Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مختلف اسلامی فرقوں کا انفراد

  امام ابنِ تیمیہؒ

مختلف اسلامی فرقوں کا انفراد

[وہ عقائد جن میں اسلام کی طرف منسوب فرقے اہل کلام ؛ اہلِ سنت سے جداگانہ نظریات رکھتے ہیں ]

خوارج اور معتزلہ اور جھمیہ وہ اہلِ سنت و الجماعت سے کسی حق مسئلہ میں منفرد نہیں ہوتے؛ بلکہ ان کے پاس جتنا بھی حق موجود ہے؛ اہلِ سنت و الجماعت میں کسی نا کسی نے اس کا ضرور کہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ لوگ قلتِ عقل اور کثرتِ جہالت کے باوجود اس مقام تک نہیں پہنچے جہاں تک رافضی پہنچے ہیں ۔

ایسے ہی اہل کلام اور اہلِ رائے میں سے جو مختلف فرقے اپنے آپ کو اہلِ سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛مثلاً کلابیہ؛ اشعریہ؛ کرامیہ؛ سالمیہ ؛ اور جیسے فقہی گروہ؛ حنفیہ ؛ مالکیہ ؛سفانیہ ؛ اوزاعیہ ؛ شافعیہ ؛ حنبلیہ؛ اور داؤدیہ اور ان کے علاوہ دیگر فرقے۔ اہلِ سنت و الجماعت سے منقول مشہور اقوال کی تعظیم کے باوجود ؛ان میں کسی ایک فرقہ کا بھی کوئی انفرادی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں وہ امت سے جدا ہوں ؛اور حق ان کے ساتھ ہو۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک گروہ کے پاس جو بھی حق اور صواب پایا جاتا ہے؛ وہ ان کے علاوہ دوسرے فرقوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے۔ ہاں کبھی ان میں سے کسی ایک کے ہاں کوئی ایسی انفرادی غلطی پائی جاتی ہے جو کسی دوسرے فرقہ میں نہیں پائی جاتی ۔ لیکن کبھی کسی ایک گروہ میں کوئی منفردانہ حق مسئلہ ایسا ہوتا ہے جس میں وہ دوسرے فرقوں سے مناظرہ و مباحثہ کرتے ہیں ۔ جیسے اہل مذاہب اربعہ ۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاں کچھ انفرادی مسائل ہوتے ہیں ۔ تو حق اور صواب اسی کے پاس ہوتا ہے جسے سنت سے تائید حاصل ہو؛ دوسرے تین کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن ان کا یہ قول ان کے علاوہ صحابہؓ وتابعینؒ اور دیگر تمام علمائے امت میں سے کسی نا کسی کا قول رہا ہوتا ہے۔ بخلاف اس مسئلہ کے جس میں یہ منفرد ہوں ؛ اوروہ مسئلہ ان کے علاوہ کسی دوسرے سے منقول نہ ہو۔ اس صورت میں یہ صرف خطاء ہی ہوسکتی ہے۔ یہی حال اہل ظاہر کا ہے۔ہر وہ قول جس میں وہ تمام امت سے منفرد اور امتیازی حیثیت رکھتے ہیں ؛ وہ خطاء ہوتا ہے۔ ہاں اگر وہ ائمہ اربعہ کے اقوال سے منفرد ہوں ؛اور وہ قول صواب بھی ہو تو پھر یہ ان کے علاوہ بھی اسلاف میں سے کسی ایک کا عقیدہ رہا ہوتا ہے۔

وہ انفرادی مسائل جن میں باقی تین گروہوں میں سے کسی ایک کی کوئی منفردانہ حیثیت ہو؛ تواس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن اکثر یہ ہوتا ہے کہ باقی تینوں مذاہب کے ماننے والوں میں سے بھی کچھ نہ کچھ حضرات اس مسئلہ میں ان کے موافق ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال ؛ جیسے امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے کہ :’’محرم کے لیے کٹے ہوئے موزے اور اس مشابہ دوسرا لباس [جمجم اور مداس]پہننا جائز ہے۔ امام احمدؒ کے مذہب میں بھی اس کی ایک توجیہ موجود ہے۔

پھر آپ کا یہ مسلک کہ دادا بھائیوں کی وراثت کو ساقط کردیتا ہے۔ اس مسئلہ میں امام شافعیؒ اور امام احمد رحمہؒ کے کچھ اصحاب نے موافقت کی ہے اور ایسے ہی آپ کا قول کہ: مسح سے طہارت حاصل کرنے کے لیے دوام طہارت شرط ہے۔ نہ کہ ابتداء اور آپ کا یہ قول کہ نجاست کو جس چیز سے بھی ختم کیا جائے؛ وہ ختم ہو جاتی ہے۔یہ امام احمدؒ کے مذہب میں ان کے تین اقوال میں سے ایک قول ہے؛ اور امام مالکؒ کے مذہب میں بھی ایک قول ہے۔ ایسے ہی آپ کا یہ قول کے چیز کے تحلیل ہو جانے سے طہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ اور جیسے امام مالکؒ کا قول ہے کہ: خمس کے وہی مصارف ہیں جو مالِ فئے کے مصارف ہیں ۔امام احمدؒ کے مذہب میں بھی یہ ایک قول ہے۔ خمس رکاز کے بارے میں آپ سے دو روایتیں ہیں ۔ کیا انہیں فئے کے مصارف میں خرچ کیا جائے گا یا زکوٰۃ کے مصارف میں ؟ اور جب اسے فئے کے مصارف میں خرچ کیا جائے تو وہ مال غنیمت کے خمس کے تابع ہوتا ہے۔

ایسے ہی آپ کا یہ قول کہ: ہر اس کافر سے جزیہ لینا جائز ہے جس کے ساتھ معاہدہ جائز ہو۔ اس میں عرب اور عجم میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی اہل کتاب اور دوسروں کے مابین کوئی فرق کیا جائے گا۔ اور نسب کا معاملہ بھی ہرگز معتبر نہیں ہوگا۔ بلکہ استرقاق؛ مناکحت اور حلتِ ذبائح میں دین معتبر ہوگا۔ یہ قول اس باب میں صحیح ترین قول ہے۔امام احمدؒ کے ہاں دو اقوال میں سے ایک قول یہی ہے۔ امام احمدؒ کا اختلاف صرف مشرکین عرب سے جزیہ وصول کرنے میں ہے۔ جب کہ آیت جزیہ کے نزول کے بعد عرب میں کوئی مشرک باقی نہیں رہا؛ بلکہ تمام مشرکین عرب نے اسلام قبول کرلیا تھا۔

جیسے امام مالک رحمہؒ کا قول ہے کہ اہل مکہ منی اور عرفات میں قصر کریں گے؛امام احمدؒ اور دیگر کے مذہب میں بھی ایک قول یہی ہے۔

جیسے دلائل اور شواہد کی موجودگی میں فیصلہ کرنے سے متعلق آپ کا مذہب ہے؛ اوراقامت حدود ؛ اور مقاصد شریعت کے بارے میں ۔ یہ آپ کے مذہب کے محاسن میں سے ہے۔ امام احمدؒ کا مذہب اکثر مسائل میں آپ کے مذہب کے قریب تر [یا موافق]ہوتا ہے۔

جیسے امام شافعیؒ کا مذہب ہے کہ اگر بچے نے پہلے وقت میں نماز پڑھ لی ہو؛ اور پھر وہ بالغ ہو جائے تو وہ نماز نہیں لوٹائے گا۔بہت سارے لوگ اس مسئلہ کی وجہ سے امام شافعیؒ پر عیب نکالتے ہیں ۔ مگر وہ اس مسئلہ میں غلطی پر ہیں ؛ اس میں حق وہی ہے جو امام شافعیؒ نے فرمایا ہے۔یہ مسئلہ کئی جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔اور امام احمدؒ کے مذہب میں بھی ایک توجیہ یہی ہے۔

