جواز متعہ اور احادیث
مولانا اللہ یار خانؒجواز متعہ اور احادیث:
شیعہ علی نقی نے اپنی کتاب کے صفحہ 129 پر جوازِ متعہ از حادیث کی ایک سرخی قائم کی ہے جس میں چند احادیث پیش فرمائی ہیں جن سے اپنے ذہن کے مطابق جوازِ متعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
الجواب: شیعہ علی نقی آپ کی یہ تحریر دو باتوں سے خالی نہ ہوگی یا تو تم نے احادیث کا مطلب ہی نہیں سمجھا اگر نہیں سمجھا تھا تو کسی سنّی عالم سے پوچھ لیتے تو اچھے رہتے اتنی رسوائی نہ اٹھانی پڑتی یا عمداً احادیثوں کو سمجھ کر لوگوں کو دھوکا دیا اس کی جزا خدا کے ہاں آپ کے لیے ہوگی وہ آپ کو دے گا۔ جن جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعینؒ سے جواز متعہ کی حدیثیں تم نے نقل کی ہیں اور جن جن کتابوں سے نقل کی ہیں انہی کتابوں میں اُن تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعینؒ کا رجوع بھی موجود ہے آپ کا فرض تھا کہ دیانت داری سے کام لیتے جہاں ان کے نام سے جواز نقل کیا تھا وہاں ان کا رجوع بھی نقل کرتے پھر ان دونوں باتوں کو قوم کے سامنے پیش کرتے ہم نے کب کہا ہے کہ جواز کے متعلق ان چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے ہم تو کہتے ہیں کہ جواز کا قول ان کے عدم بلوغ حرمتِ متعہ کی وجہ سے ہے جب حرمت کی حدیث ان کو ملی تو فوری رجوع کر لیا تھا اور بعد رجوع کے کوئی روایت پیش کرتے جس سے بعد رجوع کوئی عمل متعہ کے متعلق ثابت ہوتا ان سے شیعہ علی نقی یہ امر تو روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ قرآن میں متعہ کا نام تک بھی نہیں ہے اور یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ متعہ مروجہ شیعہ کا وجود اسلام میں نہیں پایا گیا جو تعریف شیعہ متعہ کی کرتے ہیں اس کی اجازت اسلام نے نہیں دی کہ ایک بار کرنے سے اتنے بڑے بڑے مراتب حاصل ہوتے ہیں قطراتِ غسل سے ملائکہ پیدا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
خیبر من قبل از وقوع متعہ کی حرمت کا نبی کریمﷺ نے اعلان کر دیا تھا فتح مکہ کے دن تین دن نکاحِ مؤقت کی اجازت حضرت شارع علیہ السلام نے دی تھی نہ کہ متعہ کی۔ شیعہ متعہ کی جب اباحت ہی ثابت نہیں تو نسخ کیا ہوا، قرانِ کریم کی مکی اور مدنی آیتیں حرمت پر صاف صاف دلالت کرتی ہیں پھر متعہ کس طرح مباح ہوا۔ اگر متعہ مباح ہوتا تو یقیناً نکاح کی ضروت ہی نہ تھی۔ ایک تو کام ارزاں یعنی ستا تھا دوم بر روز نیاء نظارہ تھا کل جدید لذیذ ہر نئی چیز میں لذت زیادہ ہوتی ہے کل جدید لذت اور جن حدیثوں کو شیعہ علی نقی نے بحق ثبوت متعہ پیش کیا ہے انہی سے نکاحِ مؤقت ثابت ہوتا ہے متعہ کا اشارہ بھی نہیں ملتا۔
سیدنا ابنِ مسعودؓ کی حدیث متعہ اور اسلام کے صفحہ 130 پر:
- "ثم رخص لنا ان تنكح المرة بالثواب" پھر اجازت دی ہم کو رسول اللہﷺ نے کہ ہم نکاح کریں عورت کے ساتھ کپڑا پر۔
- "ثم رخص لنا ان فتتح وكان احدنا بينكح المرة بالثوب الى اجل" پھر اجازت دی ہم کو رسول اللہﷺ نے کہ ہم نفع اٹھائیں اور نکاح کرتا ہر ایک ہم میں سے عورت کے ساتھ کپڑا پر وقت مقرر تھا۔
