دوبارہ : اللہ تعالیٰ کا صفت ِ کلام پربحث:
امام ابنِ تیمیہؒدوبارہ : اللہ تعالیٰ کا صفت ِ کلام پربحث:یادرہے کہ ممکنات کے اندر بھی کئی کمالات موجود ہیں جوواجب بنفسہ ذات سے مستفاد ہیں ۔ کمال کاخالق اور جو دوسرے کوکما ل بخشنے والا؛ اس کا خالق ہے وہ مخلوقات کی بہ نسبت اس کمال کا زیادہ حقدار ہے۔کیونکہ یا تو کمال خود موجود ہوگا؛ یا پھر کسی کے وجود کا کمال ہوگا۔ اور جس نے موجود کو پیدا کیا وہ خود موجود ہونے کا زیادہ حق دار ہے۔ کیونکہ معدوم کسی موجود میں مؤثر نہیں بن سکتا۔یہ تمام امور معلوم شدہ ہیں ۔ پس یہ واضح ہو گیا کہ اللہ کی ذات پر کمال ممتنع نہیں ۔ اور اگر اسے جائز اور ممکن سمجھا جائے کہ اس کی ذات کے لیے کمال کا حصول اور عدم حصول دونوں ممکن ہیں ۔ تو وہ اس کو حاصل نہیں ہونگے مگر کسی اور سبب سے۔ پس درایں صورت واجب الوجود اپنے کمال میں غیر کی طرف محتاج ٹھہرے گا۔ اس کا بطلان بھی ماقبل میں واضح ہو چکا ہے۔پس واضح ہوا کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کمال لازم اور اس کے لیے واجب ہے اور اس سے صفت ِ کمال کا سلب ممتنع ہے۔ اور کمال تو امور وجودیہ میں سے ہے؛ پس امورِعدمیہ تو کمال نہیں ہوسکتا؛ سوائے اس صورت کے کہ وہ امورِ وجودیہ کو متضمن ہوں ۔کیونکہ عدمِ محض تو کوئی چیز ہی نہیں چہ جائے کہ وہ کمال بنے ۔کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب اپنی تنزیہ اور اپنی ذات سے نقائص کی نفی ذکر کرتا ہے تو صفاتِ کمال کے اثبات کے سیاق میں اسی کو بیان کرتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿اللّہُ لاَ إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لاَ تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلاَ نَوْمٌ﴾ (بقرہ:۲۵۵)’’اللہ تعالیٰ وہ معبود برحق ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ؛ وہ زندہ اورقائم ہے؛ اسے نہ ہی اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند۔‘‘
پس نیند اور اونگھ کی نفی یہ حیات اور قیومیت کے کمال کو متضمن ہے او ریہ صفاتِ کمال میں سے اور امورِ وجودیہ میں سے ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَلَا فِیْ الْأَرْضِ﴾( سبا: ۳) ’’ اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں ۔‘‘پس غیبوبت کی نفی اس کے علم کو متضمن ہے اور اس کا علم صفاتِ کمال میں سے ہے۔مزید برآں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ﴾(قٓ:۳۸)’’اور یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین کواور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے نہیں چھوا۔‘‘پس اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات سے لغوب کی نفی کرنا اور اس سے اپنی ذات کی تنزیہ بیان کرنا اس کے کمالِ قدرت کا مقتضی ہے۔ اور قدرت صفاتِ کمال میں سے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اس کے کمالِ حیات کو متضمن ہے۔ اور ایسے ہی اس کی ذات کے ساتھ اس کے علم اور قدرت کے قیام کو متضمن ہے اور اس کی مثالیں بہت سی ہیں ۔ پس رب تعالیٰ ان صفاتِ کمال کے ساتھ موصوف ہے جن کی کوئی اور منتہا اور حد نہیں ۔