ایسے ہی ذوات الاسباب نمازیں ؛ جب ممنوع وقت میں پڑھی جائیں ۔ اس سلسلہ میں امام احمدؒ سے دو روایتیں ہیں ۔ ایسے ہی منی کی طہارت کے بارے میں ؛ آپ کا قول۔ امام احمدؒ کے دو اقوال میں سے ایک قول اسی کے موافق ہے۔

جیسے زانیہ عورت سے نکاح کی بابت امام احمدؒ کا قول ہے۔ آپ اس وقت تک اسے جائز نہیں کہتے جب تک وہ توبہ نہ کر لے۔ اور جیسے کہ آپ کا قول ہے کہ اگر شکار زخمی ہوکر غائب ہوجائے اور پھر وہ [مردہ حالت میں ] مل جائے تو اگر اس میں کسی دوسرے زخم کے اثرات و نشانات نہیں ہیں تو اس سے کھانا جائز ہے۔ امام شافعیؒ کے مذہب میں بھی ایک قول یہی ہے۔

جیسے آپ کا قول ہے کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں گے۔ بلکہ میت نے جتنی بھی نذریں مانی ہوں ؛ وہ اس کی طرف سے ادا کی جائیں گی۔ اور اس کی طرف سے رمضان کے روزں کی جگہ کھانا کھلایا جائے گا۔ بعض لوگ اس قول کو ضعیف کہتے ہیں ۔ یہ حضرات صحابہ میں سے حضرت ابنِ عباسؓ کا قول ہے ؛ مگر وہ لوگ اس کی گہرائی کو سمجھ نہیں سکے۔

ان کا یہ کہنا کہ: محرم کو جب جوتی اور ازار نہ ملے تو وہ موزے اور شلوار بغیر کاٹے اور چھوٹا کئے کے پہن سکتا ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کے اختیار کردہ دو امور میں سے یہ آخری عمل ہے۔

ایسے ہی ان کا کہنا کہ: نمازی کے سامنے سے عورت؛ کالے کتے اور گدھے کا گزرنا نماز کو توڑ دیتا ہے ۔

یہ مسئلہ کہ: دادی بیٹے کی موجودگی میں وارث بنے گی۔ ایسے ہی مساقاۃ اور مزارعت کے درست ہونے کا آپ کا قول؛ اور ان کے مشابہ دیگر مسائل۔ اگر بیج عامل کی طرف سے ہو۔یہ آپ سے منقول دو روایات میں سے ایک ہے۔اور امام شافعیؒ کے اصحاب میں سے ایک طائفہ کا یہی مسلک ہے۔

ایسے ہی نشے میں مست کی طلاق کے مسئلہ میں آپ کا قول؛ کہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہ قول امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے کچھ اصحاب کا بھی ہے۔

آپ کا یہ مسلک کہ: اگر وقف کا فائدہ ملنا معطل ہو جائے تو اسے بیچ کر اس کے قائم مقام کوئی دوسری چیز خریدی جائے جس کا فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ امام ابو حنیفہؒ کا مسلک امام احمدؒ کے مسلک کے قریب تر ہے؛ اور امام مالکؒ کے مسلک میں بھی ایسے ہی ہے۔ ایسے ہی وقف کو بدلنے کے بارے میں آپ کا مسلک بھی ہے۔ جیسے مسجد کوکسی دوسری چیز سے بدلنا۔ یا وقف کو مسجد کے علاوہ کسی اور چیز میں تبدیل کرنا۔ جیسا کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے کیا تھا۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے مسلک میں کچھ مقامات پر حاجت کے پیش نظر بدلا جا سکتا ہے۔

اور غلام کی گواہی قبول ہونے کے متعلق آپ کا مسلک؛اوریہ کہ صف کے پیچھے منفرد نماز پڑھنے والے پر نماز کو دوہرانا واجب ہو جاتا ہے۔ اوریہ مسلک کہ حج کو عمرہ سے فسخ کرنا جائز اور مشروع امر ہے۔ بلکہ ایسا کرنا افضل ہے۔ اور یہ مسلک کہ جب حج قرآن کرنے والا قربانی کے جانور ساتھ لیکر چلے تو اس کا حج قرآن تمتع اور افراد سے افضل ہے۔جیسے رسول اللہﷺ نے کیا تھا۔

اور آپ کا یہ قول کہ : باجماعت نماز اداکرنا اعیان پر فرض ہے۔

حق ہمیشہ سنت اور صحیح احادیث کے ساتھ 

حق ہمیشہ سنت اور صحیح احادیث کے ساتھ ہوتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ: ان میں سے ہر ایک امام کے جو خاص فضائل اور محاسن ہیں ؛ وہ بہت زیادہ ہیں ؛ ان کا شمار ممکن نہیں ۔اور نہ ہی یہ ان کے بیان کی جگہ ہے۔ بیشک اس سے مقصود یہ ہے کہ: حق ہمیشہ سنت رسول اللہﷺ اور آپ سے ثابت صحیح احادیث کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر ایک گروہ کسی اور کی طرف نسبت رکھتا ہے؛ اورکسی نہ کسی مسئلہ میں ساری امت سے انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اور ان کا یہ جداگانہ اور انفرادی قول خطاء ہوتا ہے۔ برخلاف ان لوگوں کے جو حدیث اور سنت کی طرف نسبت و اضافت رکھتے ہیں ۔ بیشک حق اور صواب ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کوئی ان سے موافقت رکھتا ہو؛ حق ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ لوگ کتاب و سنت کے موافق ہوتے ہیں ۔ اور اگر کوئی ان کی مخالفت بھی کرے ؛ تو حق تمام امورِ دین میں ان ہی کے ساتھ ہوتا ہے؛ کیونکہ اصل میں حق رسول اللہﷺ کے ساتھ ہے۔تو پھر جو کوئی سنت کا جتنا بڑا عالم اور متبع ہوگا؛ تو حق اور صواب بھی اسی کے ساتھ ہوگا۔

٭ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف آپﷺ کے قول کی نصرت کرتے ہیں ۔ اور اس قول کو صرف انہی کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں ۔ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ آپﷺ کی سنت کے عالم اور اس کی اتباع کرنے والے ہیں ۔ اکثر سلف امت کا یہی حال تھا۔ لیکن متأخرین میں بہت زیادہ تفرقہ اور اختلاف واقع ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس امت میں جن لوگوں کی قدر بلند کی ہے؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کی سنت کو زندہ کیا اور اس کی نصرت کی ۔ یہی حال امت کے سارے گروہوں کا ہے۔ بلکہ مخلوق میں سبھی طوائف کا ہے۔ ان کے پاس جو بھی خیر و بھلائی ہے؛ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں کا لایا ہوا پیغام ہے۔ او رجو کچھ ان کے ہاں خطاء اور گناہ پائے جاتے ہیں ؛ وہ رسولوں کی طرف سے نہیں ہیں ۔

٭ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب کسی مسئلہ میں اپنے اجتہاد سے گفتگو کرتے ؛ تو ان میں سے کوئی ایک کہتا : یہ بات میں اپنی رائے سے کہہ رہا ہوں ۔ اگریہ درست ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے؛ اور اگر خطاء ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے؛ اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے کلالہ کے مسئلہ میں فرمایا تھا۔ اور جیسے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے مفوَّضہ کے بارے میں فرمایا تھا ؛ جب اس کا شوہر فوت ہو جائے۔ اور ان دونوں حضرات نے جو بات اپنی رائے سے فرمائی ؛ اس میں حق اور صواب پر رہے۔ لیکن انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے؛ وہ بھی حق ہے۔ یعنی بیشک اگر بات درست ہو تو پھر یہ وہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہﷺ لے کر آئے ہیں ؛ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی۔ اور اگر اس میں کوئی خطاء ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو خطاء کے مبعوث نہیں فرمایا۔ یہ ان کی اپنی رائے اور شیطانی حیلہ ہے۔ اللہ اور رسول سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

