جمہور علماء کے نزدیک اجتہاد کا معنیٰ و مفہوم
ڈاکٹر طاہر الاسلام عسکریاجتہادِ جہد سے بابِ افتعال ہے، لغت میں اس کا معنیٰ انتہائی محنت اور کوشش ہے، اسماعیل الجوہریؒ لکھتے ہیںبذل الوسع والمجهود و عبارة عن استفراغ الوسع في أي فعل كان
(الصحاح: جلد، 1 صفحہ، 460)
(المحصول: صفحہ، 3، 7، 8)
’’کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔‘‘
احناف کے ہاں اجتہاد کا مفہوم
احناف نے اصولِ اجتہاد کے ساتھ ساتھ دائرہ اجتہاد کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے اس سلسلے میں آئمہ احناف نے تفصیلی ابحاث کی ہیں جن میں اس بابت جملہ تصورات کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ابوبکر احمد بن الجصاصؒ (متوفی: 370ھ) اجتہاد کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"فَهُوَ بَذْلُ الْمَجْهُودِ فِيمَا يَقْصِدُهُ الْمُجْتَهِدُ وَ يَتَحَرَّاهُ، إلَّا أَنَّهُ قَدْ اخْتَصَّ فِي الْعُرْفِ بِأَحْكَامِ الْحَوَادِثِ الَّتِي لَيْسَ لِلّٰهِ تَعَالَى عَلَيْهَا دَلِيلٌ قَائِمٌ يُوصِلُ إلَى الْعِلْمِ بِالْمَطْلُوبِ مِنْهَا، لِأَنَّ مَا كَانَ لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ (عَلَيْهِ) دَلِيلٌ قَائِمٌ، لَا يُسَمَّى الِاسْتِدْلَال فِي طَلَبِه اجْتِهَادًا أَلَا تَرَى أَنَّ أَحَدًا لَا يَقُولُ: إنَّ عِلْمَ التَّوْحِيدِ وَتَصْدِيقَ الرَّسُولِ صلی اللّٰه علیہ وسلم مِنْ بَابِ الِاجْتِهَادِ، وَكَذَلِكَ مَا كَانَ لِلّٰهِ تَعَالَى عَلَيْهِ دَلِيلٌ قَائِمٌ مِنْ أَحْكَامِ الشَّرْعِ، لَا يُقَالُ: إنَّهُ مِنْ بَابِ الِاجْتِهَادِ، لِأَنَّ الِاجْتِهَادَ اسْمٌ قَدْ اخْتَصَّ فِي الْعُرْفِ وَفِي عَادَةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، بِمَا كُلِّفَ الْإِنْسَانُ فِيهِ غَالِبَ ظَنِّهِ، وَمَبْلَغَ اجْتِهَادِهِ، دُونَ إصَابَةِ الْمَطْلُوبِ بِعَيْنِهِ، فَإِذَا اجْتَهَدَ الْمُجْتَهِدُ، فَقَدْ أَدَّى مَا كُلِّفَ، وَهُوَ مَا أَدَّاهُ إلَيْهِ غَالِبُ ظَنِّه، وَعِلْمُ التَّوْحِيدِ وَمَا جَرَى مَجْرَاهُ، مِمَّا لِلّٰهِ عَلَيْهِ دَلَائِلُ قَائِمَةٌ كُلِّفْنَا بِهَا: إصَابَةَ الْحَقِيقَةِ، لِظُهُورِ دَلَائِلِه، وَوُضُوحِ آيَاتِهِ "
(الفصول فی الأصول: جلد، 11 صفحہ، 40)
’’اجتہاد مجتہد کے اپنے مقصود کی خاطر تلاش و جستجو اور طاقت سعی کرنے کو کہتے ہیں، جبکہ عرف علماء میں اجتہاد اس کاوش کا نام ہے جو پیش آمد مسائل میں مقصودِ خداوندی کے تعین میں کی جائے جس پر کوئی الہٰی دلیل پہ صراحتاً موجود نہ ہو کیونکہ جس مسئلہ پر دلیل خود باری تعالیٰ قائم کر دیں اس سے کیے گئے استدلات کو اجتہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے علمِ توحید اور تصدیق رسالتِ نبویﷺ کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ دائرہ اجتہاد کے پابند ہیں۔ ایسے ہی پردہ کے حکم جس کے بارے میں واضح دلیل شرعی موجود ہے اسے اجتہاد نہیں کہا جائے گا، لہٰذا عرف عام میں اور اہلِ علم کے ہاں انسان کا اپنے ظن و تخمین اور اتنہائی کوششوں کو صرف مطلوبِ الہٰی کے تعین میں صرف کرنے کو کہتے ہیں نہ کہ اس تک بعینہ پہنچ جانے کا نام ہے۔ چنانچہ اگر مجتہد نے اپنی کاوش و جدوجہد صرف کر دی تو اس نے اپنا مطلوب ذمہ داری ادا کر دی اور جس چیز کے درست اور حق ہونے کی طرف اس کا ظن غالب گیا وہ اس نے بیان کر دیا۔ علمِ توحید اور دیگر ایسے علوم جن کے دلائل خدا تعالیٰ نے خود بیان فرما دئیے ہیں اس سلسلے میں ہماری ذمہ داری فقط یہ ہے کہ ان کی روشنی میں اس حقیقت تک رسائی حاصل کریں۔‘‘
