Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ رضامندی کا اظہار کرنا اور اُن کے لیے دعا اور استغفار کرنا

  الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ساتھ کے رضامندی کا اظہار کرنا۔ اہل سنت و الجماعت اس مسئلہ میں یک زبان ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف و مدح و سرائی کرنا ان کے لیے استغفار کرنا اور ان کے لیے رحمت و کرم کی دعا کرنا اور ان کا ذکر آنے پر رضی اللہ عنہ یا رضي الله عنهم کہہ کر ان سے اظہار رضا مندی کرنا واجب ہے۔
(الصارم المسلول لشیخ الإسلام ابن تیمیۃ: صفحہ، 1085) 
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں ہمیشہ خفیہ اور علانیہ ہر طرح سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے دعائیں اور استغفار کرتا رہوں گا جیسا کہ مجھے اس چیز کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
(دیوان ابن المبارک: صفحہ، 21 تحقیق سعد الفقہي)
حتٰی کہ رضي الله عنهم، یا رضی اللہ عنہما، یا رضی اللہ عنہ، یا رضی اللہ عنہم کہہ کر دعا کرنا عرف عام میں صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص ہو گیا۔ جب کبھی بھی کسی صحابی کا نام لیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہہ کر اسے دعا دی جاتی ہے۔ اس پر تمام مسلمانوں کے ہاں عمل رہا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ وہ ان پاکباز ہستیوں سے راضی ہو گیا ہے، (پھر ہم راضی کیوں نہ ہوں)
نیز فرمان الہٰی ہے:
رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ۞(سورۃ التوبۃ: آیت، 100)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(فتح القدیر: جلد،4 صفحہ، 302) 
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق استغفار کرنے کا حکم دیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ یہ ایک دوسرے کو قتل کریں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اصحابِ محمدﷺ کو برا بھلا نہ کہو۔ ان میں سے کسی ایک کی ایک گھڑی کی عبادت تمہاری ساری زندگی کے اعمال سے بہتر ہے۔
(سنن ابن ماجہ)
’’جمہور امت اور سلف و خلف کے سواد اعظم کی یہ مبارک سنت رہی ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے رضا مندی کا اظہار اور اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت اور معافی کی دعا کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس جانب ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔ فرمانِ الہٰی ہے:
وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡ بَعۡدِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡلَـنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ۞(سورۃ الحشر: آیت، 10)
ترجمہ: ’’اور جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کچھ لوگ اصحابِ رسول اللہﷺ پر باتیں کرتے ہیں حتیٰ کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو بھی معاف نہیں کرتے۔ تو آپ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ ان کے اعمال منقطع ہو گئے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ان کا اجر و ثواب چلتا رہے۔
(منہاج السنۃ لابن تیمیہ: جلد، 2 صفحہ، 22 سیر أعلام النبلاء: جلد، 10 صفحہ، 93) 
اہلِ سنت و الجماعت کا اس سلسلہ میں یہ بھی کہنا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف جن باتوں کو منسوب کیا جاتا ہے ان کا درج ذیل چار نقاط میں سے کسی ایک سے تعلق ضرور ہے:
1ـ وہ باتیں یا تو سراسر جھوٹ اور بہتان ہیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ 
2ـ حقیقت کومسخ کر کے بیان کیا گیا ہے یا حقیقت کو بیان ہی نہیں کیا گیا ہے بلکہ دروغ گوئی سے کام لیا گیا ہے اور بنیادی اصول و مبادی کو بدل دیا گیا ہے۔
3۔ جو بات ان کی طرف منسوب کی گئی ہے اس کا سبب غیر معروف ہے اور اس کی حقیقت کا اللہ ہی کو علم ہے۔ 
4۔ وہ لوگ اپنے اجتہاد کی بنیاد پر خدانخواستہ اگر غلطی پر تھے تو ہم اس سلسلہ میں یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا محاسبہ کرے گا، ہم ان اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاسبہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ ہمیں اس سلسلہ میں اپنی زبانیں بند رکھنی چاہئیں۔
آخر میں علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ ان فتن کے بارے میں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں رونما ہوئے، تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جن فتنوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سر اٹھایا، جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی آلودگی سے ہمارے اعضا و جوارح کو محفوظ و مامون رکھا ہے محض اپنے فضل و کرم اورعنایات و برکات کے طفیل ہماری زبانوں کو بھی اس کی آلودگی سے محفوظ و مامون رکھے۔‘‘
(شرح عقیدہ طحاویہ: صفحہ، 724، 725) 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق صحیح عقیدہ یہ ہے کہ وہ انسان ہیں، وہ صحیح کام کرتے ہیں اور ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں، سبھی انسانوں کی طرح ان سے بھی غفلت اور بھول ہوتی ہے، اور ان کے حق میں ہم گناہوں سے معصومیت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے ان کی اچھائیوں کا تذکرہ کرنا اور ان کی برائیوں سے تجاہل برتنا ضروری ہے۔