٭ آپ کی طرف منسوب کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی طرف ہونا ہے۔یعنی حکم اور شریعت اور دین۔اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے چاہتے اور پسند کرتے ہیں ؛ اور اس کام کے کرنے والے کو ثواب سے نوازتے ہیں ۔یا پھر اگر مخلوق کی جہت سے نسبت مراد ہو؛ تو پھر تمام چیزیں اسی کی طرف سے ہیں ۔لوگوں نے حضرات صحابہؓ سے اس بارے میں سوال نہیں کیا کہ جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق و تقدیر میں ان پر احسان کیا ہے۔ انہیں علم تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے ؛ وہ اسی کی طرف سے ہے۔ عرب عہد جاہلیت میں بھی قضاء و قدر پر ایمان رکھتے تھے۔ ابن قتیبہ اور دیگر حضرات کہتے ہیں : عرب عہد جاہلیت میں بھی اور اسلام میں بھی تقدیر کا اقرار کرتے رہے ہیں ۔

لوگوں کا سوال اس بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی طرف سے دین و شریعت اور اس حکم کے لحاظ سے احسان فرمایا ہے جسے وہ چاہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں اور اس کے کرنے پر ثواب سے نوازتے ہیں ۔

خطاء اور نسیان کا حکم 

٭ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس بات کا علم تھا کہ جو چیز دین اور شریعت کے خلاف ہو؛ وہ انسان کے اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے ہوتی ہے؛ اور بھلے اس سے بھی ویسے ہی معافی مل سکتی ہے جیسے خطاء اور نسیان سے معافی مل سکتی ہے۔

٭ خیر اور بھلائی کا بھول جانا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾[الانعام:68]

’’ اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یا د آنے کے بعد ایسے ظالموں کے ساتھ مت بیٹھ ۔‘‘

اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی خادم نے کہا تھا[ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ]

﴿ وَ مَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا﴾[الکہف:63]

’’ اور مجھے وہ نہیں بھلایا مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں اس نے بڑی عجیب طرح سمندر میں راستہ بنالیا۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہٖ ﴾[یوسف:42]

’’اور شیطان نے اپنے آقا کے پاس اسے یاد کرنا بھلا دیا ۔‘‘

جب نبی کریمﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ وادی میں نماز کے وقت سوئے رہے۔تو آپ نے فرمایا:

’’اس وادی میں شیطان ہمارے پاس چلا آیا۔[فِی مسلِم :1؍471،472کتاب المساجِدِ ومواضِعِ الصلاۃِ، باب قضائِ الصلاۃِ الفائِتِ واستِحبابِ تعجِیلِ قضائِہا، والحدِیث فِی سننِ النسائِیِ:1؍240؛ کتاب المواقِیتِ باب کیف یقضِی الفائِت مِن الصلاِۃ، المسند ط۔المعارِفِ:18؍ 152 وما لفظ ہذا واد حضرنا فِیہِ الشیطان۔]پھر فرمایا: ’’ بیشک شیطان حضرت بلالؓ کے پاس آیا؛ اور انہیں ایسے تھپکا جیسے بچے کو تھپکایا جاتا ہے حتی کہ وہ سو گیا۔‘‘[الموطأِ: 1؍14کتاب وقوتِ الصلاِۃ، باب النومِ عنِ الصلاۃِ، ونصہ: عرس رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیل بِطرِیقِ مکۃ، ووکل بِلالًا أن یوقِظہم لِلصلاِۃ، فرقد بِلال ورقدوا، حتی استیقظوا وقد طلعت علیہِم الشمس، فاستیقظ القوم وقد فزِعوا، فأمرہم رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یرکبوا حتی یخرجوا مِن ذلِک الوادِی، وقال:(( إِن ہذا وادٍ بِہِ شیطان؛ فرِکبوا حتی خرجوا مِن ذلِک الوادِی، الحدِیث وفِیہِ: ثم التفت رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی أبِی بکر فقال:((إنِ الشیطان أتی بِلالاً وہو قائِم یصلِی، فضجعہ، فلم یزل یہدِئہ کما یہد الصبِی حتی نام۔))]بیشک اس رات آپ نے حضرت بلالؓ کی ذمہ داری لگائی تھی کہ انہیں صبح کی نماز کے لیے جگائیں ۔ اور ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’ نیند میں تفریط [کمی ] نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا:’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے ہماری ارواح کو قبض کر لیا ۔‘‘ اور حضرت بلالؓ نے آپ کی خدمت میں گزارش کی : ’’اس ذات نے میری روح کو بھی لے لیا جس نے آپ کی روحوں کو لے لیا تھا۔ اور آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو کوئی نماز کے وقت سویا رہے؛ اسے چاہے کہ جب اسے یاد آجائے تو نماز پڑھ لے؛ اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ مومنوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

﴿رَبَّنَا لَا تُوَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَانَا﴾ (البقرۃ:246)

’’اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو جائے تو ہم پر مواخذہ نہ کر۔‘‘

[اللہ فرماتے ہیں ]میں نے ایسا کر دیا۔‘‘

ایسے ہی اجتہاد میں خطاء اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے ہوتی ہے؛ اگرچہ وہ مجتہد کے لیے مغفور لہ ہے۔

ایسے ہی خواب میں احتلام شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور صحیحین میں ہے ؛ آپﷺ نے فرمایا:

’’ خواب کی تین اقسام ہیں ۔ ایک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ایک خواب شیطان کی طرف سے ؛اور ایک خواب وہ ہے جو انسان جاگتے ہوئے باتیں کرتا ہے اور پھر وہ اسے نیند میں دیکھتا ہے ۔‘‘[فِی مسلِم:4؍1773؛ کِتاب الرؤیا أول الکِتابِ، سنن الترمذی:3؍363کتاب الرؤیا باب أن رؤیا المؤمِنِ جزء مِن سِت وأربعِین جزء ًا مِن النبوۃِ،سنن أبِی داود:4؍416 ؛ کتاب الأدبِ باب ما جاء فِی الرؤیا، سنن ابنِ ماجہ:۲؍۱۲۸۵؛ کِتاب تعبِیرِ الرؤیا، باب الرؤیا ثلاث، المسندِ ط۔المعارِفِ:14؍60]

٭ پس محوِ نیند انسان اپنی نیند میں وہ کچھ دیکھتا ہے جو ں تندرست ہوجائے، اور بچہ پر سے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے [بالغ ہوجائے۔]‘‘[فِی: سننِ أبِی داؤود:4؍197 ؛ کتاب الحدودِ، باب فِی المجنونِ یسرِق أو یصِیب حدا، فِی أکثرِ مِن موضِع، سنن الترمذی:2؍438 ؛ کتاب الحدودِ باب ما جاء فِیمن لا یجِب علیہِ الحد، سنن ابنِ ماجہ:1؍658کتاب الطلاق باب طلاقِ المعتوہِ والصغِیرِ والنائِمِ، سنن الدارِمِیِ:2؍171؛ کتاب الحدودِ باب رفِع القلم عن ثلاث،المسند ط۔الحلبِیِ:6؍100؛ وجاء الحدِیث موقوفا عن علِی رضِی اللہ عنہ، فِی البخارِیِ:7؍46 کتاب الطلاق باب الطلاق فِی الِإغلاقِ والکرہِ والسکرانِ والمجنونِ وأمرہما:8؍165 کتاب الحدودِ، باب لا یرجم المجنون والمجنون۔]آپ ﷺ نے سوئے ہوئے انسان کی طرف سے بھی عذر پیش کر دیا۔اسی لیے علماء کا اتفاق ہے کہ جو باتیں کسی سے نیند میں سنی جائیں ؛ ان کا کوئی حکم نہیں ہے۔اگر کوئی انسان طلاق دے دے؛ یا پھر غلام آزاد کر دے؛ یا صدقہ کر دے؛ یا اس کے علاوہ نیند میں کوئی اور حرکت کر دے ؛ تو اسے لغو سمجھا جائے گا۔ بخلاف سمجھدار بچے کے ؛اس لیے اس کے اقوال معتبر ہیں ۔خواہ وہ ولی کی اجازت سے ہوں ؛ یا اس کی اجازت کے بغیر۔ ان میں سے کچھ مقام نص سے ثابت ہیں اور کچھ اجماع سے ۔

