Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عقل اور وہم سے متعلق گفتگو:

  امام ابنِ تیمیہؒ

[عقل اور وہم سے متعلق گفتگو:]٭ جب آپ سے یہ کہا جائے کہ : ’’اس بات کا تو علم ضروری سے عقل کے خلاف ہونا معلوم ہے۔‘‘ کیونکہ عقل جب دوایسی چیزوں کے وجود کو ثابت نہیں کرتی مگر اس صورت میں کہ ان میں سے ایک یا دوسرے سے جدا ہو گی؛ یا اس میں شامل[داخل] ہو گی۔ جیسا کہ عقل جدا چیزوں اور اعراض قائمہ کو ثابت کرتی ہے۔رہا قائم بالذات موجود کا اثبات جس کی طرف اشارہ نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی وہ عالم کے داخل میں ہوتا ہے اور نہ ہی خارج میں ؛ تو عقل اس کے باطل اور ناممکن ہونے کو لازم ٹھہراتی ہے۔٭ آپ نے کہا:’’ یہ وھم کے حکم نفی ہے نہ کہ عقل کے حکم کی۔‘‘تو آپ نے فطرت میں دو حاکم بنا دئیے۔ ایک وھم اور دوسری عقل۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جسے وھم سے موسوم کرتے ہیں ؛اور اسے وہ قوت بھی قرار دیتے ہیں جو غیر محسوس جزئی کے معانی کو اعیان محسوسہ میں پا لیتی ہے مثلاً دشمنی اور دوستی۔ جیسے بھیڑ ایک معنی کا اعتبار سے بھیڑئیے میں ،اور ایک معنی کے اعتبار سے مینڈھے میں پائی جاتی ہے۔ وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہوتی ہے اور دوسرے سے بھاگتی ہے۔٭ اگر وھم سے مراد امور معینہ ہیں ؛تو یہ قضایا جن کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں یہ عمومی کلیہ ہے۔عمومی قضایا کلیہ عقل کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ حس کے لیے اور نہ ہی اس وھم کے لیے جو حسّ کے تابع ہو۔ حس تو صرف امور معینہ میں پائی جاتی ہے۔آپ کے ہاں وھم بھی اسی طرح ہے۔ کئی مقامات پر اس پر تفصیلی بات ہو چکی ہے۔ لیکن یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اِن کا قول اُن کے قول سے زیادہ قریب ہے۔٭ پس کہا جائے گاکہ: ’’ جب ہم عقل پر موجود کا وجود پیش کرتے ہیں جو نہ عالم کے داخل اور خارج میں ؛ نہ مباین اورنہ ملا ہوا۔ عالم میں موجود مبائین کا وجود اس کے اوپر ہے وہ جسم نہیں ۔ عقل پہلے کی نسبت دوسرے کو زیادہ قبول کرتی ہے۔ یہ ہر ایک کی فطرت میں موجودہے۔ دوسرے کا قبول فطرت کے زیادہ قریب ہے؛ اور پہلے سے نفور اس کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ اوراگرفطرت سے بعید تر قول میں آپ کی بات کی تصدیق واجب ہوتی ہے؛ تو اس کی نسبت ان لوگوں کے قول میں ان کی تصدیق زیادہ اولی ہے۔ پس درایں صورت آپ اپنے قول کے حق میں اور ان کے قول کے بطلان پر جو بھی دلیل پیش کرو گے؛وہ تمہارے قول کے بطلان پر اس سے زیادہ بڑھ کر دلالت کرتی ہوگی۔٭ پس جب آپ کہو گے کہ: ’’عالم کے اوپر ایسے موجود کا وجود تصور نہیں کیا جاسکتا جو جسم نہ ہو۔‘‘٭ تو تم سے کہا جائے گا کہ: ’’ بالکل ویسے ہی جیسے اس موجود کا وجود تصور نہیں کیا جاسکتا جو نہ عالم کے داخل میں ہو اور نہ ہی خارج میں ۔‘‘ ٭ اوراگر آپ کہیں : ’’اس کی نفی کرنا وہم کے حکم میں سے ہے۔