[گناہ کی سزابغیر ظلم کے؛پر تبصرہ]رافضی مصنف کا قول ہے :’’ اَوْ یعذبہ بجرمہٖ من غیر ظلم لہٗ ‘‘(یا اسے جرم کی وجہ سے عذاب دے بغیر ظلم کے) یہ بات مسلمانوں میں متفقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نا فرمانوں کو عذاب دیکر ظلم نہیں کرتا۔ اختلاف اس بات میں ہے ظلم کیا ہے؟ ایک گروہ کہتا ہے: اس سے ظلم ممتنع ہے ۔دوسرا کہتا ہے : اس نے اس جگہ جرم کی سزا کو رکھا ہے۔ اور ظلم یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کی جگہ پر نہ رکھا جائے۔ عرب کہتے ہیں : مَن اشبہ اباً فما ظلم (جس نے باپ سے مشابہت کی اس نے کوئی ظلم نہیں کیا)۔اور یہ بات معلوم ہے کہ بندوں میں سے جب کوئی کسی کے ظلم کی وجہ سے اس پر ظلم کرتا ہے تو یہ عدل ہوتا ہے نہ کہ ظلم۔اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ نے اس کے فعل کو پیدا کیا ہے اور وہ اس کی قضا و قدر کے تحت ہے جب مخلوق، مخلوق کو ظلم پر عذاب دیتے ہوئے ظالم نہیں ۔ اگر وہ یہ جان لے کہ یہ اس کے لیے مقدر میں رکھ دیا گیا ہے تو خالق ظالم نہیں اگرچہ فعل مقدر ہی کیوں نہ تھا۔ اس کے ساتھ کچھ افراد اس کی حکمت کو اچھا خیال کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔سو بیشک اگر لوگوں میں سے کوئی دیکھے کہ اس کے غلام باہم زنا کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں (اور وہ ان کو روکنے پر قادر بھی ہے) لیکن روکا نہیں ؛ تو یہ اس کے لیے مذموم اور ملامت وعقاب کا باعث ہے۔ اللہ رب العزت دیکھتا ہے کہ اس کے کچھ غلام ظلم اور فحاشی کا ارتکاب کرتے ہیں اور وہ ان کواس سے روکنے پر قادر ہے لیکن وہ ان کو روکتا نہیں ۔تو باری تعالیٰ تو مذمت سے پاک ہے چہ جائے کہ عقاب کا مستحق ہو۔ اکثر علماء کے قول کے مطابق تو اس میں علم و حکمت ہے۔ یا قائلین قدر میں سے ارادہ و تعلیل کی نفی کا قول اختیار کرنے والوں کے ہاں محض مشیت و ارادہ ہے۔ جب اس کی طرف سے اچھے افعال ہوں مگر انسان اسے اچھا نہ سمجھتا ہو تو مخلوق پر قیاس کرنا باطل ٹھہرا۔ اور ظالم کی سزا جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں بطریق اولی باطل ٹھہری۔ اسے نقائص سے منزہ قرار دینا اس کی پاکی میں سب سے بہتر ہے اس کے لیے ایسی تعریف ہے جس کا کوئی دوسرا مستحق نہیں ۔