مبتدعین کے دلائل سے امامیہ شیعہ کے دلائل کا ٹکراؤ:مقصود یہاں یہ ہے کہ اس امامیہ شیعہ سے کہا جائے گا کہ تیرے بھائی تو یہ کہتے ہیں کہ ان کاعقیدہ ہی حق ہے؛ تیراعقیدہ نہیں ۔ اورتم نے اپنے قول پر اسی بات کو بطورِ دلیل پیش کیا ہے کہ وہ جسم نہیں ہے۔ اور یہ تیرے بھائی مبتدعین تو یہ کہتے ہیں کہ:’’ وہ جسم ہے۔‘‘ توتم ان کے ساتھ مناظرہ کر لو؛کیونکہ وہ امامت کے مسئلہ میں تیرے بھائی ہیں ۔ اور توحید کے مسئلہ میں تیرے خصم (مدمقابل )ہیں ۔ اور ایسے ہی چاہیے کہ تم ان خوارج سے مناظرہ کرو جو تیرے مخالفہیں ،رہے اہل سنت وہ تو تیرے اور تیرے خصوم کے درمیان حد فاصل ہیں ۔ اور تم اس بات کی قدرت نہیں رکھتے کہ تو اپنے ان مخالفین کے دلائل کو رد کر دے؛ نہ یہ اور نہ یہ۔اگر تم یہ کہو کہ میری حجت ان لوگوں کے خلاف یہ ہے کہ:’’ ہر جسم حادث ہے۔‘‘تو وہ مد مقابل تمہارے بھائی یہ کہیں گے کہ:’’ جسم ہمارے ہاں دوا قسام میں منقسم ہوتاہے: ایک قدیم اور ایک حادث۔ جس طرح کہ قائم بنفسہ اور موجود اور حی اور عالم اور قادر ذات قدیم اور حادث میں تقسیم ہوتی ہے ۔اگرمنکرین صفات یہ کہیں کہ جسم حوادث سے خالی نہیں ۔ اور جو چیز حوادث سے خالی نہ ہو وہ خود حادث ہوتی ہے۔ تو اس کے مدِ مقابل اسے کہیں گے : ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ حوادث سے خالی نہیں ہوتا اور اگر ہم اس بات کو تسلیم کرلیں تو ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے کہ جو بھی چیز حوادث سے خالی نہ ہو وہ بھی حادث ہے۔ اورحوادث سے خالی نہ ہونے کی یہ ہے کہ وہ اعراض سے خالی نہیں ہوتا؛ اور اعراض تو حادث ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ عرض دو زمانوں میں باقی نہیں رہتا۔ا سے امتداد نہیں ہوتا۔ اور عالم کے حدوث کے مسئلہ میں بہت سے کلابیہ نے اس دلیل پراعتماد کیا ہے۔ امام آمدی نے بھی اس پر اعتماد کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ ہر دلیل پر اعتراض کیا ہے۔اورکہا ہے یہ اشعریہ کا طریقہ ہے۔ اور جس نے بھی آمدی کے کلام کا تعقب کیا ؛ اس نے اس کی دلیل کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے: یہ تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس اصلِ عظیم کی بنیاد اس ضعیف مقدمہ پر رکھی جائے ۔درحقیقت میں نے امام اشعری رحمہ اللہ کا کلام دیکھاہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ اس کی معتمد دلیل یہ ہے کہ : اجسام اجتماع اور افتراق سے خالی نہیں ہوتے ؛اس لیے کہ اجسام جواہرِ فردہ سے مرکب ہوتے ہیں ۔ پس اس نے اعراض میں سے صرف اس نوع کے ساتھ اجسام کے استلزام سے استدلال کیا ہے۔ یہ نوع حادث ہے اس لیے کہ یہ عدم کے بعد وجود میں آئی ہے۔ لیکن یہ جواہر فردہ سے مرکب ہونے پر مبنی ہے ۔اور جمہورِ عقلاء خواہ وہ مسلمان ہوں یا کوئی دیگر ،وہ سبھی اس کی نفی کرتے ہیں ۔
