طرق اثبات حدوث عالم :رہا حدوثِ عالم تو اس کا علم نقل اور عقل دونوں سے ممکن ہے اس لیے کہ صانع کے وجود پر علم ممکن ہے یا ضرورتاً اور بدیہی طور پر اور فطرتِ سلیمہ کے ذریعے یا حوادث کے حدوث کے مشاہدہ کے ذریعے۔ یا اس کے علاوہ دیگرا ورامور دالہ کے ذریعے۔ پھرجن طر ق کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدق معلوم ہو جاتا ہے؛ معجزات کی دلالت بھی ان طرق میں سے ایک طریق ہے۔ ایسے ہی تصدیق کا راستہ معجزات میں منحصر نہیں ہے پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاحدوثِ عالم کا خبر دینا اس کے ذریعے بھی پتہ چلتا ہے ۔رہا عقلی دلائل تو یہ امرمعلوم ہے کہ عالم اگر قدیم ہوتا تو وہ دو حال سے خالی نہیں :۱) یا واجب بنفسہ ہوگا تو یہ باطل ہے۔ اس پر تنبیہ پہلے گزرچکی ہے۔ یعنی کہ عالم کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء غیر کا محتاج ہے اور غیر کا محتاج واجب بنفسہ نہیں بن سکتا ۔۲) یا پھر واجب بغیرہ ہوگا۔تو اس کا مقتضی موجب بذاتہ ہوگا ۔یعنی وہ اپنے مقتضی کو مستلزم ہوگا۔ خواہ وہ ارادہ کرنے والا ہو یا نہ ہو۔پس بے شک قدیمِ ازلی کو اگر یوں فرض کر لیا جائے کہ وہ معلول او ر مفعول ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ ایک ایسی علتِ تامہ ہو جو ازل سے اس کی مقتضی ہو۔ اور یہی تو موجب بذاتہ کہلاتا ہے۔ اور اگر اس کا مبدع(پیدا کرنے والا ) ایسی علتِ تامہ کے لیے موجب بذاتہ ہے جس سے اپنا معلول بالکل متاخر نہ ہو۔ تو وہ اور حوادث تو عالم میں مشہود ہیں یعنی نظر آتے ہیں پس یہ بات معلوم ہوئی کہ اس کا فاعل علت تامہ نہیں اور جب وہ علت تامہ نہیں تو قدیم نہیں ۔ان حوادث ِ عالم کے بارے میں اگریہ کہا جائے کہ یہ اس کے لوازم ذات میں سے ہیں ؛ تو یہ ممتنع ہے کہ علت تامہ ازلیہ صرف اپنے ملزوم کے لیے علت بنے نہ کہ لازم کیلئے۔نیز یہ بات ممتنع ہے کہ وہ اپنے لازم کے لیے علت بنے اس لیے کہ علت تامہ ازلیہ کسی بھی شے کے حدوث کا مقتضی نہیں ہوتا۔ اور اگر حوادث اس کی ذات کے لوازم میں سے نہ ہوں تو پھر وہ حادث بعد العدم ہونگی۔ پس اگر اس کے لیے کوئی محدث نہ ہو تو لازم آئے گا کہ حوادث بغیر کسی محدث کے وجود میں آئے۔ اور اس کا بطلان تو بدیہی طور پر معلوم ہے۔ اور اگر اس کے لیے واجب بنفسہ کے علاوہ کوئی محدث ذات ہو تو اس ذات کا ان حوادث کو پیدا کرنے میں قول اُس قول کی طرح ہے جو بعینہ اس محدث ذات میں ہے اور اگر واجب بنفسہ بعینہ وہی محدث ذات ہے تو پس بتحقیق اس سے حوادث پیدا ہوئے بعد اس کے کہ وہ معدوم تھے۔ اور جب صورت حال یونہی ہے تو پس وہ متغیر ہوا اور حوادث کے لیے عدم کے بعد محل بنا ۔ اور علتِ تامہ ازلیہ کے متعلق یہ بات جائز نہیں کہ اس پر تغیر آجائے یا ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیلی آجائے۔ اور کیونکہ اس کا متغیر ہونا ضرور کسی سببِ حادث سے ہوگا۔ اور علتِ تامہ ازلیہ کے بارے میں یہ ممکن نہیں کہ اس کی ذات میں کوئی حادث پیدا ہو۔