Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا ساجد خان اتلوی صاحب کا فتویٰ گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عیادت، جنازہ اور نکاح وغیرہ کی ممانعت


حضرت مولانا ساجد خان اتلوی صاحب کا فتویٰ

(فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی)

جامع الاحادیث میں حدیث نمبر 16449 کے تحت ابنِ عساکرؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت مذکور ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: 

لا تسبوا اصحابی فانه يجیء فی آخر الزمان قوم يسبون اصحابی فاذا مرضوا فلا تعودوهم واذا ماتوا فلا تشهدوهم ولا تناكحوهم ولا توارثوهم ولا تسلموا عليهم ولا تصلوا عليهم۔

ترجمہ: میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا نہ کہو بے شک آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم آئے گی جو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہے گی پس اگر یہ لوگ بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر یہ مر جائیں تو ان کے پاس مت جاؤ، اور ان کے ساتھ آپس میں نکاح و میراث کا معاملہ بھی نہ کرو، اور ان پر سلام بھی نہ کرو، اور ان پر نمازِ جنازہ بھی نہ پڑھو۔ 

حدیث مذکور سے ثابت شدہ چند احکام:

  1.  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گستاخوں کی عیادت نہ کرو۔ 
  2. ان کے ہاں تعزیت کے لیے مت جاؤ۔ 
  3. ان کو سلام نہ کرو۔ 
  4. ان کے ساتھ نکاح نہ کرو، نہ کراؤ۔
  5. نہ ان کا وارث بنو، نہ ان کو وارث بناؤ 

قارئین کرام!

اگر دیکھا جائے تو یہ ساری باتیں کفار کے حق میں ہوتی ہیں کہ کافر کو سلام نہیں کیا جاتا، کافر کے ساتھ نکاح کا معاملہ نہیں ہو سکتا، کافر نہ مسلمان کا وارث بن سکتا ہے، نہ مورث، اور نہ ہی کافر کا جنازہ پڑھا جاتا ہے۔ 

میرے محترم دوستو!

یہ روایت ایک بہت بڑی وعید ہے اور اس کی تہدید سب پر واضح ہے، بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس روایت کی رو سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گستاخ، کفار سے بھی زیادہ بد بخت ہے، کیونکہ کافر کی عیادت سے نہیں روکا گیا، بلکہ ایک مسلمان کے حسنِ معاشرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کافر کی بھی عیادت کرے، لیکن یہاں گستاخِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عیادت تک سے بھی روکا گیا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ توہینِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس قدر سنگین جرم ہے؟ 

(توہینِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شرعی حکم: صفحہ، 74)