صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں پر خاموشی
الشیخ شفیق الرحمٰن الدراویکسی ایسی چیز میں دخل اندازی نہ کی جائے جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف دل میں کچھ میل پیدا ہوتی ہو۔ اہل سنت والجماعت اعتدال پسند شریعت کے حامل لوگ ہیں جو کہ غلو و جفا اور افراط و تفریط سے بہت دور ہیں۔ اس لیے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عالیشان منزلت کا عقیدہ و ایمان رکھتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ لوگ معصوم نہیں تھے اور ان سے کسی غلطی یا لغزش کے سرزد ہو جانے سے ان کی عدالت پر فرق نہیں آتا اور جو کچھ ان سے وقوع پذیر ہوا اسے کسی دوسرے سے سرزد ہونے والے فعل پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، یہ فرق وہی انسان سمجھ سکتا ہے جو دونوں گروہوں کی سیرتوں کے مابین فرق کو سمجھتا ہو۔
پھر وہ روایات جن کی بنا پر یہ محسوس ہو رہا ہو کہ ان میں سے کسی ایک سے گناہ یا خطا ہوئی ہے اس بات کا بھی بھرپور امکان ہے کہ اس روایت میں کمی بیشی کی گئی ہو یا وہ روایت سرے سے ثابت ہی نہ ہو صحابہ کرامؓ پر تنقید والی اکثر روایات کا یہی حال ہے تو ایسی روایات کو بغیر کسی تردد اور حیل و حجت کے دیوار پر مار دیا جائے گا۔ یا پھر اس روایت کی کوئی مناسب اور صحیح تاویل دیکھی جائے گی۔
جب کسی بھی سچے اور مخلص مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے عام مسلمان کے بارے میں حسن گمان رکھے، تو پھر مسلمانوں کی سردار ہستیوں اور اس قدسی جماعت کے متعلق کیا خیال ہے جو دین اسلام کے رموز سمجھے جاتے ہیں ؟
اس کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایسے ویسے افعال کو ان کی مناسب تاویل یا پھر سہو اور غفلت پر یا ایسے اجتہاد پر محمول کیا جائے جس میں ہر صورت میں ان کے لیے کوئی نہ کوئی اجر ضرور ہے۔
(مجموع الفتاوی: الواسطیۃ: جلد، 3 صفحہ، 155)
صحابہ کرامؓ سے خواہ کیسا ہی کوئی کام ہو گیا ہو اس کے کفارہ کے لیے پانچ باتیں کفایت کر جاتی ہیں
اوّل یہ کہ انہوں نے اس گناہ یا غلطی سے توبہ کر لی ہوگی۔ یہ بات کسی پر بھی مخفی نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم توبہ کرنے میں سب لوگوں پر سبقت لے جانے والے تھے۔
اور حدیث میں واضح طور پر آیا ہے:
’’ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘
(أخرج ابن ماجۃ فی سننہ مرفوعاً: جلد، 2 صفحہ، 1419 برقم: 6250 من حدیث ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ وحسنہ ابنِ حجر فی الفتح: جلد، 13 صفحہ، 471)
یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی کرامت و بزرگی اور منزلت کی وجہ سے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی توبہ جلدی قبول کر لی جائے۔
دوم ان کے گناہ ان نیک اعمال کے بدلے میں معاف کر دیے جائیں جو اعمال وہ بجا لائے ہیں۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں اور یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ اصحابِ رسولﷺ کے اعمال کی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ ہیں اور اسی طرح ان کے اعمال پر بدلہ بھی بہت بڑا ہے۔ اس کی تفصیل گزرچکی ہے۔
سوم ان کے اسلام کی طرف سبقت لے جانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی وجہ سے ان کے گناہ معاف کر دیے گئے ہوں جیسا کہ اہلِ بدر کے حق میں فرمایا ہے ’’تمہیں کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: ’’اے اہلِ بدر! اب جو مرضی ہے کرو بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت کر دی ہے۔‘‘
(أخرجہ البخاری: کتاب فضائل الجہاد والسیر: باب الجاسوس: جلد، 2 صفحہ، 360 برقم: 3007 ومسلم في صحیحہ کتاب فضائل الصحابۃ باب: فضائل أھل بدر: جلد، 4 صفحہ، 1941 برقم: 2494 من حدیث علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ)
چہارم نبی کریمﷺ کی شفاعت کے سبب سے مغفرت! نبی کریمﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ آپﷺ کی شفاعت ان اہلِ توحید کے لیے ہو گی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔
(مسلم برقم: 199)
تو پھر اہلِ توحید کے ان سرداروں کے متعلق کیا گمان ہے جو رسول اللہﷺ کے سب سے زیادہ قریب تھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وہ دوسرے لوگوں سے بڑھ کر شفاعتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق دار ہیں۔