کیونکہ اگر اس کی ذات میں کوئی حادث پیدا ہوا باوجود یکہ کوئی شے متجدد اور نیا پیدا نہیں ہواتو پھر توحدوث بلا سبب لازم آئے گا ۔اور اگر اس کی ذات میں کوئی سببِ حادث نہ ہوتو بغیر فاعل کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا پس یہ بات باطل ہوئی کہ وہ علتِ تامہ ازلیہ بنے ۔اگر کوئی جائز قرار دینے والا اس کو جائز قرار دے کہ ایسی علتِ تامہ ازلیہ کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال جائز ہے تو پھر یہ بھی جائز ہوگا کہ عالم عدم کے بعد حادث ہو۔پس ان لوگوں کی دلیل باطل ہو گئی جو قدمِ عالم کے قائل ہیں ۔نیز یہ بھی اس مفروضہ کی بنیاد پر ہے کہ وہ ذات جو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ صر ف فاعل بالاختیار ہی ہو؛ نہ کہ موجب بالذات۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حوادث یا تو ایسے ہونگے کہ ان کا دوام جانبِ ازل میں جائز ہوگا یا واجب ہوگا کہ اس کے لیے کوئی اول ہو۔ پس اگر یہ واجب ہواکہ اس کے لیے کوئی اول ہے تو پھر ان لوگوں کا مذہب باطل ہوا جو عالم کے قدم کے قائل ہیں ؛ اورکہتے ہیں کہ حرکتِ افلاک ازلی ہے۔ اور نیز یہ بھی کہ جب یہ بات واجب ہوئی کہ اس کے لیے کوئی اول ہے تو پھر حدوثِ عالم لازم آیا اس لیے کہ وہ تو حوادث کو متضمن ہوا پس بے شک یا تو وہ حوادث کو مستلزم ہوگا یا حوادث اس کے لیے عارض ہونگے ۔اگر وہ اس کے لیے مستلزم ہے تو یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ ان سے خالی نہیں ہو سکتا اور جب اس کے لیے کوئی ایسی ابتدا بھی ہوگی جو اس کی ذات سے لازم ہے اور وہ ان سے خالی نہیں ہوتا اور ان پر سابق بھی نہیں ہوتا اور متقدم بھی نہیں ہوتا پس جب یہ بات فرض کر لی گئی کہ حادث سب کے سب موجود ہونے والے ہیں بعد اس کے کہ معدوم تھے تو وہ شے جو اس کے ساتھ متصل ہے اور اس پر مقدم نہیں ہے وہ بھی موجود ہوا بعد اس کے کہ موجود نہیں تھا اور اگر عالم میں حوادث عارض ہیں یعنی اس کے ساتھ لازم نہیں ہیں تو پھر بغیر کسی سبب کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا اور ثابت ہوگا اور جب بغیر کسی سبب کے حوادث کا حدوث جائز اور ممکن ہوا تو عالم کا بھی بلا کسی سببِ حادث کے وجود ممکن ہوا پس ہر ایسی حجت باطل ہو گئی جو عالم کے قدم کا موجب اور مقتضی ہو۔اور عالم کے قدم کا قائل اس قو ل کو بلا کسی حجت کے اختیار کرنے والا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات تو جائز ہے کہ کسی علت کی وجہ سے عالم قدیم ہو اس کے اندر بغیر کسی حادث کے حدوث کے اور پھر اس کے اندر حوادث پیدا ہوئے تو یہ بھی باطل ہے اس لیے کہ جب یہ بات ممکن ہے کہ وہ علت اس عالم کو پیدا کر دے بعد اس کے کہ وہ علت پہلے محدث نہیں تھی تو پھر وہ موجب نہیں بنی بلکہ وہ تو فاعل بالاختیار والمشیۃ بنی اور اپنے اختیار اور مشیت کے ساتھ جو فاعل ہوتا ہے اس کا مفعول اس کے مقارن نہیں ہوتا جس طرح اپنے مقام پر اس کو بیان کیا گیا ہے۔