Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اثبات صفات کے متعلق ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا موقف:

  امام ابنِ تیمیہؒ

اثبات صفات کے متعلق ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا موقف:یہ وہ کلام ہے جو اشعری رحمہ اللہ پر معتزلہ کے بقایا جات میں سے باقی رہ گیا تھا۔ اس لیے کہ جب انہوں نے معتزلہ کے مذہب اوراہل سنت و الجماعت کے خلاف ان کے مشہور اصولوں ؛ جیسے:اثبات صفات و رؤیت ؛اور قرآن کا غیر مخلوق ہونا؛اثبات قدر اور دیگر عقائد اہل سنت و الجماعت ومحدثین کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے معتزلہ کی مخالف شروع کردی۔یہ تفصیل انہوں نے اپنی کتاب ’’المقالات ‘‘ میں بیان کی ہے؛ اوریہ کہ اب وہ وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ اہل سنت اور محدثین کا عقیدہ ہے۔ [1][1] قال الأشعرِی فِی ِکتابِہِ’’ مقالاتِ الِإسلامِیِین 2 ؍325 ؛ بعد أن عقد فصلا عنوانہ’’ ہذِہِ حِکایۃ جملۃِ قولِ أصحابِ الحدِیثِ وأہلِ السنۃ 1؍320؛ وبکِلِ ما ذکرنا مِن قولِہِم نقول، وِإلیہِ نذہب۔ الابانہ میں لکھا ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تقلید و اتباع کرتے ہیں ۔ [الابانہ ص ۷۰]ان کے متعلق فرمایا ہے : ’’ آپ امام کامل؛ رئیس ِفاضل ؛اوروہ ہستی ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کیا؛ اور منہج کو روشن کیا۔ اور اہل بدعت کی بدعات؛ منحرف لوگوں کے انحراف اور شک کرنے والوں کے شکوک و شبہات کا قلع قمع فرمایا۔‘‘یہ بھی فرمایا ہے کہ : اگر کوئی یہ کہے کہ: آپ لوگوں نے جہمیہ ؛ معتزلہ؛قدریہ[مرجئہ] کے عقیدہ کا انکار کیا ہے ؛ اور اس ضمن میں ان مقدمات سے استدلال کیا ہے؛ جنہیں معتزلہ اس جیسے کلام میں تسلیم کرتے ہیں ۔ پس معتزلہ اور ان کی موافقت رکھنے والے اہل کلام یہ کہتے ہیں : آپ کا قول اس باب میں متناقض ہے۔‘‘یہی حال تمام اہل سنت اور محدثین کا ہے؛ وہ کہتے ہیں :بیشک یہ تناقض ہے۔اور آپ کے ہاں یہ تناقض معتزلہ کے باقی رہ جانے والے کلام میں سے ہے۔اس کی اصل یہی کلام ہے۔ یہ بات بہت سارے اصحاب أحمد و شافعی و مالک رحمہم اللہ کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ اور ان میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو کئی ایک مسائل میں اشعری کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اور اشعری نے اس اصول میں ان کی موافقت کی ہے جس اصول کی طرف ان مسائل میں رجوع کیا جاتا ہے۔ پس لوگ اس اصول کے تناقض میں بھی ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے اشعری کے تناقض کی بابت کہتے ہیں : اور جیسے معتزلہ اور فلاسفہ کے تناقض میں بھی کہتے ہیں ۔ پس کوئی بھی گروہ ایسا نہیں ہے جس میں کچھ معمولی سی بھی سنت محضہ اور حدیث کی مخالفت پائی جاتی ہو؛ تو اسی اعتبار سے ان کے کلام میں تناقض کا پایا جانا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ اورجس گروہ میں جتنا زیادہ تناقض ہوگا؛ وہ سنت سے اتنا ہی دور ہوگا۔جیسا کہ معتزلہ ؛ فلاسفہ اور روافض۔ پس جب ان لوگوں نے یہ عقیدہ بنالیا کہ انہوں نے اس دلیل سے حدوث جسم کو ثابت کیا ہے؛ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات سے اس کا انتفاء لازم آگیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قدیم ہیں کوئی نئی پیدا ہونے والی مخلوق نہیں ۔ پس معتزلہ کہتے ہیں : جس چیز کے صفات قائم ہوتی ہوں ؛ وہ جسم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ صفات اعراض ہوتی ہیں ۔ اورعرض جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ پس اس بنیاد پر انہوں نے صفات کی نفی کردی۔ اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ افعال اختیاریہ کے قیام کی بھی نفی کردی۔ اس لیے کہ یہ بھی اعراض بھی ہیں اور حوادث بھی ہیں ۔ پس معتزلہ نے یہ عقیدہ بنالیا کہ : قرآن مخلوق ہے۔ اس لیے کہ قرآن کلام ہے؛ اور کلام عرض ہوتا ہے۔ اس لیے کہ کلام کو حرکت کی ضرورت ہوتی ہے؛ اور حرکت حادث ہے؛ جو کہ کسی جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ : اللہ تعالیٰ کو آخرت میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس لیے کہ آنکھ صرف اس چیز کو دیکھ سکتی ہے جو یا تو خود جسم ہو یا پھر جسم کے ساتھ قائم ہو۔یہ بھی کہا کہ : اللہ تعالیٰ عالم کے اوپر[فوق العالم]نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مقام ایک جگہ ہے۔ اور جگہ پر جسم ہی ہوسکتا ہے یا وہ چیز جو جسم کے ساتھ قائم ہو۔یہ جس مذہب کا اس امامی شیعہ نے ذکر کیا ہے؛ مگر اس نے اس مسئلہ میں تفصیل سے بات نہیں کی۔ اسی لیے ہم نے بھی اسی قدر گفتگو پر انحصار کیا ہے۔ اس لیے کہ یہ کلام دوسری جگہ پر پوری تفصیل کے ساتھ موجود اور محفوظ ہے۔صفات کو ثابت ماننے والے معتزلہ سے کہتے ہیں : تم یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ حیی ہیں ؛ علیم و قدیر ہیں ۔ پس یہ صفات بھی کسی جسم کی ہی ہوسکتی ہیں ۔اور تمہارے اس قول کی بنا پر لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم ہوں ۔ اور اگر تم یہ کہو کہ : یہ نام ان چیزوں کے بھی رکھے جاسکتے ہیں جو خود جسم نہ ہوں ۔ تو تم سے کہا جائے گا کہ تم نے خود ہی ثابت کردیا کہ یہ صفات ان کی ہیں جو جسم نہیں ہے۔ اور ان سے یہ بھی کہیں گے کہ :اثبات صفات کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر زندگی کے حیی ہے؛ بغیر علم کے عالم اور بغیر قدرت کے قادر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے: وہ کالا ہے؛ اس میں کالا رنگ نہیں ہے؛ سفید ہے؛ مگر اس میں سفیدی نام کی کوئی چیز نہیں ۔ قائم توہے مگر بغیر کسی وجود کے؛ اور نمازپڑھ رہا ہے ؛مگر نماز نہیں ہے۔ اوربغیر کلام کے متکلم ہے۔بغیر فعل کے فاعل ہے ۔اس عقیدہ کا فاسد ہونا لغت اور عقل کے اعتبار سے معلوم شدہ ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ : آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حیی ؛عالم اور قادر ہیں ۔ اور حیی ہونا ایک علیحدہ چیز ہے؛ جب کہ عالم ہونا ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ اورعالم ہونا ایسے نہیں ہے جیسا کہ اس کا قادر ہونا ہے۔ یہ معانی جن کو آپ سمجھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں ؛ یہ تو صفات ہیں ۔ بھلے آپ ان کا نام احکام رکھ دو یا احوال یا معانی ؛ یا ان کے علاوہ کوئی نام دیدو۔ اعتبار الفاظ کا نہیں ہوتا بلکہ سمجھے جانے والے معانی کا ہوتا ہے۔جو کوئی ائمہ معتزلہ و شیعہ اور فلاسفہ اور صفات کے منکرین کے کلام پر غور وفکر کرتا ہے؛ تو وہ دیکھتا ہے کہ ان لوگوں کے ہاں تناقض کی انتہا ہے۔جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں کہ: عاقل ؛ معقول اور عقل۔ عاشق معشوق اور عشق۔ پھر کہتے ہیں : یہ معنی بھی یہ معنی ہے۔اوریہ کہ عالم ہی علم ہوتا ہے۔ وہ ایک صفت کو دوسری بنا دیتے ہیں ۔ اور موصوف کو صفت بنا دیتے ہیں ۔ پس جس چیز کی وجہ سے یہ لوگ اہل سنت و الجماعت پر طعن و تشنیع کرتے ہیں وہ ان کے اختیار کے بغیر ہوتی ہے۔ جو کوئی ابو الحسین البصری اور دوسرے ائمہ اعتزال کے کلام پر غور کرے گا تو وہ دیکھے گا جن معانی کو وہ ثابت کرتے ہیں وہ تو صفات اقوال ہیں ۔ لیکن یہ مقام ان چیزوں کی تفاصیل بیان کرنے کا نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں پر اس مقام کی مناسبت سے مختصر کلام پیش کرنا مقصود ہے ۔اور یقیناً ہم اس سے پہلے بھی اس بات سے آگاہ کر چکے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت مطلق طور پر حق بات کہتے ہیں ۔ اور کوئی قول ایسا نہیں ہے جسے شریعت یا عقل ثابت کرتی ہو؛ مگر ائمہ اہل سنت والجماعت اس کے قائل رہے ہیں ۔ یہاں پر مقصود اتنا ہی بیان کرنا ہے۔