Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قرآن کے بارے میں روافض کا عقیدہ :

  امام ابنِ تیمیہؒ

قرآن کے بارے میں روافض کا عقیدہ :اما م اشعری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قرآن کے بارے میں اختلاف ہے اور ان کے دو فرقے ہیں :۱) پہلا فرقہ:ہشام بن حکم اور اس کے اصحاب کا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ قرآن نہ خالق ہے نہ مخلوق ۔اور بعضوں نے تو اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ ہشام یہ کہتا تھا کہ نہ وہ خالق ہے نہ مخلوق ہے اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ غیر مخلوق ہو۔ اس لیے کہ وہ ایک صفت ہے اور صفت کو موصوف نہیں کیا جا سکتا۔ اور فرمایا کہ زرقان نے ہشام بن حکم سے اس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: قرآن دو قسم پر ہے ۔اگر تمہاری مراد وہ قرآن ہے جو مسموع میں سنا جاتا ہے؛تو بیشک اللہ تعالیٰ نے اس آواز کوپیدا فرمایا ہے؛ جو مقطع ہے یعنی ایک ایک حرف کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ اور وہ قرآن کا رسم ہے۔ اور رہا قرآن تو وہ تو علم اور حرکت کی طرح اللہ تعالیٰ کا فعل جو نہ اس کا عینِ ذات ہے اور نہ غیر ۔[مقالات الاسلامیین ۱؍۱۰۹۔ ]۲) دوسرا فرقہ: ان کا عقیدہ ہے کہ:قرآن مخلوق اور حادث ہے۔ اور پہلے موجود نہیں تھا پھر وجود میں آیا۔ جس طرح معتزلہ اور خوارج کا عقیدہ ہے ۔اور فرمایا کہ یہ متاخرین میں سے ایک جماعت کا عقیدہ ہے ۔[1] [1] قرآن مجید کے اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہونے کے دعویداروں ، جہمیہ اور معتزلہ کے ساتھ شیعہ برابر ہیں ۔شیعہ کے علامہ مجلسی نے اپنی کتاب ’’کتاب القرآن ‘‘ میں ایک باب کا عنوان یہ رکھاہے:’’باب أن القرآن مخلوق۔‘‘ ’’اس بات کا بیان کہ قرآن مخلوق ہے۔ ‘‘بحارالأنوار : ۸۹۸ ؍۱۱۷۔ اس میں گیارہ روایات لکھی ہیں ۔شیعہ کے آیت اﷲ محسن امین اس بات کی تاکید بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:’’ شیعہ اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے۔‘‘ [۔أعیان الشیعہ: ۱؍۴۶۱)] (قاضی عبد الجبار أحمد الھدانی معتزلی نے ’’ شرح الأصول الخمسۃ ‘‘میں لکھا ہے: قرآن کے بارے میں ہمارا مذہب یہ ہے قرآن اﷲ کی کلام اور اس کی وحی ہے۔ اور وہ محدث، مخلوق ہے۔۵۲۸)۔میں کہتا ہوں کہ: یہ بات تو معلوم ہے کہ جعفر صادق رحمہ اللہ کاعقیدہ وہی اسلاف والا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ۔ان کی مراد یہ نہیں ہے کہ غیر مخلوق اس معنی پر ہے کہ وہ جھوٹ نہیں ہے۔[ کیونکہ خلق اور اختلاق کا لفظ جھوٹ گھڑنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے]۔ بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ نے اس کو پیدا نہیں فرمایا ۔جس طرح کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔ اور یہی روافض میں سے متاخرین کا عقیدہ ہے۔ متاخرینِ روافض میں سے ایک جماعت جیسے کہ ابو القاسم موسوی جوکہ مرتضیٰ کے لقب سے معروف ہے؛ جب اس نے اس عقیدہ میں معتزلہ کی  موافقت کی کہ قرآن کلام حادث اور اللہ کی ذات سے جدا ہے ۔اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے پہلے کلام کرنا ممکن نہیں تھا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ متکلم بنے؛ بعد اس کے کہ وہ پہلے متکلم نہیں تھے۔ اورا للہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا کلام ثابت نہیں ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ بلکہ اس کا کلام تو اس کے ان من جملہ مصنوعات کے ہے جو اس کی ذات سے منفصل ہیں ۔پھر انہوں نے اہلِ بیت کے اسلاف جیسے کہ امام جعفرِ صادق رحمہ اللہ وغیرہ سے یہ بات سنی ہے؛ وہ کہا کرتے تھے کہ:قرآن تو غیر مخلوق ہے۔‘‘ تو وہ ان کی متابعت میں کہنے لگے: ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ مخلوق ہے؛ بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک حادث کلام ہے اور یہ مجعول ہے یعنی اسے تیار کیا گیا ہے۔