Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اہل سنت والجماعت کے نزدیک اثبات ِوجود ِاللہ تعالیٰ کے طرق :

  امام ابنِ تیمیہؒ

اہل سنت والجماعت کے نزدیک اثبات ِوجود ِاللہ تعالیٰ کے طرق :اثبات صانع کے طرق بے شمار اور لاتعداد ہیں ۔ بلکہ جمہور علماء کا مسلک تو یہ ہے کہ صانع کا اقرار کرنا ایک ضروری فطری امر ہے کہ جو انسان کی خلقت میں ودیعت کیا گیا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو تمام پیغمبرصرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ اور جتنی امتیں گزریں ہیں وہ سبھی اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار کرتے تھے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ٹھہراتے تھے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے صانع کا انکار کیا جیسے فرعون؛ تو پیغمبروں نے اس کے ساتھ گفتگو میں ایسا اسلوب اختیار کیا گویا کہ ان کا مخاطب صانع کے اثبات کو اپنے دل میں حق جانتا ہے؛ جیسے موسیٰ علیہ السلام کا ارشاد[اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ] ہے؛ [فرمایا]:﴿قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ ﴾( اسراء ۱۰۲)’’اس نے کہا بلاشبہ یقیناً تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، اس حال میں کہ واضح دلائل ہیں ۔‘‘جب فرعون نے کہا کہ:﴿قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾(شعراء23)’’ فرعون نے کہا اور رب العالمین کیا چیز ہے؟۔‘‘توحضرت موسیٰ علیہ سلام نے فرمایا:﴿ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِنْ کُنْتُمْ مُوْقِنِیْنَ (24) قَالَ لِمَنْ حَوْلَہُ اَلاَ تَسْتَمِعُوْنَ (25) قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ (26) قَالَ اِِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ (27) قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾[شعراء 24۔28]’’کہا جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔اس نے ان لوگوں سے کہا جو اس کے ارد گر د تھے، کیا تم سنتے نہیں ؟کہا جو تمھارا رب اور تمھارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔کہا یقیناً تمھارا یہ پیغمبر، جو تمھاری طرف بھیجا گیا ہے، ضرورپاگل ہے۔اس نے کہا جو مشرق و مغرب کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر تم سمجھتے ہو۔‘‘تو فرعون نے کہا:﴿ قَالَ فَمَن رَّبُّکُمَا یَا مُوسَیo قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْ أَعْطٰی کُلَّ شَیْْء ٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ ھَدٰی ﴾’’اس نے کہا تو تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ!؟کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔‘‘[طہ ۴۹۔۵۰]تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب ایسا جواب تھا جو ایسے متجاہل شخص کو دیا جاتا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ حق کو جانتا نہیں حالانکہ اس کے دل میں وہ بات معلوم و معروف ہوتی ہے اس لیے کہ فرعون کایہ سوال کرنا:

﴿ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾(شعراء23)’’ اور رب العالمین کیا چیز ہے؟۔‘‘ یہ اس کے وجود کے انکار پر مشتمل سوال ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ماہیت کو پہچاننے کے لیے استفہام نہیں ۔ جس طرح کہ متاخرین نے یہ گمان کیا اور انہو ں نے کہا کہ ’’فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے رب العالمین کے ماہیت کے بیان کا مطالبہ کیا۔ تو آپ نے جواب دیتے میں دوسرا راستہ اختیار کیا اس لیے کہ اس ماہیت کو ذکر کر کے جواب دینا تو ممتنع تھا۔یہ بات ان کی غلطی ہے ۔اس لیے کہ فرعون صانع کا بالکل اقرار کرنے والا نہیں تھا بلکہ وہ تو ا س کا منکر تھا اور اس کا استفہام تو صانع کے وجود کے انکار پر مشتمل استفہام تھا اس لیے تو کہا:﴿ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ﴾[قصص۳۸]’’ میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانتا۔‘‘اور یہ کہا کہ : ﴿انا ربکم الاعلیٰ ﴾۔’’میں تمہارا رب اعلی ہوں ۔‘‘ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقراری ہوتا؛اور وہ اس کی ماہیت کی معرفت کا طالب ہوتا؛ تو اس طرح نہ کہتا۔ اور نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسا جواب دیتے جس ماہیت ذکر نہ ہوتی۔یہ کہنا کہ ماہیت سے وہی ماہیت مراد ہے جس کو مناطقہ ذکر کرتے ہیں جو ذاتی مشترک اور ذاتی ممیز کے ذکر کو ملا کر جواب دیاجاتاہے؛ جو کہ جنس اور فصل کہلاتے ہیں ۔یہ ایک باطل بات ہے۔ جس پر کئی مقامات پر تفصیلی رد کیا جا چکا ہے؛ اور یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ وہ ماہیت جو وجودِ خارجی کے مغایر ہے؛ وہ وہ ہے جس کاذہن میں تصور کیا جاتا ہے اس لیے کہ ذہن میں جو صورتِ ذہنیہ ہوتے ہیں وہ بعینہ موجوداتِ خارجیہ نہیں ۔رہا منطقِ یونان والوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ خارج کے اندر ایک اور ماہیت ایسی پائی جاتی ہے جو اس ماہیت (یعنی موجودفی الذہن )کی غیر ہے اور یہ کہ صفاتِ لازمہ دو قسموں کی طرف تقسیم ہوتے ہیں :ایک وہ جو ذات کے ساتھ لازم ہیں اور اس کے لیے مقوم اور ماہیت کے اندر داخل ہیں ۔دوسرے وہ جو ذات سے جدا ہیں یعنی عرضی ہیں اور اس کے لیے غیر مقوم ہیں ؛ جوکہ خارجی وجود کے بغیر اس کی خارجی ماہیت کو لازم ہیں ؛ تو یہ کئی اعتبارات سے باطل کلام ہے۔اسے کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ صفات دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں :ایک وہ جو موصوف کے لیے لازم ہیں ۔ دوسرے جو صرف اس کے لیے عارض ہیں۔جس طرح کہ اہل اسلام کے تمام مکاتب فکر کے اہل نظر کی رائے ہے۔ اور مسلمان اہل نظر کا کلام حد اور برہان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے اور صریح معقول میں ان کا کلام فلاسفہ یونان اور ان کے متبعین کے کلام کی بہ نسبت زیادہ اصح ہے۔او ر یہ کہ انسان کے نفسِ حدوث کے ذریعے اس کا صانع پہچانا جا سکتا ہے۔یہی حال ہر اس چیز کاہے جس حدوث مشاہد اور دیکھنے میں آتا ہے۔ اور یہی طریقہ قرآن میں مذکور ہے۔نیز یہ بھی کہ وجود تو کسی ایسے موجود کے اثبات کو مستلزم ہے جو قدیم اور واجب بنفسہ ہو۔ اور ہم بالیقین یہ جانتے ہیں کہ موجودات میں بعض وہ ہیں جو حادث ہیں ۔ پس بدیہی طور پر یہ بات معلوم ہوئی کہ موجود دو قسم پر ہے :ایک قدیم ،واجب بنفسہ اوردوسراحادث ۔