Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حواس سے اللہ تعالی کے ادراک کا عقیدہ؛ اور اس پر تبصرہ

  امام ابنِ تیمیہؒ

[حواس سے اللہ تعالیٰ کے ادراک کا عقیدہ؛ اور اس پر تبصرہ ]رافضی کا کہنا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نہ آنکھ سے نظر آتا ہے اور نہ اسے حواس سے جانا جا سکتا ہے۔اللہ کا فرمان ہے:﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ﴾[انعام 103]’’اسے آنکھیں نہیں پا سکتی اور وہ آنکھوں کا ادراک کر لیتا ہے۔‘‘کیونکہ وہ کسی جھت یا سمت میں نہیں ہے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی][جواب ]:.... اوّل: اس مسئلہ میں امامیہ کے مختلف گروہوں میں ایسے ہی اختلاف ہے جیسے دوسرے فرقوں کے ساتھ اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔پس جھمیہ، معتزلہ ؛خوارج اور امامیہ کے علاوہ دوسرے حضرات کی ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے۔ امامیہ کے اس میں دو قول ہیں ۔ ان کے جمہور قدماء رؤیت کو ثابت کرتے ہیں جبکہ جمہور متأخرین اس کی نفی کرتے ہیں ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ ان میں اکثر تجسم کے قائل ہیں ۔اشعری رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ تمام مجسمہ سوائے چند کے؛ اثبات رؤیت کے قائل ہیں اور کبھی وہ بھی رؤیت کو ثابت کرتے ہیں جو تجسیم کے قائل نہیں ۔میں کہتا ہوں : ’’ صحابہ، تابعین اور معروف ائمہ دین مثلاً مالک ثوری، لیث بن سعد، شافعی، احمد، اسحاق، ابوحنیفہ، ابویوسف رحمہم اللہ وغیرہ اور دیگر اہل سنت اور اہل الحدیث اور کئی جماعتیں ج, اہل سنت والجماعت کی طرف منسوب کی جاتی ہیں مثلاً کلابیہ، اشعریہ، سالمیہ وغیرہ سب کے سب اثبات رؤیت باری تعالیٰ کے قائل ہیں ۔ اھل علم محدثین کے ہاں اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث موجود ہیں ۔اسی طرح صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ سے متواتر آثار منقول ہیں ۔امام احمد رحمہ اللہ نے ائمہ سلف صحابہ کرام اور تابعین محسنین رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے؛ ان سب کا اتفاق ہے کہ:’’ اللہ تعالیٰ کوآخرت میں دنیاوی آنکھ سے دیکھاجا ئے گا۔ یہ مسئلہ بھی ان کے مابین اتفاقی ہے اس دنیا میں ان آنکھوں سے کوئی بھی رب تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں صرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس معاملہ میں خاص اختلاف ہے۔بعض نے آپ کے لیے دنیوی آنکھ سے رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے اور بعض نے نفی کی ہے۔ فریقین کے اقوال و دلائل کو دوسری جگہ میں نے مفصل بیان کر دیا ہے۔ یہاں مقصود سلف کا اس بات پر اتفاق نقل کرنا ہے کہ اس دنیا میں دنیوی آنکھ سے رؤیت باری تعالیٰ نا ممکن ہے؛ البتہ آخرت میں یہ دیدار ہونا ثابت ہے۔ ہاں اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اختلاف ہے۔منکرین کی یہ دلیل کہ : ﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ﴾ [انعام 103] ’’اسے آنکھیں نہیں پا سکتی ۔‘‘[تو عرض ہے کہ] یہ آیت ان کے خلاف حجت ہے ؛ان کے حق میں دلیل نہیں بن سکتی۔کیونکہ ادراک سے یا تو مطلق رؤیت مراد ہے ؛ یا رؤیت مقید۔ پہلا قول باطل ہے کیونکہ ہر دیکھنے والے کے بارے میں یہنہیں کہا جاسکتا کہ اس نے ادراک کر لیا ہے؛ جیسا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے احاطہ کر لیا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس بارے پوچھا گیا تو فرمایا :’’کیا تو نے آسمان نہیں دیکھا؟ ۔سائل نے کہا:’’ جی دیکھا ہے۔‘‘ فرمایا کیا سارے کا سارا دیکھ لیا؟ عرض کیا : نہیں ۔