کیونکہ جس غایت اور حد کو تو کمال فرض کر ے گا تووہ تین حال سے خالی نہیں :یا تو وہ اس کی ذات کے لیے واجب ہوگا یاممکن یا پھر ممتنع ۔آخری دوقسمیں باطل ہیں ؛تو پھر پہلی واجب ہو گئی۔ پس وہ منزہ اور پاک ہوا کسی بھی نقص سے اور موجود اشیاء یعنی حوادث میں سے کسی بھی چیز کی اس کے ساتھ مساوات اور برابری سے بھی بلکہ یہ مساوات بھی تو نقص ہے اور یہ اس لیے کہ دو متماثلین میں ایک کے حق میں وہی امور جائز اور ممکن ہوتے ہیں جو دوسرے کے حق میں جائز ہوتے ہیں اور ایک کے لیے وہ صفات واجب ہوتی ہیں جو دوسرے کے لیے واجب ہوتی ہیں اور ایک پر جو امور ممتنع ہوتے ہیں تو دوسرے کے حق میں بھی ممتنع ہوتے ہیں پس اگریہ بات فرض کر لی جائے کہ اشیاء میں سے یعنی حوادث میں سے کوئی چیز اس کے مماثل ہے تو لازم آئے گا کہ ان دونوں کا ان امور میں اشتراک لازم آئیگا جو ذات کے لوازم میں سے ہیں یا اس کے حق میں وہ ممکن ہیں اور یا ممتنع ہیں ۔اللہ کے ماسوا جتنی بھی اشیاء ہیں وہ تو ممکن ہیں اور عدم کو قبول کرنے والے ہیں بلکہ وہ معدوم اور محتاج ہیں کسی فاعل کی طرف اور وہ سب کے سب مصنوع ہیں او رمربوب ہیں یعنی اس کی تربیت کرنے والا اللہ ہے اور
پیدا کیے گئے ہیں پس اگر اللہ کا کوئی غیر حادث چیز اس کے مماثل ہو جائے تو لازم آئے گا کہ وہ اور وہ چیز حادث اس کے ساتھ مماثل ہے اور وہ ممکن ہے اور عدم کو قبول کرنے والا ہے بلکہ وہ معدوم اور محتاج الی الفاعل ہے ،مصنوع اور مربوب ہے اور محدث یعنی پیدا کیا ہوا ہے اور بتحقیق یہ بات ثابت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کا کمال اس کی ذات کے ساتھ لازم ہے ،یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس میں غیر کی طرف محتاج ہو چہ جائے کہ وہ ممکن بنے۔ یا اس کی ذات مصنوع اور محدث بنے۔ پس اگر کسی غیر کی اس کے ساتھ مماثلت فرض کر لی جائے حوادث میں تو چیز واحد کو موجود اور معدوم ہونا اور ممکنہ واجب ہونا قدیم اور محدث ہونا تو یہ لازم آئے گا اور یہ تو ذاتِ واحدہ میں آنِ واحد میں جمع بین النقیضین ہیں پس رب تعالیٰ تمام صفاتِ کمال کا علی وجہ التفصیل مستحق ہے جس طرح کہ پیغمبروں نے اس بات کی خبر دی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ ہر چیز پر علم والا اور ہر چیز پر قدرت والا ہے اور اللہ تعالیٰ سمیع ،بصیر،علیم قدیر،عزیز ،غفور ،رحیم،حکیم ،ودوداور مجید ہے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں ،نیکو کاروں اور صبر کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔اور ان سے اللہ راضی ہوتے ہیں ؛ جو ایمان لا کر اعمال صالحہ کرتے ہیں ۔اور فساد کو اللہ پسند نہیں کرتا اور اپنے بندوں کے حق میں کفر پر راضی نہیں ہے ،کفر کو ناپسند کرتے ہیں اور اللہ نے آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ چھ دن میں پیدا کیا اور پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے خوب خوب باتیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے اسکے ساتھ سرگوشی فرمائی اور اس کے علاوہ دیگر وہ صفات جو تنزیہ کے باب میں کتاب وسنت میں مذکور ہیں ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱)’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا﴾[مریم : ۶۵]’’کیا آپ اس کے کسی ہم نام کو جانتے ہیں ؟۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾[النحل :۷۴]’’ پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ﴾(اخلاص 4)’’اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ ْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ [بقرہ:۲۲]’’پس اللہ کے لیے کسی قسم کے شریک نہ بناؤ، جب کہ تم جانتے ہو۔‘‘پس اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کفو‘‘کی نفی کے ساتھ ’’نظیر اور مثل ‘‘سے اپنی ذات کی تنزیہ فرما دی اور اس پر اس مقام کے علاوہ کلام تفصیلاً مذکورہ ہے اور ہم نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱) میں ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے اور اس میں بہت سے اسرار اور معانی شریفہ کا بیان ہے۔ پس یہ تو پیغمبروں اور ان کے ان اتباع کا طریقہ ہے جو امت کے اسلاف اور آئمہ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے بالتفصیل صفات کا اثبات اور اجمال کے ساتھ نقائص کی نفی جیسے کہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلیل ہے:﴿ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ o اَللّٰہُ الصَّمَدُ o﴾’’کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔‘‘یہ سورت قرآن کے ثلث کے برابر ہے جس طرح کہ یہ ایک صحیح حدیث میں ثابت ہے۔ہم نے اس کی تفسیر میں ایک مستقل تصنیف کی ہے۔ایک اور تصنیف اس بابت ہے کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ اس کی توجیہات بیان کی ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’’صمد ‘‘ہے جو اس سورہ میں مذکور ہے یہ تمام صفاتِ کمال کو متضمن ہے جس طرح کہ والبی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے :((ہو العلیم الذی کمل فی علمہ والقدیر الذی کمل فی قدرتہ والسید الذی کمل فی سؤددہ والشریف الذی کمل فی شرفہ و العظیم الذی کمل فی عظمتہ والحلیم الذی کمل فی حلمہ والحکیم الذی کمل فی حکمتہ وہو الذی کمل فی أنواع الشرف والسؤددہواللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ہٰذہ صفتہ لا تنبغی الا لہ والاحد یتضمن نفی المثل عنہ ۔))’’وہ علیم ذات ہے جو اپنے علم میں کامل ہے وہ قدیر ہے جو اپنے قدرت میں کمال ہے اور وہ سید ہے جو اپنے سیادت میں کامل ہے اور وہ شریف ہے جو اپنے شرف میں کامل ہے اور ایسا عظیم ہے جو اپنی عظمت میں کامل ہے ایسا حلیم جو حلم میں کامل ہے اور ایسا حکیم جو حکمت میں کامل ہے اور یہ وہی ذات ہے جو کہ شرف اور سیادت کے تمام انواع میں کامل ہے اور وہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے یہ اس کی صفت ہے اور یہ صفت اس کے علاوہ اور کسی کے لیے مناسب نہیں اور ایسا احد ہے کہ وہ اس سے مثل کی نفی کو متضمن ہے۔‘‘ اور وہ تنزیہ کہ جس کا رب تعالیٰ مستحق ہے وہ دو انواع میں منحصر ہے:
اول: اللہ کی ذات سے نقص کی نفی ۔دوم: حوادث میں کسی بھی چیز کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ صفات کمال میں کسی بھی صفت میں مماثلت کی نفی ۔پس اللہ تعالیٰ کے لیے کمال کی صفات کو ثابت کرنا ساتھ غیر کی مماثلت کے نفی کے یہ ان (دونوں نوعوں ) کے لیے جامع ہے جس طرح کہ آیتِ مذکورہ اس پر دلالت کرتی ہے ۔رہے وہ لوگ جو مشرکین اور صابئین میں سے ہیں جو مخالفین ہیں اور جو لوگ ان کے متبعین ہیں جہمیہ ،فلاسفہ اور معتزلہ ؛ اور ان سے جیسے دیگر لوگ ؛ تو ان کا طریقہ تو تفصیلی نفی ہے اور اثباتِ مجمل ہے۔وہ صفاتِ کمال کی نفی کرتے ہیں اور ایسے امور کو ثابت کرتے ہیں جو صرف خیال اور وہم میں پائے جاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسابھی نہیں اورایسا بھی نہیں ۔ ان میں سے بعض وہ ہیں کہتے ہیں : اللہ کے لیے کوئی صفت ِ ثبوتیہ ثابت نہیں ۔ بلکہ یا تو وہ سلبیہ ہیں یا اضافیہ ہیں ۔ یا ان دونوں سے مرکب ہیں ۔ جس طرح کہ صابئین اور فلاسفہ کا قول ہے ۔جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا وجودِ مطلق ہے جو امور ثبوتیہ کے سلب کے ساتھ مشروط ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاوجود شرط الاطلاق کے ساتھ مطلق ہے۔وہ اپنی منطق میں ایسی بات تسلیم کرتے ہیں جو عقلِ صریح سے معلوم ہوتی ہے۔ یعنی کہ ایسا مطلق جو شرط الاطلاق کے ساتھ مطلق ہو؛ اس کا وجود ذہنوں میں پایا جاتا ہے؛ خارج میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ پس خارج میں کسی ایسے حیوان کا وجود متصور نہیں جو مطلق ہو بشرط الاطلاق۔ نہ ہی کوئی ایسا انسان ہے اور نہ کوئی جسم۔ پس واجب الوجود خارج میں ممتنع الوجود ٹھہرا۔ اور یہ قول تعطیل ،جہل اور کفر کو مستلزم ہونے کیساتھ ساتھ جمع بین النقیضین پر بھی مشتمل ہے ۔جس نے کہا کہ مطلق ہے؛ مگر امورِ ثبوتیہ کے سلب کے ساتھ مشروط ہے۔ تو یہ مطلق بشرط الاطلاق سے بھی زیادہ أبعد ہوا۔کیونکہ اس نے تو اسے امور وجودیہ کے سلب کے ساتھ مقید کر لیا نہ کہ عدمیہ کے ساتھ۔ اور یہ تو اس کی بہ نسبت اولیٰ بالعدم ہے۔ وہ امورِ وجودیہ اور عدمیہ دونوں کے سلب کے ساتھ مقید ہو اور یہ امتناع میں نسبتاً زیادہ ابلغ بھی ہے۔ اس لیے کہ وہ موجود جو غیر کے ساتھ وجود میں شریک ہو تو وہ اس سے کسی وصف ِ عدمی میں ممتاز نہیں ہوتا؛ بلکہ امرِ وجودی کے ساتھ ممتا ز ہوتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ موجود مشارک لغیرہ فی الوجود اس سے کسی عدمی وصف کی بنا پر ممتازنہیں ہوتا؛ بلکہ وہ وجودی امر کی بنا پر ممتاز ہوتا ہے۔ اوریہ اس امتناع سے زیادہ بلیغ ہے جو سلب وجود اور عدم کی بنا پر ممتاز ہو۔مزید برآں بیشک یہ تمام موجودات کے ساتھ مسمیٰ وجود میں شریک ہے۔اور عدم کی بنا پر ان سے امتیازی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ جب کہ وہ اس سے وجود کی بناپر ممتاز ہے۔پس ان لوگوں کے قول کے مطابق تو ممکنات میں سے جس کو بھی فرض کر لیا جائے تو وہ واجب کی بہ نسبت زیادہ اکمل نکلتا ہے اور یہ توانتہائی فساد اور کفرہے۔اگر وہ یہ کہیں کہ :وہ بغیر کسی شرط [لابشرط]مطلق ہے؛ جس طرح کہ صدرقونوی[1] [1] صدر قونوی؛ صدر الدین محمد بن اسحق بن محمد بن یوسف بن علی بن قونوی الرومی ؛ بہت بڑے صوفیاء میں سے ایک تھا؛ جو کہ وحدت وجود کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یہ محی الدین ابن عربی کا ساتھی تھا۔ ۶۷۳ھ میں فوت ہوا۔ دیکھو: طبقات الکبری از شعرانی ۱؍۱۷۷ ؛ اعلام ۶؍ ۶۵۴۔ رسالہ سبعینیہ از ابن تیمیہ ؛ اور الطریقہ الاکبریہ ص ۳۴۳۔ اور اس کے ہمنواؤں کا کہنا ہے جو کہ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں ؛ تو مطلق لابشرط چیز ان کے نزدیک علم الٰہیات کا موضوع ہے ۔ وہ علم الٰہیات جو کہ حکمت علیا اور فلسفہ اولیٰ کہلاتا ہے اس لیے کہ وجود مطلق اور لابِشرط چیز واجب ،ممکن ،علت ، معلول ،جوہر اور عرض کی طرف تقسیم ہوتا ہے۔ اور یہ تو ان کے نزدیک اس علمِ عالیٰ کا موضوع ہے جو کہ وجود اور اس کے لواحق میں بحث کرتا ہے ۔اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ وہ وجود جو واجب اور ممکن کی طرف منقسم ہو وہ اُس وجود کا مغایر ہے جو واجب ہے۔ اور مطلق بشرط الاطلاق ہے ؛یہ وہی ہے جس کو کلی طبعی کانام دیتے ہیں ۔ اور خارج میں اس کے وجود کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اور تحقیق یہ ہے کہ خارج کے اندر تو معین شخص پایا جاتا ہے نہ کہ کلی۔ پس جو چیز کلی ہے وہ اذہان میں تو پائی جاتی ہے مگر اعیان اور حس میں وہ کلی نہیں پائی جاتی پس جس نے کہا کہ کلی طبعی خارج میں موجود ہے اور اس نے یہ معنی مراد لیا تو تحقیق اس نے تو ٹھیک راہ اختیار کی ۔اگر یہ کہے کہ خارج کے اندر وہ امر پایا جاتا ہے جو کلی ہے جس طرح کہ ان بہت سے لوگوں کے کلام کا تقاضہ ہے اور ان کے کلام سے ثابت ہوتا ہے انہوں نے منطق الٰہیہ میں کلام کیا ہے۔ اور اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خارج کے اندر ایک انسانِ کلی پایا جاتا ہے۔ ایسا فرسِ مطلق کلی پایا جاتا ہے اور حیوان مطلق کلی پایا جاتا ہے؛ تو یہ بالکل غلطی میں پڑا ہوا ہے ۔خواہ وہ اس بات کا دعویٰ کرے کہ یہ کلیات اعیان سے مجرد اور ازلی ہیں ؛ جس طرح کہ افلاطون سے نقل کرتے ہیں ؛اور اس کو یہ مسئلہ افلاطونیہ کہتے ہیں ؛یا یہ دعویٰ کریں کہ وہ معین افراد کے ساتھ مقارن نہیں ہوتے۔ یا وہ یہ دعویٰ کریں کہ مطلق کسی فردِ معین کا جزء ہیں ؛جس طرح کہ ارسطو اور اس کی جماعت سے نقل کرتے ہیں ۔ جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال؛ کہتے ہیں کہ نوع جنس اور فصل سے مرکب ہے ۔اور بے شک انسان حیوان اور ناطق سے مرکب ہیں ۔اور فرس مرکب ہے حیوان اور صاہل سے۔ بے شک اگر اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ان دونوں (حیوان اور ناطق) سے مرکب ہے؛ تو یہ بات حق ہے۔ اس کو حیوان بھی کہا جا سکتا ہے اور ناطق بھی۔ لیکن صفت موصوف کے وجود کا سبب نہیں ہوتی اور نہ اس پر مقدم ہوتی ہے؛ نہ محسوسات اور خارج میں ؛ نہ عقل میں ۔ اورجوہر جو قائم بنفسہ ہو؛ وہ دو عرضوں سے مرکب نہیں ہوتا۔ اور اگر مرادیہ ہے کہ انسان جو خارج میں موجود ہے وہ دوجوہروں سے مرکب ہے جن میں سے ہر ایک قائم بنفسہ اور مستقل ہے ایک حیوان اور ایک ناطق ؛تو یہ عقل اور مشاہدے دونوں کا انکارہے؛کیونکہ خارج میں یہ دونوں جدا نہیں پائے جاتے۔