ایسے ہی انسانی نفس میں وسوسوں کا معاملہ بھی ہے۔کبھی یہ وسوسے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ؛ اور کبھی انسان کے نفس کی کمائی ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ﴾ [ق:16]

’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَاوٗرِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا﴾ [ق:16]

’’پھر شیطان نے ان دونوں کے لیے وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کے لیے ظاہر کر دے جو کچھ ان کی شرم گاہوں میں سے ان سے چھپایا گیا تھا۔‘‘

وسوسہ ؛اس مخفی کلام کو کہتے ہیں جس کی آواز انتہائی پوشیدہ ہوتی ہے۔

اور یقیناً اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے:

﴿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِo اِِلٰہِ النَّاسِo مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِo

’’تو کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے ۔‘‘

اس کے معانی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ : وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔‘‘یہاں پر الناس کا ذکر کیا گیا ؛ پھر اس کے بعد جنات اور انسانوں کا ذکر کیا گیا۔ پہلے والا الناس کا لفظ جنات اور انسان دونوں کو شامل ہے۔ ان سب کوناس ہی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ انہیں ایک دوسری جگہ پر رجال [مرد] بھی کہا گیاہے۔یہ امام فرَّآء کا قول ہے۔

اس کے معانی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ : وہ جو لوگوں کے سینوں میں جنات اور مطلق طور پر انسانوں کے شر کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ امام زجاج نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے۔ اور مفسرین میں سے ابو الفرج ابنِ جوزی نے یہ معنی بیان کیا ہے ۔انکے علاوہ کسی اور نے یہ معنی بیان نہیں کیا۔ ان کا یہ قول ضعیف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے تیسرا قول مراد ہے ۔ یعنی اس میں ان جنات اور انسانوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے جو لوگوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتے ہیں ۔ تو یہاں پر ان جنات اور انسانوں کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ﴾ [الانعام:112]

’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس چھوڑ انھیں اور جو وہ جھوٹ گھڑتے ہیں ۔‘‘

٭ حضرت ابو ذرؓ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے؛ جسے ابو حاتم ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے؛ فرمایا:’’اے ابو ذرؓ! جنات اور انسانوں کے شیاطین سے پناہ مانگو۔

عرض کیا: یارسول اللہ ! کیا جنات اور انسانوں کے شیاطین سے ؟

تو آپ نے فرمایا:’’ جنات اور انسانوں کے شیاطین سے ۔‘‘[الحدِیث عن أبِی ذر رضِی اللّٰہ عنہ فِی سننِ النسائِیِ:8؍242؛ کتاب الِاستِعاذۃِ، باب الِاستِعاذۃِ مِن شرِ شیاطِینِ الإِنسِ وہو عنہ فِی: المسندِ ط۔الحلبِیِ:5؍178۔]اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:

﴿وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِئُ وْنَ﴾ [البقرۃ:14]

’’اور جب وہ مؤمنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بیشک ہم تمھارے ساتھ ہیں ، ہم تو صرف مذاق اڑانے والے ہیں ۔‘‘

٭ عام مفسرین کرامؒ سے منقول ہے؛ اس سے مراد شیاطین انس ہیں ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہوسکا جس نے کہا ہو: اس سے مراد شیاطین جن ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؛ ابن عباس رضی اللہ عنہما ؛ حضرت حسن اور سدی رحمہما اللہ سے منقول ہے:اس سے کفر کے سرغنے مراد ہیں ۔

٭ اور ابو عالیہ اور مجاہد رحمہما اللہ سے مروی ہے کہ: اس سے ان کے مشرکین بھائی مراد ہیں ۔

٭ حضرت ضحاک اور ابن سائب رحمہما اللہ سے منقول ہے: اس سے ان کے کاہن مراد ہیں ۔

٭ یہ ان تمام انواع و اقسام کو شامل ہے۔ اس کے الفاظ شیاطین انس پر دلالت کرتے ہیں ۔اس لیے کہ آیت میں یوں فرمایا گیا ہے:

﴿وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ ﴾

’’اور جب وہ مؤمنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بیشک ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔‘‘

٭ یہ بات تو معلوم ہے کہ جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو شیاطین جنات بھی ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں ؛ اس کے لیے انہیں کسی خلوت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اور شیاطین جنات ہی انہیں نفاق کا حکم دیتے ہیں ۔ اور جب وہ اپنے بڑوں کے ساتھ خلوت میں ہوتے ہیں ؛ اس وقت بھی شیاطین جنات سامنے نہیں آتے ۔اور ان سے آکر یہ نہیں کہتا : میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ خصوصاً جب وہ اپنے آپ کو حق پر خیال کرتے ہیں ۔

٭ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَآئُ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ السُفَہَآئُ وَ لٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ:13)

’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں ، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں ؟ سن لو! بیشک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔‘‘

اگر انہیں یہ پتہ چل جاتا کہ انہیں ایسا حکم دینے والا شیطان ہے؛ تو وہ کبھی اس کی بات نہ مانتے۔

خلیل بن احمدؒ کہتے ہیں : اہلِ عرب کے ہاں ہر سرکش باغی کو شیطان کہا جاتا ہے۔ اور اس کے اشتقاق کے بارے میں دو قول ہیں ۔ان دو میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ: یہ شطن یشطن سے ہے؛ جب خیر و بھلائی سے دور ہو۔ اس میں نون اصلی ہے۔ امیہ بن صلت حضرت سلیمان علیہ السلام کی مواصفات کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ جو بھی ’’شاطن‘‘ یعنی سرکش آپ کی نافرمانی کرتا؛ آپ اسے گرفتار کرتے پھر اسے بیڑیوں میں جکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ۔ 

٭ لعنت بھی خیر و بھلائی سے دور پر ہوتی ہے۔ شیطان ہر قسم کی خیر و بھلائی سے دور ہوتا ہے۔ یہ فیعال کے وزن پر ہے۔اس کی نظر فعّال بھی آتی ہے۔ یہ صفت مبالغہ ہے۔ جیسے : القیَّام اور القوَّام ؛ پس القیَّام فیعال کے وزن پر ہے۔اور القوَّام فعَّال کے وزن پر ہے۔

٭ پس شیطان ایک قوی اور ثابت شدہ وصف ہے؛ جو کہ خیر وبھلائی سے بکثرت دوری پر دلالت کرتا ہے۔ بخلاف اس کے جو کبھی کبھار خیر سے دور ہوتا ہے اور پھر اس کے قریب آجاتا ہے۔ یہ شیطان نہیں ہوسکتا۔ اس پر ان کا یہ قول بھی دلالت کرتاہے:تشیطن یتشیطن شیطنۃ۔

٭ اس کے استقاق کے متعلق یہی بات صحیح اور درست ہے۔ اس میں حروف کی جنس میں بھی اتفاق پایا جاتا ہے۔ جیسے ابو جعفر سے مروی ہے ؛وہ کہتے ہیں :’’ عامۃ عمی سے مشتق ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ انہیں فقط جانوروں سے تشبیہ دی جائے؛ حتی کہ فرمایا:﴿ ِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾ [فرقان]

