مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور اس کے متعلق مزید دو سوالات
مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور اس کے متعلق مزید دو سوالات
سوال: (1) کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں میں کہ زید ایک ہندو مشرک باپ کا بیٹا مسلمان ہوا ہے۔ اس کا باپ ہندؤ ایک کثیر جائیداد کا مالک ہے۔ کیا زید اپنے باپ کے بعد اس کی جائیداد کا وارث شرعاً ہو سکتا ہے یا نہیں؟ بحالیکہ زید ازروئے قانون گورنمنٹ کے(یعنی زید کے دادا ہندؤ کی جائیداد ہونے کے باعث) وارث ہو سکتا ہے۔ اور اگر زید ازروئے راجح مذہب شریعتِ محمدیﷺجس کی بناء اس امر پر ہے کہ اختلاف دینین موانع ارث ہے وارث نہ سکے تو بنا مرجوح مذہب جو کہ حديث الاسلام يعلو ولا يعلی: سے بعض صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین مثلاً سیدنا معاذ بن جبلؓ و سیدنا معاویہؓ بن ابی سفیانؓ محمد بن الحنفیہؒ محمد بن علی بن الحسینؒ و مسروقؒ وغیرہ کہتے ہیں کہ مسلم اپنے باپ کافر کا وارث ہو سکتا ہے کافر اپنے باپ مسلم کا وارث نہیں ہوسکتا۔ اگر اپنا ورثہ لے تو کیا اس کا یہ ورثہ لینا جائز ہے یا نہ؟ اور اس کا یہ حاصل کر دو مال حلال ہو گا یا حرام یا مشتبہ؟
(2) چونکہ ضلع ہذا میں بعض نو مسلموں نے اپنے ہندؤ باپ کی جائیداد سے ازروئے قانون سرکاری ورثہ حاصل کر لیا۔ لہٰذا زید مذکور اپنے باپ ہندؤ (جو کہ اس وقت زندہ ہے اور اپنے ہندؤ بیٹے کو اپنی جائیداد تملیک کرنا چاہتا ہے) پھر یہ دباؤ ڈال کر کہ میں آپ کی وفات کے بعد ازروئے قانون سرکاری ضروری وارث ہو جاؤں گا۔ تو آپ مجھے پورا حصہ نہ دیں، ادھورا حصہ دیں، مثلاً بجائے نصف حصہ کے ثلث دیں۔ تو کیا یہ مصلحت جائز ہے؟ اس لئے کہ اس میں ایک کو نہ دباؤ ہے؟ اور کیا ایسا دباؤ جائز ہے؟ چونکہ کافر کسی مسلم کو کچھ مال تملیک کر دے تو شرعاً مسلم کو اس مال کا حاصل کرنا جائز ہے۔
لہٰذا صورتِ مذکورہ بالا میں جو کہ ایک گونہ دباؤ کی صورت ہے بطورِ مصالحت مال حاصل کرنا جائز ہے یا نہ؟ یہ دوسری صورت یعنی بطورِ مصالحت کے زید مال حاصل کرے اس لئے اختیار کرتا ہے کہ اگر بناء پر مذہب راجح بطور ورثہ مال حاصل کرتے ہیں حلت مال میں کچھ شبہ ہو تو بطورِ مصالحت مذکورہ مال حاصل کرے۔
(3) عمرو ایک نو مسلم شخص از ہندؤ مذہب ہے اس نے ایک کثیر جائیداد جدی بموجب قانون گورنمنٹ اپنے ہندؤ باپ کے ورثہ سے حاصل کی ہے۔ اب اس کی اولاد جو قبل از اسلام تھی یعنی ہندؤ اولاد بھی ازروئے قانون سرکاری عمر کے مرنے کے بعد ضروری ہے وارث ہوگی، چونکہ عمر کی ہندؤ اولاد آریہ ہے جو کہ سخت ترین دشمنانِ اسلام سے ہے۔
لہٰذا کیا عمرو کو اس امر کی کوشش کرنا کہ کسی طرح اس کی ہندؤ اولاد اس کے مرنے کے بعد وارث نہ ہو واجب نہیں ہے۔ جبکہ شرعاً کافر مسلم کا کسی صورت میں وارث نہیں ہو سکتا۔ اور اس عدم کوشش سے کیا عمرو گناہ گار نہیں ہے؟ واضح رہے کہ عمرو کی اس وقت دو مسلمان بیویاں، دو مسلم بیٹے اور دو مسلم لڑکیاں صاحبِ اولاد ہیں۔عمرو کی ہندو اولاد نے عمرو کے ساتھ مقدمہ کیا حتیٰ کہ نوبت چیف کورٹ تک پہنچی۔ قانوناً سرکاری یہ ہے کہ مورث کی جدی جائیداد یعنی وارث کے دادا کی جائیداد سے مسلم کافر کا اور کافر مسلم کا وارث ہو سکتا ہے اگرچہ مورث اپنے حین حیات میں اسے محروم کرنے کی وصیت بھی کر جائے ، یعنی اختلاف دینین موانع ارث نہیں۔
جواب: (1) مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا: كما هو مصرح في كتب الفقه والفرائض: اور جب بدونِ استحقاق کافر کے ورثہ لیا تو حلال کیسے ہو گا۔
(2) کافر اگر اپنی خوشی سے کسی کو دے دیں تو حلال ہو جاتا ہے۔ لیکن جب اس پر دباؤ ڈالا تو رضامندی کہاں رہی؟ پس یہ مصالحت معتبر نہیں ہے۔ پس صورت جواز یہ ہے کہ ہندؤ باپ سے صاف صاف کہہ دیں کہ کو قانوناً میں آپ کا وارث ہو سکتا ہوں مگر میرا مذہب جب اس کی اجازت نہیں دیتا کہ میں آپ کا وارث بنوں۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ خوشی سے جو کچھ دینا چاہیں اپنی زندگی میں دے دیں۔ اور مجھے وارث نہ بنائیں، بلکہ یہ کہدو کہ میں نے اپنے نو مسلم بیٹے کو اپنی زندگی میں حصہ دے دیا ہے۔ لہٰذا میرے بعد وارث نہ ہو گا اور ساتھ ہی یہ بھی کہے کہ یہ دینا اپنی خوشی پر ہے۔ اگر آپ نہ دیں تو نہ میں قانونی چارہ کوئی کروں گا اور نہ ناخوش ہوں گا۔
(3) ۔۔۔۔ نمبر 1 سے معلوم ہوا کہ خود عمرو ہی کو اس جائیداد میں سے میراث نہیں ملتی تو اس میں وہ تصرف کیسے کرے گا۔
(جامع الفتاوىٰ:جلد، 9 صفحہ، 449)