Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ میں معتزلی اثرات

  امام ابنِ تیمیہؒ

شیعہ میں معتزلی اثرات 

شیعہ کے دین میں عقلیات اور شرعیات ہیں ۔عقلیات میں ان کے متا خرین معتزلہ کے پیروکار ہیں ۔ سوائے ان چند لوگوں کوکے جو اپنے تئیں فلسفی بننے کی کوششیں کرتے ہیں ۔ پس ان کا کلام یا تو فلسفہ پر مشتمل ہوتا ہے یا پھر اس میں فلسفہ اور اعتزال کی آمیزش ہوتی ہے؛ اور اس کے ساتھ ان کی اپنی رافضیت بھی مل جاتی ہے ۔جیسا کہ اس کتاب ’’[ منہاج الکرامہ] ‘‘ اور اس جیسی دوسری کتابوں کا حال ہے۔ اس وجہ سے شیعہ اللہ اور اس کے رسول اور عوام مسلمین سے سب لوگوں سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

جب کہ شرعیات میں ان کی بنیاد ان روایات پر ہے جو [ان کے تئیں اہلِ بیت سے منقول ہیں ۔ جیسے ابو جعفر الباقر ؛اور جعفر بن محمد الصادق اور دوسرے علماء [کی طرف منسوب روایات]۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے سرداروں اور سرکردہ لوگوں میں سے اور آئمہ دین ہیں ۔اور ان کے اقوال کی بھی وہی عزت و احترام ہے جو ان جیسے دوسرے علماء کے اقوال کا ہے ۔ لیکن ان سے جو روایات نقل کی گئی ہیں ان میں سے اکثر جھوٹ پر مشتمل ہیں ۔ رافضیوں کو روایات کی اسانید کا کوئی علم و خبر نہیں ہوتے۔ اور نہ ہی وہ ثقہ اور ضعیف کے درمیان فرق کرسکتے ہیں ۔ بلکہ اس معاملہ میں وہ اہلِ کتاب کے مشابہ ہیں ۔یہ لوگ اپنی کتابوں میں اپنے اسلاف سے منقول جو بھی بات پاتے ہیں ‘ اسے قبول کرلیتے ہیں ۔ بخلاف اہلِ سنت والجماعت کے۔اہلِ سنت و الجماعت کو اسانید کا علم ہے جس کی بنا پر وہ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرسکتے ہیں ۔جب حضرت علی بن حسینؒ سے کوئی روایت صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوجائے تو ان کے امثال کا نمونہ ومقتدائی بھی موجود ہے جیسے قاسم بن محمد اور سالم بن عبد اللہ وغیرہ رحمہم اللہ ۔ جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ کامعاملہ سارے صحابہ کرامؓ کے ساتھ تھا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النساء:59]

’’ اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹا دو۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ متنازعہ فیہ امور کو فیصلہ کے لیے اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹایا جائے۔

رافضی قرآن مجید کو حفظ کرنے کا اہتمام نہیں کرتے۔اور نہ ہی اس کے معانی اور تفسیر کو جانتے ہیں ۔ اور نہ ہی اس کے معانی و مفاہیم سے استدلال کرنے کا طریقہ جانتے ہیں ۔ایسے ہی یہ لوگ احادیث رسول اللہﷺ کا بھی کوئی اہتمام نہیں کرتے۔ اور نہ ہی انہیں صحیح اور ضعیف حدیث کی کوئی معرفت ہوتی ہے۔ احادیث کے معانی و مفاہیم سے بے بہرہ ہوتے ہیں ۔ آثار صحابہؓ و تابعینؒ کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا کہ ان کے مسلک اور ماخذ کا پتہ چل سکے؛ اور اختلاف کے وقت آیات قرآنیہ اور احادیث رسول اللہﷺ کے مطابق فیصلہ کے لیے پیش کیا جائے۔ بلکہ ان کا سارا سرمایہ وہ روایات ہیں جنہیں اہلِ بیت کی طرف منسوب کرکے نقل کیا جاتا ہے۔

