(لفظ حِیِّزْ)
امام ابنِ تیمیہؒ(لفظ حِیِّزْ)٭ اسی طرح لفظ حِیّزہے؛ اس سے کبھی مراد معنی موجود ہوتا ہے اور کبھی معدوم۔ جب کہیں :’’ ہر جسم حِیّز میں ہے‘‘ تو کبھی اس سے مراد امر عدمی ہوتا ہے اور کبھی امر وجودی۔ حیز لغت میں امروجودی ہے جس کی طرف
کوئی چیز پناہ لے یا سمٹ کر آئے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :﴿وَ مَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ ﴾ (انفال 16)’’اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے پینترا بدلنے والا ہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو۔‘‘٭ پہلی صورت میں متحیز سے مراد وہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا۔ اسی وجہ سے متکلمین کہتے ہیں :’’ ہم اضطراری طور پر جانتے ہیں کہ:’’ مخلوق یاتو متحیز ہوتی ہے یا متحیز کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر کہتے ہیں :’’ بلکہ ہم جانتے ہیں ہر وجود یا تو متحیز ہوتا ہے یا قائم بالمتحیز ہوتا ہے۔ اور متضاد مجردات جن کی طرف اشارہ نہیں ہوتا (یہ فقط معقولات ہوتی ہیں ) کو بعض فلاسفہ کی طرح ثابت کرتے ہیں ۔ یہ تو ذہنوں میں ثابت ہوتی ہیں اعیان میں نہیں ۔٭ شہرستانی اور رازی جیسے لوگوں نے جو کہا ہے کہ:’’ متکلمین اسلام نے ان مجردات کی نفی پر کوئی دلیل نہیں دی۔‘‘ تو یہ بالکل ایسے نہیں جیسے ان کا خیال ہے۔ بلکہ ان کی کتابیں ان دلائل سے بھری پڑی ہیں جس سے ان کی نفی واضح ہوتی ہے۔ کسی دوسری جگہ اس کی تفصیل ذکر کردی گئی ہے۔٭ رازی نے اپنی کتاب ’محصِّل ‘ میں حیز پر سوال کرتے ہوئے کہا ہے: ’اَکْوان اس بات پر متفق ہیں کہ حصول حیز میں حصول جوہر ثبوتی امر ہے۔‘‘[محصل أفکار المتقدمین و المتأخرین ص ۵]اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ اگر حیز معدوم ہے تو معدوم میں حصول جوہر کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اگر موجود ہے تو بلاشبہ یہ وہ امر ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ جوہر ہے یا عرض۔ اگر جوہر ہے؛ تو جوہر میں جوہر حاصل ہوا ؛یہ تداخل ہے جوکہ محال ہے؛ ہاں اگر اس کی تفسیر چھونے سے کی جائے تو پھر اس میں کوئی جھگڑا نہیں ۔اوراگر یہ عرض ہے؛اور وہ جوہر میں حاصل ہوتا ہے؛ اس میں جوہر کا حصول کیسے ہو سکتا ہے؟طوسی نے اسی پر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ’’یہ اشتراک لفظ کے لحاظ سے غلط ہے ؛کیونکہ ’فی‘ ہمارے کلام میں تداخل پر دلالت کرتا ہے؛یعنی ایک جسم کا دوسرے جسم میں ہونا۔اور جسم کا مکان میں ہونا۔ اور جسم میں عرض کا ہونا۔ اس کا کئی مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ (۱) ایک جسم کا دوسرے کے ساتھ ایک مکان میں جمع ہونا۔ (۲) جسم کا مکان میں ہونا ۔ (۳) عرض کا جسم میں حلول کرنا۔