مذکورہ تعریف میں امام ابوبکر جصاصؒ نے چند ایک چیزوں پر روشنی ڈالی ہے:
اول: اجتہاد ان معاملات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں شریعت کے واضح دلائل موجود نہیں ہیں۔
دوم: جن امور کے متعلق شریعت نے دلائل ذکر کر دئیے ہیں وہ مجتہد کے دائرہ عمل سے خارج ہیں۔
سوم: مجتہد کا اجتہاد کے ذریعے مقصودِ خداوندی کو تعین کرنا ہوتا ہے۔
چہارم: مجتہد کی کدوکاوش کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ وہ مطلوب شریعت یا مقصود تعین میں کامیاب ہو گیا ہے بلکہ اس کا ظن غالب یہ ہوتا ہے جو اس نے معلوم کیا ہے وہ مقصودِ شارع ہے۔
(الصحاح: جلد، 1 صفحہ، 460)
پنجم: وہ امور کہ جن کے بارے میں شرعی رہنمائی موجود ہوتی ہے اس میں مطلوب اس حقیقت تک رسائی ہے جو ان دلائل میں بیان ہوئی ہوتی ہے۔
علامہ سعد الدین بن عمر تفتازانیؒ (متوفی 792 ھ) نے تعریف اجتہاد کے ساتھ ساتھ دائرہ اجتہاد بھی تعین کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ان کا خصوصی امتیاز ہے۔ لکھتے ہیں:
" وَفِي الِاصْطِلَاحِ اسْتِفْرَاغُ الْفَقِيهِ الْوُسْعَ لِتَحْصِيلِ ظَنٍّ بِحُكْمٍ شَرْعِيٍّ، وَهَذَا هُوَ الْمُرَادُ بِقَوْلِهِمْ: بَذْلُ الْمَجْهُودِ لِنَيْلِ الْمَقْصُودِوَمَعْنَى اسْتِفْرَاغِ الْوُسْعِ بَذْلُ تَمَامِ الطَّاقَةِ بِحَيْثُ يَحُسُّ مِنْ نَفْسِهِ الْعَجْزَ عَنْ الْمَزِيدِ عَلَيْهِ فَخَرَجَ اسْتِفْرَاغُ غَيْرِ الْفَقِيهِ وُسْعَهُ فِي مَعْرِفَةِ حُكْمٍ شَرْعِيٍّ فَبَذْلُ الْفَقِيهِ وُسْعَهُ فِي مَعْرِفَةِ حُكْمٍ شَرْعِيٍّ قَطْعِيٍّ، أَوْ فِي الظَّنِّ بِحُكْمٍ غَيْرِ شَرْعِيٍّ لَيْسَ بِاجْتِهَادٍ. "
(شرح التلویح: جلد، 2 صفحہ، 277)
’’اصطلاح میں فقیہ اپنی تمام طاقت شرعی حکم کے سلسلہ میں ظن غالب تک پہنچنے میں صرف کر دینا (یہی مفہوم ہے) اصولین کے قول بذل المجھود نیل المقصود کا اور استفراغ الوسعۃ کا معنیٰ ہے اپنی تمام تر طاقت اس طرح خرچ کر دینا کہ یہ احساس بیدار ہو جائے کہ اس سے زیادہ کاوش سے عاجز ہوں۔ اس تعریف سے غیر فقیہ کی شرعی حکم کو معلوم کرنے کے لیے کی گئی کاوش بحث سے خارج ہو جاتی ہے، ایسے ہی فقیہ کی قطعی اور غیر شرعی احکام میں کی گئی کاوش بھی اجتہاد سے خارج ہے۔‘‘
ابن ہمام حنفیؒ (متوفی: 861ھ) نے اجتہاد کے حوالے سے اس کو ایک حکمِ ظنی بتلایا ہے کیونکہ فقیہ کی کوشش و سعی اس کو مقصودِ حقیقی تک پہنچا بھی سکتی ہے اور اس میں غلطی کا امکان بھی برابر موجود ہے۔
" واصطلاحا ذلك من الفقیه في تحصیل حکم شرعی ظنی. "
(التقریر والتحریر: جلد، 3 صفحہ، 291)
اصطلاحاً ایک شرعی ظنی حکم کے حصول کے لیے فقیہ کی کوشش کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کے سلسلے میں متاخرینِ حنفیہ میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: 1172ھ) کا کلام قابلِ توجہ ہے جن کو آخری زمانے کے بڑے علماء میں شمار کیا جاتا ہے شاہ صاحب بیان کرتے ہیں:
" الإجتهاد على مَا يفهم من كَلَام الْعلمَاء استفراغ الْجهد فِي إِدْرَاك الْأَحْكَام الشَّرْعِيَّة الفرعية من أدلتها التفصيلية الراجعة كلياتها إِلَى أَرْبَعَة أَقسَام الْكتاب وَالسّنة وَالْإِجْمَاع وَالْقِيَاس وَيفهم من هَذَا أَنه أَعم من أَن يكون استفراغا فِي إِدْرَاك حكم مَا سبق التَّكَلُّم فِيهِ من الْعلمَاء السَّابِقين أَو لَا وافقهم فِي ذَلِك أَو خَالف وَمن أَن يكون ذَلِك بإعانة الْبَعْض فِي التَّنْبِيه على صور الْمسَائِل والتنبيه على مآخذ الْأَحْكَام من الْأَدِلَّة التفصيلية أَو بِغَيْر إِعَانَة مِنْهُ فَمَا يظنّ فِيمَن كَانَ مُوَافقا لشيخه فِي أَكثر الْمسَائِل لكنه يعرف لكل حكم دَلِيلا ويطمئن قلبه بذلك الدَّلِيل وَهُوَ على بَصِيرَة من أمره أَنه لَيْسَ بمجتهد ظن فَاسد وَكَذَلِكَ مَا يظنّ من أَن الْمُجْتَهد لَا يُوجد فِي هَذِه الْأَزْمِنَة اعْتِمَادًا على الظَّن الأول بِنَاء على فَاسد. "
(عقد الجید: صفحہ، 3)
’’علماء کے کلام سے اجتہاد کا جو مفہوم مجھ پر عیاں ہوا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کے فرعی احکام کو ان کے تفصیلی اور جزئی دلائل کے ذریعہ معلوم کی کوشش کرنا ،جو چار بنیادی مآخذ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کے ذریعے معلوم ہوں، اجتہاد ہے۔ اس تعریف سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اجتہاد ان مسائل کے بارے میں عام ہے جن پر اہلِ علم گفتگو فرما چکے ہوں یا نہ کی ہو، یا وہ کاوش اسی نتیجے تک پہنچائے جس تک اہلِ علم پہلے ہی پہنچ چکے ہیں یا پھر اس کے مخالف نتیجہ نکلے، اسی طرح یہ بھی اجتہاد ہے کہ آپ مسائل کی وضاحت کے لیے دیگر اہلِ علم کی معاونت حاصل کریں یا اس کی معاونت کے بغیر ہی کدوکاوش کریں۔ ایسے ہی وہ شخص جس کی آراء بیش تر مسائل میں اپنے شیخ کے موافق ہی ہیں اور وہ اس کی دلیل سے علمی وجہ البصیرت وہ مطمئن ہے، ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مجتہد نہیں ہے یہ ایک گمان فاسد ہے۔ ایسے ہی کوئی شخص یہ خیال کرے کہ اس دور میں کوئی مجتہد نہیں ہے تو یہ بھی ایک غلط خیال ہے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی مذکورہ تعریف سے فکر و نظر کے سامنے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص کی ایسی تمام کاوشیں جو مآخذ شریعت سے فرعی مسائل کو ضروری دلائل کے ذریعہ معلوم کرنے کے لیے کی جائیں وہ سب کی سب اجتہاد کے دائرہ میں آتی ہیں۔ حتی کہ ایک ایسا عالم جو اپنے آپ کو کسی خاص فقہی مذہب کی آراء کا پابند خیال کرتا ہے اور وہ مذہب کے دلائل میں غور و فکر کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی اجتہاد ہو گا۔ گویا شریعت کے احکام کے اخذ و استنباط کا کام ان دلائل کی روشنی میں کیا جائے جو شریعت نے بیان کر دیے ہیں تو وہ بھی اجتہاد ہے اور یہ ایک اجتہاد کا انتہائی وسیع مفہوم ہے جو دیگر اہلِ علم کی عبارات میں نہیں ملتا۔
شوافع کے ہاں اجتہاد کا مفہوم
شوافع کے ہاں اجتہاد کی مختصراً اور تفصیلی تعریفیں ملتی ہیں۔ مختصر تعریف قاضی بیضاویؒ (متوفی: 685ھ) نے ان الفاظ میں کی ہے:
" هواستفراغ الجهد في درك الأحکام الشرعیة."