[ایسے ہی ]جس نے لشکر، پہاڑ، باغ یا شہر کا ایک کنارہ یا جانب دیکھ لی؛ اسی کے لیے یہ نہیں کہا جا سکتاکہ اس نے ادراک کر لیا۔ ادراک کا لفظ تب بولا جاتا ہے کہ جب دیکھ کر احاطہ کر لیا ہو۔ ہم یہاں پر اس کی تفصیل میں نہیں جارہے۔ہم نے صرف منع کی سند کی وضاحت کے لیے یہ سب بیان کیا ہے۔ بلکہ اس آیت سے استدلال کرنے والے کو لغت عرب کی رو سے بیان کرنا چاہیے کہ ادراک رؤیت کے مترادف ہے۔اوریہ کہ لغت میں دیکھنے والے کے لیے ادراک کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کی کوئی راہ نہیں نکلتی۔ جبکہ لفظ رؤیت اور ادراک میں عموم و خصوص یا اشتراک لفظی پایا جاتا ہے۔ بسا اوقات رؤیت بلا ادراک بھی ہوتی ہے اور بسااوقات ادراک بلا رؤیت واقع ہوتی ہے۔ ادراک کا لفظ علم اور ادراک ِقدرت کے لیے استعمال ہوتا ہے بسااوقات قدرت کے لحاظ سے کوئی چیز پائی جاتی ہے اگرچہ دیکھی نہ بھی گئی ہو مثلاً اندھا ایسے آدمی کو پالے جو اس سے بھاگ گیا تھا فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿فَلَمَّا تَرَائَی الْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ (61) قَالَ کَلَّا اِِنَّ مَعِی رَبِّی سَیَہْدِیْنِی ﴾[شعراء 61۔62] ’’پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بے شک ہم یقیناً پکڑے گئے۔کہا ہرگز نہیں ! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔‘‘دیکھنے کے باوجود موسی علیہ السلام نے ادراک کی نفی کی۔ معلوم ہوا بسااوقات رؤیت بلاادراک ہوتی ہے۔ یہاں ادراک سے مراد ادراک قدرت ہے یعنی ہمارا گھیراؤ اور محاصرہ کر لیا گیا ہے ۔پس جب اس ادراک کی نفی ہو تو آنکھ کے احاطہ کرنے کی نفی ہوئی۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف بیان کی ہے۔اوریہ تو معلوم شدہ ہے کسی چیز کا وجود رکھنے کے باوجود اس کا نظرنہ آنا یہ صفت مدح نہیں ؛ کیونکہ محض نفی مدح نہیں ہوتی؛ اگروہ کسی ثابت امر کو شامل نہ ہو۔ معدوم تو دکھائی ہی نہیں دیتا اور اس کی مدح بھی نہیں کی جاتی۔ معلوم ہوا فقط نفی رؤیت میں کوئی مدح نہیں ۔
یہ طے شدہ اصول ہے کہ محضِ عدم جو ثبوت کو مستلزم نہ ہو؛ اس میں کوئی مدح اور کمال نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ مدح کی ہی نہیں نہ ہی اپنایوں تعارف کروایا ہے اس میں تو ایسی نفی ہے جو ثبوت کو متضمن ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ:﴿تأخذہ سنۃ ولا نوم﴾’’، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند۔‘‘۔اور ارشاد فرمایا:﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾’’کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔‘‘اور ارشاد فرمایا: ﴿ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ﴾’’ اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ﴿وَ لَا یَؤُْدُہٗ حِفْظُھُمَا وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الَعَظِیْمُ﴾ (البقرۃ۲۵۵)’’ اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔‘‘ اورارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ ﴾(سباء 3)’’زمین و آسمان میں ذرہ برابربھی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ۔