اس لیے بھی کہ اسمفروضہ پر تو واجب ٹھہرا کہ اس کے مفعولات میں سے کوئی قدیم مفعول بھی اس کے مقارن ہو۔ اور یہ بھی لازم آئے گا کہ وہ حوادث کے پیدا کرنے تک فعل سے معطل رہے۔ پس اس کی تعطیل اور فعل دونون کا ایجاب جمع بین الضدین ہے۔ اور یہ تخصیص بلا مخصص ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تین حال سے خالی نہیں :یا تو وہ ازل میں فاعل ہوگا یا ازل میں اس کی فاعلیت ممتنع ہوگی ؛یا دونوں امر جائز ہونگے۔اگر ازل میں اس کا فاعل بننا واجب ہے تو پھر ازل میں حوادث کا حدوث بھی جائز اور ممکن ہے اور یہ بات واجب ہے کہ ان کے لیے کوئی ابتداء نہ ہو یعنی وہ ازلی ہوں اور مفروض تو یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی ابتداء ہے اور حوادث ازلیہ ممتنع ہیں ۔اور اگر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ازل میں فاعل ہوں پھر یہ بھی ممتنع ہوگا کہ اس کی ذات کے علاوہ کوئی شے قدیم ہو اورازل میں ہو اور پھر عالم کا قدم جائز نہیں ہوگا ایسے حال میں کہ وہ حوادث سے خالی ہو اور نہ حوادث کے ساتھ ۔کا قول حوادث کے حدوث کے دوام کا مقتضی اور موجب ہے اس لیے کہ بے شک وہ شے جو نفس کے اندر پیدا ہوتا ہے یعنی اس کے تصورات اور ارادات ،یہ بھی حوادث ہیں اور ان کے نزدیک یہ بھی دائم ہیں ۔جب بغیر کسی سبب کے حوادث کے حدوث کا قول باطل ٹھہرا تو پھر وہاں کوئی ایسا سبب نہیں پایا جائے گا جو عالم میں سے کسی شے کے قدم پر دلالت کرے اور جن لوگوں نے کسی معلولِ معین کے بارے میں اس کے دوام کا قول اختیار کیا ہے تو انہوں نے محض اس سے بچنے کے لیے فاعلیت کے دوام کو اپنے ذمے لیا ہے پس جب یہ دونوں تقدیروں پر اس کے ذمے لازم آتا ہے تو پھر جمہور عقلاء کے نزدیک اس ممتنع کو اختیار کرنے کی اُن کو کوئی حاجت ہی نہ رہی ۔الحاصل ازل میں اس کا فاعل ہونے کا امکان ازل میں حوادث کے حدوث کے امکان کو مستلزم ہے اسی وجہ سے ایسا کوئی شخص معلوم نہیں جس نے حوادث کے دوام کے امتناع کو مانتے ہوئے ازل میں اس کے ذات کے بارے میں فاعلیت کا قول اختیار کیا ہو۔اس لیے کہ وہ لوگ جو نفسانی تصورات اور ارادات میں حدوث اجسام کے قائل ہیں وہ تو نفس کے اندر حوادث کے دوام کے قائل ہیں اور جو لوگ قدمائے خمسہ کے قدم کے قائل ہیں ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ اس کی ذات ازل میں فاعل ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ واجب بنفسہ ہے۔ اور یہی ان سے منقول ہے ۔ بسا اوقات وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے معلول ہے ،مفعول نہیں ۔پس اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ ازل میں فاعل ہے اور ازل میں حدوث کا وجود ممتنع ہے تو اس کے فاعلیت کے وجوب اور اس کی فاعلیت کے امتناع کو جمع کر دیا گیا جو کہ جمع بین الضدین ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ: قدیم توفعل کو صادر کرتا ہے ؛ مگرحادث فعل کو نہیں صادر کرتا۔