مکان،وہ ہے جو ابعاد کے قابل ہو؛ اپنی ذات کے ساتھ قائم ہو؛ اور [ان کے ہاں ]اجسام کو قبول نہ کرتا ہو۔عرض: حاوی جسم کی سطح (جھت) کو کہتے ہیں جو مکان والے جسم کو محیط ہوتا ہے۔ یہ بداھۃ اینیّہ اور خفی لحقیقت ہوتا ہے۔٭ اگر مکان عدمی ہے؛ تو عدمی امر میں جوھر کا حصول عدمی اور معدوم ہوتا ہے۔معنی یہ ہوا کہ اگر وہ جوہر ہے تو عدم میں ہے۔ پہلی قسم کے متکلمین کے ہاں جوہر کئی داخلی رکاوٹوں [مقاوم] کی طرف منقسم ہوتا ہے؛ جو انہیں روکنے والا ہوتا ہے؛ اس پر تداخل جائز نہیں ۔ اورغیر مقاوم میں تقسیم ہوتا ہے؛ جس پر انتقال ممتنع ہے یہ مکان اور جوھر مانع ہے۔ ممکن ہے غیر مانع میں داخل ہو۔ ایسا جوھر مکان میں ہوتا ہے۔٭ دوسری قوم کے ہاں ایسے مکان میں جوھر کا حصول جو عرض ہے ، سے وہ معنی مراد نہیں جو ان کے قول جوھر میں عرض بمعنی’’ حلول ‘‘ سے مرادہوتا ہے۔٭ میں کہتا ہوں : ’’ا س پر دیگر مقامات پر تفصیلی بات کر دی گئی ہے۔ اور رازی کے قول :’’قد اتفقوا علی أن حصول الجوھر فی الحیز أمر ثبوتی‘‘ کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ بات یوں نہیں جیسے اس نے کہاہے؛ بلکہ یوں کہا جائے گاکہ:’’ اگر اس کے قول سے یہ مراد ہوکہ:’’حیز میں جو ہر کا حصول ایک ثبوتی امر ہے ‘‘کیونکہ ثبوتی صفت محیز کے ساتھ ہی قائم رہ سکتی ہے؛ اس پر وہ متفق نہیں ہیں ۔ ان کے محققین کا بھی یہ قول نہیں ؛بلکہ ان کے ہاں تحیز، متحیز کی ذات سے زیادہ نہیں ہوتا۔ قاضی ابوبکر بن باقلانی کہتے ہیں : ’’متحیزجِرم (جسم) ہے؛ یا ایسی چیز جس کا وسعت میں حصہ ہو۔ اور جو چیز اپنے وجود کے لحاظ سے نہیں پائی جاتی جوھر ہے۔‘‘[1] [1] ڈاکٹر رشاد سالم کہتے ہیں باقلانی کی کتب میں یہ عبارت نہیں ملی لیکن جو نبی نے ان سے الشامل فی اصول الدین ص 59۔60میں نقل کیا ہے۔ ان میں سے قاضی کی عبارت یہ ہے المتحیز ھوالجرم سواہ اسی طرح فرماتے ہیں :انما ھو الذی لہ حظ فی المساحۃ اسی طرح فرمایا: ھو الذی لابوجد بحیث وجودہ جوھر (انصاف بالاولیٰ ص ۱۵)۔ابواسحاق اسفرائینی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس سے مراد کسی بھی مکان کی تقدیر[پیمائش ہے] اور جو حیز کو مشغول کرے۔ حیَّز کے مشغول کا مطلب ہے:’’ جب فراغ[خالی جگہ ] میں پایا جائے اسے فراغ سے نکال دے۔‘‘ بعض کے بقول:’’ جوھر کے مکان کی تقدیر کو حیز کہتے ہیں ۔امام الحرمین ابوالمعانی الجوینی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ حیز متحیز کی ذات ہے؛ پھر حیز کی جوہر کی طرف اضافت ایسے ہے جیسے اس کی اضافت اپنے وجود کی طرف۔‘‘وہ فرماتے ہیں :’’ اگر کہا جائے آپ نے یہ کیوں کہا متحیز، بمعنی متحیز ہوتا ہے جیسے کائن بمعنی کائن ہوتا ہے۔‘‘ہم کہیں گے۔ تحیز بذات خود متحیز ہے یا اس کی صفت ہے (ان کے ہاں جو احوال کا عقیدہ رکھتے ہیں )۔ متحیز خود کی طرف لوٹتا ہے ۔اسی طرح یہ جِرم بھی ہوتا ہے؛ یوں یہ مختلف نہیں ہوتا اگرچہ اس کے اکوان اعراض سے مختلف ہوتے ہیں ۔ اگر تحیز حکم معلل ہو تو واجب ہوتا ہے کہ اس کے لیے اکوان کے مختلف ہونے کے وقت حکم کا اختلاف ثابت ہو۔ جب اس کا جِرم[جسم] ہونا؛ مختلف نہیں ہوا تو معلوم ہوا یہ اکوان اور جھات کے اختصاص کو واجب نہیں کرتا۔ جو اکوان تقاضہ کریں گے وہی اختلاف کے حکم میں ہوں گے۔وہ فرماتے ہیں : اگر یہ کہا جائے کہ:’’ جو ہر اکوان سے خالی نہیں ہوتا جیسے وصف تحیز سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘تو ہم کہتے ہیں :’’ ہم نے واضح کر دیاہے کہ تحیز اس کی ذاتی صفت ہے ۔سو ہم کہتے ہیں :’’ ذاتی صفت، ذات کو لازم ٹھہراتی ہے اس کے بغیر اس کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ جوہر کا متحیز ہونا اس کی ذات یا چیز کو ثابت کرتا ہے اور اکیلے مسئلہ تحیز سے اس کا لزوم واجب ہوتا ہے جب تک کہ نفس باقی ر ہے۔جبکہ ’’ کون‘‘ ایک اسم ہے جو مختلف اجناس پر بولا جاتا ہے۔ پھر اس پر مفصل بات کی ہے۔اس سے واضح ہوا ان کے ہاں تحیز، متحیز کے علاوہ کوئی اور اضافی چیز نہیں چہ جائیکہ وصف ثبوتی ہو۔ اگراس کی مراد امر ثبوتی ہے؛ تویہ حیز کی طرف ایک اضافی امر ہے؛ ان میں سے اکثر کے ہاں اضافی امور،عدمی ہیں ؛ جب دو موجودات کے درمیان ہوں ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک موجود اور ایک معدوم کے مابین ہو؟ان کا یہ کہنا کہ: ’’ان الحیز اذا کان معدوماً فکیف یعقل حصول الجوھر فی المعدوم‘‘ ’’جب حیز معدوم ہو تو اس کا حصول معدوم جوہر میں کیسے تصور کیا جاسکتا ہے‘‘کے متعلق کہا جائے گا ان کے ہاں تحیز سے مراد وہ اکیلا وجود ہے جو کسی دوسرے وجود کا احاطہ نہ کرتا ہو۔ ان کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ موجود ہونے کے ساتھ معدوم بھی ہو۔اسی طرح جو ان کی مراد نہیں جانتا ہے: کہ کیا حیز ان کے ہاں وجود ہے یا عدم؟ تو وہ کیسے کہ سکتا ہے کہ ان کے ہاں یہ بات اتفاقی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ماسواسبھی متحیز ہیں یا قائم بالمتحیزہیں ؟ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ جانتا اور ان سے بیان بھی کرتا ہے کہ:’’ ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے محدث ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ممتنع ٹھہرتا ہے کہ اللہ کے سواہر چیز یاتو متحیز ہے یا متحیر میں حلول کیے ہوئے ہے۔حالانکہ یہ متحیز اللہ تعالیٰ کے سوا وجودی حیز میں ہے؛ جوکہ محدث ہے۔ ان نظریات کا ٹکراؤ صاف ظاہر ہے کیونکہ اس سے تین موجود محدث لازم آتے ہیں : (۱) متحیز (۲) حیز (۳) قائم بالمتحیز۔اللہ کے سوا موجودات تین ہوئیں جو ان کے ہاں محدث ہیں ۔