متعہ اور قرآن کریم
مولانا اللہ یار خانؒمتعہ اور قرآن کریم
علی نقی شیعہ مجتہد نے اپنی کتاب کے صفحہ 96 پر یوں سرخی قائم کی متعہ کے قرآنی دلائل اور قرآن سے یہ آیت پیش فرمائی اپنے دعویٰ پر: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ الخ (سورۃ المائدہ آیت 1)
ترجمہ: اے ایماندارو ! اپنے عہد کی وفا کیا کرو۔
جواب: وفا ان وعدوں کی مراد ہے جو صحیح ہوں اور متعہ تو حرام ہے، کیا زنا سے وفاء عہودِ خدائی ہوتی ہے سبحان اللہ شیعہ علی نقی علمِ مناظرہ سے خوب واقف ہیں شیعہ علی نقی! اول متعہ کو ثابت کریں بعد میں اس کی وفا کی آیت پیش کریں حرمتِ متعہ پر امت کا اتفاق ہو چکا ہے اب وفاء عہد یہ ہوگا کہ متعہ کے نام سے بھی اجتناب کریں۔
تمام مسلمان عموماً اور شیعہ علی نقی خصوصاً اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ قرآنِ کریم نے اس مروجہ متعہ کی نہ اجازت دی ہے نہ ہی متعہ کا قرآن میں کوئی ذکر ہے جب قرآن کریم سرے سے متعہ کا نام ہی نہیں لیتا تو پھر اس متعہ کا نسخ تلاش کرنا چہ معنیٰ دارد۔ متعہ منسوخ تو تب ہوتا کہ اس کی اباحت و جواز قرآن میں مذکور ہوتا اور شیعہ علی نقی اتنے بڑے دعویٰ کے بعد بھی کوئی آیتِ قرآن سے متعہ پر پیش نہ کر سکے صرف زبانی دعویٰ کہ ممتوعہ زن زوجہ میں داخل ہے صرف تمہاری زبانی داخل ہے کوئی ثبوت تھا تو پیش کرتے۔
دوم: مروجہ متع شیعہ عرب میں مروج تھا بطورِ عادت کے جس کو قرآن و اسلام نے حرام قرار دیا۔ اسلام نے کسی وقت اس کی اجازت نہیں دی۔ باقی رہا نکاحِ مؤقت، اس کی اباحت و جواز حدیثِ رسول سے بھی ہے اور اس کی حرمت پر اجماعِ امت ہو چکا ہے اور نکاحِ مؤقت کا ذکر عنقریب آ جائے گا۔ اور آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ الخ۔ (سورۃ النساء آیت 24)
کو متعہ سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ اس سے متعہ ثابت کرنا تحریفِ قرآن کے مترادف ہے اور تمام محققین مفسرین نے قولِ متعہ کو رد کر دیا ہے۔ اور نکاحِ صحیح ثابت کیا ہے نمبر وار سن لیں اقوالِ مفسرین۔
1) تفسیر بیان القرآن حضرت مولانا تھانویؒ صفحہ 108
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ الخ(سورۃ النساء آیت 24)۔ کے متعلق یوں فرماتے ہیں۔ اور بعض سے جو اس آیت میں اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى الخ ہے وہ بطورِ تفسیر کے ہے نہ اس آیت سے متعہ زیرِ بحث ثابت ہوتا ہے نہ ہی اس کا شان نزول متعہ سے تعلق رکھتا ہے محققین کا مذہب ہے کہ اس آیت کا متعہ سے دور کا واسطہ بھی نہیں چہ جائیکہ اس سے متعہ پر استدلال کیا جائے۔
2) شیخ زاده صفحہ 26 مطبع بیروت
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ نزل لبيان حكم النكاح الصحيح وهو قول اكثر العلماء لا لاباحة نكاح المتعة، پس آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ الخ نازل ہوئی واسطے بیان حکم صحیح کے اور یہی قول ہے اکثر علماء کا ، نہ اباحتِ متعہ کے حق میں۔
فائدہ: ثابت ہوا کہ آیت سے مراد متعہ نہیں بلکہ نکاحِ صحیح مراد ہے اور مرادِ باری تعالیٰ کا بدلنا تحریفِ قرآن ہے۔
3) تفسیر روح البیان: صفحہ 2129 جلد 1
