Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

[اللہ تعالی عادل اورحکیم ہیں] پر تبصرہ:

  امام ابنِ تیمیہؒ

[اللہ تعالیٰ عادل اورحکیم ہیں] پر تبصرہ:٭ (مصنف کا قول: ’’ وہ عادل اور حکیم ہے کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی برا کرتا ہے ورنہ جہالت اور حاجت مندی لازم آتی ہے)۔ اللہ ان دونوں سے مبراء اور بلند ہے۔٭ [جواب:]یوں کہا جائے گا کہ مسلمان میں یہ بات اتفاقی ہے کہ اللہ نہ تو برا کام کرتا ہے اور نہ ہی کسی پر ظلم کرتا ہے۔ لیکن اختلاف اس کی تفسیر میں ہے کہ جب وہ بندوں کے افعال کا خالق ہے تو یہ تو برا کام اور بندوں پر ظلم ہے یا نہیں ؟قائلین تقدیر اھل سنت کہتے ہیں یہ ظلم ہے نہ فعل قبیح۔ اور قدریہ کہتے ہیں :’’ جب وہ بندوں کے افعال کا خالق ہے تو یہ ظلم اور فعل قبیح ہے۔ فاعل کے فعل کی قباحت اس بات کا تقاضہ نہیں کرتی کہ قباحت خالق کی طرف سے ہے۔ جیسے ’’فاعل کا کھانا پینا اپنے خالق کی کمزوری کی دلیل نہیں ۔ کیونکہ خالق کی مخلوق بذات خود قائم نہیں رہ سکتی، یہ صفت تو اس کی ہے جس کے ساتھ فعل قائم ہو نہ کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے اپنے غیر میں ۔ مثلاً جب اس نے اپنے غیر کے لیے رنگ ہوا، حرکت، قدرت اور علم پیدا کیا تو وہ غیر اس رنگ، ہوا، حرکت قدرت اور علم سے متصف ہو گا وہ ا س حرکت سے حرکت کرے گا، رنگ سے رنگت حاصل کرے گا، علم سے عالم بنے گا اور قدرت سے قادر ہو گا وغیرہ اس طرح جب اس نے اپنے غیر کے لیے کلام، نماز، روزہ یا طواف پیدا کیے ہیں تو یہ غیر ہی متکلم، مصلی، صائم اور طائف کہلائے گا ۔ اسی طرح جب اس نے اپنے غیر میں گندی بد بو پیدا کی تو بدبودار اور گندا یہ غیر ہی ٹھہرے گا نہ کہ اللہ کی؛ صفت بنے گی جب اس نے انسان کو جلد باز اور بے صبرا بنایا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿اِِنَّ الْاِِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًاo اِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا oوَاِِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا﴾ [المعارج’’بیشک انسان کوکمزور بنایا گیا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔‘‘تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ، جلد باز بے صبرا یا روکنے والا نہیں بنتا جیسا کہ قدریہ کہتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں :کیونکہ اس نے انسان کو ظالم اور کاذب بنایا ہے؛ تو وہ بھی ظالم اور کاذب ہوگا۔جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے۔۔ اس سے معلوم ہوا جمہور قائلین تقدیر کا قول: اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے درست ہے ان کا کہنا ہے اللہ نے بندے کو پیدا کیا اور اس کے ارادے قدرت اور حرکت وغیرہ کا بھی خالق ہے۔ایک جماعت کرامیہ وغیرہ کی جن میں قاضی ابوحازم بن قاضی ابویعلی رحمہ اللہ بھی ہیں اس طرف گئی ہے کہ اس کا مطلب ہے اللہ بندوں کے افعال کے اسباب کا خالق ہے بندہ ان اسباب کا فاعل یا عدم فاعل ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ بندہ انہی اسباب کی طرف جائے گا جو اس نے پیدا کیے ہیں ان کے بقول بندے کے افعال خود اپنے ہیں اللہ کی طرف سے نہیں اللہ ان کا خالق ہے مگر تکوین نہیں دیتا۔ یہ کہتے ہیں بندے میں کبھی ارادہ پیدا ہوتا ہے ہاں ارادہ ضروریہ کا خالق اللہ ہے جیسا کہ قاضی ابو حازم رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں بندہ اپنے ارادہ کو مطلقاً پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ قدریہ کا قول ہے۔ لیکن اللہ اپنے پیدا کردہ اسباب کو آسان کر دیتا ہے جن کے متعلق اللہ جانتا ہے کہ وہ ان میں واقع ہو گا۔ لیکن جمہور کے بقول یہ فعل ہی مفعول ہے جیسا کہ جہم بن صفوان اور اس کے اشعری متبعین اور مالکیہ، شوافع اور حنابلہ رحمہم اللہ کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ بندوں کے افعال اللہ کا فعل ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ وہی فعل ان کا بھی ہے تو اس سے ایک فعل کے دو فاعل لازم آئیں گے جیسا کہ ابو اسحاق اسفرائنی نے بیان کیا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ ان کا فعل ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ بندوں کے افعال اللہ کے فعل ہیں نہ کہ عبادت؛ جیسا کہ جہم بن صفوان ، اشعری اور اصحاب ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں ان کی موافقت کرنے والوں نے کیا ہے۔ خلق ہی مخلوق ہیں بندوں کے افعال اللہ کی خلق ہیں یہ اللہ کے فعل اور مفعول ہیں جیسے کہ اس کی خلق اس کی مخلوق ہے۔یہ سب یہ نہیں کہتے بندے اپنے افعال کے حقیقی فاعل ہیں ؛مگریہ ان کا اکتساب کرتے ہیں ۔ لیکن جب ان سے فعل اور کسب میں فرق کرنے کو کہا جاتا ہے تو کوئی معقول جواب نہیں دے پاتے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے تین کلام انتہائی عجیب ہیں ۔ احوال ابوہاشم ؛طفرہ نظام ؛اور اشعری کا کسب۔ اس لیے ائمہ اور جمہور عقلاء نے ان پر رد کیا ہے کہ یہ حِسّ کے برعکس اور عقل و نقل کے خلاف ہے۔[1] [1] نظام کے طفرہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں :الملل والنحل 58,57؍1، مقالات الاسلامیین 18؍2
جمہوراہل سنت (متبعین سلف اور ائمہ) کہتے ہیں بندے کا فعل اس کا اپنا حقیقی فعل ہے لیکن اللہ کی مخلوق اللہ کے لیے کیا گیا فعل ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ یہ اللہ کا فعل یہ خلق اور مخلوق او رفعل اور مفعول میں فرق کرتے ہیں ۔ (یہ فرق امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’خلق افعال العباد‘ میں جلیل القدر علماء سے نقل کیا ہے۔[2] [2] امام بخاری اپنی کتاب کے صفحہ 9۔10 پر فرماتے ہیں لوگ کا فعل، فاعل اور مفعول میں اختلاف ہوا ہے۔ قدریہ کے بقول تمام افعال انسان کے ہاں اللہ کی طرف سے نہیں ، جبر یہ کے ہاں سب افعال اللہ کی طرف سے ہیں ۔ جھمیہ کے ہاں فعل مفعول ایک چیز ہے اسی وجہ سے کہتے ہیں ہر ایک کی مخلوق ہے۔ اھل علم کہتے ہیں تخلیق اللہ کی فعل ہے اور ہمارے افعال مخلوق ہیں اللہ کا فعل اس کی صفت ہے اور اس کی مخلوق کا فعل مفعول ہے)یہی بات کئی ائمہ سلف سے منقول ہے احناف ، جمہوریہ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذھب ہے۔ امام بغوی[3] [3] حسین بن مسعود المعروف حراء ان کے حالات 457؍1 میں گزر چکے نیز دیکھیے، تذکرہ الحفاظ 1257؍4، الاعلام از زر کلی 2  نے چوٹی کے علماء اھل سنت سے اور ’’التعرف لمذھب أھل التصوف‘‘ میں کلا باذی نے تمام صوفیاء سے یہی نقل کیا ہے۔[4]  [4] (التعرف لمذھب اھل التصوف از کلا باذی متوفی 380، ص 9، طبع عیسی حلبی 1960؍1380 میں ہے علماء کا اتفاق ہے کہ اللہ تمام بندوں کے افعال کا خالق ہے جس طرح وہ ان کا خالق ہے لوگ جو بھی بھلائی یا برائی کرتے ہیں اللہ کی قضاء وقدر سے ہے پھر فمراتے ہیں اس پر بھی اتفاق ہے کہ ان کے افعال اور اکتساب حقیقی ہے اس پر انہیں جزاء و سزا ملتی ہے اسی وجہ سے امر نہی اور وعد و عید موجود ہے ابن تیمیہ نے بھی کلا بازی کے کلام کی طرف اشارہ کی اہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ 458؍1اکثر ھشامیہ ، معتزلتہ، کرامیہ، اھل کلام کا یہی قول ہے اسی طرح کلابیہ اور اشعری ائمہ کا یہی مؤقف ہے، ابو علی تقفی وغیرہ کے بقول کرامیہ کا قول ہے کہ فعل کا اثبات کے لیے مفعول کے علاوہ اسی طرح انہوں نے اللہ کے لیے ارادہ قدیمہ ثابت کیا ہے اور دیگر اعتقادیات کا بھی ذکر کیا ہے جب ان اور ابن خزیمہ کے مابین مسئلہ قرآن میں تزاع پیدا ہوا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ یہ ابن کلاب کا اپنا قول ہے یا انہوں نے اس اصل کی بناء کر کہا ہے؟