استواء و علو میں قائلین رؤیت کا اختلاف
امام ابنِ تیمیہؒاستواء و علو میں قائلین رؤیت کا اختلاف٭ جب معاملہ ایسے ہی ہے تو اس کا کسی جھت میں نہ ہونا عدم رؤیت کی دلیل ہے۔ یہ قائلین رؤیت کے مابین اختلاف کامقام ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث نبوی ہے:((إنکم ترون ربکم کما ترون الشمس والقمر لا تضامون فی رؤیتہ))۔’’تم اپنے رب کو یوں دیکھو گے جیسے سورج اور چاند کو تمہیں اس کے دیکھنے میں مشقت نہیں ہو گی۔‘‘یہ حدیث متفق علیہ حدیث ہے؛ اس کے کئی طرق ہیں یہ مستفیض بلکہ محدثین کے ہاں متواتر ہے؛[1] [1] یہ حدیث کئی صحابہ سے متعدد وجوہ و الفاظ متقاربہ حضرت علی، جابر، ابوھریرہسے مروی ہے۔ بخاری 6؍6، کتاب التفسیر، باب قولہ أن اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ 9؍127، کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ وجوہ یومئیذ ناضرہ إلی ربھا ناظرۃ، مسلم 164؍1کتاب الایمان باب معرفۃ طریق الرؤیۃ) سنن ابوداؤد 322۔23؍4 ؛ کتاب السنہ باب فی الرؤیہ، ترمذی 92۔93؍4، کتاب صفۃ الجنۃ باب ماجاء فی رؤیۃ الرب تبارک و تعالیٰ، ابن ماجہ 63۔ ، المقدمہ باب فیما انکرت الجھمیہ۔ مسند احمد ۔7733 دیگر کئی مواقع پر بھی ہے متعاح کنوزالسز۔ درء تعارض العقل والنقل 29۔31؍7۔ اور اس کی صحت متفقہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسے کثرت بھی حاصل ہے محدثین نے اس کے طرق جمع کیے ہیں مثلاً ابو الحسن دارقطنی، ابونعیم اصفہانی، ابوبکر آجری وغیرہ اصحاب صحیح کا اسے متعدد وجوہ سے نقل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بات قطعی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے۔ایک جماعت کے مطابق وہ دیکھا جائے گا مگر اس کی جھت نہیں نہ دیکھنے والے کے آگے نہ پیچھے ؛نہ دائیں نہ بائیں ؛ نہ اوپر نہ نیچے، متأخر اشاعرہ کے ہاں یہ مشہور قول ہے اس کی بنیاد باری تعالیٰ کا عرش پر ہونے میں اختلاف کا وقوع ہے۔اشعری اور اس کے قدماء اصحاب رحمہم اللہ کے بقول وہ بذات خود عرش پر موجود ہے؛ لیکن اس کے باوجود وہ جسم نہیں ۔ عبداللہ بن سعید بن کلاب، حارث محانبی، ابوالعباس قلانسی کا بھی یہی قول ہے بلکہ انہوں نے اشعری سے بھی زیادہ کامل طریقے سے اس کو ثابت کیا ہے۔ان کے ہاں علو، صفات عقلیہ میں سے ہے اور اشاعرہ کے ہاں صفات سمعیہ میں سے ہے۔ اور اشعری نے اپنے فہم کے مطابق اہل سنت والحدیث سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ ابو محمد بن کلاب یہ اشعری کا استاد اور مقتداء ہے اس نے اور اس کے دیگر اصحاب جیسے حارث محاسبی، ابوالعباس قلانسی، ابو سلیمان و مثقی اورابوحاتم بستی [2] [2] منہاج کے بعض نسخوں میں بریکٹوں میں موجود عبارت ہے۔ اشعری، نزول ، انحول بادلوں کے سائے میں آنے، ید، ( اور بہت سے لوگ کہتے ہیں علام علو کے تباین سے اسے متصف کرنا عقلی صفات ہیں جیسے علم و قدرت، استواء علی العرش خبری صفات میں سے ہے یہ قول اکثر اصحاب ائمہ اربعہ اور اکثر اھل الحدیث کا ہے۔ قاضی ابویعلی کا دوسرا قول بھی یہی ہے۔ ابوالحسن بن زاغونی اور بہت سے کرامیہ اہل کلام اور دیگر حضرات بھی اسی کے قائل ہیں ۔ اشعری سے مشہوریہ ہے کہ یہ دونوں خبری صفات ہیں ۔ اکثر ائمہ اربعہ کے متبعین، قاضی ابویعلی کا پہلا قول اور تمیمیین وغیرہ کے اصحاب رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔بہت سے متأخر اشاعرہ نے اللہ تعالیٰ کے عرش پر یا آسمانوں میں ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ حضرات صفات خبر کا انکار کرتے ہیں جسے ابوالمعالی ان کے متبعین۔ اشعری اور ان کے ائمہ صفات خبریہ کا اثبات کرتے ہیں ۔[1] [1] اصبع، عین وجہ، قدم، جنب وغیرہ کو مانتے ہیں جو احادیث میں آئے ہیں ۔ میں نے ان کی کتاب’ اِبانہ‘میں دیکھا ہے معلوم ہوتا ہے یہ امام احمد کے متبعین میں سے ہے۔ اس کے عقائد انہی جیسے تھے، متاخرین نے اس کے مسلک کو بدل دیا حتی کہ لوگ اسے ان کا مسلک سمجھ بیٹھے۔ ابوحاتم بستی محمد بن حباز المحدث، متوفی 354، اسے اصحاب اشعری کے ضمن میں نہیں بیان کیا گیا اسی طرح ابوسلیمان دمشقی کا بھی۔ ہم نے یہ اختلاف نقل کیا ہے کہ قلانسی مقدم ہے یا اشعری کا ہم عصر ہے اس طرح خاص کر مجاسی یہ ابن کلاب کا معاصر تھا اس کی صحبت کی وجہ سے احمد بن حنبل کو چھوڑا یہ سب اصحاب اشعری ہیں بسا اوقات ان سے مراد اصحاب ابن کلاب ہوتے ہیں ۔ لیکن یاد رہے ابن حبان اس کی وفات کے تقریباً تین سال بعد پیدا ہوئے۔ انہوں نے دیگر صفات کی طرح اس کی بھی نفی کی ہے کیونکہ اشعری کے بقول یہ صفات خبریہ ہیں ۔ جبکہ ان کے ہاں یہ صفت عقلی ہے۔ یہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کو دیکھا جائے گا مگر وہ جھت میں نہیں ۔قائلین رؤیت میں سے جمہور اور منکرین رؤیت کہتے ہیں : ان لوگوں کے قول کا فاسد ہونا عقلی لحاظ سے معلوم شدہہے؛ جیسا کہ مسئلہ کلام میں ان کا قول فاسد ہے۔ اسی وجہ سے ابوعبداللہ رازی نے ذکر کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی نے بھی رؤیت اور کلام میں ان کے قول اختیار نہیں کیا۔