’’بلکہ وہ راستے کے اعتبار سے زیادہ گمراہ ہیں ۔‘‘

٭ جیسے کہا جاتا ہے کہ سُرِّیَّۃٌ ؛ سِرٌّ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد نکاح ہے۔اور اگر اسے قیاس کے مطابق ماخوذ کیا جاتا تو فعیلۃ کے وزن پر سریرۃ آتا۔لیکن عربوں کی عادت ہے کہ وہ حرف مضاعف اور معتل کو آگے پیچھے لاتے ہیں ۔ 

٭ اس کی ایک اور مثال جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ﴾ 

’’اپنے کھانے کی طرف دیکھو: وہ باسی تک نہیں ہوا۔‘‘ [البقرۃ:259]

٭ اس ھاء میں احتمال ہے کہ یہ اصلی ہو؛ اسی لیے اسے ’حرف’’لم‘‘ سے جزم دی گئی ہے۔اوریہ بھی احتمال ہے کہ سکون کی ہاء ہو؛ جیسے کتابیہ ‘ حسابیہ ‘ اقتدہ میں ہے۔

٭ اہل لغت مفسرین اس کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : کہ وہ بدلا نہیں تھا۔

مشترکہ معانی و الفاظ کا مسئلہ 

٭ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ: جب دو لفظوں میں اکثر حروف مشترک ہوں ؛ اور ان کے بعض حروف مختلف ہوں ؛ تو کہا جاتا ہے کہ: ان میں سے ایک لفظ دوسرے سے مشتق ہے۔ اسے اشتقاق اکبر کہتے ہیں ۔اور اشتقاق اوسط یہ ہے کہ: دو لفظوں میں حروف مشترکہ ہوں ؛ مگر ان کی ترتیب مختلف ہو تو اسے اشتقاق الاوسط کہتے ہیں ۔جیسے کوفیوں کا قول ہے کہ اسم سمۃ سے مشتق ہے۔

پس شیطان شطن سے مشتق ہے۔اوراشتقاق اکبر کے اعتبار سے یہ شاط یشیط کے باب سے ہے۔ کیونکہ ان دونوں میں ’’حرف ’’شین اور طاء ‘‘ مشترک ہیں جب کہ نون اور یاء متقاربان ہیں ۔

٭ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ الناس میں جنات اور انسانوں کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ جو لوگوں کے سینوں وسوسے ڈالتے ہیں ۔ انسان پر یہ وسوسہ اس کی اپنی ذات کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے؛ اور کسی دوسرے کی طرف سے بھی۔

اس آیت کے معانی میں اپنی جگہ پر ایک مفصل اور لمبی بحث موجود ہے۔

٭ مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ صحاح میں حضرت ابوہریرہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ثابت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :

’’جب بندہ گناہ کا ارادہ کرتا ہے تواس پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا؛اگروہ اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لیے ایک کامل نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اور گر وہ اس پر عمل کرلے تو اس پر صرف ایک گناہ لکھاجاتا ہے ۔ اور جب وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے نامہ میں ایک کامل نیکی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘ اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو دس گنا سے سات سو گنا تک؛اور اس سے بھی کئی گنا زیادہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں ۔‘‘[البخارِیِ:8؍103؛ کتاب الرِقاقِ، باب من ہم بِحسنۃ و بِسیِئۃ؛ مسلِم:1؍117؛کتاب الإِیمانِ باب ِإذا ہم العبد بِحسنۃ کتِبت، سنن الترمذی:4؍330؛ کتاب التفسِیرِ سورۃ الانعام۔ والحدِیث فِی سننِ الدارِمِیِ وسننِ أحمد فِی مواضِع کثِیرۃ۔]٭ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے:نبی کریمﷺ نے فرمایا:

’’بیشک اللہ تعالیٰ نے اس امت سے دل کے خیالات پر پکڑ اٹھالی ہے جب تک کہ وہ بات نہ کرے؛ یا پھر اس پر عمل نہ کر لے۔‘‘ [البخارِیِ:7؍46 کتاب الطلاق، باب الطلاق فِی الِإغلاقِ والکرہِ والسکرانِ، مسلِم:1؍116کتاب الإِیمانِ، باب تجاوزِ اللّٰہِ عن حدِیثِ النفسِ۔سنن أبِی داود:2؍355 کتاب الطلاق، باب فِی الوسوسِۃ بِالطلاق، سنن النسائِیِ:6؍168؛ فِی موضِعینِ ِکتاب الطلاق باب من طلق فِی نفسِہِ، سنن ابنِ ماجہ ِکتاب الطلاق، باب من طلق فِی نفسِہِ ولم یتکلم، المسند ط۔ الحلبِیِ:2؍465۔]

صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’ جب مؤذن اذان کہتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے اور مارے خوف کے وہ گوز مارتا جاتا ہے ؛ تاکہ وہ اذان کی آواز نہ سنے۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب نماز کی اقامت کہی جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے تاکہ آدمی کے دل میں وسوسے ڈالے۔اور وہ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر، فلاں بات یاد کر وہ تمام باتیں یاد جو اس کو یاد نہ تھیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ آدمی بھول جاتا ہے کہ اس نے کس قدر نماز پڑھی ۔جب تم میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسے ہو تواسے چاہیے کہ دو سجدے کرلے ۔‘‘[البخارِیِ:1؍121کِتاب الأذانِ، باب فضلِ التأذِینِ، وأولہ: ِإذا نودِی لِلصلاِۃ، مسلِم:1؍291؛ کتاب الصلاِۃ، باب فضلِ الأذانِ وہربِ الشیطانِ عِند سماعِہِ، سنن النسائِیِ:2؍219 ؛ کِتاب الأذانِ، باب فضلِ التأذِینِ، المسند ط۔المعارِفِ: 16؍ 42ط۔الحلبِی:460,522,2]

٭ احادیث مبارکہ میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ ایسے وسواس اور خیالات اور یاد دہانیاں شیطان کی طرف سے ہوتی ہیں ۔ اور وہ انسان کو یوں بھلا دیتا ہے کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔ اور پھر اس صورت میں سہو کے دو سجدے کرنے کا حکم دیا۔ مگر اس پر اسے گنہگار نہیں کہا۔ اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ خفیف وسواس پر نماز باطل نہیں ہوتی ۔ہاں اگر وسوسے غالب آ جائیں تو پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس انسان کو نماز دوبارہ پڑھنا چاہیے۔ ابو عبداللہ بن حامد نے یہ قول اختیار کیا ہے۔ لیکن صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور کاربند ہیں ۔ اور یہ امام احمدؒ اور دیگر سے بھی منصوص ہے۔ کہ اس پر کوئی اعادہ نہیں ۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث تمام وسوسوں کو عام اور مطلق ہے۔ اور ان میں نماز کو لوٹانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ لیکن اس قدر اس کا اجر ضرور کم ہوتا ہے۔

٭ حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں : ’’ انسان کے لیے اس کی نماز میں اتنا ہی حصہ ہے جس قدر وہ نماز کو سمجھ کر پڑھتا ہے۔ سنن میں حضرت عمار بن یاسرؓ کے متعلق ہے؛ آپ نے نماز پڑھی ؛ اور بہت ہی خفیف نماز پڑھی۔جب آپ سے اس بابت سوال کیا گیا؛ تو آپ نے پوچھا: کیا میں نے اس میں کوئی کمی کی ہے؟ کہنے لگے: نہیں ۔تو آپ نے فرمایا:’’ بیشک میں نے وسوسوں کے آنے سے جلدی کی ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے؛ آپ نے فرمایا:’’ بیشک کوئی انسان اپنی نماز ختم کرتا ہے تو اس کے نصیب میں اس کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے؛ نوواں حصہ ؛ آٹھواں حصہ ؛ ....حتی کہ آدھا حصہ لکھا جاتا ہے ۔‘‘

