روافض کے عقائد پر سرسری نظر:
امام ابنِ تیمیہؒروافض کے عقائد پر سرسری نظر:ساتویں وجہ : شیعہ کے عقائد پر سرسری نظر :وہ یہ ہے کہ اس سے یہ کہا جائے گا کہ تو نے ایک عقیدہ تو ذکر کر دیا لیکن تو نے اس پر دلیلِ شرعی اور عقلی ذکر نہیں کی اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ روافض انتہائی درجے کے جاہل اور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ گمراہ ہیں اور وہ اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ علماء اہل سنت سے مناظرہ کریں لیکن یہ آپس میں ایک دوسرے سے ساتھ مناظرہ کرتے ہیں جس طرح کہ معدوم کے بارے میں ہمیشہ مناظرہ کرتے ہیں کہ کیا وہ کوئی چیز ہے یا نہیں ؟پس اس امامی سے کہا جائے گا کہ جس جسم کی تونفی کرنے والا ہے تو نے تم اپنے ان شیوخِ امامیہ پر کوئی حجت قائم نہیں کی جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک مکان میں ہے دوسرے میں نہیں (یعنی اس کا ایک مکان میں ہونا دوسرے سے خلو کو مستلزم ہے )اور یہ کہ وہ متحرک ہے اور یہ کہ اس کی ذات کے ساتھ حوادث قائم ہیں ،اُن کے خلاف بھی توتم دلیل قائم کرو ۔امام اشعر ی رحمہ اللہ نے فرمایا :کہ روافض حملۃ العرش کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں کہ کیا وہ عرش کو اٹھاتے ہیں یا اللہ تعالیٰ عزوجل کو اٹھاتے ہیں ؟اوریہ دوفرقے ہیں :ایک فرقہ جن کو یونسیہ کہا جاتا ہے جویونس بن عبد الرحمن قمی مولیٰ آل یقطین کے اصحاب ہیں ،ان کا عقیدہ ہے کہ حملۃ العرش اللہ کی ذات کو اٹھاتے ہیں اور ان کا استدلال اس امر سے ہے کہ حملۃ اس کے (ذات باری تعالیٰ )اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں ا ور انہوں نے اس حمل اور اس اٹھانے کے معاملے کو اس کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ اس کے پاؤں اس کو اٹھاتے ہیں اور وہ دقیق اور پتلے ہیں ۔دوسرے فرقہ نے کہا ہے:حاملین عرش کو اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ مستحیل ہے کہ وہ محمول بنیں ۔ امام اشعری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:’’ روافض اس قول میں اختلاف رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم ،حی ،قادر ،سمیع ،بصیر اور الٰہ ہیں اور وہ نو فرقے ہیں : [1] [1] مقالات الاسلامیین ۱؍۱۰۶۔۱) پہلا فرقہ ان میں سے زُرَّاریہ ہے جو زُرارہ بن اعین رافضی کے اصحاب ہیں ،ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے غیر سمیع ،غیرعلیم اور غیربصیر ہیں یہاں تک کہ اس نے اِن (صفات )کو اپنے نفس کے لیے پیدا فرما یا اور وہ ’’تیمیہ ‘‘کہلاتے ہیں اور ان کا مقتدا زُرارہ بن اعین رافضی ہے ۔۲) دوسرا فرقہ ان میں سے ’’سیَّابیہ‘‘ کہلاتا ہے جو عبد الرحمن بن سیابۃ کے اصحاب ہیں یہ لوگ ان معانی میں توقف اختیار کرتے ہیں ،ان کا عقیدہ ہے کہ ان معانی میں حق بات وہی ہے جو جعفر صادق کا قول ہے خواہ وہ جیسے بھی ہو اور وہ ان اشیاء میں کوئی مستقل اور منفرد قول نہیں جانتے ۔