Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور مسئلہ رؤیت کا بیان :

  امام ابنِ تیمیہؒ

ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور مسئلہ رؤیت کا بیان :٭ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مسئلہ رؤیت کو دو طرح سے بیان کرتے ہیں :طریقہ اول: ہم اس میں واضح کریں گے کہ قائلین رؤیت میں سے جنہوں نے ان پر رد کیا ہے مثلاً اشعری وغیرہ نے تو یہ رد ان کے قول نفی کرنے والوں سے زیادہ درست اور صحیح ہے۔طریقہ دوم: اس میں ہم کسی ایک کا دفاع کیے بغیر حق کو مطلق طور پر واضح کریں گے۔پہلے طریقے میں یہ واضح کیا جائے گا کہ اثبات رؤیت کے قائلین اس گروہ میں منکرین دیدار کی نسبت غلطی کم اور درستی زیادہ ہے ۔ ہم منکرین رؤیت سے کہتے ہیں : ’’ تمہاری خرابی اس مسئلہ میں اشعرین اور ان کے متبعین سے زیادہ ہے۔ ان کے حق ہونے کو ہم عقلاً نقلاً ثابت کریں گے؛ اگرچہ ان کے قول میں بھی خطا ہے لیکن تمہارے قول میں غلطی زیادہ بڑی اور عقلاً ونقلاً بدترین ہے۔٭ جب تم کہتے ہو: ’’جب وہ رؤیت کو بلاجھت ثابت کرتے ہیں ؛ تو یہ عقل کے خلاف ہے۔‘‘٭ تو تم سے کہا جائے گاکہ: ’’ تمہارا قول دوحال سے خالی نہیں ۔ اس بات میں تم عقل کو حاکم بناؤ گے یا نہیں ؟ ۔ اگر حاکم نہ بناؤ تو تمہارا قول باطل۔ اگر تم عقل کو حاکم مانو؛ تو جس نے موجود اور قائم بالنفس کی رؤیت کا قول اختیار کیا یہ عقل کے زیادہ قریب ہے؛ برخلاف اس کے جو قائم بالذات اور موجود کی رؤیت کی نفی کرے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رؤیت کے ثبوت میں امور عدمیہ کی شرط لگانا درست نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں امور وجودیہ کی شرط ہونی چاہیے۔ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ ہر موجود دیکھاجاسکتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کا دعوی ہے؛ اس دعوی کی برائی انہی پر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ابن کلاب اور ائمہ اربعہ وغیرہ میں سے اس کے متبعین کہتے ہیں :’’ ہر قائم بالذات کو دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘ میرے خیال میں کرامیہ وغیرہ نے بھی یوں ہی کہا ہے۔ اصحاب امام احمد رحمہ اللہ سے ابن زاغونی رحمہ اللہ نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔جبکہ اشعری کا کہنا ہے کہ: ہر موجود کا دیکھا جانا جائز ہے۔اس عقیدہ پر ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے اصحاب کی ایک جماعت نے اسی کی موافقت کی ہے؛ جیسا کہ قاضی ابویعلی وغیرہ۔ پھر اس نے اس قیاس کورد کیا ہے کہ: ہر موجود کا تعلق ادراکات خمسہ سمع و بصر، سونگھنے، چکھنے، اورمحسوس کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کے اصحاب کی ایک جماعت نے اس کی موافقت کی ہے جیسے قاضی ابوبکر، ابوالمعالی؛ رازی اور قاضی ابویعلی وغیرہ۔ ان کے علاوہ دیگر حضرات نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:’’ ہم اس مسئلہ میں سونگھنے ، چکھنے اور محسوس کرنے کو ثابت نہیں کرتے؛اور باری تعالیٰ کے ساتھ ان کے تعلق کی بھی نفی کی ہے۔پہلے گروہ کے علماء نے حواس خمسہ کے تعلق کو باری تعالیٰ سے جائز قرار دیا ہے؛ جبکہ دوسرے گروہ کے علماء[ اھل الحدیث] اور دیگر حضرات نے صرف ان امور کو ثابت مانا ہے جن کے بارے میں دلائل وارد ہوئے ہیں ؛ جیسے : لمس، اس میں سونگھنا اور ذائقہ سے معلوم کرنا شامل نہیں ۔