Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

منکرین صفات فلاسفہ اور ان کے موافقین کے دلائل پر بحث:

  امام ابنِ تیمیہؒ

منکرین صفات فلاسفہ اور ان کے موافقین کے دلائل پر بحث:اس حجت پر مناقشہ جس سے فلاسفہ اور اُن کے موافقین نے صفات کی نفی پر استدلال کیا ہے۔[اعتراض ]: جس دلیل سے فلاسفہ اور ان کے موافقین نے صفات کی نفی پر استدلال کیا ہے یہ چند مجمل الفاظ سے مرکب ہے۔جب وہ کہتے ہیں کہ: اگر اللہ تعالیٰ کی ذات علم ،قدرت اور اس جیسی صفاتِ کمال سے موصوف ہے تووہ مرکب ٹھہرا۔ مرکب تو جزء کا محتاج ہوتاہے۔ اور ہر چیز کاجزء اس کا غیرہوتا ہے۔ اور غیر کی طرف محتاج واجب بنفسہ نہیں بن سکتا ۔[ جواب ]: یہ کہا جائے گا کہ تمہارا یہ کہنا ’’لکان مرکبا‘‘ یعنی اگر وہ موصوف ہوگا تو وہ مرکب ہو گا۔ اگر اس سے تمہاری مرادیہ ہے کہ کسی غیر نے اس کو ترکیب دیا ہے یا پھر یہ کہ وہ افتراق اور انتشارِ اجزاء کے بعد مجتمع ہوگیا؛ یا وہ تفریق کو قبول کرسکتاہے؛ تو ان تمام معانی کے اعتبار سے لفظ ’’مرکب ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر باطل ہے ۔ اس لئے کہ ہمارا کلام اُن صفات کے متعلق ہے جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں ۔ اور جن کاوجود اللہ تعالیٰ کی ذات کے بغیر ممتنع ہے۔پس رب سبحانہ و تعالیٰ کی بابت یہ ممتنع ہے کہ وہ موجود ہو ،نہ ہی زندہ ہو؛نہ ہی عالم اور نہ ہی قادر ہو۔جبکہ حیات وعلم اورقدرت اس کی ذات کے ساتھ صفاتِ لازمہ ہیں ۔
[اعتراض ]:....’’اور اگر مرکب سے تمہاری مراد موصوف یا اس کے مشابہ ہے۔‘‘[جواب ]:.... تم نے یہ کیوں کہا کہ یہ ممتنع ہے ؟اور ان کا کہنا کہ:’’ مرکب تو غیر کی طرف محتاج ہوتا ہے۔‘‘ تو کہا جائے گا کہ اول تفسیر کے اعتبار سے مرکب اپنے مبائن کی طرف محتاج ہوتا ہے؛ یہ تو اللہ پر ممتنع ہے ۔ اور رہا ان صفاتِ کمال کے ساتھ موصوف ہوناجو اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں ؛ جس کو تم لوگوں نے مرکب کہا ہے؛ تو اس ذات کا ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں کسی بھی غیر کی طرف احتیاج نہیں پایا جاتا۔[اعتراض ]:....اور اگر تم یہ کہو کہ:’’ وہ تو اس کی ذات کا غیر ہے‘‘ اور اس کی ذات ان کے بغیر نہیں پائی جاتی اور یہ بھی ایک طرح کا افتقار ہے۔ [جواب ].... اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ ’’وہ صفات اس کی غیر ہیں ‘‘یعنی اس سے مبائن ہیں ؛ تو یہ باطل ہے۔ اور اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ صفات اس کی ذات نہیں ہے[ یعنی وہ کسی اور ذات کے مصداق ہیں ] تو تم سے پوچھا جائے گا کہ جب صفت بعینہ موصوف نہ ہو تو اس میں کیا ممانعت اور خرابی ہے؟ ۔اور اگر تم کہو کہ: وہ ان صفات کی محتاج ہوتی ہے۔توسوال یہ ہے کہ کیا تم ’’افتقار ‘‘سے یہ مراد لیتے ہو کہ وہ کسی ایسے فاعل کی طرف محتا ج ہے جو اس کو وجود دیتا ہے یا کسی محل کی طرف محتاج ہے ۔یا تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ ان کو مستلزم ہے پس اس کا وجودصرف اس حال میں ہوگاکہ وہ ان کے ساتھ متصف ہو۔ اگر تم نے اول معنی مراد لیا ہے تو یہ بھی باطل ہے۔ اور اگر تمہاری مراددوسرا معنی ہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟اگر تم کہو کہ وہ صفات خود اس کی طرف محتاج ہیں ۔