سورۃ انعام کی آیات سے فلاسفہ کے اس استدلال کا فساد :
یہ کئی وجوہ سے غلط ہے۔نمبر۱ :....عقلاء میں سے کسی نے بھی اس قول کو اختیار نہ کیا نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے نہ نہ کسی اور نے اور نہ ان میں سے کسی نے یہ خیال کیا کہ ستارے یا سورج اور چاند نے اس عالم کو پیدا کیا ہے ،بے شک ابراہیم علیہ السلام کی قوم تو مشرک تھے جو کہ ستاروں کی عبادت کرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اس (عبادت) میں ہمارا فائدہ ہے یا کسی ضرر کا دفعیہ ہے کلدانیین اور کُشدانیین کے طریقے پر اور ان کے علاوہ اہل ہند میں سے جو مشرکین تھے ان کے طریقے پر اور ان لوگوں کے طریقے پر تو اس کتاب کو بھی لکھا گیا ہے جس کو ابو عبد اللہ بن خطیب رازی فیہ نے سحر اور طلمسات اور کواکب کو پکارنے کے بارے میں لکھا ہے اور یہ ہند کے مشرکین کا دین تھا ایسے ہی خطا،نبط اور کلدانیین اور کُشدانیین کا قول تھا۔اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:اور فرمایا :﴿ قَالَ أَفَرَأَیْتُم مَّا کُنتُمْ تَعْبُدُونَ (75) أَنتُمْ وَآبَاؤُکُمُ الْأَقْدَمُونَ (76) فَإِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّیْ إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ﴾ (شعرآء ۷۵ تا۷۷)’’کہا تو کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے۔ تم اور تمھارے پہلے باپ دادا۔سو بلاشبہ وہ میرے دشمن ہیں ، سوائے رب العالمین کے۔‘‘اس کے امثال بہت ہیں اوریہ بھی عرب کے لغت میں ’’ افول‘‘ کا لفظ غائب ہونے اور پردے کے اندر چلے جانے کو کہا جاتا ہے ،یہ حرکت اور انتقال سے عبارت نہیں اور نیز یہ بھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا استدلال حرکت اور انتقال سے ہوتا تو پھر وہ افول اور غیبوبیت سے استدلال نہ کرتا بلکہ نفس وہ حرکت جو طلوع سے غروب تک نظر آتی ہے تو اس سے استدلال کر لیتا۔ نیز یہ بھی کہ غیبوبت کے بعد اس کی حرکت چونکہ مشاہدے میں نہیں آتی اورنہ وہ معلوم ہے پس اگر اس کے اس قول ’’ہذا ربی ‘‘کا معنی یہ ہوتا کہ یہ رب العالمین ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ان کے خلاف حجت بنتا۔ اس لیے کہ ایسی سورت میں ان کے نزدیک وہ حرکت اس کے رب العالمین ہونے سے مانع نہ ہوتی اور مانع تو افول (غروب)ہوتاہے چونکہ ان لوگوں نے لفظ افول میں تحریف کی اور ابن سینا اپنے ’’اشارات ‘‘میں اسی راستے پر چلا ہے پس اس نے افول کو امکان کے معنی میں قرار دیا اور اس نے ہرممکن کو ’’آفل ‘‘کہہ دیا اور یہ کہ ’’افول ‘‘امکان کے تالاب میں گرنا ہے اور یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا سب آفل ہوں ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ یہ اور لغت اور قرآن پر ایک بہت بڑی افتراء ہے اور اگر ہر ممکن آفل کہلاتا تو پھر تو اس کا یہ قول صحیح نہ تھااس لیے کہ اس کا یہ قول ’’فلما أفلت‘‘ یہ تو افول کے حدوث کا مقتضی ہے اور ان مفترین کے قول کے مطابق تو ’’افول ‘‘اس کے لیے لازم ہے اور وہ ازل سے اس کے لیے ثابت ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔اگر ابراہیم علیہ اسلام کا ’’افول‘‘ سے مراد امکان ہے اور امکان تو شمس ،قمر اور کوکب میں ہر وقت میں حاصل ہے تو پھر اس بات کی طرف حاجت ہی نہیں تھی کہ وہ لفظ ’’افول ‘‘کو ذکر کرے اور نیز یہ بھی کہ قدیمِ ازلی ذات کو ممکن قرار دینا تو ایک ایسا قول ہے جس میں ابن سینا اور اس کے متبعین منفرد ہیں اور یہ جمہور عقلاء کے قول کے مخالف ہیں سلفاً و خلفاً۔