Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

قرآن کے بارے میں آئمہ اسلام کے عقائد:

  امام ابنِ تیمیہؒ

قرآن کے بارے میں آئمہ اسلام کے عقائد:جب یہ بات زیادہ پھیل گئی تو انہوں نے ائمہ اسلام جیسے جعفر صادق اور ان کے امثال سے سوال کرنے لگے۔پس جعفر صادق رحمہ اللہ سے انہوں نے پوچھا کہ قرآن خالق ہے یا مخلوق؟ تو فرمایا : ’’ قرآن نہ خالق نہ مخلوق ہے بلکہ وہ اللہ کا کلام ہے۔‘‘ اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ امام جعفر رحمہ اللہ کا یہکہناکہ :’’قرآن نہ خالق ہے نہ مخلوق‘‘ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ نہ کاذب ہے نہ مکذوب؛ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے والاخالق نہیں ۔اور نہ ہی وہ مخلوق ہے؛ لیکن یہ تو اللہ کا کلام ہے۔ ایسے ہی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ آپ نے تو ایک مخلوق کو حکم بنا دیا؟ تو فرمایا :’’میں نے کسی مخلوق کو حکم نہیں بنایا؛ میں نے تو قرآن کو حکم بنایا ہے۔‘‘ابن ابی حاتم نے ’’الرد علی الجہمیہ ‘‘[1] [1] ابن ابی حاتم ؍الامام ؛ الحافظ ؛ شیخ الاسلام ابو محمد عبدالرحمن بن الحافظ الکبیر ابی حاتم محمد بن ادریس المنذر التمیمی ۲۴۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۲۷ھ میں وفات پائی۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں : ’’جہمیہ کے رد پر ان کی ایک بہت بڑی کتاب ہے’’ الرد علی الجہمیۃ‘‘ جو کہ آپ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔فوات الوفیات لابن شاکر ۱؍ ۵۴۲۔ العبر للذہبی ۲؍۲۰۸۔الاعلام للزرکلی ۴؍۹۹۔] میں رد کیا ہے ؛ وہ لکھتے ہیں : حرب کرمانی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سند سے میری طرف یہ بات لکھی؛ آپ فرماتے ہیں :’’ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو شخصوں کو حکم بنایا تو خوارج نے کہا کہ: آپ نے تو دو آدمیوں کو حکم [فیصلہ ساز]بنایاہے ؟ تو انہوں نے فرمایا:’’ میں نے مخلوق کو حکم نہیں بنایا؛ میں نے تو قرآن کو حکم بنایا ہے۔‘‘دوسری روایت میں ہے جوعبد اللہ بن حسن سے مروی ہے کہ:’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکمین سے فرمایا : پوری طرح قرآن کا فیصلہ کرو؛ بیشک یہ سارا قرآن میرے لیے ہے۔‘‘[یعنی وہ پورے کا پورا میرے حق میں ہے]۔اور حضرت عکرمہ سے مسنداًنقل کرتے ہوئے ابن ابی حاتم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ ایک جنازے میں حاضر تھے کہ ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’یا رب القرآن ارحمہ۔‘‘’’ اے قرآن کے رب اس پر رحم فرما۔‘‘توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ مہ‘‘’’رک جاؤ‘‘یعنی ایسا نہ کہیے۔ قرآن تو اللہ ہی کی ذات سے ہے اوراللہ کا کلام ہے اور وہ مربوب نہیں ہے۔وہ اللہ تعالیٰ ہی سے صادر ہوا ہے اور اس کی طرف لوٹے گا ۔ایسے ہی اس میں ایک اور روایت عمروبن دینار سے یہ لکھی تھی کہ:’’ میں نے ستر سال سے یہ بات سنی ہے کہ ہمارے مشائخ یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔‘‘اور ایک روایت میں ہے کہ:’’ اسی کی ذات سے وہ صادر ہوا ہے اور اسی کی طرف لوٹے گا۔‘‘اور اس روایت کو بہت سو نے سفیاہ ابن عیینہ عن عمر بن دینار نقل کیا ہے ۔اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’ خلق افعال العباد ‘‘میں اس کو نقل کیا ہے ۔