٭ یہ حدیث ابن حامد پر حجت ہے۔ کیونکہ اس کی کم مقدار آدھی ذکر کی گئی ہے۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے ؛ اس کا دسواں حصہ لکھاجاتا ہے۔

ادائے واجب سے مقصود

٭ ادائے واجب سے دو چیزیں مقصود ہوتی ہیں :

اول:....برأت ذمہ : وہ اس طرح سے کہ اس سے وہ مذمت اور عقاب ختم ہو جاتے ہیں ؛ جن کا ترک واجب کی وجہ سے وہ مستحق ٹھہرتا۔ تو اس صورت میں اس پر اعادہ واجب نہیں ہوتا۔ بیشک اعادہ کا مقصود ابھی باقی ہے؛ اور وہ ہے صرف اور صرف ثواب کا حصول ۔یہ نفلی عبادات کی شان ہے۔ لیکن نیکیاں حاصل ہونے سے برائیاں مٹ جاتی ہیں ۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عبادت قبول ہو؛ اور اس پر ثواب مرتب ہو۔ پس جس قدر اس کے لیے ثواب لکھا جائے گا؛ اسی قدر اس کے ماضی کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اورجس چیز میں کوئی ثواب نہ ہو؛ اس سے گناہ بھی معاف نہیں ہوتے۔ بھلے اس سے ذمہ داری سے برأت ثابت بھی ہو جائے۔ جیسا کہ ایک ماثور حدیث میں ہے:

’ کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جن کے لیے ان کے روزے سے صرف بھوک او رپیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا اور کتنے ہی تہجد گزار ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے رات جاگنے کے علاوہ نصیب میں کچھ نہیں آتا۔‘‘[سنن ابنِ ماجہ1؍539 ِکتاب الصِیامِ، باب ما جاء فِی الغِیبۃِ والرفثِ لِلصائِمِ، وجاء الحدِیث فِیہِ بِلفظِ رب صائِم لیس لہ مِن صِیامِہِ....الخ، وہو فِی: سننِ الدارِمِیِ2؍301 ِ؛ کتاب الرِقاقِ باب فِی المحافظِۃ علی الصومِ، ولفظہ: کم مِن صائِم وجاء الحدِیث فِی المسندِ ط۔ المعارِفِ 17؍35 وقال الشیخ أحمد شاِکر رحِمہ اللّٰہ: إِسنادہ صحِیح 18؍204 وصححہ أیضا، وصحح الألبانِی الحدِیث بِرِوایتینِ لہ فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ 3؍174 ۔]یہ کہہ سکتے ہیں : اس انسان نے تھکاوٹ اٹھائی۔ مگر اسے کوئی فائدہ نہ ملا۔ لیکن اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ اور سزا سے بچ گیا۔ اور اپنے حال پر ہی باقی رہا۔ اس میں کسی خیر و بھلائی کا کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

٭ بیشک روزہ کی مشروعیت کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰت﴾ [البقرۃ :183]

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔ گنے ہوئے چند دنوں میں ۔‘‘

٭ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

’روزہ ڈھال ہے، اس لیے نہ تو بری بات کرے اور نہ جہالت کی بات کرے؛ اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یا گالی گلوچ کرے تو کہہ دے میں روزہ دار ہوں۔‘‘ [صحیح بخاری:جلد:1:ح 1820] 

امام احمدؒ کے مذہب میں اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: وہ یہ بات اپنے دل میں کہے؛ اور اسے کوئی جواب نہ دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: وہ اپنی زبان سے جواب دے۔

یہ بھی فرق کیا گیا ہے کہ فرض روزہ میں زبان سے بول کر جواب دے؛ اور نفل روزہ میں اپنے دل میں ہی کہہ دے۔ اس لیے کہ فرض روزہ مشترک ہوتا ہے۔اور نفل روزہ میں ریاء کا خوف محسوس ہوتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کہے؛ جیسے حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ مطلق قول زبان سے ادا کئے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جب کہ نفس کے اندر کی بات مقید ہوتی ہے۔ جیسے یہ قول:’’جو ان کے جی میں خیالات آئے ۔‘‘

پھر ارشاد فرمایا: ’’ جب تک بات نہ کرے؛ یا اس پر عمل نہ کر گزرے ۔‘‘ پس مطلق کلام وہ کلام ہے جو سنا جا سکتا ہو۔جب وہ اپنی زبان سے کہے : میں روزہ سے ہوں ؛ تو وہ اپنی زبان کو جواب سے روک رکھنے میں اپنے عذر کا اظہار کررہا ہے۔ اس میں اس انسان کے لیے زیادہ زجر و توبیخ ہے جس نے اس کے ساتھ لڑائی شروع کی ہے۔

٭ صحیحین میں ہے؛ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

’’ جو کوئی جھوٹی بات ؛ اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے؛ تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ‘‘[البخارِیِ3؍26 ِکتاب الصومِ باب من لم یدع قول الزورِ8؍17؛ کتاب الأدبِ، باب قولِ اللّٰہِ تعالی:﴿ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾؛سنن أبِی داود2؍412 ِ؛ کتاب الصومِ باب الغِیبۃِ لِلصائِمِ، والحدِیث فِی سنن الترمذی وابنِ ماجہ والمسندِ۔]

آپﷺ نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ دار پر کھانا پینا غلے اور پانی کسی ضرورت کی وجہ سے حرام نہیں ٹھہرایا۔جیسے آقا اپنے غلام کے ساتھ کرتا ہے۔ بلکہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنا اور تقویٰ کا حصول ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ؛ اور ایسے کام کرتا ہے جن میں نہ ہی اللہ تعالیٰ کی محبت ہے نہ ہی رضامندی۔ تو پھر اس عمل پر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ لیکن اسے تارک عمل کی طرح سزا بھی نہیں ہوگی ۔

٭ اللہ کی بارگاہ میں مقبول نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ۔ اسی لیے صحیح حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

’’پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ ؛ اور رمضان سے رمضان ؛ درمیانی گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے۔‘[مسلِم1؍209 ِکتاب الطہارِۃ، باب الصلواتِ الخمسِ، سنن الترمذی1؍138 ِکتاب الصلاِۃ باب ما جاء فِی فضلِ الصلواتِ الخمسِ، وقال التِرمِذِی: وفِی البابِ عن جابِر وأنس وحنظۃ الأسیِدِیِ، حدِیث أبِی ہریرۃ حدِیث حسن صحِیح۔]اگر تمام پانچ نماز سبھی گناہوں کا کفارہ بن جائیں تو جمعہ کی ضرورت باقی نہ رہے۔ لیکن گناہوں کا کفارہ مقبول نیکیاں بنتی ہیں ۔

