غیر مسلموں سے معاملات اور ان کی عبادت گاہوں میں جاکر ان کے طریقے سے عبادت کرنا
سوال: ایک مسلمان شخص اپنے کسی عیسائی دوست کی ترغیب پر ان کے معبد (گرجا) میں جاتا ہے اور ان کے ساتھ مل کر انہی جیسی عبادات کرتا ہے اور اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے ایمان پر قائم تھا محض ان کی دلجوئی کیلئے اُس نے ایسا کیا۔ آپ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا اسلامی نقطۂ نظر سے اس طرح کرنا جائز ہے؟ اور اس کا یہ عمل اس کے ایمان پر اثر انداز ہو گا یا نہیں؟
جواب: یہ مسئلہ نہایت اہم ہے، اس لئے ہم صورت مسئلہ سے ہٹ کر اسلام کا اصولی نظریہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ دینی امور میں غیر مسلموں، مبتدعین اور بے دین لوگوں سے تعلق کی دو صورتیں ہیں۔ ایک مداہنت ہے اور دوسری مدارات مداہنت شرعاً ممنوع اور حرام ہے اور مدارات جائز، بلکہ اس سے اگر دینی فائدہ ہوسکتا ہے تو شرعاً مطلوب ہے۔ پہلے اس موضوع کے تمام پہلوؤں کے بارے میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں
وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡهِنُ فَيُدۡهِنُوۡنَ (سورۃ القلم: آیت، 9)
ترجمہ: انہوں نے یہ چاہا کہ اگر آپ (دین کے معاملے میں) ان سے (بےجا) نرمی کریں، تو وہ بھی نرم ہو جائیں گے۔
وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ (سورۃ الھود: آیت، 113)
ترجمہ: اور تم ان لوگوں سے میل جول نہ رکھو، جنہوں نے ظلم کیا ہے، ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ لگ جائے گی، اور اللہ تعالیٰ کے سواء تمہارے کوئی مددگار نہیں ہوں گے، پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ: (سورۃ الممتحنہ: آیت، 1)
ترجمہ: اے ایمان والو! میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ وہ اس حق کا کفر کرتے ہیں، جو ان کے پاس آچکا ہے۔
مداہنت کی تعریف
مداہنت یہ ہے کہ کوئی مؤمن خلافِ شرع کوئی بُرائی دیکھے اور قدرت کے باوجود اس سے منع نہ کرے، روک و ٹوک نہ کرے، اس رویے کے محرکات کئی ہو سکتے ہیں، مثلاً
- دینی بے غیرتی اور بے حمیتی۔
- اس بات سے شرمائے کہ دوسرے سے دقیانوسی اور قدامت پسند کہیں گے۔
- دنیوی مفاد اور طمع کے سبب کسی با اثر یا با اختیار شخص کی خلافِ شرع حمایت کی بناء پر ایسا کرے۔
مدارات کی تعریف
مدارات یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئے، بے جا سختی نہ برتے، کسی دینی حکمت یا مصلحت کے تحت نرمی سے پیش آئے۔ اور کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی ظالم و جابر کے ناروا ظلم سے بچنے کیلئے اس سے الجھنے کے بجائے پہلو تہی اختیار کرے۔ ظاہر ہے یہ رخصت اُن لوگوں کے لئے ہے جو اہلِ عزیمت و استقامت نہیں ہوتے، طبعاً کم ہمت ہوتے ہیں، اگرچہ دل سے بُرائی اور برے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔
موالاة
ایک چیز کافروں سے مولات یعنی دوستی اور محبت کا رشتہ قائم کرنا ہے، اس کی بھی قرآن میں ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے
لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ (سورۃ آل عمران: آیت، 28)