اور اگر ان میں سے ہر ایک مستقل بذاتہ ہے تو اس کا دوسرے سے الگ وجود ضروری ہے۔ اور اگر اس ترکیب سےانسانِ عقلی کی ترکیب مراد ہے جو ذہنوں میں متصور ہوتا ہے اور خارج میں موجود نہیں تو یہ حق ہے۔ لیکن وہ انسان جو ذہن میں متصور ہے اگراس کو حیوان اور ناطق سے مرکب قرار دیا ؛ اوروہ اس سے مرکب ہو گیا ہے؛ اور اگر اس ذہن نے اس کو حیوان اور صاہل سے مرکب بنا دیا تو وہ اس سے مرکب بن گیا۔ پس کسی مدعی کا یہ دعویٰ کہ دو صفتوں میں سے ایک تو ذاتی ہے جو کہ موصوف کے لیے مقوم ہے اور اس کے بغیر متحقق نہیں ہوتا نہ خارج میں نہ ذہن میں ۔ اور دوسری صفت عرضی ہے اور موصوف اس کے بغیر پایا جا سکتا ہے ۔باوجود یکہ دوسری صفت بھی پہلی کے ساتھ لزوم میں مساوی ہے ؛تو پھر یہ دو متماثلین کے درمیان تفریق ہے ۔اور وہ فروع جو ذاتی اور عرضی کے درمیان ذکر کرتے ہیں یعنی لازمِ ماہیت تووہ تین ہیں اور وہ تینوں فروق منقوض ہیں اور ان پر اعتراضات ہیں ۔یہ لوگ اس کے انتقاض اور منقوض ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہیں جس طرح کہ ابن سینا اورا س کے وہ متبعین جو اشارات کے شارح ہیں انھوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔صاحبِ ’’معتبر ‘‘اور دوسروں نے بھی ذکر کیا ہے اور اس کی تفصیل دوسرے مقام پر مذکور ہے۔[1] [1] العقود الدریہ ۹۔ الصفدیہ ۱۹۳۔ الرد علی المنطق ایسے ہی ان کے اس قول اور ان کے موافقین کے اس قول پر بھی کلام کا یہ حال ہے جو واجب الوجود کے بارے میں وحد ۃ الوجود کے قائل ہیں اور یہ بھی اس مقام کے علاوہ کسی اور مقام پر بیان ہوا ہے اور یہاں تو مقصود پیغمبروں کی تعلیمات پر ایک مختصر اور جامع بات ذکر کرنا مقصود تھا ۔لیکن جب اس شیعہ مصنف نے اپنی جماعت کے بارے میں یہ کہنا شروع کیا کہ ہم ہی توحید میں ٹھیک راہ پر چل رہے ہیں ؛ ہمارے علاوہ کوئی اور نہیں ۔ تو ہمیں یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس بات پر تنبیہ کی جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ جو لفظ ’’جسم ‘‘کا ذکرکیا ہے؛ تو یہ لفظ صفات باری تعالیٰ میں نہ توکتاب اللہ میں ہے اور نہ سنت میں ؛ نہ اس کی نفی ہے نہ اثبات۔ اور نہ صحابہ اور تابعین اور تبع التابعین میں سے کسی نے اس پرکلام کیا ہے اور نہ اہل بیت میں سے کسی نے۔لیکن جب جہمیہ نے اموی دورِ حکومت کے آخری زمانے میں صفات کی نفی کا عقیدہ اختیار کیا[تو یہ بدعات بھی سامنے آئیں ]۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے جس نے اس عقیدہ کی یہ بدعت نکالی وہ جعد بن درہم تھا[2] [2] جعد بن درہم کے متعلق پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔ اسے ۱۱۸ہجری میں قتل کیاگیا ۔ خالد القسری نے عید الاضحیٰ کے دن قتل کیا تھا۔ مزید دیکھیں : میزان الاعتدال ۱؍ ۱۸۵۔ الکامل لابن الاثیر ۵؍ ۱۶۰۔ لسان میزان ۲؍ ۱۰۵۔ جو خلفائے بنی امیہ میں سے آخری خلیفہ مروان بن محمد کا استاذتھا۔ اوراس جعد بن درہم کا تعلق شہر حران سے تھا؛ جہاں پر صابی اور فلاسفہ کے بعض آئمہ تھے۔ فارابی نے متی سے علم لیا تھا۔ پھر وہ حران آیا۔ اوروہاں پر اس نے صابی مذہب سے کچھ علم حاصل کیا۔