اکثر لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کی نماز کا کچھ حصہ ثواب لکھا جاتا ہے۔ پس اس قدر گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے؛ اور باقی گناہوں کی معافی کے لیے ضرورت باقی رہتی ہے۔ کئی اسناد سے رسول اللہﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’ انسان سے بروز قیامت سب سے پہلا سوال اس کے اعمال میں سے نماز کے متعلق ہوگا۔اگر نماز مکمل ہوگی تو درست ؛ ورنہ کہا جائے گا؛ دیکھو کیا اس کی کوئی نفل نماز ہے ؟ اگر اس کی کوئی نفل نماز ہوگی تو اس سے فرض کو پورا کر دیا جائے گا۔ پھر یہی کچھ باقی تمام اعمال کے ساتھ ہوگا۔‘‘[سنن الترمذی 1؍258؛ کتاب الصلاِۃ، باب ما جاء أن أول ما یحاسب بِہِ العبد یوم القِیامۃِ الصلاۃ۔ وقال التِرمِذِی: حدِیث أبِی ہریرۃ حدِیث حسن غرِیب مِن ہذا الوجہِ، وقد روِی ہذا الحدِیث مِن غیرِ ہذا الوجہِ عن أبِی ہریرۃ، والحدِیث فِی سننِ أبِی داود1؍317 ؛ کِتاب الصلاۃِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم: کل صلاۃ لا یتِمہا صاحِبہا، سنن النسائِیِ 1؍187؛ کتاب الصلاِۃ، باب المحاسِبۃِ علی الصلاِۃ، سنن ابنِ ماجہ 1؍458 ِ کتاب ِإقامۃِ الصلاِۃ والسنِۃ فِیہا، باب ما جاء فِی أولِ ما یحاسب بِہِ العبد الصلاۃ، المسند ط۔ المعارِفِ 15؍19 ۔ 26 وقال أحمد شاکِر رحِمہ اللہ: وإِسنادہ صحِیح، وتکلم علی الحدِیثِ، والحدِیث فِی المسندِ فِی مواضِع أخری کثِیرۃ۔]مطلق نفل نمازوں سے فرائض کی تکمیل؛ قیامت کے دن بدلہ کے طور پر ہوگی۔پس جب وہ کچھ واجبات کو ترک کر دے تو اس پر عقوبت کا مستحق ہوگا ۔ اور اسی جنس سے اگر اس کی نفل عبادت بھی ہوگی ؛ تو وہ فرض کے قائم مقام ہو جائے گی۔اور اسے کوئی سزا نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کا ثواب کم ہوگا؛ اور نفل عبادت ہوگی تو وہ فرض کے قائم مقام ہو کر اس ثواب کو مکمل کردے گی۔ پس اس کو دنیا میں حکم دیا جاتا ہے کہ جو کام اس نے ناقص کیا ہو؛ اس سے جتنا ممکن ہوسکتا ہو؛ اسے دوہرائے۔ یا اس کا ازالہ کسی ایسی ممکنہ چیز سے کر دے۔ جیسے نماز میں سہو کے دو سجدے۔ حج کے واجبات رہ جانے پر دم جبران ۔ اور جیسے صدقہ فطر جو کہ لغو اور بہودہ کلام سے طہارت کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ جب اس کے لیے واجب کو ادا کرنا ممکن ہو تو اس پر واجب کا ادا کرنا متعین ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری سے بری نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہی کام اس سے مطلوب ہوتا ہے۔ جیسے کہ اگر اس نے کوئی کام کیا ہی نہ ہو تو اس پر اس کام کا کرنا متعین ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے کہ اگر اس کے لیے کسی کام کا کرنا اس کے مقرر وقت میں متعذر ہو جائے۔ تو اس صورت میں نیکیوں کے علاوہ کوئی دوسری چیز باقی نہیں رہتی ۔[یعنی نفلی نیکیاں کرکے اس کمی کو پورا کرے۔]

ترک واجب کا مسئلہ 

اسی لیے جمہور علمائے کرامؒ کا مسلک یہ ہے کہ: جو کوئی نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب جان بوجھ کر چھوڑ دے؛ تو جب تک اس کے لیے ممکن ہے؛ وہ اس نماز کو دوبارہ ادا کرے گا؛ یعنی اس کے وقت میں ہی دوبارہ پڑھے گا۔ یہ امام مالک؛ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا مذہب ہے۔ لیکن امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں : ’’ کبھی کوئی ایسی چیز واجب ہوتی ہے جو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتی ہے۔ اور یہ سجدہ سہو اس کا عوض بن جاتا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک سجدہ سہو واجب ہے۔جب کہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں : ’’ جو بھی چیز واجب ہے ؛ اس کے ترک کرنے پر نماز باطل ہو جاتی ہے؛ خواہ وہ عمداً ترک کرے یا سہواً۔ ان کے نزدیک سجدہ سہو واجب نہیں ۔ اور جس چیز کے بدلہ میں سجدہ سہو کرنے سے نماز صحیح ہو جاتی ہے؛ وہ نہ ہی واجب ہوتی ہے اور نہ ہی نماز کو باطل کرنے والی۔ جب کہ اکثر علماء سجدہ سہو کو واجب کہتے ہیں ؛ جیسے امام مالک؛ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ ۔ ان حضرات کا کہنا ہے: ’’ امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اور کہتے ہیں : اگر نماز میں جان بوجھ کر کوئی چیز زیادہ کی جائے تو بالاتفاق وہ نماز باطل ہو جاتی ہے۔ مثلاً کوئی انسان عمداً پانچویں رکعت زیادہ پڑھ لے۔یانماز مکمل کرنے سے قبل عمداً سلام پھیر دے۔ ہاں اگر کوئی انسان بھول کر ایسا کر بیٹھے تو وہ سجدہ سہوکرے گا؛ یہ بات سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ پس ان سجدوں کی وجہ سے نماز کی بھول کی اصلاح ہوجائے گی عمد کی نہیں ۔ ایسے ہی جوکچھ نماز میں کمی رہ گئی ہو۔ کیونکہ سجدہ سہو کبھی نماز میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی زیادتی کی وجہ سے۔ جیسے جب نبی اکرمﷺ تشہد اول بھول گئے تھے؛ تو آپ نے سجدہ سہو کیا تھا۔ لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ یہ امام مالک او رامام احمد رحمہما اللہ کاقول ہے۔ جب کہ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں : ’’سجدہ سہو اس میں بھی واجب جس کے عمداً یا سہواً ترک کرنے سے نماز باطل نہ ہوتی ہو۔ وہ فرماتے ہیں : اس عمل کے ترک کرنے پر یہ غلط اور گنہگار ہے۔ جیسے نماز میں اطمینان و سکون اور سورہ فاتحہ کی تلاوت ترک کر دینا۔

اس مسئلہ میں اکثر علماء کا اختلاف ہے۔ان کا کہنا ہے: جو کوئی جان بوجھ کر واجب ترک کر دے؛ تو جہاں تک ممکن ہو؛ اس پر اعادہ واجب ہے۔ کیونکہ اس نے وہ کام نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ ایسا کرنے پر قادر تھا؛ پس اس سے یہ واجب ساقط نہیں ہوسکتا۔

صحیحین میں نماز میں غلطی کرنے والے سے متعلق حدیث روایت کی گئی ہے؛ جب رسول اللہﷺ نے اسے حکم دیا تھا؛ جاؤ اور نماز پڑھو؛ بیشک تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اورپھر آپ نے اسے نماز میں اطمینان اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی واجب کو ترک کر دے؛ تو اس کا فعل نماز نہیں کہلائے گا۔ بلکہ اسے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔ اور شارع ﷺ کسی چیز سے اس کے نام کی نفی اس وقت تک نہیں کرتے جب تک اس کے کچھ واجبات ترک نہ کر دیے جائیں ۔ رسول اللہﷺ کا یہ فرمان:

’’ بیشک تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘اس لیے تھا کہ اس نے نماز کے کچھ واجب ترک کر دیے تھے۔[البخارِیِ8؍135؛ ِکتاب الإیمانِ والنذورِ، باب ِإذا حنث ناسِیا فِی الإیمانِ، مسلِم1؍298 ِکتاب الصلاِۃ، باب وجوبِ قِراۃِ الفاتِحۃِ فِی کلِ رکعۃ، سنن الترمذی 1؍185؛ کتاب الصلاِۃ، باب ما جاء فِی وصفِۃ الصلاِۃ، والحدِیث فِیہا عن رِفاعۃ بنِ رافِع وعن أبِی ہریۃر،سنن النسائِیِ 2،96 ِکتاب الِافتِتاحِ باب فرضِ التکبِیرۃِ الاولی، سنن ابنِ ماجہ1؍336؛ ِکتاب ِإقامۃِ الصلاۃِ، باب ِإتمامِ الصلاِۃ۔]اس کی نماز ایسے مکمل نماز نہیں تھی جس کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ﴾[النساء:103]

