Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

نکرین صفات کے ساتھ ایک اجمالی مناقشہ:

  امام ابنِ تیمیہؒ

منکرین صفات کے ساتھ ایک اجمالی مناقشہ:یا تیری مراد ایسی چیز ہے جس کا صفات سے موصوف ہونے کی نفی کو مستلزم ہو؛ اس طرح کہ اس کو نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی ایسے کلام کے ساتھ متکلم ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اور نہ وہ اپنی مخلوق سے مبائن اور جدا ہے۔نہ اس کی طرف کوئی چیز اوپرجاتی ہے؛ اور نہ اس کی طرف سے کوئی چیز نیچے آتی ہے؛ اور نہ اس کی طرف ملائکہ اور رسل اوپر جاتے ہیں اور نہ اس کی طرف دعا میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں ؛ اور نہ وہ کسی چیز پر حاوی اور عالی ہے اور نہ اس سے کوئی چیز قریب ہو سکتی ہے ؛اور نہ وہ عالم کے اندر داخل ، خارج اور نہ مبائن ہے اور اس جیسے وہ معانی سلبیہ جن کے بارے میں سوائے معدوم کے اور کسی چیز کا اتصاف معقول نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صفت کے منکرین اس کا اثبات کرنے والے کو مجسم کہتے ہیں ۔پس غالی منکرین صفات جوکہ جہمیہ اور باطنیہ میں سے ہیں ؛ وہ اسمائے حسنی کے مثبتین کو کہتے ہیں کہ وہ مجسَّم ہیں ۔ اورصفات کے بغیر اسماء کے مثبتین ؛جیسے معتزلہ اور ان کے ہمنوا صفات کے مثبتینِ کو مجسِّم کہتے ہیں ۔ اور جو لوگ صفات کے مثبت ہیں اور وہ اُن افعال اختیاریہ کو ثابت نہیں مانتے جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہیں وہ ان کے (صفات اور افعال اختیاریہ )مثبتین سے کہتے ہیں کہ وہ مجسم ہیں ۔یہی حال باقی منکرین صفات کا بھی ہے۔
پس جوکوئی بھی صرف اس بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کرتا ہے؛ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ثابت کی ہیں ؛وہ یہی خیال کرتا ہے کہ ان صفات کے اثبات سے تجسیم لازم آتی ہے؛ جو اللہ اور اس کے رسول نے ثابت کی ہیں ۔تمام منکرین صفات کے دلائل کی منتہیٰ ایک وجودِ مطلق اور صفات سے عاری ذات کے اثبات پر ہے ۔ اور عقلِ صریح بدیہی طور پر جانتی ہے کہ وجودِ مطلق اور صفات سے عاری ذات صرف ذہنوں میں فرض کی جا سکتی ہے؛ نہ کہ اعیان میں اس کا کوئی وجود ہے۔ پس ذہن اس چیز کو مجرد کرتا ہے اور اس توحید کو فرض کرتا ہے جس کو یہ فرض کر سکتے ہیں جیسے انسان مطلق اور حیوان ِمطلق کو ذہن فرض کر سکتا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جس کو اذہان فرض کرتے ہیں اس کا خارج میں بھی وجود اور کسی مکان کے اندر متمکن ہوتاہے۔یہیں سے تو ان لوگوں کی غلطی ظاہر ہو گئی جنہوں نے تقدیرِ عقلی (عقل کا کسی امر کو فرض کرنا) کے ذریعے اس امر کے امکان کوثابت کرنا چاہتے ہین۔ جس طرح امام رازی نے ذکر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عقل جانتی ہے کہ کوئی چیز یا تو متحیِّز(کسی مکان میں متمکن ) ہوگی؛ یا وہ قائم بالمتحیِّز ہوگا ۔یا پھر نہ خود متحیِّز ہوگا اور نہ کسی مکان میں حلول کرنے والا (یعنی نہ کسی متحیِّزکے ساتھ قائم ہوگا )۔[اساس التقدیس فی علم الکلام ؛ از رازی ؛ ص ۶]پس اسے کہا جائے گا کہ عقل کا ان اقسام کو فرض کرنا خارج میں ان کے وجود کا تقاضہ نہیں کرتا اور نہ خارج میں اس کے وجود کے امکان کو چاہتا ہے؛ کیونکہ اس کی مثال تو دی جاسکتی ہے کہ کوئی چیز تین احوال سے خالی نہیں :۱۔یا تو واجب ہوگی ۲۔یا ممکن ہوگی ۳۔یا نہ واجب ہوگی اور نہ ممکن ہوگی ۔یہ کہ کوئی چیز یاتو قدیم ہوگی یا حادث ہوگی؛ یاپھر نہ قدیم ہوگی اور نہ حادث ۔یا یہ کہ کوئی چیزیا توقائم بنفسہ ہوگی یا قائم بالغیر ہوگی ؛یا نہ تو قائم بنفسہ ہو گی اورنہ قائم بالغیر ۔یا یوں کہاجائے کہ یا تو کوئی چیز موجود ہوگی یا معدوم یا نہ موجود ہوگی اور نہ معدوم۔