ترجمہ: مؤمن (اپنے) مؤمن (اہلِ ایمان) کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں۔
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ (سورۃ آل عمران: آیت، 118)
ترجمہ: اے الايمان والو! تم ایمان والوں کے سواء کسی کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ (سورۃ المائدہ: آیت، 51)
ترجمہ: اے ایمان والوں یہود اور نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ (مسلمانوں کے خلاف) ایک دوسرے کے حمایتی ہیں اور تم میں سے جو کوئی (مسلمانوں کو چھوڑ کر) انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا۔
وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ (سورۃ الھود: آیت، 113)
ترجمہ: اور ظالموں سے میل جول نہ رکھو، ورنہ تمہیں بھی دوزخ کی آگ جلائے گی۔
مسلمانوں کا غیر مسلموں کے عبادت خانوں میں جا کر اُن کے طریقے پر عبادت کرنا حرام ہے اور اگر وہ طریقہ اپنی وضع کے اعتبار سے کفر ہے جیسے بتوں کے سامنے سجدہ کرنا یا آگ کی پرستش کرنا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مجسمے کے آگے سجدہ کرنا تو یہ کفر ہے۔ اور اس میں یہ عذر مقبول نہیں ہو گا کہ دل میں ایمان ہے اور محض غیر مسلم کی دل داری کیلئے ایسا کیا ہے، شریعت کے احکام کا اطلاق ظاہر حال پر ہوتا ہے۔
الاشباه والنظائر میں ہے کہ بت کی پوجا کرنا کفر ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں، اور اسی طرح اگر کسی نے یہودیوں اور عیسائیوں کا زنار گلے میں باندھا (اس نے بھی کفر کیا) خواہ وہ اُن کے گرجوں (چرچ) میں داخل ہو یا نہ ہو۔
سائل پوچھتا ہے کہ وہ حرکات ملعونہ جائز ہے یا نہیں۔ بلکہ سائل کو یہ پوچھنا چاہئے کہ کفر ہے یا نہیں؟ ان کی عورتیں نکاح سے نکلیں یا نہیں؟
جامع الفصولین میں ہے من خرج الى السدة (قال القارى اى مجمع اهل الكفر) كفر لان فيه اعلان الكفر وكانه اعان عليه
جو کوئی (دار الاسلام کو چھوڑ کر) کفار و مشرکین کے مجمع میں جائے (السدة محدث و فقیہ ملا علی قاریؒ نے فرمایا اس کا معنیٰ مجمع اہلِ کفر ہے) تو وہ کافر ہو گیا، کیونکہ اس میں کفر کا اعلان ہے، گویا وہ کفر پر ان کی امداد کر رہا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ کفر کے اہتمام میں شریک ہونا اور اس پر راضی ہونا کفر ہے الرضا بالكفر کفر کفر پر راضی ہونا کفر ہے۔ وہ لوگ اسلام سے نکل گئے اور اُن کی عورتیں اُن کے نکاح سے نکل گئی۔
علامہ ابنِ عابدین شامیؒ لکھتے ہیں فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ: یہودیوں کی عبادت گاہ اور عیسائیوں کے گرجے (چرچ) میں کسی مسلمان کا داخل ہونا مکروہ ہے، اس لئے کہ وہ شیاطین کے جمع ہونے کی جگہ ہے، اس لئے نہیں کہ وہاں داخل ہونے کا حق نہیں ہے۔
بحر الرائق میں فرمایا ظاہر یہ ہے کہ کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہے، کیونکہ جب مطلقاً مکروہ بولا جائے تو اس سے کراہت تحریمی مراد ہوتی ہے۔
فقہائے کرامؒ نے ایسے مسلمان کو سزا دینے کا فتویٰ دیا ہے جو یہودیوں کے ساتھ ان کے معبد (گرجا) میں مستقل آتا جاتا رہتا ہے۔ پس جب وہاں داخل ہونا حرام قرار پایا تو نماز پڑھنا بدرجہ اولیٰ حرام ہے۔
(تفہيم المسائل: جلد، 4 صفحہ، 32)