(منہاج الاصول: جلد، 4 صفحہ، 524)
شرعی احکام کے ادراک کی خاطر اپنی سعی و جہد خرچ کرنے کا نام اجتہاد ہے۔
اجتہاد کی بابت تفصیلی کلام دیکھا جائے تو خود امام شافعیؒ الرسالہ میں اجتہاد کا مفہوم متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام شافعیؒ (متوفی: 204ھ) اجتہاد کی تعریف میں کچھ اس طرح تحریر فرماتے ہیں:
"قال: فما القياس؟ أهو الاجتهاد؟ أم هما مفترقان؟قلت: هما اسمان لمعنىً واحد.قال: فما جِماعهما؟قلت: كل ما نزل بمسلم فقيه حكم لازم، أو على سبيل الحقِّ فيه دلالةٌ موجودة، وعليه إذا كان فيه بعينه حكمٌ: اتباعُه، وإذا لم يكن فيه بعينه طُلِب الدلالة على سبيل الحق فيه بالاجتهاد. والاجتهادُ القياسُ."
(الرسالۃ: صفحہ، 477)
’’امام شافعیؒ سے مسائل پوچھتے ہیں کہ قیاس کیا ہے ؟ کیا یہ اجتہاد ہی ہے یا ان میں فرق ہے وہ کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں تو طالب علم نے کہا ان کے جمع ہونے کی شکل کیا ہے؟ (فرماتے ہیں) کسی بھی صاحبِ شعور مسلمان کے لیے جو کچھ نازل ہوتا ہے اس کی صورتیں یہ ہیں کہ یا تو وہ ایک لازمی سمجھنے آنے والا حکم ہے یا درست طریقہ پر استدلال کے ذریعے سمجھ آتا ہے، سو جب بعینہ حکم سمجھ آ رہا ہو تو اتباع ضروری اور جب بطریقِ استدلال حکم کو جاننے کی سعی و کاوش کی جائے تو وہ اجتہاد ہے اور اجتہاد ہی قیاس ہے۔‘‘
معروف شافعی اصولی سیف الدین علی بن ابی علی الآمدیؒ (متوفی: 631ھ) اجتہاد کی تعریف میں کچھ اس طرح رقم فرماتے ہیں:
"استفراغ الوسع في طلب الظن بشئ من الأحکام الشرعیة على وجه بحسن من النفس العجز عن المزیه فیه."
(الاحکام فی أصول الأحکام: جلد، 4 صفحہ، 169)
’’شرعی احکام میں ظن غالب تک پہنچنے کے لیے اس قدر محنت اور کوشش صرف کرنا کہ اس کے بعد انسان عاجز ہو جائے۔‘‘
مذکورہ تعریف میں دو باتیں بے حد خوبصورت ہیں۔
اول: شرعی مسائل میں مقصود یقین تک پہنچنا نہیں بلکہ غالب گمان کو پانا ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ یہ انسان کی استطاعت ہے اور اللہ کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا، دوسری بات یہ کہ حقیقی یقینی بات کا علم اللہ ہی کو ہے اور وہ اس دنیا میں نہیں کھل سکتا، اس لیے گمانِ غالب ہی وہ انتہا ہے جہاں تک پہنچنا اجتہاد کے ذریعے عملاََ ممکن ہے۔
دوم: جہدوجہد و کوشش کی حد یہ کہ پورے خلوص سے اتنی کوشش کرنا کہ انسان عاجز آ جائے۔
امام زرکشیؒ (متوفی: 791ھ) نے اجتہاد کو عین قیاس قرار دیا ہے اور اس مؤقف کو امام شافعیؒ کی طرف منسوب کیا ہے۔
"وَحَكَى صَاحِبُ" الْكِبْرِيتِ الْأَحْمَرِ"عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّ الْقِيَاسَ وَالِاجْتِهَادَ وَاحِدٌ، لِحَدِيثِ مُعَاذٍ:"أَجْتَهِدُ رَأْيِي" وَالْمُرَادُ الْقِيَاسُ بِالْإِجْمَاعِ. وَقَالَ إلْكِيَا: يَمْتَازُ الْقِيَاسُ عَنْ الِاجْتِهَادِ بِأَنَّهُ فِي الْأَصْلِ بَذْلُ الْمَجْهُودِ فِي طَلَبِ الْحَقِّ سَوَاءٌ طُلِبَ مِنْ النَّصِّ أَوْ الْقِيَاسِ. وَقَدْ قَالَ الشَّافِعِيُّ فِي "الرِّسَالَةِ" إنَّ الْقِيَاسَ الِاجْتِهَادُ، وَظَاهِرُ ذَلِكَ لَا يَسْتَقِيمُ، فَإِنَّ الِاجْتِهَادَ أَعَمُّ مِنْ الْقِيَاسِ، وَالْقِيَاسُ أَخَصُّ، إلَّا أَنَّهُ لَمَّا كَانَ الِاجْتِهَادُ فِي عُرْفِ الْفُقَهَاءِ مُسْتَعْمَلًا فِي تَعْرِيفِ مَا لَا نَصَّ فِيهِ مِنْ الْحُكْمِ، وَعِنْدَهُ أَنَّ طَرِيقَ تَعَرُّفِ ذَلِكَ لَا يَكُونُ إلَّا بِأَنْ يُحْمَلَ الْفَرْعُ عَلَى الْأَصْلِ فَقَطْ، وَذَلِكَ قِيَاسٌ عِنْدَهُ. وَالِاجْتِهَادُ عِنْدَ الْمُتَكَلِّمِينَ مَا اقْتَضَى غَلَبَةَ الظَّنِّ فِي الْأَحْكَامِ الَّتِي لَا يَتَعَيَّنُ فِيهَا خَطَأُ الْمُجْتَهِدِ وَيُقَالُ فِيهَا: كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبٌ، وَالْقِيَاسُ مَا ذَكَرْنَاهُ وَالْأَمْرُ فِيهِ قَرِيبٌ. وَقَالَ ابْنُ السَّمْعَانِيِّ: هَلْ الْقِيَاسُ وَالِاجْتِهَادُ مُتَّحِدَانِ أَوْ مُخْتَلِفَانِ؟ اخْتَلَفُوا فِيهِ: فَقَالَ أَبُو عَلِيِّ بْنُ أَبِي هُرَيْرَةَ: إنَّهُمَا مُتَّحِدَانِ، وَنَسَبَ لِلشَّافِعِيِّ، وَقَدْ أَشَارَ إلَيْهِ فِي كِتَابِ. "
(البحر المحیط: جلد، 4 صفحہ، 9)
’’صاحب کبریت الاحمرؒ نے بعض اہلِ علم سے نقل کیا ہے کہ قیاس اور اجتہاد ایک ہی شے کے دو نام ہیں جس کا ثبوت حدیث حضرت معاذ بن جبلؓ سے ہوتا ہے کہ میں رائے سے استدلال کی کوشش کروں گا، لہٰذا اجماعاً اس سے مراد قیاس ہی ہے، سمعانیؒ کہتے ہیں کہ آیا قیاس اور اجتہاد ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں یا مختلف چیزیں ہیں جن میں اہلِ علم نے اختلاف کیا ہے؟ تو ابو علی کہنے لگے کہ یہ ایک ہی حقیقت کا اظہار ہے اور یہ بات امام شافعیؒ کی طرف منسوب ہے جو انھوں نے ’’الرسالۃ ‘‘میں کہی ہے۔‘‘
فخر الدین محمد بن عمر الرازیؒ (متوفی: 606ھ) اجتہاد کی تعریف میں عین وہی بات لائے ہیں جو ابنِ ہمامؒ کے ہاں گزر چکی ہے، یعنی حکم شرعی کو پانے کے سلسلے میں جہدوجہد سعی کی آخری حد تک جانا۔
" وأما فیعرف الفقهاء فهو استفراغ الوسع في النظر فیما لا یلحقه فیه لوم مع استفراغ الوسع فیه."
(المحصول للرازی: جلد، 6 صفحہ، 7)
’’عرف فقہاء میں اجتہاد کہتے ہیں غور و فکر میں اس طرح تمام کاوشوں کو صرف کرنا کہ اس کے بعد کدوکاوش کی کمی پر انسان خود کو ملامت نہ کر سکے۔‘‘
مالکیہ کے ہاں اجتہاد کا مفہوم
مالکیہ میں محمد بن عبداللہ العربی المعروف بابن العربیؒ (متوفی: 543ھ) تفسیر احکام القرآن نے اجتہاد کا اصطلاحی مفہوم یوں بیان کیا ہے:
"وهی بذل الجهد واستفاد الوسع في طلب الصواب، افتعال من الجهد."
(أصول الفقہ لابن العربی: صفحہ، 78 )
’’درست شرعی حکم کو معلوم کرنے کے لیے اپنی کاوش کو خرچ کرنا اور اپنی مکمل صلاحیت سے استفادہ کرنے کا نام اجتہاد ہے۔‘‘
(الضروری فی أصول الفقہ: صفحہ،137)
’’ اجتہاد مجتہد کا اپنی صلاحیت کو شرعی حکم کے حصول کے لیے ان آلات کے ذریعہ خرچ کرنا جنھیں اجتہاد کے شرط ٹھہرایا گیا ہے۔‘‘
ابوبکر و عمر و عثمان بن عمر بن ابی بکر رضی اللہ عنہم (متوفی: 646ھ) حکم اجتہادی کو ظنی بتلاتے ہیں:
"وفي الاصطلاح استفراغ الفقیه الوسع لتحصیل ظن بحکم شرعی."
(منتھی الوصول: صفحہ، 209)
’’اصطلاح میں فقیہ کا شرعی حکم کے بارے میں ظن غالب حاصل کرنے کے لیے سعی و جہد کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
حنابلہ کے ہاں اجتہاد کا مفہوم
شمس الدین محمد بن مفلحؒ (متوفی: 763ھ) اجتہاد کی تعریف کے بارے میں فرماتے ہیں:
"استفراغ الفقیه وسعه لدرك حکم شرعی."