تو جواب یہ ہے کہ: ’’ کیا تمہاری مراد ایسے فاعل کی طرف احتیاجہے؛ جو ان کو پیدا کرتا ہے اور وجود دیتا ہے یا کسی ایسے محل کی طرف جو ان کے ساتھ موصوف ہوتا ہے ۔رہی دوسری بات تو اس میں ممانعت کیاہے ؟ جبکہ پہلی بات تو باطل ہے۔کیونکہ موصوف کی صفت لازمہ اس کا فاعل نہیں بن سکتی۔اگر تم کہو کہ: وہ ذات ان صفات کے لیے موجب یا علت ہے؛ یا اس کاتقاضا کرتی ہے؛ تو صفت اگر واجب ہوتی ہے تو واجب چیز معلول نہیں بن سکتی؛ ورنہ واجب کا تعدد لازم آئے گا۔یعنی ایک صفت اور دوسرے موصوف۔اور اگر وہ ممکن بنفسہ ہے؛ تو ممکن بنفسہ بذات خود وجود میں نہیں آتا؛ بلکہ کسی موجب کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی موجب ٹھہری اور ایک چیز فاعل اور قابل دونوں نہیں بن سکتی ۔
تم سے یہ بھی کہا جائے گاکہ ’’واجب بنفسہ ‘‘اور ’’ممکن بنفسہ ‘‘کا لفظ تمہارے خطابات اورتمہارے اقوال میں ایک مشترک لفظ (کے طور پر مستعمل ) ہے۔ پس بسا اوقات تو واجب بنفسہ سے ایسی ذات مراد لی جاتی ہے جس کے لیے کوئی پیدا کرنے والا نہ ہو نہ اس کے لیے کوئی علتِ فاعلہ ہو۔ اور واجب بنفسہ سے مراد کبھی وہ لیا جاتا ہے جس کے لیے کوئی مبدأ اور محل نہ ہو۔ اور وہ واجب بنفسہ سے وہ ذات بھی مراد لی جاتی ہے جس کے لیے کوئی صفت ِ لازمہ نہ ہو اور وہ کسی بھی صفت کے ساتھ موصوف نہ ہو اور ملزوم نہ ہو۔ اگر تم نے واجب بنفسہ سے وہ ذات مراد لی ہے کہ جس کے لیے کوئی پیدا کرنے والا اور علتِ فاعلہ نہیں ؛ تو صفت بھی واجب بنفسہ ہے۔اور اگر تمہاری مراد وہ ذات ہے کہ جس کا کوئی ایسا محل نہ ہو جس کے ساتھ وہ قائم ہو؛ تو صفت پھر واجب بنفسہ نہیں ہوگی ؛ بلکہ موصوف واجب بنفسہ ہوگا ۔اگرواجب سے تمہاری مراد ایسی ذات ہے جو کسی بھی صفت کے لیے نہ لازم ہے اور نہ ملزوم؛ تو اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ بلکہ یہ بات تو صرف ذہنوں میں پائی جا سکتی ہے نہ کہ اعیان او رمحسوسات میں ۔ اور تم نے پہلے ایک بات اپنے ذہنوں میں فرض کر لی ہے اور پھر اس کی ایسی صفات سے موصوف کیا جن کے ساتھ اس کا ثبوت ممتنع ہے ؛پس تم نے واجب الوجود بنفسہ کو ممتنع الوجود قرار دیا ہے ۔اس کی تفصیل کی جگہ اس کے علاوہ ایک اور مقام ہےیہاں پراس پر صرف تنبیہ کرنامقصود ہے۔ کیونکہ اس مقام میں مقصود ہر دو مفروضی صورتوں میں حاصل ہو سکتا ہے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ واجب الوجود بنفسہ کی صفات کو ثبوت مانا جائے؛ اور اسے ترکیب کہا جائے یا نہ کہا جائے؛ یا اس کی ذات کاانکار کیا جائے ،ہر حال میں یہ امرممتنع ہے کہ وہ اپنی ذات سے کسی مبائن کی طرف محتاج ہو۔ اور یہ اس لیے کہ جب یہ فرض کر لیا جائے کہ اس کی ذات میں کسی طور پر بھی معانی متعددہ نہیں پائے جاتے؛ جس طرح کہ منکرین صفا ت کا خیال ہے؛ تو پھر یہ امر ممتنع ہے کہ اس کا کوئی ایسا کمال ثابت ہو جو اس کی ذات کے مغایر ہو۔ اوردو چیزوں کا مجموع ہونا بھی ممتنع ہے۔ایسی صورت میں اگر اس کی ذات میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جو غیر کی طرف مفتقر ہے تو پھر تو معانی کا تعدد لازم ہوا اور یہ دونوں تقدیرین پر ممتنع ہے ۔اگر کہا جائے کہ اس میں معانی متعددہ ہیں ۔ پس واجب الوجود ان امور متلازمہ کا مجموعہ ہے۔ کیونکہ ان میں سے ایک چیز کے بغیر دوسری کا وجود ممتنع ہے۔ پس ایسی صورت میں اگر اس مجموعہ میں سے کوئی چیز کسی امر منفصل کی طرف محتاج ہے تو وہ واجب الوجود نہیں ہوا ۔پس حق سبحانہ وتعالیٰ تو اس کی حیات ،علم ،قدرت اور باقی صفاتِ کمال کو مستلزم ہے۔ وہ موجود اور واجب بنفسہ ہے؛ اور یہ صفات اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں اور ان کی ذات اس کو مستلزم ہے۔ اور وہ اس کے اسمِ ذات کے مسمیٰ میں داخل ہیں ۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے باقی اسماء میں بھی داخل ہیں پس جب وہ واجب بنفسہ ہیں اوروہ صفات اس کے ذات کے اسم کے مسمیٰ میں داخل ہیں یعنی ذات کے جو نام ہیں ان کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات صرف اور صرف ان صفات ہی کے ساتھ موجود ہو
گی پس اللہ تعالیٰ کا احتیاج صفات کے معاملے میں کسی مبائن کی طرف نہ ہوا ۔اگر کہاجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حی ،عالم اور قادر ہونے میں غیر کی طرف محتاج ہے۔پس وہ غیر اگر ممکن ہے؛ تو پھر وہ اس کی طرف محتاج ہوا۔ اور اللہ تعا لیٰ تو اس کا رب ہے۔ یہ ممتنع ہے کہ وہ اس کے اندر مؤثر ہو۔اس لازم آتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے میں مؤثر ہو۔ اور ایک کی دوسرے میں تاثیر اس کے دوسرے کے اندراثرات کے حصول اوروجود کے بعد پائی جاتی ہے۔کیونکہ تاثیر تو صرف اور صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ اس کی ذات حی ہو ،عالم ہو ،قادرہواور وہ حی ،عالم اور قادر تب ہی بنے گی جب یہ اس دوسرے کو اس طرح کر دے یعنی اس میں یہ صلاحیت پیدا کردے۔ لہٰذا ان میں سے کوئی بھی حی ،عالم اور قادر نہیں ہوگا مگر بعد اس کے کہ وہ دوسرا جس کو اس نے حی ،عالم اور قادر بنایا ہے وہ اس کوعالم ،قادر اور حی بنا دے لہٰذا ایسی صورت میں صریح عقل کے ساتھ اس کی امتناع معلوم ہے یعنی یہ تو ایک دور ہوا اور یہ اُن بدیہی امور میں سے ہے جس میں عقلاء کا کوئی نزاع نہیں ہے۔یہ دور جو یہاں لازم آتا ہے یہ دور قبلی کہلاتا ہے یعنی علل کا دور ۔اسی طرح فاعلوں کا دور اور مؤثرین کا دور۔ یہ باتفاق عقلاء ممتنع ہے۔ بخلاف متلازمین کے دورِکے؛ جیسے کہ ماقبل میں گزرا۔یعنی کوئی چیز دوسرے کے ساتھ ملے بغیر وجود میں نہیں آتی ۔یہ دوسرا وجود میں نہیں آسکتا مگر اس (پہلے)کے ساتھ۔پس یہ دور ممتنع ہے خواہ ان کے لیے کوئی بھی فاعل نہ ہو۔ جیسے اللہ کی صفات یا وہ دونوں کسی تیسرے فاعل کے مفعول ہوں اور وہ ان میں مؤثرِ تام ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بسا اوقات ایسی دو چیزوں کو بیک وقت پیدا فرماتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا وجود دوسرے پر موقوف ہوتا ہے؛ جیسے کہ باپ اور بیٹا ہونا؛پس بیشک اللہ تعالیٰ نے جب بیٹے کو پیدا کیا تواس کے پیدا کرنے سے دوسرے کو باپ بنا دیا۔ا ور اس کوبیٹا بنا دیا ۔یہ دو صفات ایک دوسرے سے نہ سابق ہیں نہ مفارق ہیں ۔ بخلاف اس کہ اگر دو امرین میں سے ایک دوسرے کے اندر مؤثرِ تام ہو۔بیشک یہ امرممتنع ہے۔ اس لیے کہ وہ اثر تب ہی حاصل ہوتا ہے جب مؤثر تام پایا جاتا ہو۔ پس اگر اس مؤثر کے اثر کا تمام اس دوسرے پر موقوف ہو اور اس کا تمام اس پر موقوف ہو تو ان میں سے ہرایک کا دوسرے پر توقف ہوگا اور یہ دورِ باطل ہے۔ حقیقت میں یہ امرممتنع ہے کہ وہ علت بنے یا فاعل بنے یا مؤثر فی نفسہ بنے یا کسی علت کے لیے تمام بنے؛ یا مؤثر اور فاعل تمام بن جائے۔