- "ثم رخص لنا ان تنكح المرة الى اجل بالشئی ابن مسعودؓ" پھر رخصت فرمائی رسول اللہﷺ نے ہم کو نکاح کریں عورت کے ساتھ کسی چیز پر وقت مقررہ تک۔
اور ربیع بن بسرہ کی حدیثیں جو تم نے پیش کی ہیں ان تمام میں نکاحِ مؤقت کا ذکر ہے نہ متعہ شیعہ کا اور ربیع بن بسرہ کی آخری حدیث جو تم نے نقل کی ہے اُس میں صاف نکاحِ مؤقت مذکور ہے۔
"فلما قدمنا مكة وحللنا قال استمتعوا من هذه النساء قال فعرضنا ذلك على النساء فابين ان يتزوجها الى ان تضرب بينا وبينهن اجلا فذكرنا ذلك رسول اللهﷺ فقال اضربوا بينكم وبينهن اجلاء۔
(متعہ اور اسلام: صفحہ 142 فتح الملہم: صفحہ 441 جلد 3)۔
پس جب ہم احکامِ حج سے مکہ میں فارغ ہو چکے تو حضور انورﷺ نے فرمایا کہ ان عورتوں سے نفع حاصل کرو پس ربیع کہتا ہے کہ ہم نے اس بات کو عورتوں پر پیش کیا مگر عورتوں نے نکاح سے انکار کر دیا کہ جب تک وقت مقرر نہ کر لو تو ہم نے اس بات کو رسول اللہﷺ پر پیش کیا تو آپ نے فرمایا وقت مقرر کر کے نکاح کر لو۔
ان المتعة التی ياثرها من ياثرها من الصحابة انما كانت نكاحا الى اجل اعنى النكاح المؤقت وهكذا وقع فی حديث بسرة عند ابن جرير بلفظ تزوجتها ببروى وبالجملة فالمتعة التی اباحها الشارع عليه السلام فی اوائل ثم حرمها تحريبا مؤبدا كان هو النكاح المؤقت يحضرة الشهود كما يدل عليه حدیث سلمان بن يسار عن ام عبد الله ابنة إلى خيثمة من رجل من اصحاب النبیﷺ فی قصة عند ابن جرير وفيه فشارطها واشهد و اعلى ذلك عدولا۔
تحقیق متعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جس نے کیا تھا یہ نکاح تھا وقتِ مقررہ تک مراد اس سے نکاح مؤقت تھا۔ اسی طرح موجود ہے حدیث بسرہ میں ابنِ جریرؒ کے نزدیک ساتھ لفظ تزویج کے ساتھ چادر کے حاصل کلام کا یہ ہے کہ جس متعہ کو یعنی نکاحِ مؤقت کو رسول اللہﷺ نے مباح فرمایا تھا اول میں اور پھر حرام فرمایا ہمیشہ کے لئے وہ نکاحِ مؤقت تھا گواہوں کے رو برو جیسا ثابت ہے حدیث سلمان بن یسار سے جو ام عبداللہ بنتِ ابی خثیمہ سے مروی ہے ایک مرد کے قصر میں، جو صحابی تھا رسول خداﷺ کا ابن جریر کے ہاں اور اسی میں ہے اس عورت سے شرط کی تھی اور اس پر عادل گواہ قائم کئے تھے۔
اور علامہ باجی نے منتقی شرح موطاء: صفحہ 336 جلد 3 پر فرمایا:
المتعة المذكورة فی النكاح المؤقت مثل ان يتزوج الرجل المرة سنة او شهرا او اكثر او اقل فإذا انفضت المدة۔
متعہ مذکور یہ نکاح مؤقت تھا اس طرح کہ نکاح کرے مرد عورت سے سال تک یا ایک ماہ یا اکثر یا کم جب مدت گذر گئی تو نکاح گیا۔
فائدہ سلمان بن یسار کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے نکاح مؤقت سے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واقف نہ تھے ورنہ حضورﷺ سے سوال نہ کرتے کہ یہ نکاحِ مؤقت جائز یا ناجائز پھر حضورﷺ کے بتانے پر جا کر کیا۔ اور خیبر کے دن تک اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اباحت نازل ہی نہ ہوئی تھی جب نکاح صحیح عورتوں سے جائز نہ تھا تو متعہ کہاں جائز تها متعہ قبل از وقوع حرام ہوا ۔