اثبات شریعت میں شیعہ کے اصول 

اس بارے میں شیعہ کے تین بنیادی اصول ہیں 

¹ـ آئمہ میں سے ہر ایک امام معصوم اور نبی کریمﷺ کی منزلت پر ہے۔امام معصوم حق کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔ اور جو کچھ وہ کہتا ہے ‘ اس میں اس کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔اور جس معاملہ میں کوئی دوسرا امام کے ساتھ اختلاف کرے تو اسے اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کی طرف بھی نہیں لوٹایا جائے گا۔

²۔ آئمہ میں سے کوئی ایک جو بھی بات کہتا ہے ؛ اس کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ کہنا چاہتا ہے : جو میں کہتا ہوں وہ رسول اللہﷺ سے نقل کر رہا ہوں ۔افسوس کہ اگر یہ لوگ اس بارے میں تابعینؒ جیسے حضرت علی بن حسینؓ کی مراسیل پر ہی انحصار کرلیتے۔ بلکہ وہ ان لوگوں کی روایات لیتے ہیں جو بہت متأخر ہیں جیسے حسن عسکری کے ماننے والے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آئمہ میں سے جو کوئی بھی کوئی بات کہتا ہے ؛ حقیقت میں وہ رسول اللہﷺ کا فرمودہ ہوتی ہے۔جس انسان کو ادنیٰ سی بھی عقل ہو ؛وہ جانتا ہے کہ عسکریین کی وہی اہمیت ہے جو اس دور کے باقی ہاشمیوں کی ہے۔ان کے پاس کوئی ایسا علم نہیں ہے جس کی وجہ سے باقی لوگوں سے امتیازی حیثیت رکھتے ہوں ۔اور باقی اہلِ علم اس کے محتاج ہوں ۔ اور نہ ہی اہلِ علم ان سے کوئی روایت نقل کیا کرتے تھے جیساکہ وہ اپنے دور کے باقی علماء سے نقل کرتے رہتے تھے۔یا پھر جیسے حضرت علی بن حسینؒ اور ان کے بیٹے ابو جعفر اور پوتے محمد بن جعفر کے زمانے میں اہلِ علم تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ علم نے ان تینوں حضرات سے علم حاصل کیا ہے ‘ان سے اور ان جیسے دوسرے علماء سے روایات نقل کی ہیں ۔ بخلاف عسکریین اوران کی امثال کے۔ اس لیے کہ معروف اہلِ علم نے ان سے علم حاصل نہیں کیا ؛[ اور نہ ہی ان سے کوئی معروف روایت نقل کی گئی ہے ]۔مگر پھر بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان متاخرین آئمہ میں سے کسی ایک نے جو کوئی بات کہی ہے اسے وہ قول رسول اللہﷺ کا درجہ دے دیں ۔اور قرآن اور سنت متواترہ کی منزلت پر رکھیں ۔ ایسی باتوں پر اپنے دین کی بنیاد وہی قائم کرسکتا ہے جو لوگوں میں اہلِ علم و ایمان کے طریقہ سے سب سے زیادہ دور ہو۔

³۔ ان کا تیسرا اصول یہ ہے کہ : رافضیوں کا اجماع اہلِ بیت کا اجماع تصور کیا جاتا ہے۔ اور اہلِ بیت کے اجماع کو معصوم مانتے ہیں ۔

