Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

امر و نہی کا حادث ہونا....

  امام ابنِ تیمیہؒ

امر و نہی کا حادث ہونا....[ قولہ ان امرہ ونھیہ واخبارہ حادث لاستحالۃ امر المعدوم ونھیہ واخبارہ]٭ ان کا یہ کہنا کہ :’’ اللہ تعالیٰ کے امرو نہی اور اخبار حادث ہیں ۔اس لیے کہ معدوم سے امر، نہی اور اخبار کا ہونا محال ہے۔‘‘[جواب]:.... ہم کہتے ہیں :’’ یہ مسٔالہ کلام الٰہی سے متعلق ہے لوگ اس میں اضطراب کا شکار ہیں اس میں نو(۹) اقوال ہیں ۔ اصول دین اور علم کلام پر لکھی گئی عام کتب میں ان اقوال میں سے کسی نے دو، کسی نے تین کسی نے چار اور کسی نے پانچ نقل کیے ہیں ۔کیونکہ ان کی اکثریت سلف سے منقول اقوال کو نہیں جانتے۔اول: ....کچھ کہتے ہیں :’’ کلام اللہ تعالیٰ کے معانی لوگوں کے دلوں میں جاری ہوتے ہیں ؛ کچھ کے نزدیک یہ عقل فعال سے ہو تے ہیں ؛یااس کے غیر سے۔ یہ صائبہ فلسفیوں اور ان کے موافقین کا قول ہے ؛ جیسے ابن سینا اور اس کے امثال۔ اسی طرح ان کے ساتھ فلاسفہ کے صوفی متکلمین اور وحدت الوجود کا نظریہ رکھنے والے بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ایسے کتاب’’ المضنون بھا علی غیر أھلھا؛اور المضنون الکبیر، المضنون الصغیر اور رسالہ مشکاۃ الانوار وغیرہ کے مصنف اور ان کے امثال و ہمنوا کی کتابوں میں کچھ ایسا کلام ملتا ہے جس سے اس جانب کے اشارے ملتے ہیں ؛ جبکہ انہوں نے اپنی دوسری کتابوں میں میں اس کے برعکس لکھا ہے؛ لیکن بسا اوقات ان کا کلام ان کے موافق ہوتا ہے اور بسا اوقات مخا لف۔ آخری دور میں حدیث نبویہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے برعکس ہی پکا ہو گیا۔دوم :.... یہ مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے سے جدا پیدا کیا ہے۔ امامیہ، متأخرین رافضہ ، زیدیہ ، معتزلہ اورجہمیہ یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔سوم: ....یہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں : اس کا ایک ہی معنی قدیم ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے یہ امر، نہی، خبر اور استخبار ہے۔ اگراسے عربی میں تعبیر کیا جائے تو قرآن ہے؛ اوراگر عبرانی میں تعبیر کیا جائے تو توراۃ ہے۔ یہ ابن کلاب اور اس کے ہم خیال اشعریوں کا عقیدہ ہے۔[1] [1] اشعری مقالات 233؍2میں لکھتے ہیں عبداللہ بن کلاب نے کہا قرآن اللہ تعالیٰ کا ایک معنی ہے، اس کا رسم حروف متغایرہ ہیں یہ قرأت قرآن ہے۔ یہ کہنا خطا ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہے یا اس کا کوئی حصہ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی عبارت مختلف اور متغیر ہوتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ مختلف اور متغایر نہیں جیسا کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا مختلف اور متغایر ہے اور مذکورنہ مختلف ہے نہ متغایر۔ اسے اللہ تعالیٰ کا عربی کلام کہا گیا ہے کیونکہ اس کا رسم و عبارت عربی ہے۔ اس طرح عبرانی کا معاملہ ہے اسے امر، نہی اور خبر علت کی وجہ سے کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم تھا اس سے پہلے بھی کہ وہ یہ کلام کرے جسے امر کہا گیا ہے اور اس علت سے بھی پہلے متکلم تھا جسے نہی کہا گیا ہے باقی بھی ایسے سمجھو!