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ ای بالذی انتفعتم به من النساء بالنكاح الصحيح من جماع او خلوة الصحيح: پس آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ الخ کا معنیٰ یہ ہے کہ جس عورت سے تم جماع سے نفع اٹھاؤ، ساتھ صحیح نکاح کے یا خلوتِ صحیحہ کے۔
4) تفسیر خازن: صفحہ 423 جلد 1
قال ابنِ جوزی فی تفسير الايت وقد تكلف قوم من مفسرى القرآن فقالوا المراد بهذا الايت نكاح المتعة ثم نسخت بما روی عن النبیﷺ انه نهى عن متعة النساء وهذا تكلف لا يحتاج اليه لان النبیﷺ اجاز المتعة ثم منع منها فكان قولهﷺ منسوخا بقوله فاما الايت فانها لا تضمن جواز المتعة لانه تعالىٰ قال فيها أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَٰلِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ فدل ذلك على النكاح الصحيح قال الزجاج و معنىٰ قوله تعالى فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فمانكحتموه على شرائط التی جرت وهو قوله تعالىٰ مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ ای عاقدین التزویج ۔
علامہ ابنِ جوزیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ مفسرینِ قرآن نے اس آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ کی تفسیر میں تکلیف کی ہے پس کہا انہوں نے کہ مراد اس آیت سے متعہ ہے پھر منسوخ ہو گیا تھا حدیثِ رسولﷺ سے اور یہ محض تکلف ہے جس کی محتاجی نہیں چونکہ رسولِ خداﷺ نے متعہ معنیٰ نکاحِ مؤقت کو جائز مراد لیا تھا پھر منع بھی فرما دیا تھا پس اباحتِ نکاحِ مؤقت جس کو متعہ کہتے ہیں فرمانِ رسولﷺ سے ثابت ہے اور حرمتِ متعہ بھی بعد کو فرمانِ رسولﷺ سے ثابت ہے قولِ رسولﷺ سے اباحت اور حرمتِ متعہ بھی ہوئی آیت میں جوازِ متعہ کا کوئی ذکر تک بھی نہیں چونکہ فرمانِ باری تعالیٰ وَاتَبْتَغُواْ بِأَمْوَٰلِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ الخ۔ نکاحِ صحیح پر دلالت کرتا ہے اور زجاج نے فرمایا کہ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ کا معنیٰ ہے کہ جس عورت سے تم نکاح کرو ان شرائط پر جو عادةً جاری ہیں پس فرمان غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ کا معنیٰ عقد کرنے والے تزویج ہے۔
فائدہ: ثابت ہوا کہ قرآن میں نہ متعہ کی اباحت کا ذکر ہے نہ نسخ کا۔ قرآن متعہ کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا متعہ یعنی نکاحِ مؤقت حدیث سے 3 دن مباح ثابت ہوا پھر حدیث سے حرام ہو گیا تھا۔
5) تفسیر جامع البیان ابنِ جریر طبری: صفحہ 10 جلد 5
قال ابو جعفر اولی التاويلين فی ذلك والصواب تأويل من تاوله فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ الخ نكحتموه منهن فجامعتموهن فَآتَوْهُنَّ أُجُورَهُنَّ لقيام الحجة بتحريم الله تعالىٰ متعة النساء على غير وجه النكاح الصحيح او الملك الصحيح على لسان رسول اللهﷺ۔
ابو جعفرؒ فرماتے ہیں کہ اچھی تاویل اس شخص کی ہے جس نے فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ کا معنیٰ نکاح کیا ہے اور نکاح سے مراد جماع ہے جس سے تم جماع کرو اس کو اجر دو یعنی حق مہر ادا کرو چونکہ حرمت پر دلیل قائم ہے قرآن و حدیثِ رسولﷺ سے سوائے نکاحِ صحیح و ملکِ صحیح کے باقی سب حرام ہیں۔
