خلق افعال عباد اور رافضی عقائد :مسئلہ صفات کی طرح مسئلہ قدر میں بھی روافض کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اعمال عباد میں رافضہ کا اختلاف ہے کیا یہ مخلوق ہیں ؟ کیا یہ اللہ کی مخلوق ہیں ؟ اللہ کے لیے مخلوق ہیں ؟ یہ تین فرقے ہیں ۔ پہلے فرقے میں سے ھشام بن حکم ہیں ان کے مطابق افعال عباد اللہ کے لیے مخلوق ہیں ۔ جعفر بن حرب نے ھشام بن حکم نے بیان کیا وہ کہتے تھے انسان کے افعال میں ایک لحاظ سے اسے اختیار ہے اور ایک لحاظ سے مجبور ہے۔ ارادے اور کسب کے لحاظ سے اختیار لیکن ابھارنے والے سبب میں اسے اختیار حاصل نہیں ۔۲۔ دوسرا فرقہ جبر کامنکر ہے؛ جیسا کہ جھمی نے کہا اورمعتزلہ کی طرح تفویض کا بھی منکر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں ائمہ سے ایسے ہی مروی ہے۔ وہ یہ کہنے کے مکلف نہیں کہ افعال عباد کو مخلوق کہیں یا نہیں ۔۳۔ تیسرے فرقے کے مطابق اعمال عباد اللہ کے لیے مخلوق نہیں یہ معتزلہ اور امامیہ کا قول ہے۔ یوں امامیہ کے تین اقوال ہو گئے۔ کچھ قائلین تقدیرکے ہمنوا ہیں ؛ اور کچھ معتزلہ کے موافق۔کچھ نے توقف اختیار کیا ہے۔ [انہیں واقفہ کہا جاتا ہے۔واقفہ ]کے کہنے کا مطلب بھی تقریباً وہی ہے جو اہل سنت کے عقیدہ کا ہے۔لیکن یہ لوگ لفظ کے اطلاق میں توقف اختیار کرتے ہیں ۔ قدریہ کی طرح تفویض کا لفظ استعمال کرتے ہیں نہ جھمیہ کی طرح جبر کاعقیدہ رکھتے ہیں ۔ بلکہ ائمہ اھل سنت جیسے: اوزاعی، ثوری ، عبدالرحمن بن مھدی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ؛ جہم بن صفوان اور اس کے متبعین سے مأثور قول کا بالاتفاق رد کرتے ہیں ۔اگرچہ اشعری نے ان سے زیادہ اسباب و حِکم کی نفی ہے، سلف اسباب وحکمت کو ثابت کرتے ہیں ۔ مقصود یہ ہے جب امامیہ کے دو اقوال ہیں ؛تو ان کا بھی اس مسئلہ میں تنازع باقی لوگوں جیسا ہے؛ لیکن اس مسئلہ میں اور دیگر مسائل میں ان کی دوسروں پر ایک فرع ہے۔ ان میں تقدیرکو ثابت کرنے والے قائلین تقدیر کے ؛ اور نفی کرنے والے منکرین تقدیرکے متبعین ہیں ۔ سوائے ان جھوٹ پردازیوں کے جو رافضہ کے ساتھ خاص ہیں ۔ کیونکہ ایسا جھوٹ ، جہالت اور حق کی تکذیب امت میں سے کسی اور نے نہیں کی۔یہ اوصاف ان کے ساتھ ہی خاص ہیں ؛ امت کا کوئی دوسرا گروہ اس میں ان کا شریک نہیں ۔ اور جو دیگر علمی مسائل ہیں ؛ خواہ وہ اصولی ہوں یا فروعی؛ ان میں وہ دیگر طوائف کی اتباع کرتے ہیں ۔ وہ ان ہی سے ان کا کلام ادھار لیتے ہیں اور اس کے ذریعے کلام کرتے ہیں اس میں جو حق ہے وہ اہل سنت کی طرف سے ہے وہ کسی بھی صحیح مسئلہ میں ان سے منفرد نہیں چاہے اصول ہوں یا فروع، بدعتی قوم کا آغاز منافقین سے ہے نہ کہ مؤمنین سے۔یوں یہ منکر تقدیراپنے مخالفین کے ساتھ اس مناظرہ میں اپنی قوم کے سامنے کوئی دلیل نہیں رکھ سکا۔ اس مسئلہ میں اہل سنت کے مذاھب کی تفصیل گزر چکی ہے۔اس کے ساتھیوں نے ائمہ سے اس مسئلہ میں ایسے اقوال نقل کئے ہیں جو اس کے عقیدہ کے خلاف ہیں ۔