رجوع اصحاب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ مکہ والے
مولانا اللہ یار خانؒرجوع اصحاب حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ مکہ والے
قال ابن عبدالله اصحاب ابنِ عباسؓ من اهل مكة واليمن على اباحتها ثم اتفق فقهاء الامصار على تحريم۔
(فتح الباری: صفحہ 138 جلد 9)
ابنِ عبداللہ نے کہا کہ اصحاب ابنِ عباس رضی اللہ عنہ مکہ و یمن کے اباحتِ متعہ کے قائل تھے مگر تمام کے تمام شہروں والے حرمتِ متعہ پر متفق ہوگئے۔
فائدہ: اس طاؤسؒ اور عطاءؒ بھی اور سیدنا سعید بن جبیرؓ بھی ان تمام کا رجوع ثابت ہو گیا جب سیدنا ابنِ عباسؓ کا رجوع ثابت ہو چکا ہے۔ تو باقی ان کے شاگردوں کے رجوع کو ثابت کرنے کی تو چنداں ضرورت ہی تھی چونکہ وہ محض سیدنا ابنِ عباسؓ کے تابع تھے جب متبوع کا رجوع ثابت ہے تو تابع کا خود ہی ثابت اور سیدنا ابنِ عباسؓ کے پاس کوئی دلیل حدیثِ رسول سے موجود نہ تھی ان کا ذاتی خیال تھا اور ذاتی خیال بھی رسول اللہﷺ کے مخالف تھا کب قابلِ حجت ہو سکتا ہے اور ابنِ حریثؒ و اسلمہ بن امیہؒ اور ایک مرد شامی جن کا تذکرہ شیعہ علی نقی نے کیا ہے شیعہ علی نقی ان کا فعل یا قول آپ کو اس وقت فائدہ دے گا جب اول یہ ثابت کر دیں کہ ان کو حرمتِ متعہ کا علم تھا اگر یہ ثابت نہ ہو جائے تو پھر انہوں نے بوجہ لاعلمی کے کہا تھا یا کیا تھا اور جب علم ہوا تو تائب ہو گئے باقی یہ سوال کرنا ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہی نہ تھی یہ غلط ہے بلکہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح و مرفوع تھی قابلِ حجت تھی۔ جب ان کو سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے منع کیا تو پھر ان سے یہ عمل صادر نہیں ہوا اگر حدیث کو غلط کہا جائے تو بعد منع کرنے کے بھی عمل پر مُصر رہتے۔
میں کہتا ہوں ان کے نزدیک حدیث صحیح تھی صرف عدمِ بلوغ کی وجہ سے جو ہوا سو ہوا۔ سیدنا عمر فاروقِؓ اول بھی موجود تھا اگر صرف اُن کا خوف تھا تو اول ہی نہ کرتے۔ اگر آپ میں ہمت ہے یا اپنے قول کا پاس ہے کہ بعد منع کرنے سیدنا عمر فاروقؓ کے پھر ان سے یہ فعل صادر ہوا تو پیش کریں ابنِ حریث سے اور سلمہ بن امیہ سے جن سے شیعہ علی نقی متعہ کی اولاد بھی ثابت کرتے ہیں۔ اور سیدنا ابنِ عباسؓ کے رجوع سے بقایا کا رجوع ثابت ہے۔
اخرج البيهقی عن الزهرى انه قال مامات ابن عباسؓ حتىٰ رجع عن فتواه بحل المتعة وكذا ذكره ابو عوانة فی صحيحة۔
(تفسیر مظہری: صفحہ 76)۔
علامہ بیہقیؒ نے اس حدیث کا اخراج کیا ہے کہ سیدنا ابنِ عباسؓ موت سے اول حلتِ متعہ سے تائب ہو چکا تھا اور حرمتِ متعہ کا قائل ہو چکا تھا اسی طرح ذکر کیا ابو عوانہؒ نے اپنی صحیح میں۔
اصل میں شیعہ کو لفظ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ کے سمجھنے میں سخت غلطی ہوئی لفظ متعہ کو دیکھ کر فوری بول اٹھے کہ متعہ قرآن سے ثابت ہے یہ خیال نہ کیا کہ متعہ کا معنىٰ مطلق نفع اٹھانا ہے یہ خاص متعہ کہاں سے ثابت ہوا۔