6) تفسیر روح المعانی: صفحہ 6جلد 7:
وهذا لايت لا تدل على حل المتعة والقول بأنها نزلت فی المتعة غلط وتفسير البعض لها بذلك غير مقبول لان نظم القرآن الكريم يأباه حيث بين سبحانه تعالىٰ اولا المحرمات ثم قال عز شانہ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ وفيه بحسب المعنىٰ يبطل تحليل الفرج وإعارته وقد قال بهما الشيعة ثم قال جل شانه مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ وفيه اشارة الى النهی عن كون القصد مجرد قضاء الشهوة وحيه الماء واستفراغ ادعيه المنى فبطلت المتعة بهذا القيد لان مقصود المتمتع ليس الا ذلك دون التاهل والاستيلاد وحماية الذمار و العرض ثم فرغ سبحانه وتعالىٰ على النكاح قوله تعالى عز من قائل فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ وهو يحمل على ان المراد بالاستمتاع هو الوط والدخول به لا الاستمتاع بمعنى المتعة التى يقول بها الشيعه والقراة التی تنتقلون ها عمق تقدم من الصحابة شاذة۔
اور آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ حلتِ متعہ پر دلالت نہیں کرتی اور یہ کہنا کہ متعہ کے حق میں نازل ہوئی ہے غلط ہے اور بعض مفسرین کا اس آیت کی تفسیر متعہ سے کرنا غیر مقبول ہے چونکہ نظم قرآنِ کریم کی متعہ کی تفسیر سے مانع ہے جب خود باری تعالیٰ نے اول میں محرمات کا ذکر فرمایا وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ اور آیت باعتبارِ معنیٰ کے حلتِ شرمگاہ و عاریتہ شرمگاہ کو باطل کرتی ہے اور شیعہ ان دونوں کے قائل ہیں یعنی بغیر نکاح کے، پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ اس میں اشارہ ہے منع کرنے اس وطی سے جس سے قضاء شہوت اور مستی جھاڑنا اور منی کے برتن خالی کرنا مقصود ہو پس باطل ہو گیا متعہ اس قید سے چونکہ مقصود متعہ کرنے والے کا سوائے شہوت پرستی و مستی جھاڑنے کے اور برتن منی کے خالی کرنے کے اور کوئی نہیں ہوتا نہ کہ بیوی بنانا نہ ہی اولاد پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے پھر خدا تعالیٰ نے تفریح بٹھائی ہے نکاح پر اپنے قول پر فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ کی اور آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ سے مراد وطی سے نفع اٹھانا ہے اور دخول سے نہ وہ متعہ جو شیعہ کا مقصد ہے باقی قرأة جو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے۔ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وہ شاذ ہے وہ قرآن نہیں ہے لہٰذا غیر مقبول ہے۔
فائدہ: روح المعانی کی عبارت سے دو امر ثابت ہوئے ایک یہ کہ بعض مفسرین کا آیت سے متعہ مراد لینا غلط ہے۔
دوم: آیت نکاحِ صحیح کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ نہ متعہ کے حق میں چونکہ متعہ میں وقتی تسکین مقصود ہوتی ہے نہ بیوی بنانا مقصود ہوتا ہے۔ کیونکہ اول ان عورتوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا جن سے نکاح حرام ہے پھر وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ سے ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے نکاح صحیح ہے پھر طریقہ نکاح بتایا کہ نکاح میں حق مہر بھی دیا کرنا جس عورت سے فائدہ اٹھاؤ، جماع سے ساتھ نکاحِ صحیح کے۔