[ یعنی متمم بن جائے] لہٰذا اس کا فاعل بننا یا بذاتِ خود اس کا مؤثر بننا تو بطریقِ اولیٰ ممتنع ہے۔ پس یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ دوچیزوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کو صفت ِ کمال دینے والا بنانا یا؛یا دوسرے کے ساتھ معاون بننا ممتنع ہے۔ خواہ وہ اس کو علم کا کمال یا قدرت اور حیات کا کمال دے؛کیونکہ یہ ساری کی ساری باتیں فاعلوں اور مؤثروں میں دور کو مستلزم ہیں اور یہ باتفاق عقلاء ممتنع ہے ۔اس سے معلوم ہواکہ عالم کے دوباہم متعاون ایسے صانع نہیں ہو سکتے۔کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی معاونت کے بغیر کوئی کام سر انجام نہ دے سکتا ہو۔ اور ان میں سے ہر ایک کا مستقل ہونا بھی ممتنع ہے۔کیونکہ ایک کا استقلال دوسرے کے مستقل ہونے کے مناقض اور منافی ہے۔ اور اس کی مزید تفصیل آگے آئیگی۔
یہاں تو مقصود یہ ہے کہ یہ ممتنع ہے کہ ان دونوں صانع میں سے ایک دوسرے کو کمال دینے والا ہو۔ اور یہ بھی ممتنع ہے کہ واجب بنفسہ اپنے کمال میں غیر کی طرف محتاج ہو۔ پس یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ غیر کی طرف کسی بھی طور پر محتاج ہو۔کیونکہ افتقار یا تو کسی کمال کے حصول میں ہوتا ہے؛ یا کمال کو سلب کرنے والے امور کو منع کرنے میں ۔ پس بے شک اگر وہ کامل بنفسہ ہے اور کوئی غیر اس کا کمال سلب کرنے پر قادر نہیں ؛ تو وہ غیر کی طرف کسی طور پر بھی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ جو چیز اس کی ذات کے لیے کمال نہیں تو اس کے وجود اس کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ اس کی طرف محتاج ہے۔ اس لیے کہ کسی کی ایسی چیز کی طرف حاجت جو اس کا کمال شمار نہیں ہوتی یہ ممتنع ہے؛ اور یہ واضح طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ وہ غیر کی طرف اپنے کمال کے حصول میں محتاج نہیں ہے ۔ایسے ہی وہ ان امور کے منع کرنے میں بھی غیر کی طرف محتاج نہیں ہے جو اس کے کمال کو اس سے سلب کرتے ہیں جیسے کہ اس کی ذات میں نقص کا داخل کرنا۔ اس لیے کہ اس کی ذات اگر اس کمال کو مستلزم ہے تو پھر ملزوم کا بغیر لازم کے وجود ممتنع ہے۔ پس یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ کمال اس کے واجب الوجود بنفسہ ہونے کے باوجود سلب ہوجائے ؛اور اس کے لوازم میں سے ہونے کی وجہ سے اس کا معدوم ہونابھی ممتنع ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اس کی ذات اس کے کمال کو مستلزم نہیں تو وہ اس کمال کے حصول میں غیر کی طرف محتاج ٹھہرا اور یہ واضح طور پر ثابت ہوا ہے کہ یہ بات تو ممتنع ہے پس معلوم ہوا کہ اس کا غیر کی طرف احتیاج کسی بھی چیز کے حصول میں یا کسی بھی چیز کے دفع کرنے میں اور اپنی ذات سے ہٹانے میں یہ ممتنع ہے اور یہی تو ہمارا مقصود ہے اس لیے کہ حاجت تو صرف اور صرف کسی چیز کے حصول کے لیے ہوتی ہے یا کسی چیز کے دفع کے لیے ہوتی ہے یا وہ حاصل ہوتی ہے اس کا ازالہ مراد و مقصود ہوتا ہے۔ یا ایسی چیز جو ابھی تک حاصل نہیں ؛ تو اس کو روکنا مطلوب ہوتا ہے۔ اور اس کے منع کی طرف اس کی حاجت ہوتی ہے اور جو چیز ایسی ہو کہ وہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے یا دوسرے چیز کو دفع کرنے میں غیر کی طرف محتاج نہ ہو تو اس کا محتاج ہونا مطلقاً ممتنع ہوتا ہے پس واضح طور پر ثابت ہوا کہ وہ ذات ہر اعتبار سے غیر سے مستغنی ہے ۔اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہ غیر کی طرف محتاج ہے؛ پھر یہ دو حال سے خالی نہیں ۔یا تو یہ کہا جائے گا کہ یہ اپنے لوازمِ وجود میں کسی غیر کی طرف محتاج ہے؛ یا اپنے عوارض ذاتیہ میں سے کسی چیز کی طرف ۔رہی پہلی بات تو یہ ممتنع ہے اس لیے کہ اگر وہ غیر کی طرف اپنے لوازمِ ذات میں کسی لازم میں محتاج ہے تو پھر تو اس کی ذات اس غیر کے بغیر موجود ہی نہ ہوگی اس لیے کہ ملزوم کا لازم کے بغیر وجود ممتنع ہے پس جب وہ اپنے لازم کے بغیر موجود ہی نہیں ہو سکتا اور اس کا لازم اس غیر کے بغیر موجود نہیں ہو سکتا پس یہ چیز بھی اس غیر کے بغیر موجود نہیں ہو سکے گا پس یہ موجود بنفسہ نہ ٹھہرا بلکہ اس کا حال تو یہ ہوا کہ اگر وہ غیر پایا جائے گا تو یہ بھی اور اگر وہ نہیں پایا جائے گا تو یہ بھی معدوم ہوگا اور پھر غیر واجب بنفسہ نہیں ہے اور وہ کسی فاعل مبدع کی طرف محتاج ہے پھر اگر یہ بعینہ اول ہے تو علل کے اندر دور لازم آیا اور اگر یہ اس کے مغایر اور مبائن ہے تو پھر علل کے اندر تسلسل لازم آیا اور یہ دونوں باتفاق عقلاء ممتنع ہے جس طرح کہ کئی مقامات پر اسے بیان کیا گیا ہے۔اور اگر وہ غیر خود واجب بنفسہ؛ موجود بنفسہ ہے اور اول بھی اسی طرح ہے؛ تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے وجود کے بغیر موجود نہیں ہوگا۔ اور دو چیزوں میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر موجود نہ ہونا جائز ہے۔ جبکہ ان کا سبب ان کے علاوہ کچھ اور ہو۔ یعنی ان کا سبب کوئی امر ثالث ہو جیسے کہ متضایفین جیسے کہ باپ ہونا یا بیٹا ہونا۔اگر ان دونوں کا سبب ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ہو تو یہ دونوں ممکن ہونگے؛ اور واجب بنفسہ کی طرف محتاج ہونگے اور اس میں کلام اسی طرح جیسے ان دونوں میں کلام ہے۔اور اگر وہ دونوں واجب بنفسہ ہوں تو یہ بات ممتنع ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا وجود یا ان میں سے کسی لوازم کا وجود دوسرے پر موقوف ہو اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے اندر علت کاملہ بنے گا یا جزء علت بنے گی۔ اس لیے کہ ہر ایک دوسرے کے بغیر تام نہیں ہوگا۔ اور ان میں سے ہر ایک کا علت بننا یا جزء علت بننا تب ہی ممکن ہے کہ جب وہ موجود ہے۔ ورنہ تو جو چیز موجود ہی نہیں ہوتی وہ غیر کے اندر مؤثر بھی نہیں بن سکتی نہ غیر کے لیے فاعل بن سکتی ہے پس یہ اس دوسرے کے اندر تب ہی مؤثر بنے گاحتی کہ یہ پایا جائے۔ اور یہ دوسرا اس کے اندر مؤثر تب ہی بنے گا جہاں تک کہ یہ پہلا پایا جائے ۔تو لازم آئے گا کہ یہ بھی اس کا وجود بھی اس دوسرے کے وجود پر موقوف ہو۔ اور اس کا اس پر موقوف ہو لہٰذا یہ ہر ایک دوسرے کا فاعل بنے گا اور یہ اس کا فاعل اور موجد بنے اور وہ اس کا فاعل اور موجد بنے اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ کسی چیز کا اپنے نفس کے لیے علت بننا یا اپنے نفس کے لیے علت کا جزء بننا؛ یا اپنے نفس کے لیے شرط بننا؛ یہ تمام امور ممتنع ہے۔اس معنی کوجس عبارت کے ساتھ تعبیر کیا جائے پس وہ اپنے نفس کا فاعل یعنی موجب نہیں بنے گا اور نہ فاعل کا جزء بنے گا؛ نہ اپنے نفس کے فاعل کے لیے شرط بنے گا؛ اور نہ اس فاعل کے لیے تمام اور متمم بنے گا؛ اور نہ اس کے نفس میں مؤثر بنے گا؛ اور نہ مؤثر کا تمام بنے گا ۔