’’جب تمہیں اطمینان حاصل ہو تو نماز قائم کرو۔‘‘

اسی لیے جب اس فرمان میں حج پورا کرنے کا حکم دیا:﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾ [البقرہ:196]

’’ اور حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے پورا پورا ادا کرو۔‘‘

تو شارع علیہ السلام پر اس کے تمام واجبات ادا کرنا لازم کر دیا۔اگر کوئی واجب ترک کر دیا گیا تو ’’دم جبران‘‘ سے اس کا ازالہ کرنا واجب ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اس نے مامور بہ فعل کو پورے واجبات کے ساتھ ٹھیک سے ادا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس پر اعادہ یا دم جبران سے ازالہ ممکن نہ ہوتا۔

ایسے جب آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھ رہا ہے؛ تو آپ نے اسے نماز دہرانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا:’’ صف کے پیچھے اکیلے انسان کی نماز نہیں ہوتی۔ ‘‘[قال الدکتور رشاد سالم: لم أجِدِ الحدِیث بِہذا اللفظِ ولِکن جاء الحدِیث عن علِیِ بنِ شیبان رضِی اللہ عنہ فِی سنن ابنِ ماجہ 1؍32 ِکتاب إِقامۃِ الصلاِۃ،....ولفظہ: ....: فرأی رجلا فردا یصلِی خلف الصفِ، قال: فوقف علیہِ نبِی اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حِین انصرف، قال: استقبِل صلاتک، لا صلاۃ لِلذِی خلف الصفِ، وجاء فِی التعلِیقِ فِی الزوائِدِ: إِسنادہ صحِیح ورِجالہ ثِقات۔ والحدِیث فِی المسندِ ط۔ الحلبِیِ4؍23 موارِد الظمآنِ ِإلی زوائِدِ ابنِ حِبان، ص 116 حدِیث رقم 401،402 ط۔ السلفِیِ، وصحح الألبانِی الحدِیث فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ1؍322 وفِی ِرواِ الغلِیلِ 2؍328 ؛ وتکلم طوِیلا علی صلاِۃ المنفرِدِ خلف الصفِ 2؍323 ۔]اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہویہ رحمہما اللہ کے علاوہ دیگر علمائے حدیث نے صحیح کہا ہے۔

پس اگر یہ کہا جائے کہ: ’’نماز میں غلط کار کی وہ حدیث جسے اہل سنن نے حضرت رفاعہ بن رافعؓ سے روایت کیا ہے؛ جس آپ نے نماز میں صرف متروکہ امور پر اس کا مؤاخذہ کیا تھا؛ اور باقی اعمال کو شمار کیا تھا؛ تو یہ انسان اس کی طرح تو نہیں ہو سکتا جس نے نماز پڑھی ہی نہ ہو۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ’’ہم بھی تو یہی بات کہتے ہیں ؛ جو کوئی نماز پڑھے؛ اور اس کے بعض واجبات کو ترک کر دے: وہ اس انسان کی طرح تو نہیں ہوتا؛ جو بالکل ہی نہ پڑھے۔ بلکہ اس نے جو کیا اتنے پر اسے ثواب ملے گا۔ اور جو اس سے رہ گیا ہے؛ اس پرسزا ملے گی۔ اور بیشک اسے اعادہ کا حکم اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ ترک فعل کی وجہ سے لاحق ہونے والی عقوبت کا خاتمہ ہو جائے۔ کیونکہ واجب کو ترک کرنا اس عقوبت کا سبب ہے۔ جب اسے بعض واجبات کے ترک کرنے پر عقوبت کا سامنا ہوسکتا ہے تو پھر ان متروکہ واجبات کو بجا لانا لازم ٹھہرتا ہے۔ یا تو اس کا ازالہ کرے؛ یا پھر اس فعل کو اگر دوبارہ ادا کرنا ممکن ہے تو دوبارہ ادا کرے۔ بھلے کسی دوسرے کے ساتھ مل کر ادا کرے؛ اگر ممکن نہ ہو تو اکیلے ہی ادا کر دے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ: اگر اس کا اکیلے وہ کام کرنا اطاعت گزاری نہ ہو تو پھر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ: جب اس نے پہلی بار یہ فعل ادا کیا تھا؛ تو اسے پتہ نہیں تھا کہ ایسے کرنا جائز نہیں ۔ یا وہ بھول گیا تھا۔ جیسے کوئی بغیر وضوء کے نماز پڑھ لے؛ یا قرأت بھول جائے؛ یا فرض سجدہ۔ تو اسے اتنے فعل پر ثواب ملے گا جتنا اس نے کر دیا ہے۔اور بھول چوک پر اس کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ لیکن اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔کیونکہ اس نے پہلے وہ کام نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ جیسے کوئی سویا ہوا انسان وقت پر بیدار ہو جائے۔ تو اسے نماز پڑھنے کا کہا جائے گا؛ کیونکہ نماز اس پر اپنے وقت پر فرض ہے؛ جب ایسا کرنا ممکن ہو۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو جس وقت وہ بیدار ہو ؛اسی وقت اسے نماز پڑھنے کا کہا جائے گا۔ہاں جب اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا کہا جاتا ہے؛ تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس فعل کا انفرادی صورت میں ادا کرنا جائز نہیں ۔ پس اسے اس کے منفردانہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔

اگر یہ کہا جائے: اگر کوئی انسان ترک واجب کے ساتھ جان بوجھ کر ایسا کرے؛ جس کے وجوب کا اس کو علم بھی ہو تو؟

اس کا جواب یہ ہے کہ: ایسا انسان عقاب کا مستحق ہے۔ کیونکہ وہ اس فعل کے کرنے سے گنہگار ہوا ہے۔ پس اس کا گناہ بھی تارک فعل کے گناہ کی طرح ہوسکتا ہے۔ اور اگر یہ بات مان لی جائے کہ اسے ثواب بھی دیا جائے گا۔تو پھر بھی اسے وہ ایسے ثواب نہیں ملے گا جو عمل کو صحیح صحیح علی وجہ المطلوب ادا کرنے پر ملتا ہے۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے جتنا کچھ اس نے صحیح کیا ہے؛ اس پر اسے ثواب ملے گا۔ یہ اس کے لیے ہے جسے پتہ ہو۔ جسے کوئی علم ہی نہ ہو کہ یہ واجب ہے اور یہ ممنوع ہے؛ تو اسے اس کے فعل پر ثواب ملے گا۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ () وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ()﴾

’ جو کوئی ذرا بھر نیکی کرے گا ؛ اسے دیکھ لے گا؛ اور جو کوئی ذرا بھر برائی کرے  گا ؛ اسے دیکھ لے گا۔‘‘

پس قرآن کریم کی تلاوت ؛ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرنا تمام خیر کے کام ہیں ۔ مسلمان کبھی قبلہ سے ہٹ کر نماز نہیں پڑھتا۔ اور نہ ہی بغیر وضو اور بغیر رکوع و سجدہ کے نماز پڑھتا ہے؛اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو وہ اس پر عقاب اور مذمت کئے جانے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ جب وہ کوئی ایسا کام کرے؛ اور اس کے ساتھ اسے یہ اعتراف بھی ہوکہ وہ گنہگار ہے: وہ شریعت کا مذاق؛ توہین اور ٹھٹھہ نہ کرنا چاہتا ہو؛ او رنہ ہی شریعت کے احکام کو حقیر سمجھتا ہو؛ بلکہ اس سے سستی سے ایسا ہوگیا ہو ؛ تو جتنا کام اس نے درست کیا ہے؛ اس پر اسے ثواب ملے گا؛ جیسا کہ کوئی انسان حج میں کوئی ایسا واجب ترک کر دیتا ہے جس کا ازالہ دم جبران سے ہو سکتا ہو؛ لیکن اس کا ثواب ایسے نہیں ہوگا جیسے اگر انسان اس فعل کو بالکل اس طرح سے بجا لائے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