تو جواب یہ ہے کہ: یہ تو قدیم ذات کے تغییر کو ثابت کرتا ہے اس لیے کہ مفروض تو یہ ہے کہ معلولِ قدیم کے اندر حوادث پیدا ہوئے بعد ا س کے کہ وہ نہیں تھے بغیر کسی سببِ حادث کے۔ اور معلولِ قدیم میں تبدیلی جائز نہیں ہے اس لیے کہ وہ تو علتِ تامہ ازلیہ کے تغیرکا تقاضا کرتا ہے۔ پھر اس تقدیر پر وہ اللہ کیلئے ایک قدیم معلول ذات کے اثبات کو متضمن ہے؛ یا پھر ایسے چند قدیم ذوات کے اثبات کو مستلزم ہے جو اللہ کی ذات کے لیے معلول ہوں ۔ ساتھ ہی اس قدیم ذات میں ایسے حوادث بھی پیدا ہوں جو دائمی ہوں ۔ یا اس میں حوادث کا حدوث صفتِ تجدید کے ساتھ ہو؛ تو یہ حدوثِ عالم کا قول ہے۔ جس طرح کہ دیمو قراطیس اور محمد بن زکریا رازی سے منقول ہے۔ یہ مسئلہ اپنے مقام پر تفصیلاً بیان ہوچکا ہے۔ اور جیسے یہ ان لوگوں کا بھی عقیدہ ہے جو تمام اجسام کے حدوث کے قائل ہیں ۔ اور رازی رحمہ اللہ ان دونوں کو ایک ہی قول قرار دیتے ہیں ۔ اس نے اپنی کتاب ’’المحصل ‘‘میں اور دیگر کتابوں میں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ اس لیے کہ حرنانیین سے قدمائے خمسہ کا عقیدہ منقول ہے ۔ اس پر انہوں نے نفس کے تصور کی بنیاد رکھی ہے۔ اورپھر اس نفس کے اندر ایک عشق پیدا ہوا؛ اور پھر ھیولیٰ کے ساتھ متعلق ہوا تاکہ اجسام کے لیے ایک ایسا سبب پیدا کیا جائے جو ان کے حدوث کا مقتضی ہو۔ لیکن یہ اس کے ساتھ ایک باطل امر ہے اس لیے کہ حوادث کا حدوث بغیر سبب کے اگر ممتنع ہے تو پھر یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ تو بلا سبب حوادث کا پیدا ہونے کو متضمن ہے اور جب فاعل کے احوال تمام زمانوں میں ایک جیسے ہیں اور وہ ایک ایسی ذات ہے جس کے ساتھ امورِ اختیاریہ میں سے کوئی شے بھی قائم نہیں ہوتی ۔تو پھر یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ بعض احوال کی خصوصیت کسی ایسے سبب کے ساتھ ہو جائے جو اجسام کے حدوث کا مقتضی ہو۔ اور اگر وہ ممکن ہے تو پھر اللہ کے ماسوا تمام اشیاء کے عدم کے بعد حدوث کا قول بھی ممتنع ہے۔اور قدمائے خمسہ تو ایسے امور ہیں کہ ان کا حدوث ممکن ہے اور نیز یہ بھی کہ اس قول کے مطابق تو اللہ کی ذات اپنی معلولات کے لیے موجب بذاتہ ہوگااور غیر کے لیے فاعل بالاختیار ٹھہرے گا؛ یہ خطا ہے۔ اور دو قولین میں سے کسی ایک قول کو اختیار کرنا دوسرے کے مناقض اور منافی ہے۔اور اگر کہا جائے کہ حوادث کے حق میں جائز ہے کہ ان کے لیے صفت ِ دوام ثابت ہو تو یہ بھی ممتنع ہے ؛کہ وہ کسی عالم میں سے کسی شے کے لیے علت ازلیہ بنے۔اور ہر صورت عالم حوادث سے خالی نہیں ہوگا۔ اور اس عبارت میں اس اعتبار سے کوتاہی اور تحریف ہے بلکہ یہ تو اس کو مستلزم ہے پس یہ ممتنع ہوا کہ وہ ازل میں علتِ تامہ بنے۔ اور یہ بھی ممتنع ہوا کہ لازم کو چھوڑ کر وہ صرف ملزوم کے لیے علت بنے۔ اور یہ بھی کہ واجب تعالیٰ کے ماسوا جو کچھ بھی ہے تو ا س کو وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں ۔ اور جو شے بھی اس طرح ہو پس بے شک وہ صرف وہ اس کے عدم کے بعد ہی موجود ہوتی ہے۔ نیز یہ قول کہ کوئی مفعول معین ازلاً و ابداً اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہوتا ہے ؛تو اس کا بطلان تو بدیہی عقل سے معلوم ہے۔چونکہ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر اگلے پچھلے سارے عقلاء متفق ہیں ۔حتی کہ ارسطو او ر اس کے قدیم اصحاب بھی اور متاخرین اتباع کار بھی متفق ہیں کہ ہر وہ چیز جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں وہ صرف اور صرف حادث یعنی مسبوق بالعدم بن سکتا ہے ۔اور بے شک ابن سینا اور اس کے موافقین ایسے ممکن کو بھی اثبات تسلیم کرتے ہیں جو باوجود ممکن ہونے کے قدیم بھی ہو۔ فلاسفہ میں سے اس کے ہمنواؤں نے اس بات میں نکیراور اس کی مخالفت کی ہے۔ اور انہوں نے یہ واضح لکھا ہے کہ ابن سینا نے اس امر میں اپنے اسلاف کے قول کے مخالفت کی ہے۔ جیساکہ ابن رشد اور دیگرعقلاء نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ تمام جماعتوں کے اکثر عقلاء اور اہل نظر اس بات پر متفق ہیں کہ ہر وہ شے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مفعول ہے یا اس کوعدم کے بعد پیدا کیا گیا ہے ؛ یا وہ مصنوع ہے یعنی کسی مادے سے اس کو ایک خاص صورت دی گئی ہے تو ایسی چیزبہر صورت صرف حادث ہی ہو سکتی ہے ۔اسی لئے جمہورِ عقلاء جب یہ تصور کرتے ہیں کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو بنایا اور پیدا کیا ہے تو وہ ساتھ ساتھ اس کا بھی تصور کرتے ہیں کہ اس ذات نے ان کو نیا وجود بخشا ہے۔ اور ان کی عقلوں میں یہ تصور آتا ہی نہیں کہ وہ قدیم مخلوق ہیں ۔ اگرچہ اس کو دیگر اور عبارات سے تعبیر کیا جائے مثلاًیہ کہا جائے کہ وہ ایسی حادث اشیاء ہیں جو حدوث کے ساتھ ساتھ قدیم بھی ہیں یعنی مبدَع قدیم ہیں یا اس کے مفعول قدیم ہیں ؛یا اس کے امثال بلکہ جمہور عقلاء کے نزدیک تویہ دونوں باتیں یعنی مبدا کہنا اورا س کے ساتھ قدیم کہنا جمع بین الضدین ہے اور مفعول کا اپنے فاعل کے ساتھ مقارنت کا اثبات کرنے والے قائلین جو کہتے ہیں کہ میرے ہاتھ نے حرکت کی؛ تو اس کی وجہ سے انگوٹھا بھی متحرک ہوا تو یہ ایک غیر مطابق مثال ہے۔کیونکہ اس مثال میں کوئی ایسی شے تو نہیں جو علتِ فاعلہ ہو اور وہ معلول مفعول پر مقدم ہو ۔اس مثال میں تو صرف شرط یا سبب مذکور ہے ۔اور ایسی شے کے بارے میں ممکن ہے کہ وہ اپنے مشروط یا سبب کے ساتھ مقارن ہو۔یہ تب ہوگا جب ثانی کو اول کے ساتھ مقارن تسلیم کیا جائے۔ ورنہ توان کے ذکر کردہ بہت سے مقامات پر اتصال کے باوجود اس سے متاخر ہوتا ہے۔ جیسے کہ زمان کے بعض اجزاء کا بعض کے ساتھ اتصال کہ ایک دوسرے سے متاخر ہوتا ہے۔