ابن ابی حاتم نے جعفر بن محمد عن ابیہ کی سند سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے کہ حضرت علی بن حسین سے قرآن کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :’’ نہ خالق ہے اور نہ مخلوق لیکن وہ خالق کا کلام ہے۔‘‘امام ابو زرعہ نے یحی ابن منصورعن رویم کی سند سے اس کو نقل کیا ہے۔ایک اور روایت ابن ابی حاتم نے جعفر ابن محمد عن ابیہ کی سند سے نقل کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی بن حسین سے پوچھا کہ:’’ ایک قوم یہ کہتی ہے کہ:’’ قرآن مخلوق ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’ نہ تو خالق ہے اور نہ مخلوق؛ بلکہ وہ تو اللہ کا کلام ہے۔‘‘ایک اور روایت حضرت معاویہ بن عمار ذہبی کی ؛ وہ کہتے ہیں :’’ میں نے جعفر بن محمد سے پوچھا کہ:’’ لوگ مجھ سے قرآن کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ :’’مخلوق ہے یا خالق ‘‘؟تو آپ نے فرمایا: ’’ نہ خالق ہے اور نہ مخلوق ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اور ایک اور روایت نقل کی ہے :جعفر ابن عن ابیہ عن جدہ کی سند سے کہ ابو جعفر بن محمد سے قرآن کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ خالق ہے یا مخلوق ؟تو فرمایا :’’ اگر خالق وہ ہوتا تو پھر اس کی عبادت کرنا جائز ہوتا۔ اور اگر وہ مخلوق ہوتا تو ختم ہو جاتا ۔حالانکہ یہ دونوں باتیں ثابت نہیں ۔نہ تو اس کی عبادت جائز ہے اور نہ وہ قرآن پاک ختم ہو سکتا ہے ۔اس طرح کے آثار حضراتِ صحابہ اور تابعین اور اہل بیت کے علاوہ دیگر سے کثر ت کے ساتھ منقول ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول کہ ’’میں نے کسی مخلوق کو حکم(فیصلہ ساز ) نہیں بنایا‘ میں نے تو قرآن کو حکم بنایا ہے‘‘ آپ کی مراد یہی ہے کہ میں نے کسی کلام مفتریٰ کو حکم نہیں بنایا ہے یعنی یہ مراد آپ کی نہیں ۔ اس لیے کہ خوارج نے ان سے کہا تھا کہ: آپ نے لوگوں میں سے ایک مخلوق کو حکم بنایا۔‘‘اس سے مراد حضرت ابو موسیٰ اشعری اورحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماتھے۔ اس لییآپ نے فرمایا:’’ میں نے کسی مخلوق کو حکم نہیں بنایا میں نے تو قرآن کو حکم بنایا جو اللہ کا کلام ہے۔ پس حکم اور فیصلہ اللہ ہی کی ذات کے لائق ہے اور حق سبحانہ اپنے کلام کو اس بات سے متصف کرتے ہیں کہ وہی فیصلہ کرتا ہے اور وہ قصے بیان کرتا ہے اور فتویٰ بھی دیتا ہے؛ ارشاد ہے:﴿ إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یَقُصُّ عَلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ أَکْثَرَ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ﴾(النمل :۷۶)’’بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں ‘‘نیز ارشاد ہے :﴿ وَیَسْتَفْتُونَکَ فِیْ النساء قُلِ اللّہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ وَمَا یُتْلَی عَلَیْْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ فِیْ یَتَامَی النِّسَائِ﴾ (النساء :۱۲۷) ’’اور وہ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ، کہہ دے اللہ تمھیں ان کے بارے میں
فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھا جاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے۔‘‘اس طرح یہ ارشاد بھی ہے:﴿وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ﴾(بقرہ: ۲۱۳ )’’، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انھوں نے اختلاف کیا تھا۔‘‘جب لفظ ’’حکم ‘‘اس طرح قصص بیان کرنا اور لفظ افتاء کی نسبت قرآن کی طرف کی جائے جو کہ کلام اللہ ہے تو اللہ ہی فیصلہساز؛ فتویٰ دینے والے اور وہی بیان کرنے والے ہوتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اِن امور کو کئی مقامات پر خود اپنی ذات کی طرف منسوب فرمایا ہے۔