سوم: بتایا کہ نکاح سے شہوت رانی مقصود نہیں ہوتی اور متعہ میں یہی چیز ہی مقصود ہوتی ہے۔
7) تفسیر مناز: صفحہ 9جلد 5 مصری:
فقال معنا لا ان يقصد الرجل احصان المرة وحفظها ان ينالها احد سواه لكن عفيفات طاهرات لا يكون المتزوج لمجرد المتمتع وسفح الماء واراقته وهو يدل على بطلان النكاح المؤقت وهو لنكاح المتعة الذی يشرط فيه الاجل۔
پس فرمایا کہ معنیٰ آیت کا یہ ہے کہ قصد کرے مرد احصان عورت کا اور اس کی عزت کی حفاظت کرے کہ اس مرد کے سوا اس کو کوئی نہ چھوئے لیکن یہ عورتیں پاک دامن عفیف ہونی چاہئیں اور نکاح کرنے والے کا مقصد صرف نفع اٹھانا ہی نہ ہو نہ ہی پانی خارج کرنا مقصود ہو اور یہ آیت نکاحِ مؤقت جس کو متعہ کہتے ہیں جس وقت مقرر ہوتا ہے اس کے باطل ہونے پر دال ہے۔
تفسير منار: صفحہ 13جلد 5:
وهذا هو المتبار من نظم آية القرآن فانها قد بينت ما يحل من نكاح النساء فی مقابلته ما حرم فيها قبلها و فی صدرها وبينت كيفية وهو ان يكون بمال يعطى المرٔة وبان الغرض المقصود فيه الاجمان دون مجرد المتمتع بسفح الماء۔
اور یہی بات یعنی حرمتِ متعہ نظمِ قرآنی سے متبادر ہے چونکہ جن عورتوں سے نکاح حلال تھا ان کو بیان کیا چونکہ ان کے مقابل ان عورتوں کا بیان ہوا تھا جن سے نکاح حرام تھا اور پھر کیفیت نکاح بیان فرمائی کہ نکاح مال پر کرنا چاہیے اور نکاح سے مقصود احصان ہونا چاہیے نہ مجرد نفع اٹھانا۔
8) ابنِ کثیر: صفحہ 474 پر جن افراد نے فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ سے متعہ مراد لیا ہے ان کو یوں رد فرمایا کہ یہ جمہور کے خلاف ہے ولكن الجمهور على خلاف ذالك۔
فائدہ: شیعہ علی نقی نے اپنی کتاب کے صفحہ 105 پر فرمایا کہ "وقال الجمهور ان المراد بهذا الايت نكاح المتعة" کہ اس آیت سے مراد نکاح متعہ ہے غلط ثابت ہوا جمہور کا مذہب ہے کہ آیت سے مراد نکاح صحیح ہے نہ نکاح متعہ۔
اَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ من الزوجات الى اربع اسراری ما شئتم بالطريق الشرعی۔
اپنے مالوں سے عورتیں طلب کریں چار تک یا باندیاں جتنی تم چاہو شرعی طریقہ سے۔
فائدہ: چار تک کی قید نے متعہ کو اڑا دیا ہے متعہ میں کوئی عدد مقرر نہیں ۔
9) تفسیر مدارک: صفحہ 170:
فمانکحتموھن مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ اى مهورھن لان المهر تواب البضع۔
اور پھر فرمایا الا علی ازواجهم وفيه دليل علی تحریم المتعة۔
پس جسں عورت سے تم نکاح کریں ان کو ان کا مہر ادا کیا کریں چونکہ مہر ہی مقابل فرج کے ہے اور پھر فرمایا صاحبِ مدارک نے کہ اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ کی آیت سے متعہ حرام ثابت ہوتا ہے ۔
10) تفسير ابو سعود اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ من نكاح او خلوة جس عورت سے نکاح سے یا خلوت سے نفع اٹھاؤ۔
11) تفسیر بیضاوی مصری: فمن اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ من المنكوحات فَآتَوْهُنَّ أُجُورَهُنَّ ای مهورهن۔
پس جو شخص منکوحہ زوجہ سے نفع اٹھائے ان کو مہر دے دے.
