قرآن کے مسئلہ میں امام جعفر صادق کی باقی اسلاف کے ساتھ موافقت یہاں پر مقصود یہ ہے کہ اس امامیہ شیعہ اور اس کے امثال سے یہ کہا جائے گا کہ تم اپنے ان روافض بھائیوں کے ساتھ توحید کے مسئلہ میں مناظرہ کرو اوراپنے قول کی صحت پر حجت قائم کرو؛ اور پھر اس کا دعویٰ کرو۔ اور اہل سنت کواور ان سے تعارض کو بھی چھوڑ دو۔کیونکہ بے شک یہ لوگ کہتے ہیں کہ توحید میں ہمارا قول ہی حق ہے۔ امام جعفرِ صادق رحمہ اللہ اور اس کے زمانے میں بھی تھے یعنی ان کا وجود اس زمانے میں بھی تھا پس وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آئمہ کے اقوال کو تم سے زیادہ جانتے ہیں خاص طور پر اس لیے بھی کہ امام جعفرِ صادق رحمہ اللہ سے بسندِ مشہور یہ بات ثابت ہے کہ ان سے قرآن کے بارے میں پوچھا گیا: کیا وہ خالق ہے یا مخلوق؟ تو انہوں نے فرمایا :’’ نہ تو یہ خالق ہے نہ مخلوق ؛بلکہ یہ کلام اللہ ہے۔‘‘یہ ایسی بات ہے جس میں امام احمد رحمہ اللہ نے مصیبت اور ابتلاء کے زمانے میں اس کی اقتداء کی۔ جعفر بن محمد رحمہ اللہ باتفاقِ اہل سنت اور باتفاق سلف آئمہ دین میں سے ہیں ۔یہ صحابہ اور تابعین میں سے جمہور کا قول ہے۔[کہ قرآن اللہ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے]۔ لیکن انہوں نے وہ قول اختیار نہیں کیا جو ابن کلاَّب اور اس کے متبعین نے اختیار کیا ہے؛ کہ قرآن قدیم اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ لازم ہے۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور قدرت سے کلام نہیں کرتے۔بلکہ یہ تونیا عقیدہ ہے جس کو ابن کلاَّب اور اس کے متبعین نے دین میں ایجاد کر لیا ہے ۔جبکہ سلف صالحین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے متکلم ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی مشیت اور قدرت سے ہوتا ہے۔ ایسا ہی انہوں نے لزومِ فاعلیت کا قول بھی اختیار کیا ہے۔ اور اس کو امام جعفر صادق بن محمد رحمہ اللہ سے بھی نقل کیا ہے ۔وہ فاعلیت متعددہ کے دوام کے قائل ہیں ۔ اور یہ کہ بے شک اللہ تعالیٰ ازل سے لے کر ابد تک صفتِ احسان کے ساتھ متصف ہیں ۔جیساکہ ثعلبی رحمہ اللہ نے اپنی اسناد کے ساتھ اللہ تعالی کے اس قول کی تفسیر میں نقل کیا ہے:﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا ﴾( مومنون :۱۱۵ )’’تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے‘‘؟امام جعفر اور باقی تمام مسلمان اور اہل ملل اور جمہور عقلاء جو دیگر ملتوں کے ہیں ؛ ان سب کا عقیدہہے کہ اللہ تمام اشیاء کے خالق ہیں ۔ او اللہ کے ماسوا سب حادث ہیں ۔ اور موجود بعد العدم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدم کے ساتھ عالم میں سے کوئی شے بھی قدیم نہیں ہے ۔رہا امامیہ فرقہ کے مشائخ ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم اور ان کے علاوہ دیگر ؛ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن نہ خالق ہے نہ مخلوق۔ بلکہ یہ تو اللہ کا کلام ہے۔ جس طرح جعفر بن محمد رحمہ اللہ اور باقی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔لیکن میں نہیں جانتا ہوں کہ کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا اپنی مشیت کے ساتھ متکلم ہونے کے دوام کے قائل ہیں جس طرح کہ اہل سنت کے آئمہ کہتے ہیں یا ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلام صادر فرمایا بعد ا س کے کہ وہ متکلم نہیں تھے جس طرح کہ کرامیہ کا قول ہے ۔