‘‘٭ تو آپ سے کہا جائے گاکہ: ’’ اگر اس کی نفی وہم کے حکم میں سے ہے جو کہ غیر مقبول ہے؛ تو آپ کی نفی بھی وہم کے حکم میں سے ہے؛ وہ بطریق اولیٰ غیر مقبول ہے۔‘‘٭ اورراگر آپ کہیں : ’’ وہم کا حکم لگانا باطل ہے؛ یعنی غیر محسوس امور میں وہ حکم لگایا جائے جو محسوس امور میں لگایا جاتا ہے۔‘‘٭ تو آپ کو کئی جواب دیے جاسکتے ہیں ۔ اول: آپ سے کہا جائے گاکہ: ’’ اس طرح ان لوگوں کا قول باطل ٹھہرانے سے تمہاری دلیل بھی باطل ٹھہرتی ہے۔چونکہ آپ کا کہنا کہ: ’’ایسے موجود کا وجود ممتنع ہے جو عالم سے بالا ہو؛ اور جسم نہ ہو؛ یہ ان لوگوں کے قول سے زیادہ قوی نہیں ہے جو کہتے ہیں : ’’ ایسے موجود کا وجود ممتنع ہے جو اپنی ذات کے ساتھ قائم ہو؛ اور اس کی طرف اشارہ نہ کیا جاسکتا ہو ۔ اور ان دوموجود چیزوں کا وجود بھی ممتنع ہے جو نہ ہی ایک دوسرے سے جدا ہوں ؛ اور نہ ہی ایک دوسرے میں داخل ہو ں ۔ اور ایسے موجود کا وجود بھی ممتنع ہے جو نہ ہی عالم کے داخل میں ہو اور نہ ہی خارج میں ۔‘‘ اور اگرآپ اس مضبوط ترین قول کو صرف اس لیے قبول نہیں کرتے کہ یہ باطل وہم کا حکم ہے؛تو تمہارے مخالفین کی بہ نسبت تمہارے قول کا فساد اور خرابی زیادہ واضح ہے۔اور اگر ان لوگوں کاقول مردود ہے؛ تو تمہارا قول رد کا زیادہ حق دار ہے۔ اوراگر آپ کا قول مقبول ہے ؛ تو ان کاقول قبولیت کا زیادہ حق دار ہے۔دوسرا جواب: تو آپ سے کہا جائے گاکہ: ’’ آپ نے ایسے امور کا وجود ثابت ہی نہیں کیا جس کا احساس ابتدائی طور پر ممکن ہی نہ ہو؛ تاکہ آپ کا کلام درست قرار پائے۔ بلکہ آپ نے اپنے دعوی کہ ’’ ابتدائی طور پر احساس ممکن نہیں ‘‘ کو اس فطری حکم کو باطل کرکے ثابت کیا جس کے تحت ایسا وجود محال ہے جس کا احساس ہی کسی طور پر ممکن نہ ہو۔ اور اگر یہ حکم اس وقت تک باطل نہیں ہوتا جب تک کہ ایسے امور ثابت نہ ہو جائیں جن کا احساس ممکن نہ ہو ؛ تو اس سے دور لازم آتا ہے۔ تو یہ حکم اس وقت تک باطل نہیں ہوگا جب تک ایسے امور ثابت نہ ہو جائیں جن کا احساس ممکن ہی نہ ہو ۔ اور یہ اس وقت تک ثابت نہیں ہوگا جب تک پہلا حکم ثابت نہ ہو ۔ حالانکہ یہ ثابت ہونے والا نہیں ۔اور آپ سے یہ بھی کہا جائے گاکہ: ’’اگر ایسے امور کا وجود جائز ہے جن کا احساس بھی ممکن نہ ہو؛ تو جن امور کا احساس ممکن ہو؛ اس کا وجود بالاولیٰ جائز ہوگا۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو آپ کا قول باطل ٹھہرا۔ پس جو لوگ ایسے وجود کو ثابت مانتے ہیں جو اس عالم سے بالا ہو؛ اور جسم نہ ہو؛ اور اس کا احساس بھی ممکن ہو؛ تو ان کا قول عقل سے زیادہ قریب تر ہے؛ ان لوگوں کے قول کی نسبت جو ایسے موجود کو ثابت کرتے ہیں جس کا احساس بھی ممکن نہیں ؛ اور نہ ہی وہ عالم کے داخل میں ہے؛ اورنہ ہی خارج میں ۔٭ مختصراً وہ جو بھی دلیل اپنے مخالفین کے خلاف دیتے ہیں وہ انہی کے خلاف جاتی ہے۔ لیکن ان کی باتوں میں تضاد ہے جنہوں نے بعض غلطی میں ان کی موافقت کی ہے‘ وہ اس منفی باطل مقدمہ کو ان کے سپرد کرتے ہیں ۔وہ ایسے قائم بالذات موجود کا اثبات ہے نہ اس کی طرف اشارہ ہوسکے؛ نہ وہ اپنے غیر سے جدا ہو نہ ہی اس میں داخل ہو؛ اورنہ ہی اس کی جھت ہو؛ اور نہ ہی عالم میں داخل ہے نہ ہی خارج۔ اور یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اس کی مخالفت سے باطل محض لازم آتا ہے۔