زمانے میں اہل علم تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم نے ان تینوں حضرات سے علم حاصل کیا ہے ‘ان سے اوران جیسے دوسرے علماء سے روایات نقل کی ہیں ۔ بخلاف عسکریین اوران کی امثال کے۔ اس لیے کہ معروف اہل علم نے ان سے علم حاصل نہیں کیا ؛[ اور نہ ہی ان سے کوئی معروف روایت نقل کی گئی ہے ]۔مگر پھر بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان متاخرین ائمہ میں سے کسی ایک نے جو کوئی بات کہی ہے اسے وہ قول رسول اللہﷺ  کا درجہ دے دیں ۔اور قرآن اور سنت متواترہ کی منزلت پر رکھیں ۔ ایسی باتوں پر اپنے دین کی بنیاد وہی قائم کرسکتا ہے جو لوگوں میں اہلِ علم و ایمان کے طریقہ سے سب سے زیادہ دور ہو۔

³۔ ان کا تیسرا اصول یہ ہے کہ : رافضیوں کا اجماع اہلِ بیت کا اجماع تصور کیا جاتا ہے۔ اور اہلِ بیت کے اجماع کو معصوم مانتے ہیں ۔

روافض کے ہاں حجیت اجماع کے مقدمات 

اس سلسلہ میں دو مقدمات ہیں 

پہلا مقدمہ [یعنی رافضی اجماع اہلِ بیت کا اجماع ہے] یقیناً باطل اور جھوٹ ہے۔

 دوسرے مقدمہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔پس وہ اقوال جن میں سچ بھی ہے اور جھوٹ بھی ‘ رافضیوں کے ہاں وہ قرآن و سنت اور اجماع امت کی منزلت پر ہیں ۔

٭ جو بھی عقل مند انسان دین اسلام کو جانتا ہے ‘ اس پر اس تصور کی حقیقت کھل جاتی ہے۔یہ لوگ نمکین کھانے میں کڑوی اور درشت چیزوں کو ملاوٹ کرنا چاہتے ہیں ۔خصوصاً وہ لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں جو اہلِ علم و تجربہ ہیں ۔خاص طور پر وہ محدثین اس حقیقت سے آگاہ ہیں جن کے حقیقی امام ؛امام معصوم جناب محمد رسول اللہﷺ کی احادیث موجود ہیں ۔ وہ رسول جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی کے بغیر اپنی مرضی سے بات تک نہیں کرتے۔

یہ سبھی جانتے ہیں کہ رافضی اپنے آئمہ کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی جانب مبعوث کیا گیا رسول قرار دیتے ہیں ؛ اور انہی سے اپنا دین اخذ کرتے ہیں ۔ جسے ان کا امام حلال کہہ دے اسے حلال ‘ اور جسے حرام کہہ دے اسے حرام سمجھتے ہیں ۔دین وہی ہے جو امام نے مشروع کیا ہو۔ اور ہر وہ قول جو امام کے قول کے مخالف ہو وہ ان کے ہاں مردود ہے۔بھلے اس قول کا قائل مسلمانوں کے بہترین علماء میں سے ہو؛ اور ان سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔وہ اپنے اجتہاد پر ماجور بھی ہو۔

حق اہلِ سنت سے باہر نہیں 

لیکن [اس کے برعکس اہلِ سنت و الجماعت ] قول اللہ اور قول رسول سے کبھی بھی اعراض نہیں کرتے ؛ اور نہ ہی [قول رسول کو چھوڑ کر] کسی غیر کے قول یا کسی کی رائے کی ان کے ہاں کوئی اہمیت ہے۔رسول اللہﷺ کے سوا جتنے بھی اہلِ علم ہیں وہ رسول اللہﷺ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ پیغام ہم تک پہنچانے میں واسطہ و وسیلہ ہیں ۔یا تو وہ براہِ راست وہی الفاظ نقل کرتے ہیں جو رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوں ‘ یا پھر بالمعنی روایت کرتے ہیں ۔[مگر ہر صورت میں وہ تبلیغ رسالت کا ہی کام کرتے ہیں ]۔ ایک جماعت نے قرآن و حدیث کو جیسے سنا ویسے ہی آنے والوں تک پہنچا دیا ‘ اور ایک جماعت نے احادیث رسول اللہﷺ میں غور و فکر کیا ؛ اس کا تفقہ وتدبر حاصل کیا ‘ معانی کی معرفت حاصل کی۔اور جس چیز میں ان کا اختلاف ہوا اسے فیصلہ کے لیے رسول اللہﷺ کی احادیث پر پیش کر دیا۔

