’بیشک وہ ذکر اور قرآن مبین ہے۔‘‘ایسے ہی سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ﴾( نحل :۴۴ )
’’ اورہم نے آپ کی طرف یہ نصیحت اتاری، تاکہ تو لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دے جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے۔‘‘اور سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُواْ بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِیَ أُنزِلَ مَعَہٗ أُوْلٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾(اعراف :۵۷ )’’ سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘اور سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ الَرٰ کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ﴾(ابراہیم :۱)’’الٓرٰ ۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کی، تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں ، ان کے رب کے اذن سے، اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بے حد تعریف والا ہے۔‘‘اور قرآن میں اس کے نظائر بہت ہیں ۔