٭ قائلین اثبات کی بڑی یہ دلیل ہے کہ اگر ایسے موجود کو ثابت کرنا جس کا جسم نہیں جو داخل اور خارج عالم میں نہیں ؛ ممکن ہے تو ایسی موجود کا اثبات جو عالم کے اوپر ہے اس کا جسم بھی ہے امکان کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ اگریہ ممکن نہیں تو نفی کرنے والوں کا قول بھی باطل ہوا]۔٭ ثابت ہوا اللہ تعالیٰ داخل عالم میں ہے یا خارج میں چنانچہ ان کا قول ایسی موجود کے اثبات کا قول جو داخل عالم میں ہے نہ خارج میں دونوں حالوں میں حق سے کوسوں دور ہے۔ اور یہی مطلوب ہے۔٭ پھر یہ کہا جائے گا ایسی چیز کی رؤیت جس کا جسم ہے نہ جھت یہ عقلاً جائز ہے یا ممنوع۔ اگر جائز ہے تو بات ختم ہوئی۔ اگر ممنوع ہے تو عقل کا روکنا ایسے موجود کے لیے ہو گا جو داخل عالم میں ہے نہ خارج میں بلکہ وہ حی بلاحیات، علیم بلاعلم اور قدیر بلا قدرت ہے یہ شدید سے بھی شدید تر ہوا۔٭ اگر آپ کہیں :’’ یہ ممانعت وہم کے حکم کی ہے۔‘‘ تو کہاجائے گا بلاجھت نظر آنے والی چیز میں رؤیت کی ممانعت وھم کے حکم میں سے ہے۔ یہ تیسرا جواب ہوا۔٭ اس کی وضاحت یوں ہے کہ: ان کے ہاں وھم کا حکم باطل ہے یعنی محسوس امور کا حکم غیر محسوس پر لگانا۔دوسرا جواب:یہ کہاجائے گاکہ: رؤیت باری تعالیٰ ممکن ہے یا ناممکن۔ اگر ممکن ہے تو غیر محسوس موجود کے اثبات کا قول باطل ٹھہرا اور باطل وھم باقی نہ رہا جو غیر محسوس میں باطل حکم لگائے۔ تمہارا رؤیت باری تعالیٰ سے بھی جن اور فرشتوں کی رؤیت زیادہ ممنوع ٹھہری۔ اگر آپ اس کی رؤیت جائز قرار دیں تو فرشتوں اور جنوں کی رؤیت زیادہ حق رکھتی ہے اگر آپ کہیں اس کی رؤیت ناممکن ہے تو کہا جائے گا تو تب غیر محسوس میں وھم کا حکم ناقابل قبول ہے اور حکم یہ ہے کہ ہر مرتی چیز کے لیے لازم ہے کہ جھت میں ہو وھم کے حکم سے۔٭ ہاں اگر ہم فرض کریں غیر محسوس موجود دیکھا جاتا ہے مگر اس کی جھت نہیں ۔ یہ ایسی رؤیت ہے جو جھت والی رؤیت کے علاوہ ہے۔ یہ بھی باطل ہے جیسے خارج اور داخل عالم میں نہ ہونے والے موجود کا قول باطل ہے ورنہ جب اس موجود کا وجود ثابت ہوا اس سے متعلقہ رؤیت اس کے لیے مناسب ٹھہری اس کی رؤیت مھود اجسام کی رؤیت جیسی نہ ہوئی۔
٭ یہ اور اس جیسے دیگر طریقے عقلی مناظرہ کے ہیں ؛ جب اس پر چلیں گے تو واضح ہوگاکہ جو بھی سنت پر چلے گا اس کا قول عقل کے زیادہ قریب ہو گا۔ یہ طریقہ بھی سنت قریب ہونے والوں کی ضرور مدد کرتا ہے لیکن جب کچھ سنت کے قریب لوگوں نے بھی سنت سے دور ہونے والوں کے مقدمات کو درست مان لیا تو یہ بھی حقیقت میں باطل اور عقل و شرع کے مخالف ٹھہرا۔ ممکن نہیں کہ ان کا قول معاملہ کے مطابق ہو اور عقل صریح اور شرع متین کے ساتھ اس کی مدد کرنا ممکن نہیں ۔ یہ بات اسے سمجھ آنے کی جو حق کو جاننے کی کوشش کرے نہ کہ کسی قول کی طرف جھکاؤ رکھتا ہو۔ اگر کسی قول کا رجحان واضح کرنا مقصود ہو تو اگرچہ یہ ممکن ہے یہ وہ طریقہ ہے جس پر بہت سارے لوگ چلتے ہیں اسی وجہ سے رافضہ عیب ہے جنہوں نے اہل سنت کے خلفاء ثلاثہ کے اثبات کے معاملہ میں کیا انہوں نے بہت سے مذموم اقوال کے ساتھ عیب لگایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں تو حق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ علم کے ساتھ بات کرنے کا امر دیا ہے، عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنایا ہے ہمارے لیے جائز نہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی (چہ جائے رافضی) کوئی حق کی بات کہے اور ہم اسے ترک کر دیں ہم فقط باطل کو رد کریں گے حق کو نہیں ۔ اسی وجہ سے یہ کتاب لکھی ’’منھاج أہل السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ۔‘‘٭ بہت سے اھل سنت کہلانے والوں نے معتزلہ، رافضہ اور دیگر اھل بدعت کلامیوں کی تراشیدہ بدعات اور باطل چیزوں سے رد کیا ہے۔ اس طریقہ کو بہت سے اھل کلام جائز سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں فاسد کا مقابلہ فاسد سے کرنا درست ہے۔ لیکن ائمہ سنت اور سلف اس کے خلاف ہیں ۔ یہ ایسے اھل کلام کی مذمت کرتے ہیں جو بدعت اور باطل کا رد بدعت اور باطل سے کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ: انسان کو حق ہی بیان کرنا چاہیے کسی صورت میں بھی سنت سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ یہی درست بات ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم معتزلہ اور رافضہ کی تراشیدہ چیزوں کے باوجود حق کو نہیں چھوڑتے۔ لیکن ہم اپنے مخالفین پریہ واضح کرتے ہیں کہ انہوں نے جن اقوال کے ساتھ عیب لگایا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کے اقوال میں عیب ہے۔٭ شیخین رضی اللہ عنہماکی فضیلت اور خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے قائلین اگرچہ کچھ فاسد اقوال بھی رکھتے ہیں لیکن رافضہ کے اقوال کا فساد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح فلاسفہ اور معتزلہ میں سے خود کو سنت کی طرف منسوب کرنے والوں کا معاملہ بھی ہے؛ جیسے اشعری اور دیگر حضرات؛ اگرچہ ان کے ہاں بھی باطل اور فاسد اقوال پائے جاتے ہیں ؛تو یقیناً معتزلہ اور فلاسفہ کے اقوال و عقائد اس سے بھی بڑے باطل اور فاسد ہیں ۔پس لازم آتا ہے کہ جب دو گروہوں میں بحث ہو؛ تو راجح وہی بات ہونی چاہیے جو عقل و نقل اور شرع کے زیادہ قریب ہو۔ ہم کبھی بھی عقل و شرع کے مخالف باطل قول کی نصرت نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنا حرام اور مذموم ہے۔ایسا کرنے والا قابل مذمت ہے اس سے ناقابل بیان شر پیدا ہوتا ہے۔ جیسے مبتدعہ کے اقوال سے پیدا ہوا۔ (ان امور کی وضاحت اور کسی موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ) اللہ اعلم۔