یہی وجہ ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کبھی بھی حدیث رسول اللہﷺ کے خلاف کسی قول پر جمع نہیں ہوئے ۔ اور حق کبھی بھی ان سے خارج نہیں ہوا۔ہر وہ چیز جس پر ان کا اجماع ہوا ہو ‘ وہ وہی ہوسکتی ہے جو رسول اللہﷺ سے منقول ہو۔

ہر وہ فرقہ جس نے اہلِ سنت والجماعت کی مخالفت کی ہو‘ خواہ وہ خارجی ہوں یا رافضی؛ معتزلی ہو یا جہمی یا کوئی دوسرا اہلِ بدعت ؛ حقیقت میں وہ رسول اللہﷺ کی مخالفت کر رہا ہوتا ہے۔بلکہ جو کوئی ثابت شدہ عملی امور

 شریعت میں ان کی مخالفت کرتا ہے؛ تو حقیقت میں وہ رسول اللہﷺ کی ثابت شدہ سنت کا منکر ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک فرقہ جو ایک مسئلہ میں دوسرے فرقہ مخالف ہو؛ وہ کسی مسئلہ میں ان کا موافق بھی ہوتا ہے۔ پس ھواء پرست فرقے؛ اہل سنت و الجماعت کے ساتھ اسی منزلت پرہیں جیسے مسلمان دوسری تمام ملتوں کے ساتھ ۔ اس لیے کہ اہل سنت اسلام میں ایسے ہی ہیں جیسے باقی تمام ملتوں میں اسلام ۔ یہ موضوع اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے۔

اجماع صحابہ کرام کی موجودگی میں کسی بھی دیگر اجماع سے بے نیازی

[سوال ]اور اگر یہ کہا جائے کہ : حق اہلحدیث[محدثین کرامؒ ] سے باہر نہیں ہوسکتا؛ تو پھر اصول فقہ میں یہ کیوں نہیں ذکر کیا گیا کہ ان کا اجماع حجت ہے۔جب کہ اس سلسلہ میں اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے۔جیسے اہلِ بیت اور اہلِ مدینہ کا اجماع بھی ذکر کیا گیا ہے۔

[جواب]اس کا جواب یہ ہے کہ: اہلِ حدیث کا اتفاق صرف اس چیز پر ہی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ سے؛اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہو؛ تو اس صورت میں ان کا استدلال کتاب و سنت اور اجماع صحابہ سے ہوگا؛ جو کہ دیگر ہر اس اجماع کے دعویٰ سے بے نیاز کر دیتا ہے جس کے حجت ہونے کے بارے میں لوگوں کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔یہ ان کے خلاف ہے جو متأخرین اہلِ مدینہ کے اجماع کے حجت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ اجماع ایسے مسائل میں ذکر کیا جاتا ہے جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہوتی؛ بلکہ نص اس کے خلاف ہوتی ہے۔

٭ یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو اجماع اہلِ بیت ؍عترت کے حجت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔یہ ایسے مسائل میں ہوتا ہے جن میں کوئی نص موجود نہ ہو۔ بلکہ نص اس کے خلاف ہوتی ہے۔اسی لیے ان لوگوں کو اس اجماع کا دعویٰ کرنے کی ضرورت پیش آئے جسے یہ لوگ حجت خیال کرتے ہیں ۔

