Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اہل سنت کے ہاں مناظرہ کا اصول :]

  امام ابنِ تیمیہؒ

اہل سنت کے ہاں مناظرہ کا اصول :٭ یہاں بس اتنا بتانا مقصود ہے کہ عادلانہ مناظرہ کیا جائے جس میں انسان علم و عدل پر مبنی بات کرے نہ کہ جہالت اور ظلم پر مشتمل بات کی جائے۔ اکثر جماعتوں کے مناظرے بھلے وہ سنت سے کچھ ہی ہٹے ہوئے ہوں ؛ ان میں اکثر ایک دوسرے کے قول کو رد اور باطل ہی کیا جاتا ہے۔٭ ابوحامد غزالی رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کلام کا یہی فائدہ مدنظر ہوتا ہے؛ کوئی اور نہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں : وہ عقیدہ جس کے تعبدی ہونے کا لوگ اعتقاد رکھتے ہیں اس کا ایک باطن ہوتا ہے جو بعض امور میں ظاہر کے خلاف ہوتا ہے ان کا ذکر کردہ عقیدہ شریعت کا ایک لحاظ سے موافق اور ایک لحاظ سے مخالف ہوتا ہے۔ جو شارع سے ثابت ہو جائے اس کے ظاہر باطن میں کوئی اختلاف نہیں رہتا۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ مناظرہ میں کسی قول کو راجح بیان کرنا مدنظر ہونا چاہیے۔٭ اسی وجہ سے اھل کلام کے بہت سے مناظرین بھی فریق مخالف کے مذھب کا فساد اور تناقض بیان کرنے کو ہی مناظرہ سمجھتے ہیں ۔اس لیے کہ بلا ریب یہ دونوں ا قوال ہی باطل ہوتے ہیں ۔ پس جب بھی کوئی ایک اپنے قول کی نصرت کرتا ہے تو اس سے مخالف کے قول کا فساد اور خرابی واضح ہو جاتے ہیں ۔ یہ صورت اس لیے پیدا ہوئی کہ صاحب مذھب اپنے مذھب کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو؛اور اس نے اس کی بنیاد اپنی سمجھ کے مطابق صحیح مقدمات پر رکھی ہو۔جب کوئی دوسرا فریق ان مقدمات کا تناقض ثابت کرتا ہے؛ تووہ نہ اسے قبول کرتا ہے اور نہ حق واضح کرتا ہے؛ اور جھگڑے کو طول دیتا ہے جیسے اھل کلام کرتے ہیں ۔٭ وجہ یہ ہے کہ اس وضاحت کے ساتھ غیر کے مذھب کو اس کے مذھب پر ترجیح ملتی ہے یا ان مقدمات کے ذریعے اس کے مذھب کا فاسد ہونا لازم آتا ہے۔ جب یہ اپنے قول کا تناقض یا دوسرے کے قول کو اپنے قول سے راجح دیکھے تو اسے حق کی معرفت حاصل ہو اوراس پر اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اسی طرح، دھریہ، یہودی، عیسائی اور رافضی وغیرہ سے مناظرہ کرنا چاہیے۔جب ان کے ساتھ اس طریقہ کار کو اپنائیں تو موردِ اختلاف میں ان کے لیے مفید ہو گا؛ان پر حق واضح ہو جائے گا۔ ہر جماعت کے ساتھ حق و باطل ہوتا ہے۔ جب کسی جماعت کو مخاطب کیا جائے تو اس پر حق واضح ہو جاتا ہے؛ اور اسے باور کرایا جاتا ہیکہ حق وہ ہے جس طرف ہم بلا رہے ہیں تو وہ موافقات کو بالاولیٰ قبول کرے گا۔جیسے نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبوت عیسی و موسی علیہماالسلام سے زیادہ قبولیت کی حق دارہے۔ اورخلافت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم خلافت علی رضی اللہ عنہ سے بالاولی حق پر ہے۔ جوبھی صحیح طریقہ ذکر کیا جائے؛ جس سے نبوت ثابت ہوتی ہے؛ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اس طریقہ سے ثبوت کی زیادہ حق دار ہے۔اور جب بھی صحیح طریقے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت ہو گی تو صاحبین رضی اللہ عنہما کی خلاف بالاولی ثابت ہو جائے گی۔اوران پر واضح ہو گا کہ جس ذریعے سے وہ اس حق کو چھوڑ رہے ہیں ممکن ہے اسی ذریعہ سے اس حق کو چھوڑنا بھی ممکن ہے جو ان کے ساتھ ہے۔پس مورد ِ نزاع میں جوچیز مجروح ہو گی؛وہ اجماع میں بھی مجروح ہو گی۔ جو چیز اجماع کے مواقع میں مثبت ثابت ہو گی نزاع کے مواقع میں بھی مثبت ہو گی۔اورجو اعتراض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور شیخین کی خلافت پر وار دہوں گے؛ کسی دوسرے کی نبوت؛ اوردیگرکی خلافت پر بھی وارد ہوں گے۔خواہ وہ اعتراضات ان جیسے ہی ہوں یا ان سے بڑے۔ اور جو دلیل کسی دوسرے کی نبوت اور شیخین کے علاوہ کسی کی خلافت پر دلالت کرے گی وہی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور صاحبین کی خلافت کی پراس سے بھی قوی دلیل ہو گی۔

