Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور کا فتویٰ شیعہ کے ساتھ تعلقات اور اسلامی مراسم کا حکم


دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور کا فتویٰ

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شیعہ لوگوں کے ساتھ میل میلاپ تعلقات کس حد تک رکھنا چاہیے؟ ایک شخص عبداللہ کہتا ہے کہ شیعہ لوگوں کے ساتھ قطعاً کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہیے، ان کے عقائد اور وجود سے سخت نفرت ہونی چاہیے۔ جبکہ دوسرا شخص عبدالرحمٰن کہتا ہے کہ نفرت عقیدہ سے ہوتی ہے انسان سے نہیں، شیعہ کے عقائد سے نفرت کرو، ان کے وجود سے نفرت نہ کرو۔ عبدالرحمٰن یہ بھی کہتا ہے کہ مرض سے نفرت ہو، اس کے وجود سے نہیں وہ کہتا ہے اگر وجود سے نفرت جائز ہوتی تو حضور اقدسﷺ مکہ کے کافروں، مشرکوں کو کبھی قریب نہ آنے دیتے۔ شیعہ کے علاوہ دیگر غیر مسلم مثلاً عیسائی، یہودی، قادیانی وغیرہ ان کے متعلق بھی از روئے قرآن و سنت وضاحت فرما کر رہنمائی فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ نیز کیا شیعہ کو اپنی ویگن وغیرہ پر ڈرائیور رکھا جا سکتا ہے؟

جواب: بادی النظر میں عبدالرحمٰن کی بات درست ہے لیکن عبدالرحمٰن کی نظر اس طرف متوجہ نہیں ہوئی کہ جب مریض کے پاس بیٹھنے سے خود کو مرض یا اس کے اثرات لگ جانے کا خطرہ ہو تو پھر اس کے پاس بیٹھنا نقصان سے خالی نہیں ہے۔ کچھ اسی قسم کا حال شیعوں کا بھی ہے یہ مہلک اور متعدی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کے ساتھ رہنے والا ان کے مرض سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مشرکینِ مکہ پر ان کو قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ وہ کھلم کھلا کافر و مشرک تھے اور یہ بد بخت اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور پاس بیٹھنے والا بھی ان کو مسلمان خیال کرتا ہے، جبکہ ایسے نہیں ہے۔

لہٰذا ان کے زہر سے بچنے کا اور عوام الناس کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے ان سے دور رہا جائے۔ البتہ ان کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے جو ان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں وہ ان کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں اور ان کے عقائد و خرافات پر نکیر بھی نہیں کرتے۔

دیگر کفار کے ساتھ بھی قلبی محبت و تعلق نا جائز ہے گو ان کے ساتھ ملنے سے وہ خطرہ نہیں جو شیعہ سے ہے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ وغیرہ کو سب لوگ کافر و غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ باقی قادیانیوں سے بھی وہی خطرہ ہے جو روافض و شیعہ سے ہے۔ لہٰذا ان کے ساتھ بھی تعلق رکھنا غیرتِ ایمانی کے خلاف ہے۔

(فتویٰ امام اہلِ سنت مع تائید علماء اہلِ سنت: صفحہ، 40)