Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

عالم میں ایک سے زیادہ خداؤوں کے وجود کا امتناع:

  امام ابنِ تیمیہؒ

عالم میں ایک سے زیادہ خداؤوں کے وجود کا امتناع:جب فلک اطلس میں حال یہ ہے تو اس کے ماسوا کا حال تو نسبتاً زیادہ ظاہر اور واضح ہے پس عالم میں جس چیز کا بھی تو اعتبار کرے گا تو تو اسے عالم میں کسی اور چیز کی طرف محتاج پائے گا لہٰذایہ امر اس کے ممکن ،محتاج اور غیر واجب بنفسہ ہونے کیساتھ اس بات کی طرف بھی تیری رہنمائی کرے گی؛ کہ وہ اس دوسری چیز کے فاعل کی طرف محتاج ہے۔ پس عالم کے اندر دو ایسے فاعل نہیں ہو سکتے جن میں سے ہر ایک کا فعل اور مفعول دوسرے کے فعل اورمفعول سے مستغنی ہو۔ اور اس کی مثال جیسے کہ انسان؛ بیشک امرممتنع ہے کہ وہ ذات جس نے اس کو پیدا کیا ہے یہ اس ذات کے علاوہ کوئی اور ہو جس نے اس کی ضرورت کے امور کو پیدا کیا ہے۔ پس وہ ذات جس نے اس کا مادہ پیدا کیا؛ جیسے والدین کی منی ؛ اور ماں کا خون ۔ تو اسی ذات ہی نے ان کو بھی پیدا کیا ہے۔ اور جس ذات نے اس ہوا کو پیدا کیا جس سے یہ انسان سانس لیتا ہے ؛اور پانی جسے یہ پیتا ہے؛ اسی ذات نے ان کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے کہ اگر اس کا خالق پہلے کے خالق کے علاوہ کوئی اور ہوتو یہ دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ دونوں خالق اپنے فعل اور مفعول میں ایک دوسرے سے مستغنی ہیں تو یہ ممتنع ہے اس لیے کہ انسان تومادہ اور رزق دونوں کی طرف محتا ج ہے یا پھر اس کے مادہ اور رزق دونوں کا خالق الگ الگ ہوں تو پھر اس کافاعل اپنے مفعول سے مستغنی نہ ہوا ،اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ عالم کے اندر دو ایسے فاعل موجود نہیں ہو سکتے جن میں سے ہر ایک کا مفعول دوسرے سے مستغنی ہو جائے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِِلٰہٍ اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ ﴾(مؤمنون91)’’اللہ نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا۔‘‘یہ بھی ممتنع ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مستقل بالذات ہو؛ اس لیے کہ یہ جمع بین النقیضین ہے۔ اور یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ دونوں باہم ایک دوسرے کے معاون اور شریک ہوں ؛ جس طرح یہ بات دو مخلوقوں میں پائی جاتی ہے جو مفاعیل کو وجود دینے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں ایک الہ دوسرے کی اعانت سے فاعل ہوگا اور اس کی اعانت کرنا ایک ایسا فعل ہے جو صرف اس کی قدرت سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کے علم اور ارادے سے پس یہ ایک ذات اس دوسرے کے لیے مدد گار تب ہی بنے گا جب وہ دوسرا اس کا مدد گار بنے اور وہ دوسرا اس کا مدد گار تب ہی بن سکے گا جب یہ اس کے لیے مددگار بنے۔تو ایسی صورت میں دو ذاتیں باہم ایک دوسرے کے لیے مددگار نہ بن سکیں گی۔ جیسے کوئی ایک چیز اپنی ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ معین ومددگار نہیں بن سکتی۔ تو وہ قدرت جس کے ذریعے کوئی فاعل فعل انجام دیتا ہے وہ اس قدرت کے ذریعے حاصل نہیں ہے جس سے کوئی دوسرا فاعل فعل کرتا ہے۔ بلکہ یا تو وہ اس کے ذات کے لوازم میں سے ہوتا ہے جو اللہ کی قدرت ہے۔ یا وہ کسی غیر کی قدرت سے حاصل ہوتی ہے جیسے بندے کی قدرت پس دو ایسے فاعل فرض کر لئے جائیں جو باہم مددگار ہیں اورایک دوسرے کے بغیر کام انجام نہیں دیتے تو ان دونوں میں سے کوئی بھی کسی فعل پر ایسی قدرت کے ساتھ قادر نہیں ٹھہرے گا جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہے۔
اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کی قدرت اس دوسرے سے مستفاد ہو اس لیے کہ یہ دوسرا اس کو قادر نہیں بنا سکتا یہاں تک کہ وہ خود قادر بنے اور جب ان میں سے کسی ایک کی قدرت بھی ذاتی نہیں ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی ایک کے لیے کسی بھی حال میں قدرت ثابت نہیں ہوگی۔پس یہ واضح ہو گیا کہ عالم میں ایک سے زیادہ خداؤوں کا وجود ممتنع ہے ۔اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ واجب الوجود کے متعلق یہ ممتنع ہے کہ اس کو ایسا کمال حاصل ہو جس کا وہ غیر سے استفادہ کرتا ہو۔ اور واجب الوجود کے اندر غیر کی تاثیر بھی ممتنع ہے۔ اور حق سبحانہ وتعالیٰ اس کمال کا مستحق ہے جس سے اوپر کوئی اور منتہا (آخری حد)نہیں ؛ اور وہ کمال اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ اس لیے کہ وہ کمال جو کسی موجود کا کمال ہوتا ہے یا تو یہ اس کے لیے واجب ہوتا ہے یا اس پر ممتنع ہوتا ہے یا اس کے حق میں جائز اور ممکن دونوں ہوتا ہے :اگریہ واجب ہے تو یہی ہمارا مطلوب ہے۔ اور اگر وہ ممتنع ہے تو لازم آئے گا کہ وہ کمال جو کسی موجود کے لیے ممکن اور واجب کے لیے ممتنع ہے لہٰذا ممکن واجب سے اکمل ٹھہرے گا اور یہ تو عقل و نقل کے خلاف ہے۔