رہا وہ کلام جو امام رازی رحمہ اللہ نے محصل اور اس کے علاوہ دیگر تصنیفات میں لکھا ہے؛ اور کہا ہے کہ :’’متکلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قدیم ذات کا فاعل کی جانب نسبت ممتنع ہے اور فلاسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ زمان کے اعتبار سے ممتنع ہے اس لیے کہ عالم اُن کے نزدیک زمان کے اعتبار سے قدیم ہے باوجود یکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے۔‘‘[محصل أفکار المتقدمین و المتأخرین ۹۵۔]جواب:.... رازی کا متکلمین سییہ بات نقل کرنا تو صحیح ہے۔ اور یہی تمام طوائف کے جمہورِ عقلاء کا قول ہے۔ لیکن اس کا فلاسفہ سییہ قول نقل کرنا؛ تو اُن میں سے صرف ایک گروہ کا قول ہے جیسے ابن سینا۔ اور یہ ان کے جمہور کا قول نہیں ہے۔ اور نہ ہی قدوم عالم کے قائلین کا قول ہے؛ جیسے ارسطو اور اس کے متبعین ۔اور نہ ان جمہور فلاسفہ کا قول ہے جو عالم کی صورت کے حدوث کے قائل ہیں ۔بیشک جو لوگ عالم کے قدم کے قائل ہیں وہ عالم کے لیے کسی فاعل مبدع (بکسر الدال،پیدا کرنیو الا) کو ثابت نہیں کرتے جیسے ابن سینا کا قول ہے۔ بلکہ ان میں سے بعض وہ ہیں جو اس کے لیے کوئی علت ِ فاعلہ ثابت نہیں کرتے۔ اور ارسطو تو اس کے لیے ایک علت غائیہ کو ثابت کرتا ہے جس کے ساتھ فلک مشابہ ہے۔ اور اس نے کسی علت فاعلہ کو ثابت نہیں کیا جس طرح کہ ابن سینا اور اس کے امثال کا قول ہے۔رہے وہ لوگ جو ارسطو سے پہلے گزرے ہیں وہ تو آسمانوں کے حدوث کے قائل تھے جس طرح کہ باقی اہل ملل بھی اس کے قائل ہیں ۔پھر امام رازی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:’’ میرے نزدیک تو حق بات یہ ہے کہ اس مقام میں اختلاف لفظی ہے اس لیے کہ متقدمین کسی قدیم ذات کا کسی مؤثر واجب بالذات کی طرف استنادکو ممتنع سمجھتے ہیں اور اسی طرح مثبتین کا حال ہے۔اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کی عالمیت اور اس کا علم دونوں قدیم ہیں باوجودیکہ عالمیت اور قادریت علم اور قدرت کے ساتھ معلل ہے نیز یہ کہ عالمیت معلل بالعلم ہے۔ اور ابو ہاشم نے تو یہ گمان کیا ہے کہ عا لمیت اور قادریت ،حی ہونا اور موجودیت ایک حالتِ خامسہ کے ساتھ معلل ہیں باوجودیکہ یہ سب کے سب قدیم ہیں ۔‘‘[المحصل ۹۔الأحوال ۲؍ ۱۲۴۔ ]ابوالحسین رحمہ اللہ نے یہ گمان کیا ہے کہ:’’ اللہ عالیٰ کی صفتِ عا لمیت ایک حال ہے جو ذات کے ساتھ معلل ہے۔ اور یہ سب کے سب اگرچہ اس بات کو ممتنع سمجھتے ہیں کہ ان احوال پر لفظِ’’ قدیم ‘‘کا اطلاق کیا جائے لیکن اس کے اس حقیقی معنی پر پردہ ڈالتے ہیں ۔پس ان سے کہا جائے گا کہ متکلمین میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ مفعول ذاتِ قدیم ہو سکتی ہے۔ خواہ وہ فاعل اپنے مشیت اور قدرت سے فعل کو صادر کرتی ہو یا یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ اپنی ذات کی وجہ سے فاعل ہے بغیر کسی مشیت کے اور صفات تو موصوف کے ساتھ لازم ہوتے ہیں ۔