اسی طرح معتزلہ میں سے بعض حضرات جیسے بصریین نے ادراک کی جنس کو ثابت کیا ہے۔اور ان میں سے بعض نے انکار کیا ہے ؛ جیسے بغدادییں ۔ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ دیدار کے قائلین حضرات کے کلام میں اگرچہ کچھ خطاواقع ہوئی ہے مگر عقل و نقل کے لحاظ سے منکرین کے کلام سے زیادہ درست اور فہم کے زیادہ قریب ہے۔ہم کہتے ہیں کچھ اشیاء نظر آتی ہیں کچھ نظر نہیں آتی ۔ان کے مابین فرق امور عدمیہ کو ٹھہرانا ناجائز ہے کیونکہ رؤیت امر وجودی ہے ؛[دیکھی جانے والی چیز کا وجود ہونا چاہیے نہ کہ عدم] جو معدوم سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس میں شرط فقط امروجودی ہے نہ کہ عدمی۔ ہر وہ چیز جس وجود کی شرط ہو؛ عدم سے ہٹ کر اس کے جود اکمل کے ساتھ ہونا انقص کے ساتھ ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔ ہر وہ چیز جس کا وجود اکمل ہے وہ نظر آنے کا زیادہ حق رکھتی ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو دیکھی نہیں جا سکتی بہت ہی کمزور وجود رکھتی ہے؛ اگر اس کا دیکھا جانا ممکن ہو تو اجسام غلیظہ (موٹے ) ہوا کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ اندھیرے کی نسبت روشنی رؤیت کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ کیونکہ نور وجود کا زیادہ حق رکھتا ہے اور اندھیرا عدم کا زیادہ حق رکھتا ہے۔پس موجود واجب الوجود، موجودات میں سے وجود کا زیادہ حق رکھتا ہے؛ اور اشیاء میں سے عدم سے سب سے زیادہ دور ہے۔اور یہ زیادہ حقدار ہے کہ دیکھا جائے۔مگر ہم اپنی آنکھوں کی کمزوری کی وجہ سے اسے دیکھنے سے عاجز ہیں ناکہ رؤیت کرنا ممکن ہونے کی وجہ سے ۔ جیسا کہ سورج کی روشنی دیکھے جانے کا سب سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ذات باری تعالیٰ کے متعلق ارشاد فرمایا:

’’تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح سورج اور چاند کو دیکھتے ہو۔‘‘آپ نے رؤیت کو رؤیت سے تشبیہ دی ہے اگرچہ دونوں دیکھنے میں برابر نہیں ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ آنکھ اپنی کمزوری کی وجہ سے سورج کی روشنی کو دیکھنے سے عاجز ہے نہ کہ اس روشنی کا دیکھنا ناممکن ہونے کی وجہ سے ۔پس جب آخرت میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو کامل کرے گا اور انہیں وہ قوت دے گا حتی کہ اس ذات کی رؤیت کی طاقت مل جائے گی۔ اسی وجہ سے جب اللہ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش آئی تو فرمایا:﴿فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (اعراف 143)’’ پھر جب اسے ہوش آیا تو اس نے کہا تو پاک ہے، میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں ۔‘‘’’ اول المؤمنین ‘‘ اس لیے کہا کہ زندہ اسے نہیں دیکھ سکتا حتی کہ وفات پاجائے۔ اور تری جب تک خشک نہ ہو جائے؛ مخلوق میں یہ کمزوری موجود ہے۔ نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا دیکھنا محال ہے بلکہ مانع خود انسان ہے۔ اس ممانعتکی وجہ اس کے وجود میں نقص ہے۔ حتی کہ معاملہ معدوم تک پہنچے جس کو دیکھنے والے کے باہر دیکھنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اسی وجہ سے انسان فرشتے کو دیکھنے سے عاجز ہیں ہاں جس کو اللہ تعالیٰ قوت دے دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت دی ۔