۳) تیسرا فرقہ : جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی صفت کیساتھ موصوف نہیں کیا جا سکتا؛ اس معنیٰ پر کہ وہ اشیاء اور مخلوقات کے احداث تک ازل سے الہٰ ہیں ، قادر ہیں ،علیم ہیں ، بصیر ہیں ، اس لیے کہ وہ اشیاء جو وجود میں آنے سے پہلے لاشی تھی اور یہ ہر گز ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ قدرت کے ساتھ موصوف ہوں اس حال میں کہ ابھی کوئی مقدور بھی وجود میں نہ آیا ہو ،ایسے ہی وہ علم کے ساتھ موصوف ہو اس حال میں کہ کوئی معلوم بھی وجود میں نہ آیا ہو اورسوائے ایک چھوٹی سی جماعت کے باقی تمام روافض کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر اللہ کی یہ رائے بدل کر دوسری رائے ہو جاتی ہے ۔۴) روافض میں سے فرقہ رابعہ کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل میں زندہ نہ تھے (العیاذ باللہ )تھے پھر حی بنے ۔۵) روافض میں سے فرقہ خامسہ جو کہ ’’شیطان الطاق ‘‘[1] [1] ابو جعفر بن علی بن نعمان بن ابی طریفہ البجلی ؛ الکوفی؛ الاحول۔ یہ شیطان الطاق کے لقب سے معروف ہے۔اسے شیعہ مؤمن الطاق کہتے ہیں ۔ نجاشی نے اسے ابو عبداللہ جعفر الصادق کا راوی قرار دیا ہے۔ اس کی دکان کوفہ کی ایک گلی میں تھی۔ دیکھو: الرجال أز نجاشی ۴۹۔ فہرست از طوسی ۱۵۸۔ فرق ِ شیعہ از نو بختی ص ۱۰۰۔ الخطط از مقریزی ۲؍ ۳۴۸۔ معالم العلماء ۵۔ کے اصحاب ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فی نفسہ عالم ہیں ،جاہل نہیں لیکن وہ اشیاء کا تب علم رکھتے ہیں جب کہ وہ ان کا اندازہ اور تقدیر (صورت اور مادے کو ایک خاص ترکیب اور خاص شکل کے ساتھ وجود دینا)کریں اور ان کا ارادہ کریں ،رہا ان کا اندازہ کرنے اور ان کے ارادے سے پہلے تو یہ بات محال ہے کہ وہ ان کو جان لیں اور ان کا علم اسے حاصل ہو ، اس وجہ سے نہیں کہ اللہ عالم نہیں لیکن کوئی چیز اس وقت تک شی موجود نہیں بن سکتی جب تک کہ کوئی مقدِّر اس کی تقدیر نہ کرے اور اس کو تقدیر اور اندازے کے ذریعے چیز (من الأشیاء )بنائے اور تقدیر یعنی صورت اور مادے کو ایک خاص ترکیب اور خاص شکل کے ساتھ وجود دینا ان کے نزدیک ارادہ سے عبارت ہے ۔۶) فرقہ سادسہ روافض میں سے ہشام بن حکم کے اصحاب ہیں ۔ ان کے عقیدہ میں یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اشیاء پر عالم بنفسہ ہیں ۔ اور یہ بھی محال ہے کہ اللہ تعالیٰ اشیاء کا علم رکھتے تھے؛ بعد اس کے کہ وہ اس پر عالم نہیں تھے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایک اپنے خاص علم سے جانتے ہیں ۔ اور یہ کہ علم اللہ کے لیے کوئی صفت ہے ۔اور وہ صفت نہ تو عینِ ذات ہے نہ غیرِ ذات ہے اور نہ ذات کا بعض ہے پس یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ علم حادث ہے اور قدیم کیونکہ قدیم ایک صفت ہے اور صفت موصوف نہیں بن سکتی اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اللہ تعالی ازل سے عالم ہوں تو پھر معلومات بھی ازلی ہونگے اس لیے کہ کسی ایسے ذات کا پایا جانا صحیح نہیں ہے جو بغیر کسی معلوم کے عالم ہوں ،ہاں کوئی بھی عالم ہوگا تو کوئی اس کیلئے کوئی معلومِ موجود بھی ہوگا ۔[مقالات الاسلامیین ۱؍ ۱۰۸۔]