اگر کہا جائے کہ وہ تو قدیم ہے؛تو پھر بھی عقلاء میں سے کسی کے نزدیک مفعول نہیں ؛بلکہ وہ ذات کے لیے لازم ہے؛ بخلاف ان مفعولات کے جو ممکن؛ مگر فاعل سے جدا ہوتے ہیں ۔ کیونکہ بے شک یہ وہی مفعول ہے جس کے بارے میں جمہور عقلاء نے قدمِ عالم کے قائلین پرانکار کیا ہے۔ متکلمین اور باقی تمام جمہور عقلاء اس پر متفق ہیں کہ مفعول قدیم نہیں ہو سکتا۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ فاعل بالطبع ہیں ؛ جیسے اجسامِ طبعیہ کرتے ہیں ؛ تو جو کچھ اس نے متکلمین کی طرف سے ذکر کیا ہے وہ ان کے قول کا لازم نہیں ۔پھر امام رازی نے کہا ہے کہ:’’ رہے فلاسفہ تو وہ بے شک عالمِ قدیم کی باری تعالیٰ کی طرف نسبت کو جائز سمجھتے ہیں ؛ کیونکہ وہ ان کے نزدیک موجب بالذات ہے ۔حتی کہ اگر وہ اس کے بارے میں فاعل بالاختیار ہونے کا اعتقاد رکھتے تو وہ قدیم عالم کے لیے اس کے موجب (بکسر الجیم)ہونے کو جائز اور ممکن نہ سمجھتے۔‘‘اس کا جواب یہ دیا ہے کہ:’’ اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ یہ سب کے سب ایک موجبِ قدیم کی طرف ’’قدیم ‘‘کی نسبت کے جواز اور کسی فاعل مختار کی طرف اس کے امتناع پر متفق ہیں ۔‘‘پس ان سے کہا جائے گا کہ:’’ فلاسفہ تو ’’اللہ تعالیٰ کا اپنی مشیت کے ساتھ فعل صادر کرنے پر‘‘ رائے رکھتے ہیں ۔ابو البرکات اور دیگر تو اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے ساتھ فعل صادر کرتا ہے باوجودیکہ وہ قدمِ عالم کے بھی قائل ہیں ۔ پس یہ واضح ہواکہ جو اس نے متکلمین کی طرف سے ذکر کیا ہے وہ باطل ہے۔ اور جو اس نے فلاسفہ سے نقل کیا ہے ،وہ بھی باطل ہے۔رہے فلاسفہ تو ان کے دو قول ہیں ۔ ان میں سے متکلمین اس قول کے بطلان پر متفق ہیں جو اُن سے نقل کیا ہے یا اُن کو اس کا الزام دیا ہے۔ بلکہ وہ اور جمہور عقلاء کہتے ہیں کہ: یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ ہر شے جو مفعول ہے وہ حادث ہی ہے۔ پھر اس کا مشیت کے ساتھ مفعول ہونا یا بالطبع ہے یا ماہیت کے ساتھ مفعول بننا یہ ۔ مقام ثانی ہے۔ اور کسی مفعول حادث ہونے کا علم اس امرپر مبنی نہیں کہ فاعل ارادہ کرنے والا ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک فعل کی ابتداء صر ف اور صرف ایک ایسی قادر ذات سے ہوتی ہے جو ارادہ کرتا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا قضیہ ہے جو قائم بنفسہا ہے اور یہ قضیہ بھی قائم بنفسہ ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک اللہ کے ماسوا تمام اشیاء کے حدوث پر دلیل ہے اور یہ دونوں ایسے قضیے ہیں جو آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ان امور کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں مگر یہاں مقصود یہ ہے کہ اھل سنہ اور شیعہ میں سے جھمیہ اور معتزلہ کے اصولوں کا رد کرنے والے ذرائع کو بیان کیا جائے ان اور دیگر ذرائع سے واضح ہوا اللہ کے علاوہ ہر چیز حادث ہے برابر ہے یہ کہا جائے کہ حادث سے پہلے کوئی حادث ہوتا ہے یا یوں نہ کہا جائے۔ اسی طرح قدماء شیعہ اور کرامیہ وغیرہ یوں کہتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ عالم کو وجود ملتا ہے ان اشیاء سے جو اس میں حاجت کے آثار میں نظر آتی ہیں ۔ جیسا کہ واضح کیا گیا کہ عالم کا ہر ہر جز محتاج ہے یہ بذات خود وجود قائل نہیں کر سکتا اسے صانع (بنانے والے) کی محتاجی ہے۔ یوں بھی صانع کا ثبوت ہوا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ حوادث کا وجود ان سے پہلے کی نفی کرتا ہے یوں ان حدوث اس طریقے سے بھی معلوم ہوا۔ اسی وجہ سے محمد بن ھیصم( ) ان کے ہم خیال قاضی ابوحاذم بن قاضی ابویعلی ( ) اپنی کتاب ’’التلخیص‘‘ میں کہتے ہیں معتزلہ اور ان کے ہم خیال جس ذریعے سے صانع کا وجود ثابت کرتے ہیں اس سے صانع کا وجود ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ پہلے حدوث عالم کو حدوث اجسام سے ثابت کرتے ہیں اور اس ذریعے سے صانع کا ثبوت کرتے ہیں ۔ بلکہ وہ آغاز صانع کے ثبوت سے کرتے ہیں پھر حوادث کی ممانعت کے ذریعے حدوث عالم کو ثابت کرتے انہیں پھر جسم کو محدث کے لیے کی ضرورت نہیں پڑتی۔بہرکیف چار صورتیں بنتی ہیں یا تو حوادث کا دوام جائز ہے یا ان کے دوام کی ممانعت ہے اور واجب ہے اس کی ابتداء ہو یا پھر جسم محدث ہے یا محدث نہیں ۔ یہ سیاقوال اھل قبلہ اور غیر قبلہ کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔ یہ سب افلاک کے حدوث کے قائل ہیں اللہ نے اسے عدم سے وجود دیا ان میں سے کوئی بھی ان کے قدیم ہونے کا قائل نہیں یہ دھریہ کا قول ہے برابر ہے وہ اس کے ساتھ علت اولیٰ کی طرح عالم معقول کو ثابت کریں جیسا کہ ان میں الہیون نے کہا یا ایسا نہ کہیں جیسے ان میں سے طبعیون (نیچری) کہتے ہیں : اور برابر ہے یہ کہیں علت اولی ہی علت غائیہ (مقصودی) ہے یعنی کشی اس سے تشبہ کی وجہ سے حرکت کرتی ہے یہ ارسطو اور اس کے متعین کا قول ہے۔ یا یہ کہیں کہ علت اولی عالم کی ابتداء ہے جیسا کہ ابن سیناء اور ان کے ہم خیالوں نے کہا۔ یا قدماء خمسہ قرار دیا جائے جیسا کہ حرنانیون وغیرہ نے کہا یا صانع کی عدم موجودگی کا قول اختیار کیا جائے، برابر ہے اس کے وجود کے ثبوت کو واجب کہیں یا اسے حادث کہیں جو بذات خود نہیں ، یا مادہ کے وجود کو واجب کہیں اور بغیر محدث کے حدوث صورت قرار دیں جیسا کہ دھریہ کا قول ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ کہتے ہیں یہ سب اقوال سو فسطائی اقوال کی جنس ہیں جو کسی معین قوم کا نظریہ نہیں یہ تو بس کچھ احوال میں بعض افراد کو آنے والے خیالات ہیں ۔ اگر یوں کہا جائے تو معلوم ہوا امامیہ اور معتزلہ کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ متقدمین امامیہاور کے ہم خیالوں کے قول کے بطلان کی عقلی دلیل ہے۔ (۲) جنہوں نے مسائل صفات اور مسائل قرآن میں جھگڑا کیا ان کی اتباع نہیں کی گئی تو اھل سنت جو عقل و نقل میں ان سے زیادہ درست ہیں ان کے ساتھ ان کا کای جوڑا اور مقابلہ؟