‘‘نیز اشاد فرمایا: ﴿ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوبٍ﴾ (ق 38) ’’ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔‘‘اسی طرح دیگر سلبی صفات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیان کی ہیں ؛ وہ صفات کمال کے ثبوت کو متضمن ہیں ۔ مثلاً؛ اس کی حیات کا کمال؛ اس کی قیومیت؛ ملک؛ اس کی قدرت ؛اس کے علم و ہدایت اور اس ربوبیت و الوہیت میں اس کے انفراد کا کمال ؛ اور اس طرح کی دیگر صفات ۔ جس صفت کا فقط عدم بیان کیا جائے وہ فقط معدوم ہی ہوتا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ عدم محض کے بارے میں اگر کہا جائے کہ:’’ اسے دیکھا جائے گا‘‘تو اس سے محض نفی رؤیت ہی معلوم ہو گی۔ عدم محض کے بارے لا یدرک نہیں کہا جائے گا۔اور اللہ تعالیٰ کے لیے عدم ادراک کا لفظ اس کی عظمت کی وجہ سے کہا گیا ہے نہ کہ عدم ثبوت کی وجہ سے۔جب نفی ادراک کی ہے تو باری تعالیٰ کی رؤیت میں اس کا احاطہ کرنا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے اس کے علم کا احاطہ ناممکن ہے۔ علم ورؤیت کے احاطہ کی نفی سے علم و رؤیت کی نفی نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے دیکھا جا سکتا ہے مگر احاطہ نہیں کیا جا سکتا؛ جیسے اس کا علم تو ہے مگر اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ احاطہ کی نفی سے تخصیص تقاضہ کرتی ہے کہ مطلقاً رؤیت کی نفی نہیں ۔ اکثر علماء سلف کا یہی جواب ہے۔ یہ مفہوم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی اس معنی میں کلام منقول ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرفوع حدیث بھی منقول ہے[1] [1] درمنشوراز سیوطی 37؍3 (مطبوعہ ابران 1377) میں فرمان باری تعالیٰ لاتدرکہ الابصار کے تحت ہے۔ ابن ابی حاتم، عقیلی، ابن عدی، ابوالشیخ، ابن مردویہ نے ضعیف سند سے ابو سعید خدری سے منقول ہے نبی کریم سے اس آیت کے بارے پوچھا گیا تو فرمایا اگر جن و انس، شیطان، فرشتے اپنی تخلیق سے لے کر قیامت تک صف در صف کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کا کبھی احاطہ نہیں کر سکتے۔ امام ذھبی کہتے ہیں یہ حدیث منکر ہے۔ ترمذی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے روایت کیا ہے، حاکم نے صحیح کہا ہے ابن مردویہ اور اللالکائی نے ’’السنۃ‘‘ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے التعلیق علی قولہ، ولانہ لیس فی جھۃ۔ ۔جس کی روشنی میں آیت کی تخصیص یا ظاہری معنی سے خروج کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی یہ کہنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم اسے دنیا میں نہیں دیکھ سکتے یا یہ کہیں کہ اسے آنکھیں دیکھیں گی نہیں دکھائی جائیں گی یا سارے کا ادراک نہیں کرسکیں گے ؛ بعض کا ہو گا؛ وغیرہ ان سب اقوال میں تکلف ہے۔یہاں اتنا کہنا کافی سمجھتے ہیں :آیت میں اس کا احتمال ہے اس میں نفی رؤیت کی دلیل نہیں ۔ اس سے رؤیت پر استدلال کرنا باطل استدلال ہے۔ جب ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ دلالت آیت کی نفی رؤیت کی نفی کے ساتھ احاطہ و ادراک کی نفی کرتی ہے؛ تو ہم نے خود ہی یہ دلیل پیش کی کہ لغت میں رؤیت ادراک کا مترادف نہیں ، بلکہ ادراک رؤیت سے خاص ہے۔ ہم نے لغت، مفسرین اور دیگر عقلی و سمعی دلائل سے اپنی بات کو ثابت کر دیا۔