٭ جہاں تک اہل حدیث کا تعلق ہے؛ تو رسول اللہﷺ سے ثابت نصوص ہی ان کے ہاں اصل بنیاد ہیں ۔ اور جب ان کا اجماع ہوتا ہے تو ان نصوص پر ہی ہوتا ہے۔ خصوصاً ان کے آئمہ کہتے ہیں : کبھی بھی صحیح اجماع کسی نص کے خلاف نہیں ہو سکتا ؛ مگر اس اجماع کے ساتھ ایک ظاہر اور معلوم شدہ نص موجود ہوتی ہے۔ جس کا پتہ چلتا ہے کہ یہ نص دوسری نص سے ٹکراتی ہے۔ پس جب یہ لوگ اس بات کی اجازت نہیں دیتے اجماع امت نصوص شریعت سے ٹکرائے۔ کیونکہ ان کے نزدیک نصوص سے ٹکرانے والا اجماع باطل ہوتا ہے۔ تو پھر جب ان نصوص سے وہ اجماع ٹکرائے جسے اجماع اہلِ مدینہ یا اجماع اہلِ بیت کہتے ہیں ؛ تو کیا عالم ہوگا؟

٭ اہل سنت والجماعت اور اہلِ حدیث کے علاوہ جتنے بھی فرقے ہیں ؛ وہ کسی ایک بھی صحیح قول میں آئمہ حدیث سے منفرد نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے پاس دینِ اسلام میں سے کچھ حق موجود ہو۔ اسی سبب شبہ پیدا ہوتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی چیز محض باطل ہو تو پھر کسی ایک کو کوئی شبہ پیدا نہ ہو۔ اسی لیے اہلِ بدعت کو اہلِ شبہات بھی کہتے ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ حق اور باطل کو آپس میں ملا دیتے ہیں ۔

اہلِ کتاب کے پاس حق اور باطل

یہی حال تمام اہل کتاب کا بھی ہے۔ان کے ساتھ حق بھی ہوتا ہے اور باطل بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ لاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾[البقرۃ:42]

’’ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، جب کہ تم جانتے ہو۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾[البقرۃ :85]

’’ ، پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ ۔‘‘

اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

﴿وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا ﴾[النساء:150]

’’ اور کہتے ہیں ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کریں ۔‘‘

اور مزید ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَکْفُرُُوْنَ بِمَا وَرَآئَ ہٗ وَ ہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمْ ﴾[البقرۃ:91]

’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس پر ایمان لاؤ جو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو اس کے علاوہ ہے اسے وہ نہیں مانتے، حالانکہ وہی حق ہے، اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو ان کے پاس ہے۔‘‘

اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے بدعات ایجاد کر کے انہیں رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کے ساتھ ملا دیا۔اور دین میں دھڑا بندی کر کے گروہ گروہ بن گئے۔ تو ان میں سے ہر ایک گروہ کے پاس کچھ نہ کچھ حق اور اس کے ساتھ باطل بھی تھا۔ جس حق سے وہ اپنے مخالف دوسرے فرقوں کی تکذیب کرتے ؛ اور اپنے پاس موجود باطل کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔

تمام اہلِ بدعت فرقوں کا یہی حال ہے۔ان کے پاس حق بھی ہے اور باطل بھی۔ اور انہوں نے دین میں دھڑا بندی کر کے گروہ گروہ بنالیے ہیں ۔ تو ان میں سے ہر ایک گروہ اپنے پاس موجود حق کے ساتھ اپنے مخالف دوسرے فرقوں کی تکذیب کرتا ہے ؛ اور اپنے پاس موجود باطل کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔جیسے خوارج اور شیعہ ۔خوارج حضرت علیؓ کے ثابت شدہ فضائل کا انکار کرتے ہیں ۔اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل میں جو کچھ روایت کیا جائے؛ اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ اور اپنی ایجاد کردہ بدعت تکفیر علیؓ ؛ او رآپ کے چاہنے والوں اور محبین کی تکفیر کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور شیعہ ؍روافض حضرت علیؓ کے فضائل میں وارد ہر قسم کی روایت کی تصدیق کرتے ہیں ؛ اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل کا انکار کرتے ہیں ۔ اور جو کچھ انہوں نے حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی تکفیر اور ان پر طعن کی بدعت ایجاد کرلی ہے؛ اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