فرمان باری تعالیٰ ہے :﴿وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ O وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ﴾ [الانعام۸۔۹]’’اور انھوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا؟ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو ضرور کام تمام کر دیا جاتا، پھر انھیں مہلت نہ دی جاتی۔اور اگر ہم اسے فرشتہ بناتے تو یقیناً اسے آدمی بناتے اور ان پر وہی شبہ ڈالتے جو وہ شبہ ڈال رہے ہیں ۔‘‘ کئی سلف نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے:’’انسان فرشتے کو اصلی صورت میں دیکھنے کی قوت ہی نہیں رکھتے۔ اگرہم ان کی طرف فرشتہ نازل کرتے ؛ تو اسے بھی بشر کی شکل وصورت میں نازل کرتے۔ اور اس صورت میں پھر یہ شبہ ہی رہتا کہ یہ فرشتہ ہے یا انسان۔ یہ فرشتے کے مبعوث ہونے کے باوجود فائدہ نہ اٹھاتے۔ ہم نے ان میں انہی کی جنس میں سے رسول بھیج دیا جسے ان کے لیے دیکھنا اور اس سے سیکھنا آسان ہو جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مخلوق پر بڑا فضل اور رحمت ہے۔ اسی لیے ارشاد فرمایا :﴿وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ﴾(تکویر 22)’’اور تمہارا ساتھی کوئی مجنوں نہیں ہے۔‘‘نیزارشاد فرمایا:﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾ (نجم 2) ’’تمہارا ساتھی نہ گمرا ہوا نہ بھٹکا ہے۔‘‘نیزارشاد فرمایا:﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ﴾۔(توبہ 123) ’’یقیناً تمہارے پاس رسول آیا جو تم ہی میں سے ہے۔‘‘نیزارشاد فرمایا:﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ﴾(ابرہیم 4) ’’ ہم نے ہر نبی اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے لیے وضاحت کرے۔‘‘اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں ۔اگر آپ کہیں :’’ وہ کہتے ہیں کہ: ’’وہ بلاجھت دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ تو ضد اور عناد ہے۔تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: انہوں نے یہ بات ایک ایسی اصل کی بناء پر کہی ہے جو آپ اور ان کے درمیان متفقہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی جھت میں نہیں ۔ پھر جب کلام، اشعری اس کے اصحاب ائمہ اور ان کے ہم خیال (اھل الحدیث) اصحاب احمد، تمیمیین اور ابن عقیل وغیرہ کا بھی ہے؛ تو کہا جائے گاکہ : یہ کہتے ہیں :’’ وہ عالم کے اوپر بالذات ہے وہ نہ تو جسم ہے اور نہ ہی متحیز۔‘‘اگر آپ کہیں :’’ یہ قول عقل کے خلاف ہے۔‘‘کیونکہ جب وہ عالم کے اوپر ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کی ایک جانب دوسری سے ممتاز ہو (جب ایک جانب دوسری سے ممتاز ہوئی) تو جسم ہوا۔ جب وہ عرش پر قائم بالذات موجود کو ثابت کرتے ہیں ؛تو وہ چھونے اور برابری سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی اس کی جانب دوسری سے ممتاز ہوتی ہے یہ تو عناد اور محض ِمخالفت ہی ہے۔‘‘رؤیت کی نفی کرنے والوں سے پوچھا جائے تم اور تمہارے ہمنوا قائلین رؤیت اس بات پر متفق ہو کہ وہ نہ عالم میں داخل ہے نہ عالم سے خارج؛ اور نہ ہی عالم سے جدا ہے اورنہ ہی عالم میں جگہ پکڑے ہوئے ہے۔‘‘