Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

لفظ اہل سنت کا معنی؛ اور لفظ جسم کے اطلاق کے متعلق ان کا موقف:

  امام ابنِ تیمیہؒ

لفظ اہل سنت کا معنی؛ اور لفظ جسم کے اطلاق کے متعلق ان کا موقف:پس لفظ’’اہل سنت‘‘ سے مراد وہ حضرات لیے جاتے ہیں جو خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو درست مانتے ہیں ۔ پس اس اعتبار سے اس میں روافض کے علاوہ تمام گروہ شامل ہوتے ہیں ۔اور کبھی اس سے مراد اہل الحدیث (محدثین)اور خالص سنت کے پیروکار لئے جاتے ہیں ۔ پس اس وقت اس میں صرف وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے صفات کو ثابت مانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ؛ مخلوق نہیں ہے؛ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھاجائے گا۔ اور تقدیر کو ثابت مانتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی ان کے مشہور اور بنیادی اصول ہیں جو کہ محدثین اور اہل سنت کے ہاں معروف ہیں ۔یہ رافضی مصنف پہلی اور عام اصطلاح کے اعتبار سے اہل سنت مراد لیتا ہے ؛کہ جو بھی رافضی نہیں ؛ اسے وہ اہل سنت کہتے ہیں ۔ اور پھر ان میں سے بعض لوگوں کے عقائد نقل کرنا شروع کر دئیے؛ اور اس میں بھی تحریف کردی۔اور یہ عقائد نقل کرنے میں بھی اتنا جھوٹ اور اضطراب ہے جو کہ کسی بھی عقل مند پر مخفی نہیں ہے۔جب یہ پتہ چل گیا کہ اہل سنت سے اس کی مراد عموم اہل سنت ہیں ؛ اور ان کا جسم کے اثبات اور نفی میں اختلاف ہے؛ جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ تو یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس مسئلہ میں امامیہ کا بھی اختلاف ہے ۔ ائمہ منکرین جیسے جہمیہ ؛ کچھ معتزلہ اور ان کی راہ پر چلنے والے ان لوگوں کو مجسمہ کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت مانتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک صفات جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں ۔ اور جسم جواہر مفردہ سے یا پھر مادہ اور صورت سے مرکب ہوتا ہے۔تو اہل اثبات ان کے جواب میں کہتے ہیں : کہ تمہارے اس قول میں اسماء حسنی کے ثابت ماننے کی وجہ سے تضاد پایا جاتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ حیی اور علیم اور قدیر ہیں ۔ جب بغیر جسم کے حیی ؛ علیم اور قدیر ثابت کرنا ممکن ہے؛ تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے لیے حیات ؛علم اور قدرت کو بغیر جسم کے ثابت مانا جائے۔اگر اس کو ثابت ماننا ممکن نہیں ہے تو پھر جو جواب تمہارا اسماء کے اثبات کے بارے میں ہوگا؛ وہ ہمارا جواب صفات کے اثبات کے بارے میں ہوگا۔پھر یہ کہ صفات کے قائلین میں سے بعض صرف ان صفات کو ثابت مانتے ہیں جو کہ سماعت سے معلوم ہیں ۔ جیسا کہ ان صفات کو ثابت مانا جاتا ہے جو عقل کے واسطہ سے معلوم ہوتی ہیں ۔ یہ خاص اہل سنت و الجماعت محدثین اور ان کے مؤیدین ائمہ فقہا اورائمہ اہل کلام میں سے قائلین صفات کا عقیدہ ہے۔جیسا کہ ابو محمد بن کلاب؛ ابو العباس القلانسی ؛ ابو الحسن الاشعری؛ ابو عبداللہ بن مجاہد؛ ابو الحسن الطبر ی؛ قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہم اللہ ۔ اس عقیدہ میں اشعری رحمہ اللہ اور اس کے مذہب کے ائمہ قدماء کا کوئی اختلاف نہیں تھا۔لیکن ان کے متاخرین اتباع کار جیسے ابو المعالی وغیرہ صرف عقلی صفات کومانتے ہیں ۔ جبکہ صفات خبریہ (سمعیہ)کا کچھ لوگ انکار کرتے ہیں اور کچھ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں جیسا کہ رازی؛ آمدی اور ان کے علاوہ دیگر حضرات ۔صفات خبریہ (سمعیہ)کے منکرین میں سے کچھ لوگ ان نصوص میں تاویل کرتے ہیں ؛ اور کچھ ان کے معانی اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض کرتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو صفات کو ثابت مانتے ہیں جیسا کہ اشعری رحمہ اللہ اور اس کے اصحاب ائمہ ِمذہب؛تو ان کا کہنا ہے کہ ان آیات کی ایسی تاویل کرنا جس کا مقتضی صفات کی نفی ہو؛ یہ باطل تاویل ہے۔ وہ صرف تفویض پر اکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ نفاۃ کی تاویلات کو بھی باطل قرار دیتے ہیں ۔اشعری رحمہ اللہ نے یہ باتیں اپنی اکثر کتابوں میں ذکر کی ہیں ؛ جیسا کہ موجز؛ المقالات الکبیر؛المقالات الصغیر ؛ الابانۃ ؛ اور ان کے علاوہ دوسری کتابیں۔ ان کتابوں میں ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ کے کلام میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ۔ مگر آپ کے مؤیدین اور مخالفین کا ایک گروہ آپ کا ایک دوسرا قول بھی نقل کرتا ہے؛ اور وہ کہتے ہیں کہ : جس چیز کا آپ نے اظہار کیا ہے؛ وہ آپ کے باطن میں چھپی ہوئی چیزکے خلاف ہے۔ آپ کی کتابیں ان دونوں بد گمانیوں کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔تیسرا قول:.... یہ قول خالص اہل سنت ائمہ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ إمام احمد؛ اور ان کے ہمثال و ہمنوا۔ وہ نفی یا اثبات میں کسی بھی لفظ جسم کا اطلاق نہیں کرتے ۔ اس کی دوبنیاد ی وجوہات ہیں :پہلی وجہ :.... یہ اطلاق کتاب و سنت میں ثابت نہیں ؛ اور نہ ہی کسی صحابی یا تابعی رضی اللہ عنہم ؛ یادین کے کسی دوسرے مسلمان امام سے ایسی کوئی چیز نقل کی گئی ہے۔ پس لیے کہ اس لفظ کا اطلاق ایک مذموم بدعت بن گیا۔دوسری وجہ :.... اس کے معنی میں حق اور باطل دونوں ہی داخل ہیں ۔ پس جو لوگ لفظ جسم کو ثابت مانتے ہیں ؛ وہ اس میں نقص ؛ تمثیل اور دوسری باطل چیزں کو داخل کر دیتے ہیں ۔ اورجو لوگ اس کی نفی کرتے ہیں ؛ واس میں تعطیل اور تحریف کو داخل کردیتے ہیں ۔ اور جو لوگ اس کی بالکل نفی کرتے ہیں وہ اس میں تعطیل اور تحریف کو داخل کردیتے ہیں ۔