چہارم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’یہ ازلی حروف و صفات ہیں جو ازل سے ہی مجتمع ہیں ۔ اہل کلام اور اھل حدیث کی ایک جماعت کا یہ قول ہے۔ ’’المقالات‘‘ میں اشعری نے اسے ایک جماعت سے نقل کیا ہے ۔اسے سالمیہ وغیرہ سے نقل کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک گروہ نے یہ کہا ہے یہ قدیم اصوات قاری سے سنی گئی ہیں یا بعض مسموع آواز قاری کی ہے۔جبکہ ان کے جمہور ؛جمہور عقلاء کے ساتھ ہیں ۔انہوں نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ یہ ضرورت کے تحت عقل کے خلاف ہے۔پنجم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’یہ حروف او رآوازیں ہیں لیکن ان کے ساتھ کلام بعد میں کیاگیا ہے پہلے ان سے کلام نہیں کیا تھا۔ اس کا کلام فی ذاتہٖ حادث ہے جیسے اس کا فعل فی ذاتہٖ حادث ہے ۔وہ پہلے متکلم اور فاعل نہ تھا۔ یہ کرامیہ کا عقیدہ ہے۔ شیعہ میں سے ھشام بن حکم اور اس کے ہمنواؤں نے ایساہی کہا ہے۔ان میں سے کچھ کے بقول وہ حادث ہے محدث نہیں ۔ اور کچھ اسے محدث بھی کہتے ہیں ۔ المقالات میں اشعری نے دونوں اقوال نقل کیے ہیں ۔ انہوں نے ابومعاذ تومِنّی اور زھیر الاثری کا اختلاف بھی ذکر کیا ہے۔ کرامیہ حادث کہتے ہیں محدث نہیں ۔[مقالات۲؍۲۳۱ ]ششم: ....ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب جیسے جتنا چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ یہ کلام اسی سے قائم ہے۔ وہ ایسی آواز میں کلام کرتا ہے جو سنی جاتی ہے۔ اس کے کلام کی ایک قسم ازلی اور قدیم ہے اگرچہ اس نے کسی معین آواز کو قدیم نہیں بنایا۔ یہ اھل سنت اور اھل الحدیث ائمہ سے منقول ہے۔[امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسی چھٹے قول کی طرف گئے ہیں ۔]ہفتم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’ اس کا کلام اسی کی ذات سے قائم علم وارادے کی طرف پلٹتا ہے۔ پھر ان میں سے کچھ کہتے ہیں :وہ بذات خود ہمیشہ سے حادث رہا ہے۔ جیسے ابوالبر کات مصنف ’المعتبر‘ وغیرہ نے کہاہے۔ اور کچھ اس کے قائل نہیں ۔ المطالب العالیہ میں ابوعبداللہ رازی نے بھی اسی طرح کی بات کی ہے۔ہشتم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’اس کا کلام قائم بالذات معنی کو مشتمل ہوتا ہے۔ اسے اس نے اپنے غیر میں پیدا کیا ہے۔ پھر ان میں سے کچھ نے ابن کلاب کا مفہوم بیان کیا ہے یہ قول ابومنصور ماتریدی [1] [1] ابومنصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی، متوخی 333، ائمہ متکلمین میں سے ہیں اور ماتریدیہ کے امام ہیں اشعری نے ان چند مسائل سے اختلاف کیا ہے جنہیں ابوعذبہ نے اپنی کتاب الروضۃ البھیہ فیما بین الاشاعرہ والماتریدیۃ میں نقل کیا ہے۔ مزید دیکھیں تاج التراجم ابن قطلوبغا 59، طبفات الفقہاء طاش کبری زادہ 56 کا ہے۔ کچھ نے فلاسفہ کا قول اختیار کیا ہے۔ یہ قول باطنی ملحدین کی ایک جماعت ؛اوران کے متصوفہ اور شیعہ کا ہے۔ نہم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’کلام اللہ تعالیٰ معنی قدیم قائم بالذات اور اپنی غیرمیں جو اس نے آوازیں پیدا کی ہیں ؛ان کے مابین مشترک ہے۔ یہ قول ابوالمعالی اور متاخرین اشاعرہ اور ان کے پیروکار حضرات کا ہے۔