پنجم دنیا میں ان پر آنے والی آزمائشوں اور امتحانات کی وجہ سے ان کی مغفرت کر دی گئی ہو اس لیے کہ مصائب اور آفات گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جیسا کہ امور شریعت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہے۔
مقصود یہ ہے کہ اہلِ سنت و الجماعت کے ہاں اصول یہ ہے کہ ان کے دل اور زبانیں رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق بالکل صاف رہیں۔ خصوصاً کسی بھی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ صحابہ کرامؓ کی برائیوں کے بیان یا ان کی شان میں کوتاہی کرے یا ان پر طعنہ زنی یا دشنام طرازی سے اپنی زبان کو آلودہ اور گنہگار کرے اور جو کوئی بھی اس صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے اس کے دل میں کچھ نہ کچھ میل ضرور داخل ہو جاتا ہے۔
حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جو کوئی رسول اللہﷺ کے صحابہ کرامؓ کے متعلق ایک لفظ بھی زبان سے نکالتا ہے وہ یقیناً خواہشات نفس کا پجاری ہے ۔‘‘
(شرح السنۃ للبربہاری: 75)
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کی شان میں کوئی کوتاہی کرتا ہے ‘ یا ان میں سے کسی ایک سے ہو جانے والی لغزش کی وجہ سے اس سے بغض رکھتا ہے یا ان کی برائیوں کا تذکرہ کرتا ہے تو ایسا انسان یقیناً بدعتی ہے اور اس بدعت کا ازالہ اسی وقت ہو گا جب وہ تمام صحابہ کرامؓ کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرے تو اس کا دل پاک ہو جائے گا۔‘‘
[شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ: جلد، 1 صفحہ، 169)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین چپقلشوں پر خاموشی
جو کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین پیش آیا ان کے مابین جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں ان کے حوالے سے مسلمان پر واجب ہوتا ہے کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور ان معاملات میں نہ پڑے۔ اہلِ سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کے ایسے معاملات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے اجتہادی فیصلے تھے جن پر ان کے لیے اجر ہے۔
اہل سنت و الجماعت کے عقائد کی سبھی کتابوں میں صحابہ کرامؓ کے مابین پیش آنے والے ایسے معاملات میں پڑنے یا گہرائی میں جانے سے منع کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرامؓ سے ایسے واقعات ان کے اجتہاد کی وجہ سے پیش آئے جس میں ان کے لیے ہر حال میں اجر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ
اولاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘
(الطبراني في المعجم الکبیر: جلد، 2 صفحہ، 96 برقم: 239 السلسلۃ الصحیحۃ: جلد، 1 صفحہ، 57 برقم: 34)
ثانیاً ایسی باتیں کر کے علم و عمل کسی بھی چیز میں کسی فائدہ کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ تو ایک اچھے مسلمان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو ترک کر دے جو اس کے فائدہ کی نہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحابہ کرامؓ کے مابین لڑائیوں اور جنگوں کے جتنے بھی واقعات پیش آئے
وہ سارے ان کے اجتہادی فیصلے تھے ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی رائے کے مطابق حق کی نصرت کر رہا تھا اس میں کوئی کوتاہی یا دھوکہ بازی والی بات نہیں۔ یہ معاملہ زیادہ سے زیادہ اس قاضی کی طرح ہو سکتا ہے جو کسی کو ادب سکھانے کے لیے سزا دے۔ اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد صحابہ کرامؓ کے متعلق بدگمانی رکھنا اور اپنے دلوں کو ان کے متعلق میلا اور کینہ پسند رکھنا صرف ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
نہ ہی انہیں گھوڑا حاصل نہ ہی سامان سفر۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کتنی خوبصورت بات کہی ہے، فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے اس خون سے میرے ہاتھ کو بچا کر رکھا مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اپنی زبان اس میں ڈبو دوں۔‘‘
(أخرجہ ابن سعد فی الطبقات: جلد، 5 صفحہ، 307 السنۃ للخلال، جلد، 1 صفحہ، 62 حلیۃ الأولیاء: جلد، 9 صفحہ، 114)
وہ عظیم مبادیات جنہیں اس امت کے سلف نے مقرر کیا ہے اور ان کے بعد آنے والے آئمہ اس پر چلتے رہے ہیں، اورتمام اہلِ سنت اس پر کاربند رہے ہیں (وہ صحابہ کرامؓ کی چپقلشوں پر خاموشی اختیار کرنا، ان تمام کے لیے رحمت کی دعا کرنا، ان سب سے محبت رکھنا اور انہیں صرف اچھے لفظوں میں ایسے یاد رضی الله عنہم کرنا ہے جیسے سلف اور ان کے بعد کے اہلِ علم کا طریقہ رہا ہے۔)
