Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مسئلہ تجسیم میں شیعہ کے چھ فرقے

  امام ابنِ تیمیہؒ

مسئلہ تجسیم میں شیعہ کے چھ فرقےامام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’ مقالات الاسلامیین‘‘ میں رقم طراز ہیں [1]:[1] ’’ مقالات الاسلامیین ۲؍۱۰۴‘‘تجسیم کے عقیدہ میں روافض کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے، اس ضمن میں وہ چھ فرقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں :پہلا فرقہ: پہلا فرقہ ہشامیہ ہے، یہ ہشام بن حکم رافضی کے پیرو ہیں ، ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان کا معبود مجسم ہے، اور اس کی انتہاء اور حد ہے، اس کا طول ، عرض و عمق مساوی ہے۔ اس کا نور پگھلے ہوئے سونے کی طرح بلند ہوتا ہے،اور اقدار میں اس کے لیے قدرت ہے؛وہ مکان کے بغیر ایک مکان میں ہے؛ وہ تمام جوانب سے گول اورموتی کی طرح چمک دار ہے، وہ رنگ دار ، بامزہ اور ہوا دار ہے اسے ٹٹولا جا سکتا ہے۔اس نے ایک لمبی تفصیل بیان کی ہے۔دوسرا فرقہ: روافض کا دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی صورت نہیں ۔ وہ باقی اجسام کی طرح بھی نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کو جسم قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موجود ہے۔ وہ ایسے اجزاء سے پاک ہے جنہیں آپ میں جوڑا گیا ہو؛ اور جنہیں تلف کیا جاسکتاہو۔ وہ عرش پر ہے مگرنہ اسے چھواجا سکتاہے نہ اس کی کیفیت بیان کی جا سکتی ہے۔تیسرا فرقہ: روافض کے تیسرے فرقے کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ ان کے رب کی صورت انسان جیسی ہے، مگر وہ جسم سے پاک ہے۔چوتھا فرقہ: رافضہ ہشامیۃ:یہ ہشام بن سالم جوالیقی کے پیرو کارہیں ۔ ان کے خیال میں ان کا رب انسانوں جیسی صورت رکھتا ہے، تاہم گوشت اور خون سے پاک ہے، وہ ایک درخشندہ نور ہے جس کی چمک سے سفیدی نکلتی ہے ۔ وہ انسانوں کی طرح حواس خمسہ رکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں ناک منہ اور آنکھیں ہیں ، اس کے حواس بدلتے رہتے ہیں ۔ ابو عیسیٰ الورّاق کا بیان ہے کہ: ہشام بن سالم کے خیال میں اﷲ تعالیٰ کے سیاہ بال ہیں ، اور وہ ایک سیاہ نور ہے۔پانچواں فرقہ: اس کے نزدیک اﷲ تعالیٰ خالص روشنی اور محض ایک نور ہیں ۔ چراغ کی طرح روشن ہے، اس کے حالات میں تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، اس کی صورت نہیں ، مزید برآں اس کے اجزا ء اختلاف سے پاک ہیں ۔اور اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ وہ انسان کی صورت پر یا دیگر کسی حیوان کی صورت پر ہو۔ چھٹا فرقہ: شیعہ کا چھٹا فرقہ یہ نظریہ رکھتا ہے، کہ اﷲ تعالیٰ مجسم اور باصورت نہیں ، وہ متحرک ہے نہ ساکن، اسے چھوا ہی نہیں جا سکتا۔ توحید باری تعالیٰ سے متعلق وہ معتزلہ اور خوارج کے ہم نوا ہیں ۔امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : یہ متاخرین شیعہ کے افکار و معتقدات ہیں ، متقدمین شیعہ تشبیہ (صفات باری کو صفات مخلوق کے مماثل قرار دینے) کا عقیدہ رکھتے تھے۔ میں کہتا ہوں یہ جو کچھ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے پرانے دور کے شیعہ کے بارے میں بیان کیا ہے کہ ؛ ان کا عقیدہ تجسیم کا تھا۔ عقائد کے علماء نے اس بالاتفاق نقل کیا ہے۔ حتی کہ خود شیعہ علماء جیسے ابن نوبختی وغیرہ نے اس عہد کے شیعہ کے بارے میں یہی نقل کیا ہے۔
ابو محمدابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اسلام میں سب سے پہلے جس نے اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے کا کہا ہے ؛ وہ ہشام ا بن الحکم ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں اس کا انکار کرنے والے متکلمین تھے؛ جن تعلق معتزلہ سے تھا؛ جیسے ابو الہذیل العلاف۔پس جہمیہ اور معتزلہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے جسم کے انکار کا عقیدہ ایجاد کیا۔پس یہ دونوں قسم کے عقائد اہل سنت اور امامیہ میں سے کچھ نا کچھ لوگوں نے اپنا لیے۔جسم کا اثبات محمد بن کرام اور اس کے امثال و ہمنواؤں کا عقیدہ ہے؛ جو خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے قائل ہیں ۔ اور اس عقیدہ کا انکار کرنے والے ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ وغیرہ ہیں ۔ جو کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے قائل ہیں ۔اوریہ ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ ؛ امام مالک ؛ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے بہت سارے اتباع کاروں کا یہی عقیدہ ہے۔