اس نے یہ کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان امور پر عالم ہیں جو اس کے بندے مستقبل میں کریں گے تو پھر تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر محنت اور ان کو آزمائش میں مبتلا کرنا بھی صحیح نہ ہوا اور ہشام نے اللہ تعالیٰ کی باقی صفات جیسے قدر ت ،حیات،سمع ،بصرا ور ارادہ کے بارے میں بھی یہ کہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں لیکن یہ نہ عینِ ذات ہیں نہ غیرِ ذات ہیں اور بتحقیق قدرت اور حیات کے بارے میں اس سے مختلف عبارتیں منقول ہیں ،اُن میں سے بعض وہ ہیں جو اس سے یہ قول نقل کرتے ہیں کہ وہ یہ کہتا تھا کہ باری تعالیٰ ازل سے قادر اور حی نہیں ،بعض وہ ہیں جو اس بات کا انکار کرتے ہیں یعنی وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کا قائل نہیں تھا ۔۷) اور روافض کا ساتواں فرقہ یہ گمان نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ فی نفسہ عالم ہیں جس طرح کہ ’’شیطانِ طاق ‘‘نے کہا ہے ۔لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس وقت تک نہیں جانتے جب تک کہ اس میں اثر نہ کرلیں اور ان کے نزدیک تاثیر ارادے سے عبارت ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں آجاتا ہے اور جب تک اس کا ارادہ نہیں کرتے اس وقت تک علم میں نہیں ہوتا اور ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس سے عبارت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی حرکت وجود میں آتی ہے جو ارادہ کہلاتی ہے پس جب وہ متحرک ہوتے ہیں تو کسی چیز کو جان لیتے ہیں ورنہ تو اللہ تعالیٰ کو قبل التحرک عالم ہونے کے ساتھ موصوف کرنا جائز نہیں ۔۸) اور روافض کے آٹھویں فرقے نے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عالم ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ فعل ثابت کرتے ہیں اگر ان سے الزاما یہ کہا جائے کہ کیا تم یہ کہتے ہوکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ازل سے عالم ہیں ۔ تو وہ اختلاف کرتے ہیں ،بعض تو کہتے ہیں کہ ازل سے عالم بنفسہ نہیں تھے یہاں تک کہ اس نے علم کا فعل صادر کیا اس لیے کہ بتحقیق اللہ تعالیٰ پہلے سے موجود تھے لیکن ابھی تک کوئی فعل نہیں کیا تھا اور اس حال میں ایک زمانہ بھی گزرا اور بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ازل سے عالم بنفسہ ہیں اگر ان سے یہ کہا جائے کہ پھر وہ ازل سے فاعل ہیں تو پھر جواب میں کہتے ہیں کہ ہاں لیکن ہم فعل کے قدم کے قائل نہیں ہیں اور فرمایا کہ روافض میں سے بعض وہ بھی ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان امور کو بھی جانتے ہیں جو ’’کون ‘‘(وجود )سے پہلے وجود میں آئے تھے سوائے بندوں کے عباد کے ،اس لیے کہ ان کو تو صرف اللہ تعالیٰ ان کے ’’کون ‘‘اور ان کے وجود کی حالت میں جانتے ہیں ۔۹) اور روافض کے نوویں فرقہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے عالم، حی اور قادر ہیں اور وہ تشبیہ کی نفی کی طرف مائل ہیں اور وہ علم کے حدوث کا اقرار نہیں کرتے اور نہ ان امور کا جو ہم نے ذکرکردہ فرق سے نقل کئے یعنی تجسیم اور تشبیہ وغیرہ ۔