غیر مسلموں کا مسجد بنانا
سوال: ایک اخبار میں ایک مولانا صاحب نے ہندؤ کا مسجد کی تعمیر کیلئے زمین وقف کرنا جائز قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اگر ہندؤ کے نزدیک مسجد بنانا کارِ ثواب ہے تو اس کا مسجد کیلئے جگہ وقف کرنا صحیح ہے اور اس میں نماز پڑھنا بھی صحیح ہے، چونکہ وہ ایک دفعہ مسجد بن چکی ہے، اس لئے اگر اس کی دوبارہ تعمیر کی بھی ضرورت ہو تو صحیح ہے۔ کیا یہ جواب شرعاً درست ہے؟
جواب: یہ جواب شرعاً درست نہیں ہے، نہ غیر مسلموں کا مسجد تعمیر کرنا جائز ہے اور نہ ہی مسجد کی تعمیر کے لئے مسلمانوں کا غیر مسلموں سے چندہ لینا جائز ہے۔ مختصراً دلائل حسب ذیل ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ اَنۡ يَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ بِالـكُفۡرِؕ اُولٰۤئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ ۖۚ وَ فِى النَّارِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ اِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ (سورۃ التوبہ: آیت 17،18)
ترجمہ: مشرکوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مساجد تعمیر کریں، حالانکہ وہ خود اپنی ذات پر کفر کے گواہ ہیں، وہ ایسے (بد نصیب) لوگ ہیں کہ ان کے اعمال رائیگاں چلے گئے ہیں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اللہ تعالیٰ کی مسجدیں تو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان لا چکے ہیں۔
اس آیت کے تحت امام ابوبکر حصاصؒ اپنی تفسیر احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ: اس آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ کفار کو مسجد میں داخل ہونے، مساجد کو بنانے، اس کے مصالح کا انتظام کرنے اور اس کا نگران بننے سے روک دیاجائے، کیونکہ لفظ ان دونوں باتوں کو شامل ہے۔
امام فخر الدین رازیؒ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ: کافر کیلئے مسجد کی تعمیر کرنا جائز نہیں ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ مسجد عبادت کی جگہ ہے، پس مسجد کا معظم ہونا واجب ہے اور کافر مسجد کی توہین کرتا ہے اور اس کی تعظیم نہیں کرتا۔
علامہ علی بن محمد خازن تفسیر خازن میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے مسلمانوں پر واجب کر دیا ہے کہ وہ کفار کو مساجد کی تعمیر سے روکیں، کیونکہ مسجدیں تو صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کیلئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ تو جو شخص اللہ تعالیٰ جل شانہ کا منکر ہو، اس کے لئے مساجد اللہ کی تعمیر جائز نہیں ہے۔
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کفار کو مساجد کی تعمیر سے منع کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی مساجد صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ اور جو شخص الله تعالیٰ جل شانہ کا منکر ہو، اُس کو مساجد بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ رد المحتار میں لکھتے ہیں کہ جب ذمی (اسلامی مملکت کے غیر مسلم شہری) کسی ایسی چیز کے بارے میں وصیت کریں جو صرف ہمارے نزدیک عبادت ہے اور ان کے نزدیک عبادت نہیں ہے، مثلاً وہ حج کی وصیت کرے یا مسلمانوں کیلئے مسجد بنانے کی یا مسلمانوں کی مساجد میں چراغ روشن کرنے کی تو یہ وصیت بالاجماع باطل ہے۔
فتاویٰ عالمگیری: میں ہے کہ اگر کوئی ذمی اپنے گھر کو مسلمانوں کی مسجد کی طرح بنا دے اور انہیں اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دے اور پھر وہ مرجائے تو وہ گھر اس کے ورثاء کو وراثت میں مل جائے گا (یعنی مسجد نہیں بنے گا)، یہ تمام فقہاء کا قول ہے۔
علامہ ابنِ عابدین شامیؒ تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ: میں لکھتے ہیں کہ اہل ذمہ کا وقف کرنا جائز نہیں ہے، سوائے اُن اُمور کے جو ان کے اور ہمارے دونوں (مذاہب) کے نزدیک عبادت ہو حتٰی کہ اگر ذمی اپنے گھر کو مسلمانوں کے لئے مسجد بنا دے تو وہ جائز نہیں۔
ان دلائل کی روشنی میں مساجد کی تعمیر، توسیع اور ضروریات کے لئے غیر مسلموں سے مالی اعانت لینا جائز نہیں ہے۔
یہودی اور عیسائی تو کافر ہیں، ہندو مشرک ہیں، وہ ہندوستان میں بابری مسجد کو شہید کر چکے ہیں، ان کی مذہبی کتب اور عقائد میں کہیں بھی درج نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کیلئے مسجد بنانا کار ثواب اور رضاء الٰہی کا باعث ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں فرمان باری تعالیٰ ہے کہ وہ اپنی جانوں پر کفر کے گواہ ہیں۔
لہٰذا یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ ہندو تعمیر مسجد کو عبادت الٰہی اور تقرب الٰہی کا ذریعہ یا کارِ ثواب سمجھ سکتا ہے۔ مسجد کا تو قیام ہی توحید کے اعلان اور کفر و شرک کے بطلان کیلئے ہوتا ہے۔ ہر روز دعائے قنوت میں ہم اللہ تعالیٰ جل شانہ سے یہ عہدہ و پیمان کرتے ہیں کہ ہو ونخلع ونترك من يفجرك اے الله! جو تیرا جفا کار اور تیرا دشمن ہے ہم اس سے قطع تعلق کا اعلان کرتے ہیں۔
(تفہيم المسائل: جلد، 1 صفحہ، 174)