پس حضرت علی بن ابی طالب اور جعفر بن محمد اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی مراد یہی تھی۔ اور باقی امت کے اسلاف کی بھی یہی رائے ہے۔اب بغیر کسی شک کے پس یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ روافض آئمہ اہل بیت اور باقی اسلافِ امت کے ساتھ مسئلہ القرآن میں مخالف ہیں ۔ جس طرح کہ اور دیگر شرائع (مسائل )میں بھی انہوں نے مخالفت کی ہے ۔رہا یہ قول کہ قرآن غیر مخلوق ہے یہاں مخلوق مجعول کے بارے میں ؛ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اس بات کے ساتھ موصوف نہیں فرمایا کہ وہ مجعول[پیدا کردہ] ہے اور وہ عدم سے وجود میں لایا گیا ہے ؛کیونکہ اگر یہ معنی مراد ہوتا تو پھر وہ صرف ایک ہی مفعول کی طرف متعدی ہوتا؛ حالانکہ جہاں یہ استعمال ہوا ہے وہاں دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے چنانچہ ارشاد ہے:﴿اِِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾( زخرف: ۳)’’ بے شک ہم نے اسے عربی قرآن بنایا، تاکہ تم سمجھو۔‘‘پس اگر وہ اس کامعنی یہ کریں کہ وہ قرآن مجعول ہے تو یہ معنی حق ہے ۔رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ :﴿مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ ﴾[الانبیاء۲]’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو۔‘‘تو یہ آیت اس بات پر دال ہے کہ ذکر دو قسم پر ہے :ایک حادث اور دوسرا غیر حادث۔جیسے آپ کہیں کہ : اگر میرے پاس کسی عادل اور دین دار آدمی کی شہادت آئی تو میں اس کی شہادت کو قبول کروں گا۔ اور نکرہ کی صفت تخصیص کے لیے ہے۔ اور ان کے نزدیک یہ سب کا سب حادث ہے۔اور قرآن میں حادث وہ نہیں جو ان کے کلام میں حادث ہے۔ پس انہوں نے قرآن کی موافقت نہیں کی۔ پھر اگر یہ کہا جائے کہ وہ حادث ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مخلوق ہے اور اللہ کی ذات سے جداہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور قدرت سے کلام فرماتے ہیں تو وہ کلام اس کے ساتھ قائم ہوتاہے۔ اوریہ کہنا بھی جائز ہے کہ : وہ حادث ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ اس کاکلام اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ مخلوق نہیں ہے ۔ یہ بہت سے آئمہ اہل سنت اور آئمہ محدثین کا قول ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے:
((ان اللہ یحدث من أمرہ مایشاء وان مماأحدث أن لا تکلموا فی الصلاۃ۔)) [1] [1] البخاری 9؍152 ؛ کتابِ التوحِیدِ، بابِ قولِ اللّٰہِ تعالیٰ: کل یوم ہو فِی شأن۔سننِ أبِی داؤود 1؍335؛ کتابِ الصلاۃِ، بابِ ردِ السلامِ فِی الصلاۃ؛ سننِ النسائِیِ 3؍16 ؛ کتابِ السہوِ، بابِ الکلامِ فِی الصلاِۃ۔ المسندِ ؛ ط. المعارِف 5؍200 ؛ رقم: 3575 ’’بیشک اللہ تعالیٰ اپنے اس دین میں نئے احکام نازل فرماتے ہیں اور ابھی یہ حکم نیا نازل فرمایا ہے کہ تم نماز میں بات چیت نہ کیاکرو۔‘‘یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ جو بات اللہ تعالیٰ نے حادث اور نئی اتاری ہے وہ تو اس بات کا حکم ہے کہ وہ نماز میں کلام نہ کریں ۔ لیکن نما ز کے اندر ان کا عدم تکلم حادث نہیں ۔ اس لیے کہ وہ تو ان کے اپنے اختیار سے ہوگا۔ اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنھوں نے نہی کے بعد بھی کلام کیا ہوگا۔ لیکن اس سے ان کو روک دیا گیا اسی وجہ سے فرمایا کہ اپنے اس دین میں اللہ تعالیٰ نیا حکم نازل فرماتے ہیں جو چاہتے ہیں ۔