یہاں پر مقصودان طوائف کے اصول ذکر کرنا ہے۔بلا شک و شبہ ان روافض اور معتزلہ کا عقیدہ امت کی دیگر جماعتوں کیعقائد کی بہ نسبت بہت زیادہ فاسد اور باطل ہے۔اور بیشک ان کے پاس کوئی بھی شرعی یا عقلی دلیل نہیں جو ان کو ان کے مبتدعین بھائیوں کے ساتھ انصاف کروائے۔ اگرچہ وہ لوگ بھی اپنی جگہ پر گمراہ اور بدعتی ؛ اور انتہائی درجہ کے تناقض کا شکار ہیں ۔ پس اہل سنت کے خلاف انہیں کیسے کوئی حجت میسر ہوگی جو اسلام میں متوسط اور درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہیں جس طرح خود اسلام بھی تمام ملتوں میں ایک متوسط راستہ ہے ۔اگرمنکرین صفات کہیں کہ: اجسام کا اعراض کے ساتھ استلزام ان کے حدوث پر دلیل ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ تمہارا اور تمہارے معتزلی ائمہ کا عقیدہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اشاعرہ کا عقیدہ ہے۔ رہے معتزلہ تو ان کے نزدیک بسا اوقات وہ بہت سے اعراض سے خالی بھی ہوتا ہے۔ اور یہ بات وہ اُن امور میں کرتے ہیں جو موجود بعد العدم ہوتے ہیں یا وہ رنگوں کے قبیل سے ہوتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ: ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اعراض حادث ہوتے ہیں ؛ اور وہ دو زمانوں تک باقی نہیں رہ سکتے۔ اور یہ ایسا عقیدہ ہے جس کا باطل ہونا جمہور عقلاء کے نزدیک بدیہی عقل کے ذریعے معلوم ہے ۔ باوجود یکہ یہ نہ تیرا قول ہے اور نہ معتزلہ اور روافض میں سے تیرے شیوخ کا۔ اگر منکر صفات امامی کہے کہ: جسم حوادث سے خالی نہ ہونے پر دلیل یہ ہے کہ وہ اکوان سے خالی نہیں ہوتا ؛ اور اکوان حادث ہوتے ہیں ۔کیونکہ وہ حرکت اورسکون سے خالی نہیں ہوتا؛ یہ دونوں حادث ہیں ۔تو ان کو جواب یہ ہے کہ:’’ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ تمام اکوان حادث ہیں ؛بلکہ یہ جائز ہے کہ ایک ایسا جسمِ قدیم ازلی پایا جائے جو سکون کے ساتھ متصف ہو۔ اور پھر بعد میں اس میں حرکت پیدا ہو جائے ؛حالانکہ پہلے وہ متحرک نہیں تھا۔کیونکہ سکون دو حال سے خالی نہیں ،اگر وہ ایک عدمی شے ہے تو یہ ممکن ہے کہ اس کے بعد کوئی امر وجود ی حادث ہو جائے ۔اگراس کو ایساوجود ی فرض کر لیا جائے کہ وہ کسی حادث کے ذریعے زائل ہو جائے۔تو منکرین کہتے ہیں : قدیم تو زائل ہی نہیں ہوتا۔تو ا س کے بھائی کہنے لگے: اگر قدیم بمعنی عدمی ہے تو باتفاق عقلاء اس کا زوال ممکن ہے۔کیونکہ کوئی بھی حادث ایسا نہیں جس کا عدم قدیم نہ ہو۔ اور سکون تو بہت سے لوگوں کے ہاں ایک امر عدمی ہے۔ اور ہم تو اس بات کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ ایک امر عدمی ہے؛ پس اس کا زوال جائز ہے۔ اور اگر وہ ایک وجودی شے ہے تو ہم اس امرکو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس کا زوال جائز اور ممکن نہیں ۔ان کے ہمنوا مجسمہ کہتے ہیں : یہ مقام شیعہ ،معتزلہ ،اشعریہ تمام جماعتوں میں سے مخالفین کے خلاف حجت ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس بات میں ہماری موافقت اختیار کی ہے کہ باری تعالیٰ نے فعل صادر فرمایا؛ بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا۔ پس تمام حوادث کا بغیر کسی سبب ِ حادث کے حدوث کا امکان معلوم ہوا۔ اور وہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ: یہ جائز بلکہ واجب ہے کہ سارے کے سارے حوادث بغیر کسی سبب حادث کے پیدا ہوں ۔کیونکہ ان کے نزدیک ایسے حوادث ممتنع ہیں ۔جن کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی ازلی ہوں ۔ اور یہ بھی جائز ہے تو ہم نے اس امرکو اختیار کر لیا ہے کہ سکون ایک عدمی شے ہے اورحادث ایک وجودی حرکت ۔ پس جب کسی جسم کا حدوث بغیر کسی سببِ حادث کے جائزہے تو حرکت کا بغیر کسی سببِ حادث کے پیدا کرنا بطریق اولیٰ ممکن ہے۔اور اگر کہا جائے کہ سکون ایک وجودی شے ہے۔ تو جب اعیان کا وجود بعد العدم ممکن ہے؛ حالانکہ وہ تو عدمِ فعل سے فعل کی طرف انتقال ہے خواہ اس کو تغیر و انتقال کہا جائے یا نہ کہا جائے؛ تو یہ جائز ہے کہ کوئی ساکن متحرک ہو اور سکون سے حرکت کی طرف منتقل ہو جائے۔ اگرچہ یہ دونوں وجودی چیز ہیں ۔کسی قائل کا یہ کہنا کہ اس ذات کے قدم کا مقتضی (بالکسر)اس کے وجوب کے لوازم میں سے ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ: بسا اوقات ایک ذات کی بقا اس امر کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ اس کے زوال کے ساتھ اس کا ارادہ متعلق نہ ہوجس طرح کہ حوادث کے سبب میں ۔بے شک واجب عدمِ فعل سے فعل کی طرف منتقل ہو۔تو جو جواب ان کا اس بارے میں ہے وہی جواب ہمارا بھی ہے۔ اور اگر وہ دوامِ فاعلیت کا قائل ہے تو اس سے ان کا اور ہمارا عقیدہ دونوں باطل ہوئے ۔خلاصہ کلام ! یہ بات ممکن ہے کہ کسی قدیم ذات سے کوئی امر بغیر کسی سببِ حادث کے صادر ہو۔ یا ممکن کے دو طرفین میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے؛ محض قدرت سے۔تو ایسی صورتِ حال میں تو یہ ممکن ہوگا کہ قادر ذات ایک ایسی شے بھی صادر کر دے جس سے وہ سکون زائل ہو جائے جو پہلے زمانے میں تھا خواہ وہ سکون وجودی ہو یا عدمی ہو ۔منکرین صفات کہتے ہیں : اس سے تو لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حرکت ،حوادث او ر اعراض کے لیے محل بنے ؛ جبکہ یہ عقیدہ تو باطل ہے۔ اور امامیہ میں سے اس کے بدعتی ہم نواکہتے ہیں کہ آپ نے تو ایسی بات کہہ دی جو مطلوب پر صادر ہورہی ہے۔ یہی تو ہماراواضح عقیدہ ہے۔کیونکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ: وہ متحرک ہے۔ اور اس کے ساتھ حوادث اور اعراض قائم ہوتے ہیں ۔تو پھرہمارے اس عقیدہ کے بطلان پرکیا دلیل ہے ؟منکرین کہتے ہیں : جس ذات کیساتھ حوادث قائم ہوں وہ اُن سے خالی نہیں ہوتا۔ اور جو بھی شے ایسی ہو جو حواث سے خالی نہ ہو تو وہ خود بھی حادث ہوتا ہے ۔تو اس کے بدعتی بھائی اس سے کہتے ہیں کہ جس ذات کے ساتھ حوادث قائم ہوں وہ حوادث سے خالی نہیں ہوتا۔ یہ تو امامیہ اور معتزلہ کا قول نہیں ؛ یہ تو اشعریہ کا قول ہے۔ اور امام رازی اور آمدی اور ان کے علاوہ دیگر نے اس کے ضعف کا اعتراف کیا ہے اور یہ کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ۔ اور تم اس بات کو ہمارے حق میں تسلیم کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اشیاء کو پیدا فرمایا؛ بعد اس کے کہ وہ معدوم تھے اور بغیر کسی سببِ حادث کے کوئی حادث بھی موجود نہیں تھا۔ یعنی بغیر حادث کے حادثِ اول کو پیدا فرمایا۔ پس جب حوادث بغیر کسی اسبابِ حادثہ کے پیدا ہوئے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی ذات کے ساتھ ان کا قیام ہو بعد اس کے کہ وہ پہلے قائم نہیں تھے۔اس قول کے امامیہ قائل ہیں ؛ اور کرامیہ میں سے بھی بعض کا اور کچھ دیگر حضرات کا بھی یہی قول ہے۔ وہ قدیم جسم کے اثبات کے قائل ہیں ۔ اوریہ کہ اللہ نے فعل کو صادر کیا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا۔ یا وہ متحرک ہوا بعد اس کے کہ وہ ساکن تھا۔ان امامیہ ،اور ان کے ہمنواؤوں معتزلہ اور کلابیہ کے لیے اس کا ابطال ممکن نہیں ۔ کیونکہ ان کے قول کی بنیاد تو اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کے امتناع پر ہے۔ ان کے برعکس یہ لوگ اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ پھر کلابیہ صفات کے انکار کی وجہ سے اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کی نفی نہیں کرتے۔بیشک وہ کہتے ہیں : صفاتِ قدیمہ اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ؛ اور وہ نوع کے قدم کی نفی اس کے اعیان کے تجدد کی وجہ سے کرتے ہیں ۔جو دھیرے دھیرے وجو دمیں آتے ہیں ۔کیونکہ وہ حادث ہیں ۔اس انکار میں ان کی اصل دلیل یہ ہے کہ جو شے ما قبل الحوادث ہووہ حوادث سے خالی نہیں ہوتی۔ اور یہ عقلاء کے نزدیک ایک باطل مقدمہ ہے اور اس کا اعتراف ان کے ماہرین میں سے بہت سو ں نے کیا ہے۔جیسے رازی اور آمدی وغیرہ۔ رہے ابو المعالی اور ان کے امثال؛ تو انہوں نے اس مطلوب پرکوئی حجت عقلیہ قائم نہیں کی۔ انہوں نے تو ان لوگوں کے اقوال کے تناقض پراعتماد کیا ہے جو کرامیہ اور فلاسفہ میں سے ان کے مخالفین ہیں اور مجموعی طور پر ان دونوں صورتوں میں ان طوائف کے اقوال کے تناقض اور فساد پر دلالت کرتا ہے۔اور بعینہ ان میں سے کسی کے قول کی صحت پر بھی دلالت نہیں کرتا۔ اورایسی صورتِ حال ایک تیسرا قول ِ بھی ممکن ہے؛ ان دونوں اقوال یا کسی ایک قول؛سے کلابیہ کے قول کی صحت لازم نہیں آتی۔ اور ایسے ہی ان طوائف کے قول کی صحت جو کہ باہم اختلاف کا شکار اور کتاب و سنت کے مخالفین ہیں ۔ اور ان کے نزدیک تو صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے عقائد کی خرابی اور اس کے تناقض کو بیان کرتے ہیں ۔ اور خود ان کے ہاں کوئی ایسا صحیح قول نہیں ملتا جسے اختیار کیا جائے ۔ پس اس کے کلام سے مستفاد فائدہ یہ ہے کہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے کلام کو ناقض ثابت کرنا۔ [ان میں سے کسی شے کو اعتقاد اور عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا]۔ پھر اگر وہ حق بات معلوم ہو جاتی ہے جس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں تو وہی صواب اوردرست؛ اور صریح معقول کے موافق ہے ۔ ورنہ تو ان کے باہمی تناقضات اور منازعات سے اتنا فائدہ تو حاصل ہوا کہ ان اعتقادات ِ باطلہ سے انسان اپنے آپ کو محفوظ کر لے؛ اگرچہ وہ خود بھی حق کو نہ پہچانے۔ پس جہل بسیط جہل مرکب سے بہتر ہے ۔اور اقوالِ باطلہ کا عدمِ اعتقاد ان میں سے کسی ایک شے کے اعتقاد سے بہتر ہے ۔رہے معتزلہ تو اللہ کی ذات کیساتھ حوادث کے قیام کی وہ نفی کرتے ہیں ۔کیونکہ حوادث اعراض ہیں جو اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتے۔ اورجب کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ: اس کے ساتھ اعراض قائم ہو سکتے ہیں ۔معتزلہ کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ حوادث قائم ہوں تو وہ جسم کہلائے گا؛ اور ان لوگوں نے اس بات کا التزام کر لیا ہے کہ وہ جسم ہے۔ اور ان لوگوں کی عمدہ دلیل اس کے جسمیت کی نفی میں یہ ہے کہ جسم حوادث سے خالی نہیں ہوتا۔ اور دوسرے اس کی مخالفت کرتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں یہ حوادث سے خالی ہوسکتا ہے۔ اور کہتے ہیں : باری تعالیٰ جسمِ قدیم ہے۔ جس طرح کہ تم کہتے ہو کہ یہ ذاتِ قدیم ہے۔ اور اس نے فعل اس کے عدم کے بعد صادر کیا ۔ اور تم اس کے مفعول کو بعینہ اس کا فعل قرار دیتے ہو۔ لیکن یہ دوسرے کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات کے لیے ایسا فعل ثابت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس سے جدا ہے۔ اور یہ دوسرے کہتے ہیں کہ اس کے لیے ایسا مفعول ثابت ہے جو اس کے ذات سے جدا ہے اور اس کے ساتھ کوئی فعل قائم نہیں ہوتا ۔ان لوگوں کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ازل میں ساکن تھے؛ تو اس میں حرکت ممکن نہیں ۔ کیونکہ سکون ایک معنی وجودی ازلی ہے جو زائل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر وہ متحرک فرض کر لئے جائیں تو پھرلا متناہی حوادث لازم آتے ہیں ۔اور یہ دوسرے کہتے ہیں کہ: وہ ازل میں ساکن تھا۔ اورو ہ کہتے ہیں کہ سکون عدمِ حرکت سے عبارت ہے۔ یا ایسی شے سے عدمِ حرکت جس کی تحریک ممکن ہو یا اس کا ایسی شے سے عدم اور نفی جس کی شان یہ ہے کہ وہ متحرک ہو۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سکون ایک امرِوجودی ہے ۔جس طرح یہی بات وہ اندھے پن ،گونگے پن، بہرے پن اور جہلِ بسیط میں کہتے ہیں ۔ ان امور کے عدمی ہونے کا قول فلاسفہ کا قول نہیں ہے ۔جس طرح کہ علم کلام کے بعض مصنفین نے گمان کیا ہے۔ بلکہ یہ تو اُن اہل نظر متکلمین کا قول ہے اہل قبلہ اوراہل نماز میں سے ہیں ۔ اور اس میں ان کا باہمی تنازع اور جھگڑا ایسا ہے جیسے اس کے نظائر یعنی دیگر مسائل میں ان کااختلاف ہے مثلاًاعراض کی بقا،اجسام کا تماثل اور اسکے علاوہ[دیگر مسائل میں اختلاف] ۔اگر وہ یہ کہیں کہ یہ ایک امر وجودی ہے۔ تو وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ہر ازلی زائل ہوتا ہے بلکہ سکون کی حرکت میں تبدیلی کے بارے میں وہ وہی بات کہتے ہیں جو امتناع کا امکان میں تبدیل ہونے میں ان کے مناظر اور مخالفین کہتے ہیں ۔کیونکہ دونوں جماعتیں اس امرپر متفق ہیں کہ فعل ازل میں ممتنع تھا اور بعد میں وہ ممکن بنا اسی طرح یہ لوگ سکونِ وجودی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا ازل میں حرکت کے ساتھ تبدیل ہونا ممتنع تھاا ور بعد میں وہ ممکن ہوا۔ جس طرح کہ یہ سبھی اس کے قائل ہیں کہ حرکت وجودی میں فعل اس وقت وجو دمیں آیا جس وقت کہ حدوث ممکن ہوا ۔پس یہ ان امور میں امامیہ اور کرامیہ کاان دوسرے امامیہ اور معتزلہ کلابیہ اور ان کے اتباع کے ساتھ بحث ومباحثہ ہے جن میں یہ صرف عقل پر اعتماد کرتے ہیں ۔ معتزلہ اور روافض اور ان کے موافقین میں سے ایک گروہ نے ان کو یہ جواب دیا ہے کہ وہ دلیل جو حدوثِ عالم پر دال ہے؛ بعینہ وہی دلیل اجسام کے حدوث پر دال ہے۔ پس اگر یہ دلیل صحیح نہیں ہے تو عالم کے حدوث اور صانع کے اثبات اوراس کی معرفت کا راستہ ہی بند ہو جائے گا ۔پس ان لوگوں سے فریق مخالف نے کہا کہ ہم تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ صانع کے اثبات اور عالم کی معرفت کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ بلکہ یہ تو اسلام میں ایک انوکھا ،مبتدع اور خودساختہ راستہ ہے۔صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت اور تابعین حضرات میں سے کوئی بھی اس راستے پر نہیں چلا۔ بلکہ یہ تو جہم بن صفوان ،ابوالہذیل علاف اور ان کے موافقین کا راستہ ہے۔ اور اگر صانع کے اثبات اور عالم کے حدوث کا علم صرف اور صرف اسی طریقے سے تام ؛ہوتا تو پھر اس طریقے کو بیان کرنا دین میں سے ہوتا؛ اور ایمان اس کے بغیر مکمل نہ ہوتا۔ اور ہم تو بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے یہ طریقہ بیان نہیں کیااور نہ اس کی دعوت دی۔ اور نہ صحابہ میں سے کسی ایک نے اس کی دعوت دی۔ پھر یہ کہنا کہ ’’ایمان اس پر موقوف ہے ‘‘یہ ایسی بات ہے کہ اسلام میں اس کا بطلان بدیہی طور پر ثابت ہے۔ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ایک نیا طریقہ[بدعت] ہے جس پرسلف میں سے کوئی بھی نہیں چلا ۔اور لوگوں کے مابین اس کی صحت میں اختلافہے۔تو پھر یہ لوگ کیسے کہتے ہیں کہ صانع کا علم اور حدوثِ عالم کا علم اس پر موقوف ہے۔ اور انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ یہ طریقہ تو اثباتِ صانع کے علم کے منافی ہے۔ نیز اس اللہ تعالیٰ کا اس عالم کاصانع ہونے اور شرائع اور احکام کے آمر اور رسولوں کے بھیجنے والی ذات ہونے کے منافی ہے۔ پس جن لوگوں نے یہ طریقہ ایجاد کیاہے یعنی جہمیہ ،معتزلہ اور ان کے موافقین؛ توان کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ عقلاً صحیح ہے اور پیغمبروں کی نبوت پر علم اور دین اسلام کی صحت اس کے بغیر تام نہیں ہوتی ۔ان کا یہ کہنا کہ ’’پیغمبر کی نبوت پر علم اور دین ِ اسلام کی حقانیت اس کے بغیر تام نہیں ہوتی ‘‘یہ ایک ایسی بات ہے کہ جمہور امت سلفاً و خلفاً سب نے اس پر ان میں نکیر اور رد کیا ہے۔ خاص طور پر سلف اور آئمہ کرام کا کلام اس جیسے کلام والوں کو بدعتی قرار دینے اور ان کی مذمت کرنے میں اور ان کو جہل اور عدم علم کی طرف منسوب کرنے میں ایک ایسا کلام ہے جو امور متواترہ میں سے ہے ۔ اور ایسے ہی عقلی اعتبار سے اس کی صحت کا قول بھی ایک ایسی بات ہے؛ جو جمہور آئمہ امت کے نزدیک منکر اور ناقابل قبول بات ہے۔ لیکن کرامیہ ،کلابیہ اور دیگر بعض جماعتوں نے جہمیہ اور معتزلہ کی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ اور اس کے باوجود انہوں نے ان کے ساتھ اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ دینِ اسلام کی صحت اس پر موقوف ہے یا نہیں تو اس وہ کے منکر ہیں جس طرح کہ بہت سو ں نے اس بات کو ذکر کیا ہے جیسے ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اپنے رسالے:’’رسالۃ إلی أھل الثغر بباب الأبواب ‘‘ میں لکھا ہے ۔اور خطابی اور ابو عمرو طلمنکی اندلسی اور اسی طرح قاضی ابو یعلی اور ان کے علاوہ اور مصنفین نے اس بات کو ذکر کیا ہے ۔رہے ائمہ اہل سنت اور اہل کلام کے کئی گروہوں نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ: یہ عقلاًبھی باطل طریقہ ہے اور دین ِ اسلام کی صحت کے منافی ہے؛ چہ جائے کہ دین اسلام کی صحت پر علم کے لیے یہ شرط قرار دیا جائے۔ اوردین اسلام کی صحت کے منافیچیز کی اس کے ساتھ کیا نسبت جو اس کی صحت کے علم کے لیے لازم ہے ۔یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایک ایسی ذات فرض کرنا جو ازل سے اپنی مشیت اور قدرت سے نہ فاعل ہو ،نہ متکلم ؛ اور پھر ان مفعولات کا حدوث فرض کرنا جو پہلے وجود میں نہیں تھے؛ پھربغیر کسی سببِ حادث کے موجود ہو ئے؛۔ جیسے ایک منظوم اور مرکب کلام۔ تو اس کا باطل ہونا صریح معقول سے معلوم ہے۔ اور یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آسمان اور زمینوں کے خالق ہونے کے بھی منافی ہے۔ اوریہ کہ قرآن اللہ کا کلام قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ بہت سے امور کہ جن کی رسولوں نے خبر دی ہے۔ بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے کسی فعل کو بھی صادر نہیں کیا اور کسی شے پر بھی اللہ نے کلام نہیں کیا بوجہ ان امور کے ممتنع ہونے کے جو انہوں نے ذکر کئے ہیں یعنی یہ کہ وہ فعال ہے یا یہ کہ اُس کے لیے دیگر صفات ثابت ہیں ۔دوسرے مقام پراس کا ذکر کیا گیاہے۔یہاں پر مقصود ان طرق اور مقالات کی غلطی سے آگاہ کرنا ہے جو ان باطل فرقوں نے گھڑ لیے ہیں ۔منکرین صفات کہتے ہیں : جب صانع پر علم کا اثبات اور آسمانوں اور زمینوں کا حدوث اور پیغمبروں کی نبوت پر علم کا اثبات کی بابت ہمارے طریقے باطل ہوئے تو اس کی طرف صحیح راستہ کیا ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اولاً : ہم پر اس مقام پر ان امور کا بیان کرناواجب نہیں ۔یہاں تو مطلوب یہ ہے کہ یہ طریقہ بدعت ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ طریقہ پیغمبر علیہ السلام کا لایا ہوا نہیں ۔توپھر اس کا واجب ہونا ممتنع ٹھہرا۔ یا یہ وہ علم ہے جو مسلمانوں پر واجب ہے یا اس کے صدق پر ایمان لانا واجب ہے وہ اس پر موقوف ہو جائے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ صانع کے وجود پر علم اور حدوثِ عالم پر علم ان میں سے ہر ایک کے اثبات کے بہت سے طرق ہیں جو عقلاً اور نقلاً صحت کے ساتھ ثابت ہیں ۔