﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِِلٰہٍ اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ ﴾(مؤمنون91)’’اللہ نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا۔‘‘یہ بھی ممتنع ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مستقل بالذات ہو؛ اس لیے کہ یہ جمع بین النقیضین ہے۔ اور یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ دونوں باہم ایک دوسرے کے معاون اور شریک ہوں ؛ جس طرح یہ بات دو مخلوقوں میں پائی جاتی ہے جو مفاعیل کو وجود دینے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں ایک الہ دوسرے کی اعانت سے فاعل ہوگا اور اس کی اعانت کرنا ایک ایسا فعل ہے جو صرف اس کی قدرت سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کے علم اور ارادے سے پس یہ ایک ذات اس دوسرے کے لیے مدد گار تب ہی بنے گا جب وہ دوسرا اس کا مدد گار بنے اور وہ دوسرا اس کا مدد گار تب ہی بن سکے گا جب یہ اس کے لیے مددگار بنے۔تو ایسی صورت میں دو ذاتیں باہم ایک دوسرے کے لیے مددگار نہ بن سکیں گی۔ جیسے کوئی ایک چیز اپنی ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ معین ومددگار نہیں بن سکتی۔ تو وہ قدرت جس کے ذریعے کوئی فاعل فعل انجام دیتا ہے وہ اس قدرت کے ذریعے حاصل نہیں ہے جس سے کوئی دوسرا فاعل فعل کرتا ہے۔ بلکہ یا تو وہ اس کے ذات کے لوازم میں سے ہوتا ہے جو اللہ کی قدرت ہے۔ یا وہ کسی غیر کی قدرت سے حاصل ہوتی ہے جیسے بندے کی قدرت پس دو ایسے فاعل فرض کر لئے جائیں جو باہم مددگار ہیں اورایک دوسرے کے بغیر کام انجام نہیں دیتے تو ان دونوں میں سے کوئی بھی کسی فعل پر ایسی قدرت کے ساتھ قادر نہیں ٹھہرے گا جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہے۔اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کی قدرت اس دوسرے سے مستفاد ہو اس لیے کہ یہ دوسرا اس کو قادر نہیں بنا سکتا یہاں تک کہ وہ خود قادر بنے اور جب ان میں سے کسی ایک کی قدرت بھی ذاتی نہیں ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی ایک کے لیے کسی بھی حال میں قدرت ثابت نہیں ہوگی۔پس یہ واضح ہو گیا کہ عالم میں ایک سے زیادہ خداؤوں کا وجود ممتنع ہے ۔اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ واجب الوجود کے متعلق یہ ممتنع ہے کہ اس کو ایسا کمال حاصل ہو جس کا وہ غیر سے استفادہ کرتا ہو۔ اور واجب الوجود کے اندر غیر کی تاثیر بھی ممتنع ہے۔ اور حق سبحانہ وتعالیٰ اس کمال کا مستحق ہے جس سے اوپر کوئی اور منتہا (آخری حد)نہیں ؛ اور وہ کمال اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ اس لیے کہ وہ کمال جو کسی موجود کا کمال ہوتا ہے یا تو یہ اس کے لیے واجب ہوتا ہے یا اس پر ممتنع ہوتا ہے یا اس کے حق میں جائز اور ممکن دونوں ہوتا ہے :اگریہ واجب ہے تو یہی ہمارا مطلوب ہے۔ اور اگر وہ ممتنع ہے تو لازم آئے گا کہ وہ کمال جو کسی موجود کے لیے ممکن اور واجب کے لیے ممتنع ہے لہٰذا ممکن واجب سے اکمل ٹھہرے گا اور یہ تو عقل و نقل کے خلاف ہے۔