Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

[پہلا قول:قائلین تقدیرکے ہاں ظلم کا مفہوم:]

  امام ابنِ تیمیہؒ

[پہلا قول:قائلین تقدیرکے ہاں ظلم کا مفہوم:]٭ مطیع کو ثواب دے گا؛ تاکہ ظلم نہ ہو۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں قائلین تقدیر کے ہاں جس ظلم سے اللہ کی تنزیہ لازم ہے؛ اس میں دو اقوال ہیں :اول: ممتنع لذاتہ ؛ یعنی ایسا ظلم جو اس کی ذات سے محال ہو۔ اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو اللہ اس پر قادر ہے؛ جو بھی اس پر قادر ہوتا ہے ظالم نہیں ہوگا۔ یہ جھم اور اشعری اور ان کے ہم خیالوں کا ہے۔ اسی طرح اہل سنت اور اھل الحدیث میں سے یہکثیر تعداد میں سلف و خلف کی یہی رائے ہے۔ایاس بن معاویہ [1] [1] ایاس بن معاویہ بن قرہ المزنی۔ ابن سعد کہتے ہیں ثقہ اور بصرہ کے قاضی تھے کئی احادیث کے راوی ہیں ۔ ذہین اور ہوشیار آدمی تھے۔ ذہانیت میں ان کی مثال دی جاتی تھی۔ وفات 122، طبقات ابن سعد 234,35؍1وفیات الاعیان 226۔23؍1، تہذیب التھذیب 39؍1، الأعلام للزرکلی 376,77؍1) رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا ہے؛ (متوفی 122ھ)فرماتے ہیں :’’ میں نے اپنی کل عقل کے ساتھ مناظرہ صرف قدریہ سے کیا۔ میں نے سوال کیا ظلم کیا ہے؟ انہوں نے کہا اپنے غیر کی ملکیت میں تصرف کرنا ۔ میں نے کہا : ہر چیز تو اللہ کی ملکیت ہے۔یہ قول ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین کا ہے۔ اس قول کے مطابق یہ نہیں کہا جاسکتاکہ مطیع کو ثواب اس لیے دیتا ہے تاکہ ظالم نہ بنے ۔جو چیز بذات خود ناممکن ہو نہ مقدر ہوتی ہے نہ اس کا وقوع متصور ہوتا ہے۔ جو چیز مقدور ہو اور سر انجام دی گئی ہو ان کے ہاں ظلم نہیں بنتی ان کے ہاں اللہ کے لیے بغیر گناہ کے دنیا وآخرت میں عذاب دینا درست ہے جس طرح کفار کے بچوں اور مجنونوں کو بغیر گناہ کے عذاب دینا اس کے لیے درست ہے۔ان میں سے کچھ قطعی طور پر کفار کے بچوں کا جہنم جانا مانتے ہیں اور کچھ توقف اختیار کرتے ہیں مگر جائز سمجھتے ہیں ۔امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک جماعت قطعیت کا قول امام احمد رحمہ اللہ سے بھی نقل کرتی ہے یہ امام احمد پر بہتان ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگرائمہ سے متواتر اور منصوص مؤقف احادیث صحیحہ کے مطابق ہے۔ان لوگوں کو شبہ لگا ہے۔ آپ رحمہ اللہ سے سوال کیے گئے آپ رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کے مطابق جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ اعلم بما کانو عاملین (اللہ ان کے اعمال سے بخوبی واقف ہے)۔ لوگوں نے سمجھا امام احمد نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے منقول درج ذیل حدیث کے مطابق جواب دیا۔ خدیجہ فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا :’’وہ جہنمی ہیں میں تو چھا بغیر کسی عمل کے؟ فرمایا اللہ ان کے عملوں سے واقف ہے۔‘‘یہ حدیث اھل علم کے ہاں جھوٹ اور من گھڑت ہے ۔ اس کا کذب تو ھربڑا چھوٹا جانتا ہے امام احمد رحمہ اللہ کی بات ہی کچھ اورہے۔ آپ نے یہ جواب نہیں دیا۔ بلکہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں ۔ جیسے اونٹنی صحیح سالم بچہ جنتی ہے نہ کہ ناک کٹا۔‘‘حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا:’’ چاہو تو یہ آیت پڑھو :﴿، فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ﴾ (الروم 30) ’’اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔‘‘صحابہ نے پھرپوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’ مشرکین کے بچپن میں فوت ہونے والے بچوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ فرمایا:’’ انہوں نے جو کرنا تھا اللہ اس سے بخوبی باخبر ہے۔‘‘[1] [1] یہ حدیث ابوھریرہ سے متعدد اسناد اور الفاظ سے مطول اور مختصر منقول ہے ملاحظہ فرمائیں : بخاری کتاب الجنائز باب اذاسلم الصبی 95؍2، کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولادالمشرکین 100؍2، کتاب التفسیر سورت روم 114؍6، کتاب القدر باب اللہ اعلم بما کانوا عاملین 123؍8، مسلم 248۔48؍4 کتاب القدر باب کل مولود بولد علی الفطرۃ، ابوداؤد 316۔18؍4کتاب السنۃ باب فی دراری المشرکین، ترمذی 303؍3، کتاب القدر باب کل مولود، شرح ابن عربی علی الترمذی ۔301؍8، مسند احمد عن اسود بن سریع 435؍3طبع حلبی، صحیح ابن حبان 297۔98؍1 حدیث 132، تفسیر طبری 231؍13 مطبوع حلبی، التغلیق 231۔232، مستدرک حاکم 123؍3، بیہقی 77؍9، مجمع الزوائد ، 316؍5، استبعاب از ابن عبدالبر تحت ترجمہ اسود، شرح مسلم ازنووی 207۔8؍16

صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں سے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا:’’ اللہ اعلم بما کا عاملین۔‘‘[1] [1] بخاری 100؍2، 123؍8، مسلم 2047؍4، مسند احمد 7512,7321، مسند الطیاسی 235؍2۔ان احادیث اور اقوال پر مفصل بحث دوسری جگہ مثلاًدرء تعارض العقل والنقل میں کی گئی ہے۔دوسرا قول :قائلین قدر کے ہاں ظلم کا مفہوم۔دوسرا قول: یہ ہے کہ ظلم ممکن اور مقدور ہے۔ اللہ اپنے علم و عدل کی وجہ سے ظلم نہیں کرتا۔ وہ کسی پر دوسرے کا گناہ نہیں ڈالتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾[اسراء ۱۵]’’کسی ایک پر دوسرے کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا ھَضْمًا﴾[طہ ۱۱۲]’’اور جو شخص اچھی قسم کے اعمال کرے اور وہ مومن ہو تو وہ نہ کسی بے انصافی سے ڈرے گا اور نہ حق تلفی سے۔‘‘اس بنیاد پر کسی کو دوسرے کے گناہ کے سبب سزا دینا ظلم ہے اللہ رب العزت اس سے پاک ہے۔رہی یہ بات کہ مطیع کو اجر و ثواب دینا؛ تو یہ اس کا فضل و احسان ہے اگرچہ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ وعدے کی لازما پاسداری کرتا ہے۔ اس نے اپنے اوپر ظلم حرام کر رکھا ہے۔ اس کے اسماء و صفات اسی کا تقاضہ کرتے ہیں ۔یہ مالک کے ظلم جیسا نہیں جو کام پورا لیتا ہے مگر اجرت پوری نہ دے۔ یہ مزدوری تو مالک کا کام پورا کرنے کا معاوضہ ہوتی ہے اگر پوری نہ دے تو ظلم ہے۔اللہ نے تو اوامرونواھی اور اطاعت کی توفیق ؛ اور بھلائی کے کاموں ان کے تعاون کے ذریعے بندوں پر احسان کیا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے:’’اے میرے بندو! میں اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا اور تمہارے مابین بھی اسے حرام ٹھہرایاہے؛ میرے بندو آپس میں ظلم نہ کرو۔ تم سب گمراہ ہو مگر میں جسے ہدایت عطا کر دوں ؛ سو مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو !تم سب بھوکے ہو مگر جسے میں کھلا دوں ؛ تم سب مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو مگر میں جسے پہنا دوں ؛ مجھ سے کپڑے مانگو میں تمہیں پہناؤں گا ۔ میرے بندو !اگر تمہارے اول و آخر؛ جن وانس ؛تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار کے دل جیسے ہو جائیں ؛ اس سے میری بادشاہت میں کچھ اضافہ نہیں ہو گا۔ اے میرے بندو! تم سب جن و انس اپنے سب سے فاجر آدمی جیسے ہو جاؤ؛ میری بادشاہت میں کچھ کمی۔

واقع نہ ہو گی۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن و انس ایک میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں ؛اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں ؛ تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی نہیں ہو گی جتنی سمندر میں سوئی ڈبونے سے ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! تم مجھے ہر گز نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے؛ نہ مجھے نفع دینے کی سکت رکھتے ہو کہ مجھے نفع دے سکو۔ میرے بندو !میں تو تمہارے اعمال گن گن کے رکھتا ہوں اور ان پر تمہیں پوری پوری جزاء دیتا ہوں جس نے اچھائی پائی وہ (میری) اللہ کی تعریف کرے اور جو اس کے علاوہ کسی چیز کو پائے وہ صرف خود کو ہی ملامت کرے۔‘‘[1] [1] امام نووی شرح مسلم 133؍16 میں فرماتے ہیں المخیط سوئی کو کہتے ہیں اہل علم کہتے ہیں یہ بات سمجھانے کے لیے مثال ہے حقیقت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔معلوم ہوا ثواب پر اللہ کا شکراور تعریف کرنا اس لیے ہے کہ یہ اسی کے احسان اور پیدا کردہ اسباب سے ممکن ہوا۔ عذاب اور سزا اس کا عدل ہے ؛ جس پر بندہ خود کوہی ملامت کرے؛ جیسے کہا گیا ہے:کل نعمۃ منہ فضل وکل نقمۃ منہ عدل’’اس کی ہر نعمت اس کا فضل ہے؛ اور اس کی طرف سے ہر انتقام اس کا عدل ہے۔‘‘اس قول کے قائلین کہتے ہیں کتاب و سنت اسی قول کو بیان کرتے ہیں ۔ اللہ نے کئی مواقع پر ممکن اور مقدور بھر ظلم کی نفی کی ہے۔ مثلاً اس کی نیکیاں کم کرے یا دوسروں کی برائیاں اس پر ڈالے۔ رہا مسئلہ خلق افعال عباد اور اس میں خاص کر اھل ایمان کی اطاعت پر مدد کرنا بالاتفاق اہل سنت اور دیگر مذاھب جو تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں کے ہاں ظلم نہیں جب کہ قدریہ اسے ظلم کہتے ہیں اور تعدیل و تجویز کے متضاد اور فاسداقوال کے قائل ہیں جیسا کہ کئی مواقع پر وضاحت کر دی گئی۔