وہ اپنے تئیں قرآن کے اس لفظ کی موافقت کرتے ہیں جس میں ارشادہے :﴿اِِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾( زخرف: ۳)’’ بے شک ہم نے اسے عربی قرآن بنایا، تاکہ تم سمجھو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ ﴾[الانبیاء۲]’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو۔‘‘اور بہت سے لوگ جو روافض کے علاوہ ہیں وہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔اور ان کا مقصود اس جملے میں نفی سے یہ ہے کہ وہ مکتوب اور مفترا یعنی گھڑا ہوا نہیں ہے۔بیشک عربی زبان میں کہا جاتا ہے: خلق ہٰذا واختلقہٗ یعنی جب اس نے اس کو اپنی طرف سے گھڑلیا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ابراہیم علیہ السلام سے حکایتاً ارشاد ہے:﴿اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ﴾( عنکبوت: ۱۷) ’’تم اللہ کے سوا چند بتوں ہی کی تو عبادت کرتے ہو اور تم سراسر جھوٹ گھڑ تے ہو۔‘‘اور قوم ہود علیہ السلام سے حکایت کرتے ہوئے فرمایا:﴿اِِنْ ھٰذَا اِِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ (137) وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ﴾(شعرآء :۱۳۷،۱۳۸)’’ نہیں ہے یہ مگر پہلے لوگوں کی عادت۔اور ہم قطعاً عذاب دیے جانے والے نہیں ۔‘‘پس ان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر وہ شخص جو ان آثار میں غور کرے جو سلف سے منقول ہیں اور جو امت میں قرآن کی مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کے بارے میں نزاع واقع ہے تو وہ یہ بات جان لیتا ہے کہ ان کانزاع اس بات میں نہیں تھا کہ یہ اپنی طرف سے گھڑا ہوا ہے یا گھڑا ہوا نہیں ہے اس لیے کہ جو شخص بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں وہ کبھی اس کا قائل نہیں ہو سکتا کہ قرآن مفتریٰ اور گھڑا ہوا (خود ساختہ )ہے بلکہ وہ تو یہ کہتا ہے کہ قرآن کو مفتریٰ اور گھڑا ہوا وہی شخص کہے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ جھوٹا کہے گا جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ ﴾(یونس :۳۸)’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے؟ کہہ دے تو تم اس جیسی ایک سورت لے آؤ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ ﴾(ھود: ۱۳ )’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ کہہ دے پھر اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہُ عَلَیْْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْماً وَزُوراً ﴾(فرقان: ۴)’’اورکفر کرنے والوں نے کہا: یہ نہیں ہے مگر ایک جھوٹ، جو اس نے گھڑ لیا اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر اس کی مدد کی، سو بلاشبہ وہ ایک ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں ۔‘‘نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ إِنِ افْتَرَیْْتُہُ فَعَلَیَّ إِجْرَامِیْ وَأَنَاْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُجْرَمُونَ﴾ (ھود: ۳۵ )’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے، کہہ دے اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہے تو میرا جرم مجھی پر ہے اور میں اس سے بری ہوں جو تم جرم کرتے ہو۔‘‘جن لوگوں نے قرآن کے بارے میں باہم اختلاف کیا ہے کہ کیا وہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق ؟تو وہ سب کے سب اس بات کا اقرار کرنے والے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے قرآن کو پہنچانے والے ہیں ۔ اور اس نے اس کو ہر گز اپنی طرف سے نہیں گھڑا لیکن معتزلہ اور جہمیہ کی چونکہ بنیاد اس بات پر ہے کہ رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ صفات اور افعال اور خاص طور پر کلام نہیں قائم ہو سکتے تو ان کے ذمے یہ بات لازم ہوئی کہ وہ اس کے قائل ہو جائیں کہ اللہ تعالی کا کلام اس کی ذات سے جدا ہے اور مخلوق ہے یعنی من جملہ اس کے مخلوقات کے ہے اور ان میں سے سب سے پہلے جو شخص اس کلام اور اس قول کے ساتھ ظاہر ہوا وہ جعد بن درہم پھر جہم بن صفوان ہوا اور پھر اس کے بعد سب معتزلہ نے اس کو اختیار کر لیا ۔