صفات الٰہی کی نفی پر فلاسفہ کی بڑی دلیل : ترکیب کا عقیدہ:اللہ تعالیٰ کی ذات سے صفات کی نفی پر فلاسفہ کی بڑی دلیل جو کہ’’ حجت ِ ترکیب ‘‘کہلاتی ہے ۔ابن سینا اور اس کے امثال کی بڑی دلیل اللہ کے صفات کی نفی پر حجت ترکیب ہے؛یعنی اگر اللہ کے لیے کوئی صفت ثابت ہو جائے تو پھر اللہ کی ذات مرکب ہو گی۔ اور مرکب اپنے أجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور اس کے أجزاء اس کے غیر ہوتے ہیں ۔ اور غیر کی طرف محتاج ہونے والی ذات واجب بنفسہ نہیں بن سکتی۔لوگوں نے اس حجت کے ابطال پر کئی طرح سے کلام کیا ہے۔کیونکہ لفظِ ’’ترکیب ‘‘اور لفظ ’’جزء ‘‘اس طرح لفظ ’’افتقار ‘‘اور لفظِ ’’غیر ‘‘یہ تمام الفاظ مجمل ہیں ۔ [یعنی ان کے مفہوم کے اندر کئی معانی کی تاویل کی گنجائش ہے]۔پس مرکب سے وہ چیز مراد لی جاتی ہے جو غیر نے ترکیب دی ہو اور پہلے متفرق تھی ؛پھر وہ جمع ہوگئی ۔اور ایسے ہی وہ چیز بھی اس کا مصداق ہے ’’جو تفریق کو قبول کرتی ہو ‘‘یہ ساری تفاسیر کی گئیں ہیں اور بالاتفاق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان تمام معانی کے اعتبار سے مرکب کے مصداق ہونے سے منزہ ہیں ۔رہی وہ ذات جو ایسی صفات کیساتھ موصوف ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں ؛ پس اگر اس کو کوئی ترکیب کہہ دے تو یہ اس کی خاص اصطلاح ہو گی کہ؛ یہ لفظ ’’مرکب ‘‘کا عام مفہوم اور مصداق نہیں ہوگا۔جب عقلی معانی میں بحث ہوتی ہے تو اس میں الفاظ کو نہیں دیکھا جاتا۔ پس ان سے یہ کہا جائے گا کہ فرض کر لیں کہ تم نے اس کو ترکیب کہہ دیا ؛ تو اس کی نفی پر تو تمہارے ہاں کوئی دلیل نہیں ۔ ان کے ساتھ امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نے ’’تھافت ‘‘میں مناظرہ کیا تھا؛ [اور دلیل کے ساتھ مقابلہ کیا ہے] ۔ایسے ہی لفظِ ’’جزء ‘‘ سے کسی مرکب چیزکا بعض حصہ بھی مراد لیا جاتا ہے؛ جیسے کہ نباتات اور أطعمہ [کھانے ] اور مبانی[عمارتوں ] ؛وغیرہ کے اجزاء ۔ اور وہ بعض جسے’’ کل‘‘ سے جداکرنا ممکن ہو؛ تو اسے بھی جزء کہا جاتا ہے ۔ جیسے انسان کے اعضاء اس کا جزء ہیں ۔ اور اس سے کسی چیز کی صفت ِ لازمہ بھی مراد لی جاتی ہے؛ جیسے حیوان کے لیے حیوانیت ، انسان کے لیے انسانیت اور ناطق کے لیے ناطقیت۔ اور اس لفظ سے وہ بعض بھی مراد لیا جاتا ہے جس کی مزید تفریق ممکن نہیں ہوتی ؛جیسے جسم کاوہ جزء جسے جدا کرنا ممکن نہ ہو؛ خواہ وہ جوہرِ فرد ہو یا مادہ اور صورت ہو۔اس کے قائلین کے نزدیک یہ جزء نہیں پایا جا سکتا؛ مگر کسی جسم کے وجودکے ساتھ۔[ یعنی جب جسم پایا جائے گا تو جزء پایا جائے گا]۔بے شک لوگوں کا جسم کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا وہ مادہ اور صورت سے مرکب ہے یا جواہرِ فردہ سے مرکب ہے؟ یا نہ اِس سے اور نہ اُس سے مرکب ہے؟ تین اقوال ہیں ۔ اکثر عقلاء نے تو تیسرا قول اختیا رکیا ہے ۔ جیسے ہشامیہ ،نجاریہ ،زراریہ ،کلابیہ اور اشعریہ اور بہت سے کرامیہ اور بہت سے فقہاء محدثین اور صوفیاء اور فلاسفہ وغیرہ ۔ اوریہاں پر مقصود یہ ہے کہ اصطلاحات کے حساب سے لفظ جزء کے بہت سے معانی ہیں ۔ایسے ہی لفظ ’’غیر ‘‘ہے اس سے مراد وہ چیز بھی لی جاتی ہے جو دوسری چیز سے جدا ہو۔ پس موصوف کی صفت اور اس کا جزء؛ اس اصطلاح کے اعتبار پر اس کا غیر نہیں۔ اور یہ نظریہ کلابیہ اور اشعریہ پر غالب ہے۔ اور بہت سے محدثین اور صوفیاء اور آئمہ اربعہ کے اتباع فقہاء کے نزدیک؛اور بہت سے روافض کے نزدیک؛ وہ بسا اوقات کہتے ہیں کہ:’’ دو غیر کا مصداق یہ ہے؛ کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوسکتے ہوں ؛ خواہ زمانہ کے اعتبار سے ایسا ہو ،یا مکان یا وجود کے اعتبار سے مفارقت اور جدائی ممکن ہو۔ یہی معتزلہ ،کرامیہ اور ان کے موافقین جو شیعہ اور فلاسفہ میں سے ہیں ان کی غالب اصطلاح ہے۔ایسے ہی لفظ ’’افتقار ‘‘ہے کہ اس سے مراد تلازم لیا جاتا ہے۔ اور اس سے معلول کا علتِ فاعلہ کی طرف احتیاج بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اور یہ ان فلاسفہ کی اصطلاح ہے جو لفظ علت کو علتِ فاعلیہ، غائیہ ،مادیہ اور صورت میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’ مادہ۔ جو قبول کرنے والا ہے ۔ اور صورت ؛ یہ دونوں ماہیت کے لیے علت ہیں ۔ اور فاعل اور غایت یہ دونوں حقیقت کے لیے وجود ہیں اور رہے باقی اہل نظر تو وہ اس محل کو علت نہیں کہتے جو قبول کرنے والا ہے ۔