لہٰذامخلوق اپنی ذات کے لیے رب نہیں بن سکتی۔ اور رب تعالی کی ذات کسی بھی طور پر مخلوق کی طرف محتاج نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ اپنی صفتِ خلق میں ان کی طرف محتاج ہو جائے تو گویا وہ ان کو وجود نہیں دے سکتا یہاں تک کہ وہ خود موجود ہو جائے اور یہ مخلوق تب ہی موجود ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرے تو یہاں دورِ قبلی لازم آیا نہ کہ دورِ معیت اور جب وہ اپنے نفس میں مؤثر نہیں بن سکتا تو اس مؤثر میں بھی یہ بطریقِ اولیٰ مؤثر نہیں بن سکتا جو اپنی ذات میں مؤثر ہے پس جب یہ بات فرض کر لی جائے۔  پس جب دو ایسے واجب ذات فرض کر لیے جائیں جن میں سے ہر ایک کو دوسرے میں کچھ نہ کچھ تاثیر حاصل ہے؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اُس مؤثر کے اندر مؤثر ہو؛ جو اپنی ذات میں مؤثر ہے۔ اور یہ واضح طور پر ممتنع ہے۔ پس دو ایسی واجب ذاتوں کا فرض کرنا ممتنع ہوا جن میں سے ہر ایک دوسرے کے اندر کسی بھی طور پر مؤثر ہو۔تو پھر یہ بھی ممتنع ہوا کہ کوئی واجب بنفسہ ذات اپنے لوازم میں سے کسی بھی لازم میں غیر کی طرف محتاج ہو۔ خواہ یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ واجب ہے یا ممکن۔ اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کے ذریعے اس امرکی امتناع بھی ثابت ہو گئی کہ عالم کے لیے دو صانع ہوں اس لیے کہ اگردو صانعوں میں سے ہر ایک مستقل بالذات ہے تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے معاونت کے بغیرتمام امور کو انجام دینے والا ہے۔ اور یہ اس صورت میں ممتنع لذاتہ ہے اگر ایک بعض کو کرنے والا ہے تو دوسرے کے استقلال میں خلل پڑتا ہے ۔ پس کیسے ہر ایک مستقل بذاتہ ہے؟یعنی اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر دو خداؤوں میں سے ہر ایک مستقل بذاتہ ہے تو گویا وہ عالم کے تمام امور کو خود اکیلے وجود دے سکتا ہے۔ تو جس صورت میں وہ بعض امور کو خود کرتا ہے اور بعض کو دوسرے کی مدد سے کرتا ہے تویہ اس دوسرے کے مستقل ہونے کے منافی ہے۔ تو جس صورت میں وہ تمام امور کو اس کے بغیر انجام دیتا ہے تو یہ تو بطریق اولیٰ دوسرے کے مستقل ہونے کے منافی ہے۔ اور یہی تقریر اس دوسرے الہٰ کے مستقل ہونے کو فرض کرنے کی صورت میں بھی ہے ۔اسی وجہ سے اکثر عقلاء کا ایک مؤثر (تاثیر قبول کرنے والے )کے اندر دو مؤثرِ تام کے امتناع پر اتفاق ہے۔ اس لیے کہ یہ تو جمع بین النقیضین ہے۔ کیونکہ اس اثر کا اس طور پر ہونا کہ یہ اس ایک مؤثر سے الگ وجود میں آیا؛تو یہ اس دوسرے مؤثر کے ذریعے وجود میں آنے کے مناقض اور منافی ہے۔ اور اگر وہ اس کے اندر شریک اور باہم تعاون کرنے والے ہیں ۔ پس اگر ان میں سے ہر ایک کا فعل دوسرے کے فعل سے مستغنی ہے تو یہ بات واجب ہے کہ ہر الہٰ اس چیز کو لے کر چلا جائے جو اس نے پیدا کیا ہے۔ پس اس صورت میں ایک کا مفعول دوسرے کے مفعول سے جدا ہو جائے گا۔ اوروہ اس کے ساتھ ارتباط کی طرف محتاج نہیں رہے گا۔ حقیقت حال اور مشاہدہ ایسا نہیں ؛ بلکہ عالم کے سارے اجزاء میں سے بعض بعض کے ساتھ متعلق ہیں ۔ اور یہ اُس سے تخلیق کردہ ہے؛ اوروہ اِس مخلوق ہے۔اور یہ اس اعتبار سے اِس کے محتاج ہیں ؛ اوریہ اس کے محتاج ۔ اورامورِ عالم میں سے کوئی چیز بھی دوسری چیز کی طرف احتیاج کے بغیر تام نہیں ہوتی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عالم پورے کا پورا غیر کی طرف محتاج اور فقیر ہے۔ اور اس بات پر بھی دلیل ہے کہ اس عالم کے اندر کوئی بھی فعل ایسا نہیں پایا جائے جسے دو خداؤوں نے انجام دیا ہو۔بلکہ سارے کا ساراجہاں ایک ہی اللہ کی طرف محتاج ہے۔