پس بے شک اِن جیسی فرضیات اور تقسیمات کسی چیز کے امکان اور خارج کے اندر اُس کے وجود کو نہیں ثابت کر سکتیں ۔ بلکہ کسی چیز کا امکان اس کے وجود ؛یا اس کی نظیر کے وجود سے معلوم ہوتا ہے۔یا ایسی چیز کے وجود سے معلوم ہوتا ہے جس کی بہ نسبت یہ چیز وجود کے ساتھ زیادہ اولیٰ اوراحق ہے یا اس جیسے اور طرق بھی ہیں ۔ان جیسے طرق سے امکانِ خارجی کوثابت کیا جا سکتا ہے ۔جبکہ امکانِ ذہنی تووہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا امتناع معلوم نہ ہو یعنی جب کوئی چیز ممتنع نہ ہو تو بس اس کا ذہنی امکان پیدا ہو جاتا ہے لیکن علم بالامتناع یہ علم بالامکان تو نہیں ہوتا ۔اگر منکر صفات یہ کہیں کہ وہ تمام صفات جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ متصف ہیں یعنی یہ کہ وہ حی ہیں ،علیم ہیں ،قدیر ہیں ،اس کا دیکھا جانا ممکن ہے ،یا یہ کہ وہ عالم سے بالا اور اس پر محیط ہیں یا ان جیسے اور معانی جو کتاب و سنت میں اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہیں تو ان امور سے تو صرف وہی چیز متصف ہوتا ہے جو جواہرِ فردہ سے مرکب ہوتا
ہے یا مادہ اور صورت سے؛ اور اللہ کی ذات کے حق میں یہ ممتنع ہے ۔جواب :.... بیشک جمہور عقلاء تو یہ نہیں کہتے کہ یہ نظر آنے والے اجسام جیسے کہ آسمان اور ستارے؛یہ جواہر مفردہ سے مرکب ہیں ؛ اور نہ مادہ اور صورت سے۔ پس ان پر یہ الزام کیسے آسکتا ہے کہ رب العالمین کے حق میں اس ترکیب کا التزام کا عقیدہ رکھیں ۔دیگرمواقع پروضاحت کے ساتھ ددنوں جماعتوں کے دلائل اور مذکورہ بالا دونوں معانی کے اعتبار سے ان کے نفیِ صفات کے دلائل کا فساد بیان کیا گیا ہے۔ اور بے شک ایک گروہ اپنے ان موافقین کے دلائل کو باطل ٹھہراتے ہیں.اور دوسراگروہ اس پہلے کے دلائل کو باطل قراردیتا ہے۔ پس یہ نفی صفات کے بارے میں کسی ایک حجت کی صحت پر بھی متفق نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ ایک گروہ اس امرسے استدلال کرتا ہے کہ مرکب ذات تو اجزاء کی طرف محتاج ہوتا ہے؛ تو دوسرا گروہ اس حجت کو باطل قرار دیتا ہے۔وہ کہتے ہیں : جو ذات بھی ایسی ہو؛ تووہ اعراض ِ حادثہ سے خالی نہیں ہوتی۔ اور جو چیز بھی حوادث سے خالی نہ ہو تو وہ حادث ہوتی ہے۔ اور پہلا گروہ ان لوگوں کی حجت کو باطل قراردیتا ہے۔ بلکہ اِن دونوں مقدمات سے انکار کرتے ہیں ۔ یہ اموراس کے علاوہ ایک اور مقام پرتفصیل سے بیان کر چکے ہیں اور ہم نے تو اس باب میں یہاں اس پر اجمالاً تنبیہ کر دی ہے ۔اس اصل جس کا اعتقاد رکھنا مسلمانوں پر واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوچیزثابت ہے اسی پر ایمان لانا واجب ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خبر کی تصدیق اور حکام کی اطاعت کی جائے گی۔ اور جوچیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تو اس میں نفی اور اثبات کا کوئی حکم لگانا واجب نہیں ۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد واضح ہو جائے اور اس کے نفی اور اور اثبات کی صحت معلوم ہو جائے ۔رہے وہ الفاظ جو مجمل ہیں تو ان میں بغیر کسی تفصیل کے نفیاً اور اثباتاً کلام کرنا جہالت اور گمراہی میں پڑ نے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی یہ فتن اورعبث قیل وقال میں پڑنے کاسبب ہے۔ اور در حقیقت کہا گیا ہے کہ عقلاء کے اکثراختلافات تو اسماء میں اشتراک کی وجہ سے ہیں ۔ اور دونوں گروہوں میں سے ہر ایک یعنی جسم کے منکرین اور اس مثبتین؛ روافض میں موجود ہیں ۔ اور اُن اہل سنت میں بھی جو روافض کے مد مقابل ہیں ۔میری مراد وہ لوگ ہیں جو خلفائے ثلاثہ کی امامت کے قائل ہیں اور شیعوں کے متکلمین میں سب سے پہلے جو ’’جسم‘‘ کا اطلاق ظاہر ہوا وہ ہشام بن حکم ہے، ایسے ہی ابن حزم وغیرہ نے نقل کیا ہے۔٭٭٭