12) تفسیر ابوجعفر نحاس مطبوعہ مصر: صفحہ 105:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ هو النكاح بغيه وما احل الله المتعة فی القرآن قط فمحن قال هذا من العلماء الحسن ومجاهد الى ان قال عن ابن نجيخ عن مجاهد فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ قال هو النكاح وقال الحسن فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ قال النكاح وكذا يروى عن ابن عباسؓ وقد صح من الكتاب والسنة التحريم ولم يصح التحليل من الكتاب۔
پھر صفحہ 106 پر فرمایا: ان الاستمتاع النكاح على ان الربيع بن بسرة قد روى عن ابيه ان رسول اللهﷺ قال لهم استمتعوا من هذه النساء قال الاستمتاع عندنا يومئذ التزويج ثم قال فبين ابن عباسؓ ان الاستمتاع هو النکاح
پس کہا ایک قوم نے کہ آیت سے مراد نکاحِ صحیح ہے اور متعہ کو خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں کبھی بھی حلال نہیں فرمایا پس اس قوم سے جن علماء نے یہ بات کی کہ قرآن میں متعہ کی اباحت کا ذکر نہیں نازل ہوا وہ حسن بصریؒ ہیں اور مجاہد ہیں اور ابنِ نجیخ مجاہد سے بیان کرتا ہے اور مجاہد حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم کے متعلق بیان کرتا ہے کہ ابنِ عباسؓ فرماتے تھے کہ اس سے نکاحِ صحیح مراد ہے نہ متعہ اور حسن بصریؒ نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ اس سے نکاح صحیح اور اسی طرح حضرت ابنِ عباسؓ سے بھی روایت موجود ہے کہ سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ حرمتِ متعہ قرآن سے اور حدیثِ رسولﷺ سے ثابت ہے اور قرآن سے متعہ حلت ثابت نہیں ہوئی اور اس استمتاع سے مراد نکاح صحیح ہے علاوہ ازیں سیدنا بسرہؓ کے بیٹے ربیع سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو استمتوا یعنی نفع اٹھاؤ ان عورتوں سے اور کہا سیدنا ربیع بن بسرہؓ کہ اس وقت جبکہ حضورﷺ نے جبکہ حکم دیا تھا متعہ کا۔ اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک متعہ سے مراد نکاح تھا پھر فرمایا کہ پس حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے استمتاع کا معنیٰ نکاح صحیح کا کیا ہے نہ کہ متعہ کا۔
فائدہ: تفسیرِ نحاس سے خوب واضح ہو گیا کہ آیت کے استمتاع سے مراد نکاح صحیح ہے نہ متعہ شیعہ۔
(دوم) اور یہی مذہب ہے علامہ مجاہد اور سیدنا ابنِ عباسؓ کا اور ان دونوں کے نزدیک استمتاع سے مراد نکاح ہے نہ متعہ۔
سوم: یہ بھی ثابت ہو کہ قرآن میں اباحتِ متعہ کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور یہی مذہب ہے خیر امت سیدنا ابنِ عباسؓ کا ۔
13) تفسير مظہری: صفحہ 78
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ ما انتنفعتم به منهن وتلذذتم بالجماع من النساء بالنكاح الصحيح فَآتَوْهُنَّ أُجُورَهُنَّ اى مهورهن كذا قال الحسن و مجاهد و اخرج ابنِ جرير وابن وابن منذر وابن ابى حاتم عن ابن عباسؓ قال الاستمتاع النكاح۔
پس آیت کا معنیٰ یہ ہوا کہ جس عورت سے تم نفع اٹھاؤ اور تلذذ جماع سے حاصل کرو نکاح صحیح کے ساتھ تو ان کے مہر ادا کرو۔ اسی طرح فرمایا حسن بصریؒ و مجاہدؒ نے اور اسی طرح اخراج کیا ہے ابنِ جریرؒ نے اور ابنِ منذرؒ نے اور ابنِ ابی حاتمؒ نے سیدنا ابنِ عباسؓ سے کہ آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ سے نکاح مراد ہے نہ کہ متعہ۔
فائدہ: علامہ ابنِ تیمیہؒ اصولِ تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی صحیح سے صحیح تفسیر وہی ہے جس کو مجاہد سیدنا ابنِ عباسؓ سے بیان کرے اور کی تفسیر فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مجاہدؒ نے سیدنا ابنِ عباسؓ سے نکاح کے بارے میں بیان فرمائی ہے نہ متعہ کے بالفرض کسی مفسر نے اس آیت کی تفسیر متعہ سے کر بھی دی ہو تو وہ غلط ہوگی جمہور کے مخالف ہے اور امام شافیؒ فرماتے ہیں کہ ممتوعہ عورت منکوحہ و زوجہ میں داخل نہیں ہے۔
واجمعوا انها ليست بزوجة ولا ملك يمين۔
تمام امت کا اتفاق ہے کہ ممتوعہ نہ زوجہ ہے نہ باندی ہے۔
شیعہ علی نقی نسخ کی بحث کرتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم منسوخ نہیں ہے اس میں تو حق بجانب ہیں مگر اس کو متعہ کے متعلق سمجھنا اس میں غریب نے غلطی کر کے ٹھوکر کھائی ہے۔