پس فلک اطلس جو کہ تمام افلاک میں اعلیٰ ہے؛ اور اس کے خلاء کے اندر باقی افلاک عناصر اور مولدات اور حوادث ہیں ۔ اور افلاک ایسی مختلف حرکات کے ساتھ متحرک ہیں جو تاسع کی حرکت کے بخلاف ہے۔ پس یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی حرکت ہی ان حرکاتِ مختلفہ کا سبب بنے جو اس کی حرکت کے مخالف ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حرکت شرقیہ اس کا سبب ہے ۔[1] [1] رسائل الکندی الفلسفیۃ ۱؍۲۳۸۔آراء أہل المدینۃ الفاضلۃ ص ۲۴۔ النجاۃ لابن سینا ۲؍ ۳۹۳۔ جبکہ حرکات ِ غربیہ اس کے حرکت کی جہت کے متضاد اور مختلف ہیں ۔ پس وہ اس کا سبب بن ہی نہیں سکتا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں نیز یہ بھی کہ تمام افلاک فلک تاسع کے جوف میں ہیں اور یہ اس کی اختیار کے بغیر ہے اور وہ چیز جس کے اندر کوئی دوسرا اس کا غیر ڈال دیا گیا ہو بغیر اس کے اختیار کے تو وہ مقہور(مغلوب )اور مدبرَّ (جس سے نظام چلایا جارہا ہو)ہوتا ہے ۔جیسے کہ انسان جس کے باطن یعنی اس کے پیٹ کے اندر اس کی آنتیں اور دیگر نظام موجود ہیں تو وہ واجب بنفسہ نہیں بنتا ۔اور واجب بنفسہ کا کم ترین درجہ یہ ہے کہ وہ مغلوب نہ ہو۔ اور دوسرا اس کا انتظام چلانے کے لیے اس کو تشکیل نہ دے۔ اس لیے کہ جب وہ مجبور ہوتا ہے اور اس کو انتظام چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو وہ مربوب بنتا ہے اور غیر اس کے اندر اثر کرتا ہے۔ اور جس کے اندر غیر مؤثر ہوتاہے تو اس کا وجود اس غیر کے اندر مؤثر ہوتا ہے چاہے وہ اثر صفتِ کمال ہو یا نقص۔
اس لیے کہ اگر وہ زیادت ہے تو اس کا کمال غیر پر موقوف ہے۔ اور اس کا کمال اسی سے مستفاد ہے۔ لہٰذا وہ موجود بنفسہ ہوا۔ اور اگر وہ نقص ہے؛ تو اس کے غیر نے اس کے اندر نقص پیدا کر دیا؛ اور ہر ایسی چیز جس میں غیر نقص پیدا کرے تو وہ چیز واجب الوجود نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ جو چیز واجب الوجود بنفسہ ہو؛ اس کا عدم ممتنع ہوتا ہے۔ اور وہ جزء کہ جو منقوص ہے یعنی اس کو کم کر دیا گیا ہے وہ واجب الوجود نہیں بن سکتا اور نہ واجب الوجود کے لوازم میں سے ہے۔ اور جو چیز بھی ایسی نہ ہو تو پھر اس کا عدم اور ناپید ہونا نقص نہیں بنتا۔ کیونکہ نقص تو کمال کا عدم کہلاتا ہے۔ اور وہ کمال جو کہ ممکن ہے واجب الوجود کے لوازم میں سے ہوتا ہے۔ جیسے کہ ماقبل میں گزرا ۔اور یہ مفروض ایک نقص ہے۔ پس واضح طور پر ثابت ہوا کہ ہر ایسی ذات جس سے اس کا کوئی غیر کسی چیز کو کم کردے یعنی اس کی ذات کے لوازم میں سے یا اس کوکوئی ایسی چیز دیدے جو اس کے وجود کے لوازم میں سے ہو تو وہ واجب الوجود بنفسہ نہیں ٹھہرتا ۔پس وہ فلک جس کے اندر بہت سے اجسام ِ کثیرہ اس کے اختیار کے بغیر سما دیئے گئے ہیں وہ محتاج ہے اس ذات کی طرف جس نے اس کے اندر ان اجسام کو بھر دیا ہے پس بے شک جب اس کا اندر سے بھر جانا اس کے لیے کمال ہے تو اس کا کمال اس غیر سے مستفاد ہے پس وہ واجب بنفسہ نہ ٹھہرا۔ لہٰذا وہ اس کے اندر نقص ہے تو غیر نے اس کے کمال کو سلب کر لیا ہے جو کہ اس کی ذات سے زائد تھا۔ پس اس کی ذات اس کمال کو مستلزم نہ ہوئی ۔ اس لیے کہ اگر وہ اس کو مستلزم ہوتی تو پھر اس کے عدم کے ساتھ یعنی اس کے کمال کے منتفی (ختم )ہونے کے ساتھ منتفی ہو جاتی۔ اور ا س کا کمال اس کے ذات کے تمام میں سے ہوتا۔ پس جب اس کے نفس اور ذات کا ایک جزء غیر واجب ہے تو خود اس کی ذات بھی واجب نہ رہی جیسے اس کا بیان ماقبل میں گزرا ۔نیز یہ بھی کہ فلک اطلس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اس کو عالم میں کچھ بھی تاثیر حاصل نہیں ؛ تو پھر یہ بھی ضروری ہوگا کہ وہ دوسرے افلاک کے لیے بھی محرک نہ ٹھہرے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ دوسرے افلاک اس کی حرکت کی وجہ سے متحرک ہیں ۔ اور ان کی حرکت فلک اطلس کے مخالف ہے۔ لہٰذا فلک واحد ہی کے اندر ایک ایسی قوت ہوگی جو دو متضاد حرکتوں کا تقاضا کریگی اور یہ بات ممتنع ہے اس لیے کہ دو ضدین آپس میں جمع نہیں ہو سکتے ۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا مقتضی اس کے ضد کا مقتضی ہے جو اس کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا تو پھر وہ اس کے لیے فاعل بنے گا اس حال میں کہ وہ غیرِ فاعل ہو اور اگراس کا ارادہ کرنے والا ہے تو پھر ارادہ کرنے والا بنے گا اس حال میں کہ وہ ارادہ کرنے والا نہ ہے تو یہ تو دونوں تعبیروں پر جمع بین النقیضین ہوا۔اگر اس کے لیے افلا ک کی حرکت میں تاثیر حاصل ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور اثر تو یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ وہ تاثیر میں مستقل نہیں اس لیے کہ افلاک کے لیے فلکِ اطلس کی تحریک کے بغیرایک ایسی حرکت ثابت ہے جو ان کی ذات کے ساتھ خاص ہے اور اس وجہ سے بھی کہ بے شک زمین کے اندر جو آثار پائے جاتے ہیں ان کے اندر اجسام عنصریہ کا ہونا ضروری ہے اور وہ اجسام اگر اِن آثار کے لیے فاعل نہیں ہیں تو پھر وہ ایسے امر کی طرف محتاج ہیں جس نے ان کو وجود نہ دیا ہو اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ خود اس میں مؤثر ہے تو وہ مؤثرِ مستقل نہیں اس لئے کہ بے شک وہ آثار کہ جو زمین میں حاصل ہوتی ہیں ۔تو وہ ان اتصالات اور حرکات کے آپس میں جمع ہونے سے حاصل ہوتی ہیں جو اس زمین میں وجود میں آتی ہیں ۔پس واضح طور پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس کی تاثیر غیر کی تاثیر کے ساتھ مشروط ہے اور ایسی صورت میں اس کی تاثیر اس کے کمال میں سے ہے اس لیے کہ مؤثر غیر مؤثر سے اکمل ہوتا ہے اور وہ اس کمال میں غیر کی طرف محتاج ہوتا ہے پس وہ واجب بنفسہ نہیں ہوتا توواضح طور پر معلوم ہوا کہ وہ ان دونوں وجہوں کے اعتبار سے واجب بنفسہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا فاعل اُن امور کے فاعل سے مستغنی نہیں ہے جن کی طرف فلک محتاج ہے کیونکہ فلک بھی ماسوا سے من کل وجہ مستغنی اور متمیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی اپنے ماسوادیگر مصنوعات اور محدثات کی طرف محتاج ہے پس وہ واجب بنفسہ نہ ٹھہرا اور نہ ایسے فاعل کے لیے مفعول بنا جو اپنے ماسوا تمام فاعلوں سے مستغنی ہو۔