دین اسلام کا توسط 

دین اسلام ان دونوں متجاذب اطراف کے مابین وسط اور میانہ منہج رکھتا ہے۔ پس مسلمان توحید کے مسئلہ میں یہود و نصاریٰ کے مابین وسط ہیں ۔ یہودی رب سبحانہ و تعالیٰ کو نقص کی ان صفات سے موصوف کرتے ہیں جو مخلوق کے ساتھ خاص ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ہیں ۔جیسا کہ وہ رب سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں : وہ بخیل ہے؛ فقیر ہے؛اور جب اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تو تھک گیا تھا۔ جب کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ وہ جواد اور سخی ہیں ؛جو کبھی بخل نہیں کرتے اور وہ بے نیاز اور غنی ہیں جو کبھی کسی کے محتاج نہیں ہوتے۔ اور وہ قادر مطلق ہیں جنہیں کبھی تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ قدرت اور ارادہ اور دوسروں سے بے نیازی وہ صفات ہیں جو دیگر تمام صفات کمال کو مستلزم ہیں ۔

نصاریٰ مخلوق کی بھی وہ صفات بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ۔وہ مخلوق کو خالق سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم ہی ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ تین اقانیم میں سے تیسرے ہیں اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُھْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ:131]

’’انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں ، کوئی معبود نہیں مگر وہی ، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘

جب کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرتے ہیں ؛ اور اسے صفات کمال سے موصوف کرتے ہیں ۔ اور اسے تمام صفات نقص سے منزہ و پاک قرار دیتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے بھی منزہ و پاک قرار دیتے ہیں کہ اس کی صفات میں سے کسی ایک صفت میں مخلوقات میں سے کوئی مخلوق کچھ بھی مماثلت یا مشابہت رکھتی ہو۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کو صفات کمال سے موصوف بتاتے ہیں ؛ صفات نقص سے نہیں ۔ اس کے مماثل کوئی بھی نہیں ؛ نہ ہی ذات میں نہ ہی صفات میں اور نہ ہی افعال میں ۔

ایسے ہی نبوات میں بھی ہے۔ یہودیوں نے بعض انبیائے کرام علیہم السلام کو قتل تک کر دیا۔ اور ان کی اتباع سے تکبر کرنے لگے۔ اور انہیں جھٹلاتے او ران پر کبیرہ گناہوں کی تہمتیں لگاتے۔ جب کہ نصاری غیر انبیاء کو بھی انبیاء و مرسلین کا مقام دیتے۔ جیسا کہ حواریوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بھی رسول تھے۔اور اپنے علماء اور درویشوں کی اطاعت ایسے کرتے ہیں جیسے انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت کی جاتی ہے۔ پس نصاری باطل کی تصدیق کرتے ہیں ؛ اور یہود حق کو بھی جھٹلاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اہل کلام مبتدعین میں یہود کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اور اہل تعبد؍عباد مبتدعین میں نصاری کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ ان یہود کا آخری انجام شکوک و شبہات ہیں جب کہ نصاریٰ کا انجام حق سے دوری اور جھوٹے دعوے ہیں ۔ یہودیوں نے حق بات کو جھٹلایا تو شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔ اوران لوگوں نے باطل کی تصدیق کی تو حق سے دور ہوگئے۔[ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ]

﴿اَوْ کَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ﴾ [النور:40]

’’ یا ان اندھیروں کی طرح جو گہرے سمندر میں ہوں ، جسے موج ڈھانپ رہی ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، جس کے اوپر ایک بادل ہو، کئی اندھیرے ہوں ، جن میں سے بعض بعض کے اوپر ہوں ۔‘‘

[اور اللہ تعالیٰ ان کی مثال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :]