اس لیے کہ ان جھگڑوں میں ہر دو فریق مجتہد تھے۔ ان میں سے حق پانے والے کے لیے دو اجر ہیں اور خطا کر جانے والے کے لیے ایک اجر ہے۔ آپ کو یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ آپ سے آپ کے اعمال کے بارے میں سوال کریں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
كُلُّ نَفۡسٍ ۢ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِيۡنَةٌ ۞ (سورة المدثر: آیت، 38)
ترجمہ: ’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی پڑا ہوا ہے۔‘‘
اور جو لوگ آپ سے پہلے گزر چکے ہیں یا کسی دوسرے کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا اور آپ سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ حق کس کے ساتھ تھا؟ اور ان میں سے کون ٹھیک تھا اور کون غلط؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞ (سورۃ البقرة: آیت، 134)
ترجمہ: ’’یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، جو کچھ اس جماعت نے اعمال کیے وہ ان کے لیے ہیں اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمہارے لیے ہے اور تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں اصحابِ رسول اللہﷺ کی مثال آنکھ کی مثال ہے اور آنکھ کی بہتری اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے میں ہے۔
(احکام القرآن للقرطبی: جلد، 16 صفحہ، 122)
حضرت امام حمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والی جنگوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپؒ نے فرمایا میں ان کے متعلق صرف خیر کے کلمات کہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم فرمائیں ۔‘‘
(السنۃ للخلال: جلد، 2 صفحہ، 460)
ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو کچھ حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے مابین پیش آیا، بیشک وہ تاویل اور اجتہاد کی وجہ سے تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام (حکمران) تھے، اور یہ سب لوگ اہلِ اجتہاد تھے اور یقیناً نبی کریمﷺ نے ان کے لیے جنت کی گواہی دی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس اجتہاد میں حق پر تھے۔‘‘
ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین بھی جو کچھ پیش آیا ،وہ تاویل اور اجتہاد کی وجہ سے تھا۔ تمام صحابہ امانت دار آئمہ ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی دین داری پر کوئی تہمت نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے ان سب لوگوں کی ثنا(تعریف) کی ہے اور ہم ان کی عزت و محبت و توقیر اور دوستی کو عبادت سمجھتے ہیں اور ہر انسان سے برأت کا اظہار کرتے ہیں جو ان کی شان میں کمی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہؓ پر راضی ہو جائے ۔‘‘
(الابانۃ عن أصول الدیانۃ: صفحہ، 224)
امام مزنی رحمہ اللہ اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کیے جائیں گے اور ان کے اچھے افعال کا ذکر کیا جائے گا اور ہم ان کے باہمی جھگڑوں میں پڑنے سے بچ کر رہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد روئے زمین پر سب سے بہترین لوگ یہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کے لیے پسند کر لیا تھا، اور ان کو آپﷺ کے دین کی نصرت کے لیے پیدا کیا تھا۔ یہ لوگ دین کے آئمہ اور مسلمانوں کے راہنما ہیں، اللہ تعالیٰ ان تمام پر رحم فرمائے۔‘‘
(شرح السنۃ: 86)
امام بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب آپ کسی کو دیکھیں کہ کوئی شخص اصحابِ رسول اللہﷺ پر طعن کر رہا ہو تو جان لیجئے کہ وہ انتہائی بری بات کہنے والا خواہش نفس کا پجاری ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ’’جب میرے صحابہؓ کا ذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘ رسول اللہﷺ کو اس بات کا پتا تھا کہ آپﷺ کی وفات کے بعد کیا لغزشیں ہوں گی۔ پھر بھی آپﷺ نے ان صحابہؓ کے بار ے میں خیر اور بھلائی کی بات ہی کہی ہے اور آپﷺ کا فرمان ہے: ’’میرے صحابہؓ کو چھوڑ دو اور ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ کہو۔‘‘
ان کی لغزشوں اور جنگوں کے بارے میں آپ کچھ بھی نہ کہیں اور کوئی ان کی برائی بیان کر رہا ہو تو اسے سنیں بھی نہیں‘ کیونکہ اگر آپ نے ایسی باتیں سن لیں‘ تو آپ کا دل سلامت نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو صحابہؓ کے مابین پیش آنے والے قتال کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ مگر آپﷺ نے ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا۔