(أصول الفقہ لابن المفلح، جلد، 6 صفحہ، 1469)
’’شرعی حکم کے ادراک میں فقیہ کا اپنی تمام تر صلاحیت کھپا دینے کو اجتہاد کہتے ہیں۔‘‘
علامہ تقی الدین محمد بن احمدؒ (متوفی: 972ھ) اجتہاد کی تعریف میں رقم طراز ہیں:
"و مَعْنَاهُ" اصْطِلاحًا: اسْتِفْرَاغُ الْفَقِيهِ "أَيْ ذُو الْفِقْهِ وَتَقَدَّمَ حَدُّ الْفَقِيهِ، وَهُوَ قَيْدٌ مُخْرِجٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ لأَنَّهُ لا يُسَمَّى فِي الْعُرْفِ فَقِيهًا، وَلِلْمُقَلِّدِ" وُسْعَهُ "بِحَيْثُ تَحُسُّ النَّفْسُ بِالْعَجْزِ عَنْ زِيَادَةِ اسْتِفْرَاغِهِ" لِدَرْكِ حُكْمٍ "يَسُوغُ فِيهِ الاجْتِهَادُ وَهُوَ الظَّنِّيُّ" شَرْعِيٍّ "لِيَخْرُجَ الْعَقْلِيُّ وَالْحِسِّيُّ، وَلَمْ يُقَيِّدْهُ جَمَاعَةٌ بِذَلِكَ لِلاسْتِغْنَاءِ عَنْهُ بِذِكْرِ الْفَقِيهِ؛ لأَنَّ الْفَقِيهَ لا يَتَكَلَّمُ إلاَّ فِي الشَّرْعِيِّ."
(قواعد الاصول ومعاقد الفصول: صفحہ، 27)
’’اجتہاد کا اصطلاحی معنیٰ یہ ہے کہ فقیہ کا اپنی تمام تر قوت و کاوش کو شرعی حکم کے ادراک کے لیے صرف کر دینا (کاوش سے مراد ہے یہ ہے کہ اس قدر محنت صرف کرے کہ اس زیادہ محنت سے عاجز آ جائے) اور حکم کے ادراک سے مراد ہے کہ اجتہاد سے ظن غالب حاصل ہو جائے ۔ اور اس طرح شرعی کی قید سے عقلی اور حسی احکام خارج ہو گئے اس پر اہلِ علم اس لیے قید نہیں لگاتے کہ فقیہ کے تذکرے سے ہی اس سے استغنیٰ حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ صرف شرعی احکام پر گفتگو کرتا ہے۔ فقیہ سے مراد ایسا صاحب تفقہ آدمی ہے جس کی تعریف گزر چکی ہے اس قید سے نبیﷺ کو کیونکہ وہ فقیہ نہیں ہوتا اور مقلد کو خارج کرنا مطلوب ہے۔‘‘
متاخرین حنابلہ میں شیخ احمد شاکرؒ نے اجتہاد کے سلسلے میں عملی احکام کا دائرہ کار مقرر کرنے کی رائے دی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عملی احکام ہی وہ احکام ہیں جن میں اجتہاد کی زیادہ ضرورت پیش آتی ہے جبکہ عقائد تو طے شدہ اور واضح ہیں اور ان کی جزئیات میں بہت ہی کم مواقع پر خال خال اجتہاد کیا جاتا ہے۔
"استفراغ الجهد (بالضم) ای الطاقة لتحصیل ظن بحکم شرعی عملي من الأدلة التفصیلیة."
(اتحاف ذوی البصائر: جلد، 8 صفحہ، 10)
’’تفصیلی دلائل کے ذریعہ عملی شرعی حکم کے بارے میں ظن غالب کے حصول کی خاطر اپنی طاقت کو صرف کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
معاصر علماء کی آراء
ہمارے دور کے جید اہلِ علم نے سارے قدیم تراث کو سامنے رکھ کر مجموعی طور جامع تعریف وضع کرنے کی سعی کی ہے۔چنانچہ شیخ ابو زہرہؒ اجتہاد کی تعریف میں لکھتے ہیں:
"وفي اصطلاح علماء الأصول بذل الفقیه وسعة في استنباط الأحکام العلمیة من أدلتها التفصیلة ویعرف بعض العلماء الاجتهاد في اصطلاح الأصولیین بأنه استفراغ الجهد وبذل غایه والوسع أما في استنباط الأحکام الشرعیة وأما في تطبیقاتها وکان الاجتهاد على هذا التعریف قسمین: أحدهما خاص بإستنباط الأحکام وبیانها وألف، الثاني خاص بتطبیقها."