﴿[وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَعْمَالُہُمْ] کَسَرَابٍ بِّقِیعَۃٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَائً یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَائً حَتّٰی اِِذَا جَائَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا ﴾[النور:39]

’’ [اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، ان کے اعمال] کسی چٹیل میدان میں ایک سراب کی طرح ہیں ، جسے پیاسا پانی خیال کرتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا ۔

‘‘اہل سنت والجماعت کا توسط

اہل علم و کلام بدعتی اپنی بدعات کے مطابق علم طلب کرتے ہیں ۔ وہ مشروع علم کی اتباع نہیں کرتے تاکہ اس پر عمل کریں ۔ پس اس کے نتیجہ میں وہ شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ علم کے منافی ہیں ۔ حالانکہ انہیں پہلے مشروع کا علم تھا۔ لیکن جب وہ ٹیڑھے چلے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا؛ اور یہ لوگ مغضوب علیہم [غضب زدہ قوم] بن گئے ۔

عبادت گزار اہل بدعت اللہ تعالیٰ کی قربت ان چیزوں سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بدعات عبادت میں انہوں نے خود ایجاد کرلی ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ سے دور تر ہی ہوتے گئے۔ بیشک جب بھی کوئی بدعتی جتنی زیادہ عبادت و ریاضت کرتا جاتا ہے؛ وہ اللہ تعالیٰ سے اتنا ہی دور ہوتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری لعنت ہی ہوتی ہے؛ اور یہ نصاری کا آخری انجام کار ہے۔

جہاں تک شرائع کی بات ہے ؛ تو یہود خالق پر پابندی لگاتے ہیں کہ وہ نئے رسول کونئی شریعت کے ساتھ مبعوث کردے۔ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے لیے جائز نہیں کہ ایک مقرر شدہ شریعت کو منسوخ کردے۔جبکہ نصاری اپنے علماء او ردرویشوں کے لیے بھی جائز ٹھہراتے ہیں کہ وہ اس شریعت کو منسوخ کردیں جسے دیکر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مبعوث فرمائے تھے۔یہودی خالق کو عاجز بناتے ہیں ۔ اور اسے اس چیز سے منع کرتے ہیں جو شرائع اور نبوات میں اس کی حکمت اور قدرت کا تقاضا ہے۔جب کہ نصاری مخلوق کے لیے بھی اللہ تعالیٰ خالق و مالک کی شریعت میں تبدیلی کو جائز کہتے ہیں پس اس طرح وہ مخلوق کو خالق کے برابر قرار دیتے ہیں ۔

یہی حال عبادات کا بھی ہے۔ نصاری اللہ تعالیٰ کی عبادت ان ایجاد کردہ بدعات کے مطابق کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ جب کہ یہود عبادت سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ حتی کہ ہفتہ کے دن ؛جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عبادت کے لیے فراغت اختیار کرنے کا حکم دیا تھا؛ وہ اس دن میں اپنی شہوات میں مشغول رہتے ہیں ۔پس نصاری اسکے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں ؛ اور یہود اس کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں ۔

مسلمان صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی شریعت کے مطابق کرتے ہیں ۔ بدعات سے اس کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ وہ دین اسلام ہے جسے دیکر اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کر لے؛ کسی اور کے سامنے نہیں ۔ یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین حنیف ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ کسی اور کے سامنے بھی سر تسلیم خم کرتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی اپنی گردن نہیں جھکاتا وہ مستکبر [تکبر کرنے والا ]ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ [النساء:48]

’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے،جسے چاہے گا ۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ﴾ [غافر'60]

