Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ کے ساتھ ملنے جلنے اور شادی غمی میں شرکت کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید سیدنا امیر معاویہؓ کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ان کو مردود سمجھتا ہوں (معاذاللہ)، اور ان کو بُرا کہنا میری نجات کا ذریعہ ہے، اور ان پر طرح طرح کے الزام لگاتا ہے۔

لہٰذا ایسا عقیدہ رکھنے والے شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ ایسے شخص سے ملنا جلنا اور اس کے غم و خوشی میں شامل ہونا چاہئے یا نہیں؟ جو شخص اس سے ملے جلے اس کے لئے کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب: زید بدترین خبیث رافضی تبرائی ہے۔ اس سے ملنا جلنا حرام سخت حرام، اس کی بیاہ شادی، غمی خوشی میں شریک ہونا حرام ہے۔ حدیث پاک میں ہے

يأتي قوم لهم نبذ يقال لهم الرافضة لا يشهدون جمعة ولا جماعة ويطعمون السلف فلا تجالسوهم ولا تواكلوهم ولا تشاربوهم ولا تناكحوهم واذا مرضوا فلا تعودهم واذا ماتوا فلا تشهدوهم ولا تصلوا عليهم ولا تصلوا معهم

فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حدید میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دو قسمیں فرمائیں۔ ایک وہ کہ قبل فتح مکہ شرف مشرف بایمان ہوئے اور راہِ خدا تعالیٰ میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا، دوسرے وہ کہ بعد میں ایمان لائے۔ پھر فرمایا

وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌(سورۃ الحدید: آیت، 10)

ترجمہ: دونوں فریق سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور جن سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ان کو فرماتا ہے:

اُولٰٓئِكَ عَنۡهَا مُبۡعَدُوۡنَ(سورۃ الانبیاء: آیت، 101)

ترجمہ: وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔ اور فرماتے ہیں: 

لَا يَسۡمَعُوۡنَ حَسِيۡسَهَا‌(سورۃ الانبیاء: آیت، 102)

ترجمہ: اس میں بھنک تک نہ سنیں گے، اور فرماتا ہے

وَهُمۡ فِىۡ مَا اشۡتَهَتۡ اَنۡفُسُهُمۡ خٰلِدُوۡنَ‌ لَا يَحۡزُنُهُمُ الۡـفَزَعُ الۡاَكۡبَرُ

(سورۃ الانبیاء: آیت، 102،103)

ترجمہ: قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی، اور فرماتے ہیں

وَتَتَلَقّٰٮهُمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ (سورۃ الانبیاء: آیت، 103)

ترجمہ: اور فرشتے اُن کا استقبال کریں گے۔ اور فرماتے ہیں: 

هٰذَا يَوۡمُكُمُ الَّذِىۡ كُنۡـتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ (سورۃ الانبیاء: آیت، 103)

ترجمہ: یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔ 

حضور اکرمﷺ کے ہر صحابیؓ کی یہ شان اللہ تعالیٰ بتاتا ہے، تو جو کسی صحابیؓ پر طعن کرے، پس وہ اللہ تعالیٰ کو جھٹلاتا ہے۔ اور ان کے بعض معاملات میں جن میں اکثر حکایاتِ کاذبہ ہیں ارشاد الٰہی کے مقابل پیش کرنا اہلِ اسلام کا کام نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا منہ بند فرما دیا کہ دونوں فریق صحابیؓ سے بھلائی کا وعدہ کرنے کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا: 

وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ(سورۃ الحدید: آیت، 10)

ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کو خوب خبر ہے جو کچھ تم کروں گے، بایں ہمہ میں تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا، اس کے بعد کوئی بکے اپنا سر خود جہنم جائے۔

علامہ شہاب الدین خفاجی نسيم الرياض شرح شفا امام قاضی ابو عیاض میں فرماتے ہیں:

و من يكون يطعن في معاويةؓ فذالك كلب من كلاب الهاوية جو شخص سیدنا امیر معاویہؓ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے۔ 

جو شخص اس سے ملے جلے وہ بھی اس کی رسی میں جکڑا جائے گا۔

حدیث پاک میں ہے: المرء مع من احب۔

(فتاوىٰ ضياء العلوم: صفحہ، 13)