(اصول فقہ: صفحہ، 356)
’’علمائے اصول کی اصطلاح میں فقیہ کا اپنی تمام تر قوتوں کو برائے کار لاتے ہوئے عملی احکام کو تفصیلی دلائل کے ذریعہ مستنبط کرنا اجتہاد کہلاتا ہے ۔ بعض علماء نے اصولین کے نقطہ نگاہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ تمام تر جہد اور مکمل طاقت استنباط احکام اور تطبیق احکام میں صرف کرنا اجتہاد ہے ۔ اس تعریف کی رو سے اجتہاد دو چیزوں کا نام ہے ۔ اول استنباط احکام، دوم تطبیق احکام۔‘‘
شیخ ابو زہرہؒ کے ہاں مجموعی طور پر اجتہاد دو چیزوں کا ہی نام ہے۔ اول استنباط احکام اور دوم تطبیق مسائل۔ پروفیسر تقی امینیؒ بھی اجتہاد کے حوالے سے احکام کی تطبیق کا ذکر کرتے ہیں:
"استفراغ الجهد وبذل غایة الوسیع أما في درك الأحکام الشرعیة وأما في تطبیقها."
(اجتہاد: صفحہ، 21)
’’تمام تر جہد اور غایت درجہ سعی شرعی احکام کے معلوم کرنے اور انہیں تطبیق دینے میں صرف کرنے کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔‘‘
پروفیسر تقی امینیؒ کے نزدیک اجتہاد دو چیزوں کا نام ہے:
- احکام کے جاننے کے لیے سعی و جہد اجتہاد ہے۔
- احکام کی تطبیق کے لیے غور و فکر کرنا بھی دائرہ اجتہاد میں شامل ہے۔
صبحی صالح کی تعریف میں کافی وسعت دکھائی دیتی ہے:
"والاجتهاد تعریفات کثیرة تؤدل بجموعها إلى انه استفراغ الجهد في استنباط القضایا الدینیة شرعیة أو عقدیة وعقلیة أو نقلیة وقطعیة أو ظنیة من أدلتها التفصیلیة."
(اصول فقہ الاسلامی: جلد، 2 صفحہ، 938)
’’ بہترین تعریف تمام منقولہ تعریفات میں سے وہ ہے جو قاضی بیضاوی سے منقول ہے کہ احکام شرعیہ کے جاننے میں اپنی کاوش کو صرف کرنا اور استفراغ کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی وسعت بھر طاقت کو صرف کرنا اور درک الاحکام بھی عام ہے کہ آپ احکام کو ظنی یا قطعی طور پر معلوم کریں۔‘‘
عراق سے تعلق رکھنے والے عبدالکریم زیدانؒ جدید دور میں ممتاز فقیہ شمار ہوتے ہیں۔ اجتہاد کی تعریف میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
"وفي اصطلاح الأصولیین، بذل المجتهد وسعه في الطلب بالأحکام الشرعیة بطریق الاستنباط."
(الوجیز فی أصول الفقہ: صفحہ، 302)
’’اصولین کی اصطلاح میں استنباط کے طریق پر مجتہد کا شرعی احکام کے حصول کے اپنے کاوش کو صرف کرنے کا نام اجتہاد ہے۔‘‘
ڈاکٹر زیدان نے بھی قریب قریب دیگر علماء والی تعریف ہی کی ہے لیکن اسلوب میں تبدیلی بہرحال نمایاں ہے کہ حصول احکام شرعی کے لیے کاوش کرنا۔شیخ عبداللہ بن صالح الفوزانؒ کے نزدیک مجتہد کا شرعی حکم کے بارے میں علم حاصل کرنے کی غرض سے استنباط کے اصول پر ادلہ شرعیہ میں اپنی صلاحیت صرف کرنے کا نام اجتہاد ہے۔
"واصطلاحا بذل المجتهد وسعه في طلب العلم بالحکم الشرعی بطریق الاستنباط من أدلة لاشرع."
(خلاصۃ الأصول: صفحہ، 28)
شیخ عبدالوہابؒ خلاف اجتہاد کی تعریف میں رقم فرماتے ہیں:
"الاجتهاد في اصطلاح الاصولیین هو بذل الجهد للوصول إلى الحکم الشرعی من دلیل التفصیلی من الأدلة الشرعیة."
(اصول الفقہ الاسلامی: صفحہ، 257)
’’اصولیوں نے اصطلاحاً اجتہاد یہ قرار دیا ہے کہ شرعی حکم تک رسائی کی خاطر اپنی کوشش کو بروئے کار لانا تفصیلی جرئی دلیل کے ذریعہ سے جو ادلہ شریعہ سے مستنبط ہو۔‘‘
شیخ یوسف القرضاویؒ نے علامہ شوکانیؒ کی رائے کو زیادہ بہتر قرار دیا ہے:
وأما في اصطلاح الأصولیین فقد عبروا عنه لعبارات مفاتة، لعل أقربها ما قا له الامام الشوکاني في کتابه" إرشاد الفحول "في تعریف لقوله" بذل الوسع في نیل حکم شرع عملی بطریق الاستنباط.