٭ رہاوہ باطل جومتنازعین کے سامنے ہے؛ اس سے واضح ہو گیا کہ اس کا اس جیسے باطل سے معارضہ ممکن ہے جس طریق سے یہ باطل ہو سکتا ہے اس طریق سے ان کا باطل بھی باطل ثابت ہو سکتا ہے۔٭ پس جوکوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت علی علیہ السلام وغیرہ کی الوھیت کا دعویٰ کرے اس کے سامنے حضرت موسی علیہ السلام ، حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی الوھیت کا دعوی کیا جائے؛ وہ جو بھی شبہ ان حضرات کی الوھیت کے لیے پیش کریگا دوسرے کے لیے بالاولیٰ بلکہ اس سے بڑھ کر ثابت ہو جائے گا۔ جب مثلین میں سے کسی ایک کا فساد واضح ہو جائے تو دوسرے کافساد خود بخود واضح ہو جائے گا۔ حق کی درستی اس کے لیے بیان کی گئی مثال سے ظاہر ہوتی ہے؛ اور باطل کا فساد اس کے لیے بیان کی گئی مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان بسا اوقات اپنی محبوب یا ناپسندیدہ چیز کی مدح و ذم سے بے خبر ہوتا ہے جب اس کے لیے مثال بیان کی جاتی ہے تو اسے سمجھ آتی ہے کیونکہ: حبک الشیء یعمی ویصم۔’’ تمہاری کسی چیز سے محبت اندھا اور بہرہ کردیتی ہے ۔‘‘٭ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے مثالیں بیان کی ہیں ؛ کیونکہ اس سے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔اور انسان اپنے آپ کو اور اپنے اعمال کو نہیں دیکھ سکتا مگر جب اس کے لیے اس کے نفس کی مثال بیان کی جاتی ہے تو اسے شیشہ نظر آتا ہے۔ اس کے اعمال غیر کے اعمال کے ساتھ تمثیل اختیار کر لیتے ہیں ] ۔اسی وجہ سے دوفرشتوں نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے مثال بیان کی؛ دونوں میں سے ایک نے کہا:﴿اِِنَّ ہٰذَا اَخِی لَہٗ تِسْعٌ وَتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْہَا وَعَزَّنِی فِی الْخِطَابِ (23) قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِِلٰی نِعَاجِہِ ﴾ [ص: 23۔24]  ’’ میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے؛ یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کر دو؛ اور بات بات پر مجھ پر زور ڈالتا ہے۔حضرت داؤد نے کہا:’’ بے شک یہ تجھ پر زیادتی کرتا ہے کہ تیری ایک دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کا کہ رہا ہے۔‘‘اس نے ایسی ضرب مثال بیان کی تاکہ حقیقت حال واضح ہو سکے؛ یہ عقلی قیاس ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت دیتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ﴾ (روم 27)’’ہم نے قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَ مَا یَعْقِلُھَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ﴾ [عنکبوت 43]’’ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور ان سے عقل تو علم والے ہی حاصل کرتے ہیں ۔‘‘یہ وہ میزان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیزَانَ ﴾[الشوری۱۷]’’اللہ وہ ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب نازل کی اور میزان بھی۔‘‘اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴾[الحدید25]’’ بلا شبہ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔‘‘اس موضوع پر کئی دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بات ہوچکی ہے؛ اور یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ہر وہ قیاس عقلی شمولی خواہ یونانی اہل منطق کے طریقہ پر ہو یا کسی دوسرے کے طریقہ پر؛ اس میں کوئی شک نہیں ہوتا کہ وہ قیاس تمثیلی کی جنس سے ہوتا ہے۔اور بیشک مقصود یہ ہوتا ہے کہ دونوں قیاس ایک ہی چیز ہیں ۔اور دونوں اس میزان کے معنی میں داخل ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ اور ان میں سے جو کچھ یونانی اہل منطق کے ساتھ خاص ہے؛ اس میں کچھ باطل ہے اور بعض میں بلا وجہ کی طوالت ہے؛ جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ غالب طور پر اس کا نقصان اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل یونانی منطق پر تفصیلی بات ہوچکی ہے۔