(شرح السنۃ: جلد، 1 صفحہ، 115)
امام ابن بطہ رحمہ اللہ عقیدۂ أہل سنت و الجماعت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اور اس کے بعد جو کچھ صحابہؓ کے مابین پیش آیا، اس میں دخل اندازی سے رک جاتے ہیں۔ یقیناً ان لوگوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ معرکوں میں شرکت کی ہے اور فضیلت حاصل کرنے میں لوگوں پر سبقت لے گئے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت کر دی ہے اور آپ کو ان کے لیے استغفار کرنے کا اور ان کی محبت سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنے نبی کریمﷺ کی زبانی آپ پر یہ فرض کیا ہے اور آپﷺ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا اور بیشک یہ لوگ آپس میں جنگ کریں گے ۔
(الابانہ الصغری: صفحہ، 268)
امام ابو عثمان الصابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اور ان کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ نبی اکرمﷺ کے صحابہ کے مابین پیش آیا، اس کے بیان کرنے سے رک جانا چاہیے اور اپنی زبانوں کو ان کے عیوب بیان کرنے سے اور ان کی شان میں گستاخی کرنے سے پاک رکھنا چاہیے اور ان کا عقیدہ ہے کہ ان تمام پر رحم کی دعا کی جائے اور ان تمام سے دوستی رکھی جائے۔‘‘
(عقیدۃ السلف وأصحاب الحدیث: صفحہ، 294)
ثالثاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملات میں پڑنا ایسا معاملہ ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ ایک انسان اچھا بھلا صراط مستقیم پر چل رہا ہوتا ہے مگر ایسے معاملات کو زیرِ بحث لا کر گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں اصحابِ رسول اللہﷺ میں سے کسی ایک کے خلاف حسد و بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کسی بھی بڑی گمراہی کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ دینِ اسلام سد ذرائع کے طور پر ایسے امور سے منع کرتا ہے۔
علامہ بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں اور ان کے مابین پیش آنے والے واقعات کے متعلق گفتگو نہ کریں اور نہ ہی کسی ایسے معاملہ پر گفتگو کریں جس کا آپ کو صحیح علم نہیں اور اگر کوئی انسان اس کے متعلق گفتگو کر رہا ہو تو اس کی بات بھی نہ سنیں اگر آپ اس کی بات سنیں گے تو آپ کا دل صحیح سلامت نہیں رہے گا۔‘‘
(شرح السنۃ للبربہاري: صفحہ، 112 سیر أعلام النبلاء: جلد، 10 صفحہ، 92)
رابعاً اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ منافقین اور زندیق لوگوں نے اس باب میں بہت ساری چیزوں کا اپنی طرف سے اضافہ کر دیا ہے۔ جب یہ عالم ہو کہ اکثر روایات من گھڑت اور جھوٹ ہوں تو پھر درست فیصلہ کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
ایسے جھگڑوں سے متعلق روایات کے بارے میں زیادہ تر اعتماد تاریخ کی کتابوں پر ہوتا ہے اور تاریخ کی کتابیں ایسی روایات سے بھری پڑی ہیں جن میں اچھے اور برے، سچ اور جھوٹ، خشک اور گیلا ملا کر بھر دیا گیا ہے۔ مؤرخین کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ ہر اس بات کو نقل کر دیتے ہیں جو لوگوں کے مابین مشہور ہو تو پھر ایسے خطرناک معاملہ کے فیصلہ کے لیے ایسی جھوٹی روایات یا کمزور اور من گھڑت تاریخ پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ہوا پرست مؤرخین کے ایسی روایات گھڑنے کے پیچھے اپنے مذموم مقاصد ہوا کرتے تھے۔
پھر ان میں سے جو روایات صحیح ہیں ان کا اس صحیح اور مناسب موقع محل پر رکھنا آسان ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان اور ان کے مقام کے لائق ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا۔
علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جھگڑوں اور اختلافات کے بارے میں جو کچھ تاریخ میں نقل کیا گیا ہے ان میں سے کچھ باتیں تو باطل اور جھوٹ ہیں اور اگر کوئی بات صحیح ہے تو ہم اس کی مناسب اور درست تاویل تلاش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی تعریف اس سے پہلے کی جا چکی ہے اور جو کچھ ان کے بارے میں بعد میں روایت کیا گیا ہے اس میں تاویل کا احتمال ہے۔ ایسی چیز جس میں وہم ہو یا جو مشکوک ہو اس کی بنا پر معلوم شدہ حق کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
(شرح الفقہ الأکبر لملا علی القاري: 103)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تہمتیں لگانے والوں سے ان کا دفاع کرنا