(تلخیص الاصول: صفحہ، 61)
’’اہلِ اصول کی اصطلاح میں اجتہاد کی تعریف میں کئی مختلف تعبیرات منقول ہیں البتہ اجتہاد کے عمل کے لیے اقرب ترین تعریف وہ ہے جسے شوکانیؒ نے ارشاد الفحول میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’عملی شرعی حکم و استنباط کے طریق پر معلوم کرنے کے لیے اپنی ہمت کو کھپا دینا اجتہاد ہے۔ ‘‘
خلاصہ بحث
گزشتہ صفحات میں مذاہب اربعہ کے نمائندہ علماء کی تعریفیں ذکر کی گئی ہیں اس میں ہر مذہب فقیہ کے الگ الگ علماء کا تذکرہ ہے جن کی اختصار کےساتھ بھی فہرست بنائی جائے تو قریباً پچاس سے زائد علماء کے مؤقف فکر و نظر کے سامنے آتے ہیں جن کا مختصراً تجزیہ یوں کیا جا سکتا ہے۔
مشترک تعریف مختلف الفاظ
تمام مذاہب کے جلیل القدر اہلِ علم اور اصولیوں کی تعریفات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ فقہی مذاہب اور وابستگی کے اعتبار سے تعریفات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کہ جس سے ایک مذہب کے اہلِ علم کہ فقہی نتائج مختلف ہونے کی وجہ عملِ اجتہاد یا طریقہ اجتہاد میں کوئی واضح فرق ہو۔ یوں احساس ہوتا ہے کہ تمام اہلِ علم ایک ہی شرعی اصطلاح کو واضح کرنے میں اپنی سعی و جہد ایک ہی طریق پر صرف کر رہے ہیں۔ یہ امر تعریفات پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ مذاہب اربعہ کے تمام نمائندہ علماء تعبیر کے ادنیٰ سے اختلاف کے ساتھ ایک ہی حقیقت کا اظہار کیا ہے جس سے یہ احساس قوی تر ہو جاتا ہے کہ جمہور امت کے ہاں اجتہاد کی تعریف میں بہت بڑا فرق نہیں ہے بلکہ ایک اجماعی حقیقت ہے۔اجتہاد حکم ظنی ہے
جمہور علماء کی تعریفات کے مطالعہ سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اجتہاد کے نتیجے میں برآمد ہونے کا والا حکم اپنی نہاد میں ایک ظنی حکم ہوتا ہے نہ کہ قطعی، اس چیز کی طرف اگرچہ زیادہ توجہ علماء احناف نے کی ہے لیکن دیگر مذاہب کے ہاں بھی اس بات کا اثبات بہرحال موجود ہے جو ایک اہم نکتہ ہے۔ مثال کے طور پر احناف میں سے ابوبکر جصاصؒ، سعد الدین تفتازانیؒ، ابنِ ہمامؒ اور دیگر علماء نے حکم ظنی کی شرط لگائی ہے۔ جب کہ شوافع میں حضرت زکریا الانصاریؒ، مالکیہ میں سیف الدین آمدیؒ، ابو عمر و عثمان عمر نے اور حنابلہ میں شیخ احمد شاکرؒ نے یہ شرط لگائی ہے۔
حتیٰ الوسع کوشش و محنت
تمام مذاہب کے اصولیوں کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ بذریعہ اجتہاد شرعی حکم کے ادراک کے لیے ایسی کاوش کی جائے گی کہ اس سے زیادہ انسانی بساط میں نہ ہو گویا کہ اجتہاد بے انتہا محنت اور بے پناہ علمی و سعت کا تقاضا کرتا ہے۔
دائرہ اجتہاد عملی مسائل
اس اہم نکتے پر قریب قریب تمام اہلِ علم متفق ہیں بعض نے تو صراحت بھی کی ہے کہ اجتہاد کا دائرہ کار عملی مسائل ہیں، فکری اور عقیدے کے مسائل میں اجتہاد شریعت نے گوارہ نہیں کیا کیونکہ عقیدے میں ظنیات کا دخل نہیں ہوتا بلکہ وہاں تمام کے تمام معتقدات قطعی ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کی کاوش صرف فقہی عملی مسائل پر ختم ہو جاتی ہے۔
جزوی دلائل
اجتہاد جہاں شریعت کے قواعد کلیہ کو بھی محیط ہے وہاں جزوی دلائل کو مسائل اجتہادیہ کے بیان میں بہت بنیادی دخل ہے کہ جس بھی مسئلہ کو اجتہاد کا محور و مرکز بنایا جائے گا اس کے جزوی دلائل دینا ضروری قرار پاتا ہے۔ ورنہ وہ مسئلہ فقیہات میں درجہ اعتبار کو نہیں پہنچ سکے گا۔