[مسئلہ قدرت الٰہی ؛ اور رافضی عقیدہ پر رد:]٭ رافضی شیعہ کا عقیدہ بیان کرتا ہے: ’’ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام تر مقدورات پر قادر ہیں ۔‘‘٭ مصنف کا امامیہ کے متعلق یہ کہنا: ’’ان کا عقیدہ ہے کہ اس میں التباس ہے؛ اس کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں ۔‘‘ [اس لیے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ تمام مقدورات پر قادر ہے اس سے دو چیزیں مراد ہو سکتی ہیں ۔ (۲) وہ ہر ممکن پر قادر ہے ہر ممکن مقدور ہے یعنی قادر اس کے کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ (۲) وہ ہر اس چیز پر قادرہے جو اس کے مقدور میں ہے وہ جس کا مقدور نہیں رکھتا اس پر قادر نہیں ۔پہلا قول تقدیر کے قائلین اھل سنت کا ہے۔ وہ کہتے ہیں وہ ہر مقدور پر قادر ہے۔ وہ کہتے ہیں اللہ ہر اس چیز پر قادر ہے جس پر قادر ہونا ممکن ہو؛ اور کوئی چیز ایسی نہیں جس پر اللہ قادر نہ ہو۔ ان کا یہ تصور نہیں کہ بندے اس چیز پر بھی قادر ہیں جس پر اللہ قادر نہیں ۔فرمان الٰہی ہے:﴿ اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾(فصلت 39)’’ یقیناً وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘کا یہی مفہوم ہے۔رہی وہ چیز جو بذات خود ناممکن ہے وہ عام اھل عقل کے ہاں کوئی چیز نہیں اختلاف معدوم ممکن میں ہے کہ وہ کوئی چیز ہے یا نہیں ؟جو بذات خود ناممکن ہے۔ خارج میں اس کے ممکن ہونے کا کوئی قائل نہیں ۔ جو بذات خود ناممکن ہے خارج میں بھی ناممکن ہے مثلاً کسی شے کا معدوم وجود یہ بذات خود ناممکن ہے خارج میں ا س کا ثبوت ناقابل فہم اسی طرح کسی چیز کا مکمل سفید اور مکمل سیا ہونا کہ ایک وقت میں ایک چیز کا دو جگہ پر ہونا۔ ان جیسے امور میں یہی کیا جائے گا یہ بذات خود ناممکن ہیں اور غیر کی وجہ سے ناممکن کے متعلق بھی یہی کہا جائے گا مثلاً اللہ رب العزت کے علم میں کسی چیز کا نہ ہونا ہے اور اس نے خبر دے دی کہ یہ نہیں ہو گا اور اس نے یہ لکھ دیا کہ یہ نہیں ہو گا تو یہ نہیں ہو گا۔یوں بھی کہا گیا ہے اس کا ہونا ناممکن ہے کیو نکہ اگر اس کا ہونا موجود تھا تو اس سے لازم آئے گا کہ اللہ کا علم، معلوم کے خلاف تھا اور خبر، مخبر کے لیکن اس کا ہونا اللہ کے ہاں ممکن ہے کیونکہ وہ اس پر قادر ہے جیسا کہ فرمایا:﴿بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہٗ ﴾(قیامہ 4)’’ کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کے پور پور کودرست بنانے پر قادر ہیں ۔‘‘ اورفرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ وَاِِنَّا عَلٰی ذَہَابٍ بِّہٖ لَقٰدِرُوْنَ ﴾(المؤمنون18)’’ یقیناً ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں ۔‘‘اورفرمان ربانی ہے:﴿قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ﴾(انعام 65)’’کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیجے، یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھیں ایک دوسرے سے لڑائی کا مزہ چکھائے۔‘‘صحیحین میں ہے جب یہ آیت نازل ہوئی :﴿قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ﴾’’کہ دیں وہ قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے تمہارے اوپر سے ۔‘‘تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( اعوذ بوجھک))’’میں تیرے چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘ اور پھر جب یہ حصہ نازل ہوا: ﴿ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ ﴾’’یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اعوذ بوجھک))’’میں تیرے چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘ اور پھر جب یہ حصہ نازل ہوا:﴿اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ﴾’’یا وہ تمہیں جماعتوں میں منقسم کر دے اور تم ایک دوسرے سے جنگ کا مزہ چکھو۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ دونوں ہلکے ہیں ۔‘‘[1] [1] بخاری 56؍6، کتاب التفسیر سورت الانعام : قل ھو القادر 101؍9، ترمذی 327؍4کتاب التفسیر سورۃ انعام ، مسند احمد، طبع حلبی 309؍3، طبری طبع المعارف 422؍11، مجھے یہ حدیث صحیح مسلم میں نہیں مل سکی۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَ لَوْشِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰيھَا ﴾ (سجدہ 13)’’اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو ہدایت دے دیتے۔‘‘اور فرمان باری تعالیٰ ہے :﴿وَ لَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَۃ﴾(ھود 118)’’اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔‘‘نیز ارشاد فرمایا: ﴿وَ لَوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا ﴾۔ (البقرۃ 253)’’اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ نہ لڑتے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْھِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ (سباء 9)’’اگر ہم چاہیں انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کا کوئی حصہ گرا دیں ۔‘‘٭ اس طرح اور آیات میں جن میں اللہ رب العزت نے بیان کیا ہے کہ اگر میں چاہتا تو ایسا کر گزرتا۔پس جن امور کے ہونے کی اللہ نے خبر دی ہے لازم ہے کہ وہ ان کے کرنے کی طاقت بھی سکتا ہے۔ لوگوں نے معلوم کے خلاف میں تنازعہ کیا ہے۔ کیا یہ ممکن مقدور ہے جیسا کہ ایسے کافر کا ایمان جو اللہ کے علم میں کافر ہے؟ ان کے خیال میں اللہ نے جن چیزوں کا بندوں کو مکلف ٹھہرانا ہے نا ممکن نہیں ؟ ان کی دلیل تکلیف مکلف ہے ان کے خیال میں اس کا ایمان اللہ کے علم کو جہالت کی طرف لوٹاتا ہے۔٭ [جواب] : لفظ ممتنع مجمل ہے اس سے مراد ممتنع بالنفس بھی ہوتا ہے؛ اور ممتنع بسبب وجود غیر بھی ہوتا۔ اس دوسری چیز کو ممکن مقدور کہتے ہیں ؛ برخلاف اول کے۔ چنانچہ جو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لانے والا اس سے ایمان کا وقوع ممکن نہیں ۔ اس کی طاقت میں ہے۔ لیکن اللہ کو معلوم ہے وہ طاقت کے باوجود ایمان نہیں لائے گا اسی طرح استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والے کا معاملہ ہے۔٭ کچھ لوگ کہتے ہیں بذات خود ناممکن مقدور ہے۔ کچھ ایسے امور کا دعوی کرتے ہیں جن کا ممکن نہ ہونا عقل سے معلوم ہوتا ہے ۔ ان میں سے غالب افراد اپنے قول کے صحیح تصور سے نا آشنا ہیں ۔ یا لوگوں کو اس عبارت کے مفہوم سے آگاہی نہیں ۔پس اس سے لفظی یا معنوی اشتراک کا شبہ واقع ہوتا ہے۔٭ حقیقت میں جس چیز کی اللہ نے اپنی کتاب میں کئی مقامات صراحت کی کہ : ﴿ اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ (فصلت ۳۹)’’ یقیناً وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ جیسا کہ گزر چکا کہ تقدیر کے قائلین اھل سنت کا یہی مذھب ہے۔
معتزلہ اور امامیہ میں سے تقدیر کے انکاری جب کہتے ہیں ۔ انہ قادر علی کل المقدورات (وہ ہر مقدور پر قدرت رکھتا ہے) تو اس کا مفہوم وہ مراد نہیں لیتے جو اھل اثبات لیتے ہیں ۔ ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر اس چیز پر قادر ہے جو اس کی قدرت میں ہے۔ افعال العباد یعنی جن ، فرشتے ، انسان کے افعال پر اللہ قادر نہیں ۔ ان کا جھگڑا اس میں ہے کہ کیا وہ اس طرح کی چیزوں پر قادر ہے؟ ان کا قول ہے انہ قادر علی کل مقدور(وہ ہر مقدور پر قادر ہے)تو یہ اس میں تو ہر وہ امر آجاتا ہے جس پر وہ قادر ہو یا اس کا غیر۔ ھو قادر علی کل مقدور لہ کا ان کے ہاں مرادی معنی یہ ہوا وہ اس پر قادر ہے جس پر بندے قادر ہیں اور بندہ دوسرے قادر کے مقدور کی طرح قادر نہیں ۔ بہر صورت جب ان کی مراد یہ ہے کہ وہ ان امور پر قادر ہے جن کی اس کے پاس قدرت ہے یہ تو ایسے ہی ہے کہ کہا جائے وہ اپنے ہر علم کا عالم ہر مخلوق کا خالق ہے اس طرح کی جتنی بھی عبارتیں ہیں سب بے فائدہ ہیں ۔ یعنی جیسے کوئی کہے وہ اپنے تمام مفعولات کا فاعل ہے جیسے یہ کہا جائے زید ہر اس چیز کا عالم ہے جسے وہ جانتا ہے اور ہر اس چیز پر قادر ہے جس کی قدرت رکھنا ہے اور اپنے ہر فعل کا فاعل ہے۔مقدورات کے بیان میں ان سے سوال کیا جائے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے؟ تو ان امامیہ اور ان کے شیوخ قدریہ کا جواب ہے وہ ہر چیز پر قادر نہیں ۔ بندے جن پر قادر ہیں ان پر اللہ قادر نہیں ۔ وہ گمراہ کو ہدایت دینے کی، ہدایت یافتہ کو گمراہ کرنے کی، کھڑے کو اپنے اختیار سے بیٹھنے کی اور بیٹھے کو کھڑے ہونے کی کسی مسلمان کو نمازی، حاجی، روزہ دار ، عمرہ کروانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ کسی کو مومن ، کافر، نیک، بد بنانے کی صبر دینے کی، بخل سے روکنے کی طاقت نہیں ۔ حالانکہ یہ سب امور اس کے لیے ممکن ہیں جب کہ یہ کہتے ہیں اللہ ان پر قادر نہیں ان کے قول قادر علی جمیع المقدورات کے انتہائی بودا ہونے کے لیے یہی کافی ہے، جب کہ اھل سنت کہتے ہیں : ﴿ اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾(فصلت ۳۹)۔ اس میں یہ سب چیزیں بھی آتی ہیں ۔ہاں کسی چیز کا بیک وقت موجود اور معدوم ہونا نا ممکن ہے ایسی کسی چیز کا وجود غیر تصوری ہے اھل عقل اسے شے نہیں قرار دیتے اس طرح کی چیزوں میں اللہ کا اپنا مثل پیدا کرنا وغیرہ ہیں ۔