صابی عالم بالا کے ہیا کل[جیسے کواکب وغیرہ] کی عبادت کرتے تھے۔وہ علتِ اولیٰ کی ایک ہیکل بناتے تھے۔ایسے ہی عقلِ اول کی ہیکل اور نفسِ کلیہ کی ہیکل ۔اسی طرح زحل ،مشتری اور مریخ ،شمس ،زہرہ ،عطارد اور قمرکے ہیکل اور مجسمے بناتے تھے؛ اور وہ ان امور کے ذریعے تقرب حاصل کرتے تھے جو ان کے نزدیک معروف تھے۔ یعنی ایسی عبادات اور قربتیں جو ان کے ہاں معروف تھے۔[1][1] صابی ایک متوسط روحانی واسطہ جیسے کواکب اور اصنام کے قائل تھے۔ ان کا مرکز شہر حران [شام ] میں تھا۔ جو کہ ایک بہت بڑا شہر تھا۔ یہ لوگ سورج ؛ چاند اور ستاروں کے پجاری تھے۔ دیکھو: الملل و النحل ۲۰۸۔ الخطط للمقریزی ۱؍ ۳۴۴۔
یہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے دشمن تھے جس نے ان کو ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا اور اس کا مولد (جائے پیدائش)اکثر لوگوں کے نزدیک یا تو عراق میں تھا؛ یا حران میں جس طرح کہ تورات میں ہے ۔اسی وجہ سے تو اس نے ان کے ساتھ ستاروں اور بتوں کی عبادت میں مناظرہ کیا؛ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف سے نقلاً اس کو بیان بھی کر دیا جب اس نے دیکھا کہ وہ تو ایک کوکب ہے تو جب ستارے کو دیکھا توفرمایا: ’’ہذا ربی ‘‘ ’’یہ میرا رب ہے۔‘‘ اور پھرفرمایا: ’’﴿لا أحب الافلین﴾ ’’میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘۔‘‘ اور پھر فرمایا[یعنی اللہ تعالیٰ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ]:﴿ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَأَی کَوْکَباً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِیْنَ(76) فَلَمَّا رَأَی الْقَمَرَ بَازِغاً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ یَہْدِنِیْ رَبِّیْ لأکُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّیْنَ(77) فَلَمَّا رَأَی الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ ہَـذَا أَکْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ(78) إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾(انعام ۷۶ تا ۷۹ )’’تو جب اس پر رات چھا گئی تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔پھر جب اس نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا یقیناً اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی تو یقیناً میں ضرور گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا۔ پھر جب اس نے سورج چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوگیا کہنے لگا اے میری قوم! بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو۔بے شک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی ) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں ۔‘‘اور جہمیہ اور معتزلہ اور دیگر فرق میں سے ایک جماعت نے یہ گمان کیا کہ اس کی مراد اس قول ’’ہذا ربی سے یہ ہے کہ یہی عالم کا خالق ہے اور اس نے اس کے عدمِ ربوبیت پرغروب سے استدلال کیا جو کہ حرکت اور انتقال ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ یہی حجت اجسام کے حدوث اور عالم کے حدوث پر دال ہے۔