ان پر تہمتیں لگانے والوں سے ان کا دفاع کرنا اور ان کی دشمنی کے سامنے بند باندھنا۔
ایسا کرنا ان کے ساتھ سچی محبت رکھنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ایک حصہ ہے۔ ہم تمام اہلِ بیت نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان کے دفاع کا ارادہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی محبت کو ایمان و عقیدہ کا حصہ سمجھتے ہیں ۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور جو کوئی ان سے بغض رکھتا ہے‘ یا انہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا ہم اس سے بغض رکھتے ہیں۔‘
(العقیدۃ الطحاویہ مع شرحہا لابن ابی العز: صفحہ، 689)
اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان گرامی ہے:
’’بیشک ایمان کی سب سے مضبوط رسی اللہ کی رضا کے لیے محبت کرنا اور اس کی رضا کے لیے بغض و نفرت رکھنا ہے ۔‘‘
(أخرجہ الطبراني في المعجم الصغیر: جلد، 1 صفحہ، 372 برقم: 624 حسنہ الألباني في السلسلۃ الصحیحۃ: جلد، 2 صفحہ، 698 برقم: 998)
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کی رضا کے لیے بغض رکھنے کے سب سے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔
دشمنانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا دفاع کرنا ان کے جھوٹ پر رد کرنا ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا اللہ کی راہ میں سب سے بڑا جہاد ہے۔
اقتداء و اتباع کرنا
اہلِ سنت والجماعت کا منہج اس اساس پر قائم ہے کہ ان کا افضل ترین علم وہ ہے جس میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم کی اتباع و اقتداء کر رہے ہوں اور ان کا افضل ترین عمل وہ ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اعمال حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں: جو کوئی اصحابِ رسول اللہﷺ میں سے کسی ایک کو گالی دے یا حضرت ابوبکر یا حضرت عمر یا حضرت عثمان یا حضرت علی یا حضرت امیر معاویہ یا حضرت عمرو بن العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک کو گالی دے اور اگر یہ کہے کہ یہ صحابہ کفر اور گمراہی پر تھے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اگر ایسے گالی دے جیسے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں تو پھر اسے بہت سخت سزا دی جائے گی۔
(الشفاء فی حقوق مصطفی: صفحہ، 299)
امام ابوبکر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں نے ابو عبداللہ سے ان لوگوں کے متعلق حکم پوچھا جو حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم پر دشنام طرازی کرتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کرنے والے اسلام پر ہیں۔‘‘
(السنۃ للخلال: جلد، 3 صفحہ، 493)
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ اصحابِ رسول اللہﷺ کے حق میں کوتاہی (تنقیص) کر رہا ہو تو جان لیجئے کہ وہ زندیق ہے۔‘‘
(الکفایہ فی علم الروایہ: صفحہ، 97)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ اصحابِ رسول اللہﷺ کا ذکر برے الفاظ میں کر رہا ہو تو اس کے اسلام میں شک کریں۔‘‘
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ للالکائی: جلد، 7 صفحہ، 1252)
ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر میدان میں بلند و بالا اور فائق ہیں۔
(شرح العقیدۃ الأصفہانیۃ لشیخ الإسلام ابن تیمیۃ: صفحہ، 138)
دین میں ان کی اقتداء فرض ہے۔ پس ان کی اقتداء اور آیات اور سورتوں کی اتباع کرنا چاہیے۔
(دیوانِ ابن مشرف: صفحہ،23)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے عقیدہ کے اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ بیشک اصول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی راہ کی اقتداء کی جائے۔‘‘
(أصول السنۃ روایۃ عبدوس بن مالک: صفحہ، 25۔ شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ: جلد، 1 صفحہ، 156)
خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اپنے نفس کے لیے اس چیز پر راضی ہو جاؤ جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے نفوس کے لیے راضی ہو گئے تھے۔ بیشک وہ علم کی روشنی میں چلتے تھے اور انتہائی نافذ بصیرت کے ساتھ رکتے تھے۔‘‘
[أبو داؤد في سننہ: جلد، 5 صفحہ16 برقم: 4612۔وصححہ الألباني في صحیح أبي داؤد۔)
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔
فرمان الہٰی ہے:
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ذٰلِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞ (سورۃ التوبة: آیت، 100)
ترجمہ: ’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اور فرمان الہٰی ہے:
وَّاتَّبِعۡ سَبِيۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَىَّ۞ (سورة لقمان: آیت، 15)
ترجمہ: ’’اور اس شخص کے راستے پر چلو جو میری طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد یہ وصف سب سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تھا اور فرمان الہٰی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۞
(سورة التوبۃ: آیت، 119)
ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘'
امام ضحاک رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ۔‘‘
(تفسیر القرآن العظیم: جلد، 7 صفحہ، 314)
جب رسول اللہﷺ سے ان لوگوں کے اوصاف پوچھے گئے جو جہنم کی آگ میں جانے سے بچ جائیں گے تو آپ نے فرمایا:
’’وہ لوگ نجات پائیں گے جو اس راہ کے راہی ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ کرام چل رہے ہیں ۔‘‘
[الترمذي: کتاب الإیمان: باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ: جلد، 5 صفحہ، 26 برقم: 2641)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اے قراء کی جماعت! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان لوگوں کی راہ پر چلتے رہو جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ مجھے میری عمر کی قسم! اگر تم ان کی راہوں پر چلتے رہو گے تو بہت آگے سبقت لے جاؤ گے اور اگر ان کی راہ چھوڑ کر دائیں بائیں چل نکلو گے تو بہت دور کی گمراہی میں جا پڑو گے۔‘‘
(ابن عبد البر: جامع بیان العلم و فضلہ: جلد، 2 صفحہ، 947 و صحیح البخاری: برقم: 7282)
اس سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ پر چلنے میں ہی ہدایت ہے اور اسی پر کامیابی اور نجات مل سکتی ہے۔
آخر میں ایک بہت خوبصورت کلام کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت علامہ ابنِ کثیرؒ اس فرمان الہٰی کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کے دلوں میں دیکھا تو حضرت محمدﷺ کا دل ان تمام سے افضل اور بہتر پایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی ذات کے لیے چن لیا اور آپ کو اپنا رسول بنا کر مبعوث فرمایا۔ پھر دوسری بار محمدﷺ کے بعد تمام لوگوں کے دلوں میں دیکھا تو آپﷺ کے صحابہؓ کے دلوں کو تمام لوگوں کے دلوں سے افضل پایا تو انہیں اپنے نبی کے وزیر بنانے کے لیے چن لیا جو کہ آپ کا دین پھیلانے کے لیے لوگوں سے جہاد کیا کرتے تھے۔ (رواہ امام أحمد )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: تم میں سے جو کوئی راہِ سنت پر چلنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ ان لوگوں کی راہ پر چلے جو کہ انتقال کر چکے ہیں۔ وہ نبی کریمﷺ کے صحابہ تھے۔ جو کہ امت کے سب سے بہترین لوگ تھے۔ ان کے دل بڑے پاکیزہ اور نیک تھے۔ ان کا علم بہت گہرا تھا اور تکلف نہیں کرتے تھے۔ وہ ایسی ہستیاں تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمﷺ کی صحبت اور آپﷺ کے دین کی نشر و اشاعت کے لیے چن لیا تھا، اپنے طور طریقہ اور اخلاق و عادات میں ان کی مشابہت اختیار کرو وہ محمدﷺ کے صحابہؓ تھے جو کہ راہِ ہدایت پر گامزن تھے۔
(أخرجہ ابو نعیم فی الحلیتہ: جلد، 1 صفحہ، 360)
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ كَانَ خَيۡرًا مَّا سَبَقُوۡنَاۤ اِلَيۡهِ ۞(سورۃ الأحقاف آیت، 11)
ترجمہ: ’’اور جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہنے لگے جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے۔‘‘
آپ فرماتے ہیں:
اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں: ’’ہر وہ قول و فعل جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کوئی خیر و برکت ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور اس کی طرف سبقت لے جاتے۔ اس لیے کہ خیر و بھلائی کا کوئی کام ایسا باقی نہیں رہا جس کی طرف وہ سبقت نہ لے گئے ہوں۔‘‘
(تفسیر القرآن العظیم 12، 13 )
امت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ دس بڑے حقوق ہیں جن میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ بھی اجمالی طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں راہِ حق پر قائم رکھے اور ان مقدس جماعت کی اتباع اور ان کے دفاع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