’’بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔‘‘

یہی صورت حال طعام اور لباس میں حلال و حرام کی ہے؛ اور جو کچھ نجاسات اس میں آتی ہیں ۔نصاری ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں ۔ اور گندی حرام چیزوں کو حلال کہتے ہیں ؛ جیسے مردار؛ بہتا ہوا خون؛ اور خنزیر کا گوشت۔ حتیٰ کہ وہ گندی چیزوں سے ؛ جیسے بول و براز سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور جنابت کا غسل نہیں کرتے۔ اور نماز کے لیے طہارت حاصل نہیں کرتے۔ اور کوئی راہب ان کے نزدیک طہارت سے جتنا دور اور نجاست میں جتنا زیادہ لت پت ہوگا؛ وہ ان کے ہاں اتنا ہی معظم اور قابل عزت و احترام ہوگا۔

یہودیوں پر پاکیزہ چیزیں حرام کردی گئیں جو ان کے لیے اصل میں حلال تھیں ؛پس وہ ان پاکیزہ چیزوں کو بھی حرام کہتے ہیں جن میں لوگوں کے لیے فائدہ ہے۔وہ نجاسات کے ساتھ ساتھ پاکیزہ چیزوں سے بھی گریز کرتے ہیں ۔ پس وہ حیض والی عوت کے ساتھ نہ ہی اٹھتے بیٹھتے ہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں ۔ پس وہ قید اور زنجیروں میں جکڑے ہیں جن کی وجہ سے وہ مبتلائے عذاب ہیں ۔

جب کہ وہ دوسرے [یعنی عیسائی ] ضرر رساں اور گندی چیزیں بھی تناول کر لیتے ہیں ؛حالانکہ ان کے پادری اور درویش ان پر پاکیزہ چیزوں کو بھی حرام قرار دیتے ہیں ۔ ایسے ہی وہ نجاسات میں لت پت رہتے ہیں ۔ اور پاکیزہ و نفع بخش چیزوں کو حرام کہتے ہیں ؛حالانکہ یہ خود لوگوں میں سب سے گندے دل والے اور باطن کے سب سے برے؍خراب ہوتے ہیں ۔

ظاہری طہارت سے اصل مقصود دل کی طہارت ہوتی ہے؛ مگر ان لوگوں کا ظاہر تو اجلا ہوتا ہے؛ مگر ان کے دل بڑے پلید اور ناپاک ہوتے ہیں ۔

ایسے ہی اہلِ سنت و الجماعت تمام امور میں متوسط ہیں ۔ وہ حضرت علیؓ کے بارے میں بھی خوارج اور روافض کے درمیان متوسط لوگ ہیں ۔اور ایسے ہی حضرت عثمانؓ کے متعلق بھی مروانیہ اور زیدیہ کے مابین متوسط ہیں ۔ ان کا یہی منہج سارے صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہے؛ وہ ان کی شان میں غلو کرنے والوں اور ان پر طعنہ زنی کرنے والوں کے درمیان میں متوسط لوگ ہیں ۔ وعید کے متعلق خوارج و معتزلہ اور مرجئہ کے درمیان ہیں ۔اور قدر کے مسئلہ میں قدریہ معتزلہ اور قدریہ مجبرہ جہمیہ کے مابین متوسط ہیں ۔ ایسے ہی صفات الہٰی کے باب میں معطلہ اور ممثلہ کے مابین متوسط ہیں ۔

یہاں پر مقصود یہ ہے کہ آثار رسول اللہﷺ کے متبعین ؛ اہل سنت و اہل حدیث کے سوا جتنے بھی فرقے ہیں ؛ وہ باقی تمام امت سے صرف ان اقوال میں منفرد ہیں جوکہ فاسد اقوال ہیں ۔ ان میں کوئی بھی انفرادی قول ہر گز ایسا نہیں ہے جو صحیح ہو۔ اور ہر وہ فرقہ جو سنت سے جتنا دور ہوگا؛ وہ انفرادی اور باطل اقوال و افعال میں اسی قدر آگے بڑھا ہوا ہوگا۔

اسلام کی طرف منسوب فرقوں میں سے کوئی بھی فرقہ ایسا نہیں ہے جو رافضیوں سے بڑھ کر حدیث رسول اللہﷺ سے دور ہو۔